Urdu

10 نومبر 2019ء کو منعقد ہونے والے ہسپانوی انتخابات کا نتیجہ 28 اپریل کے انتخابات سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا باعث بن چکا ہے۔ اگرچہ ان انتخابات میں ایک مرتبہ پھر دائیں بازو کو شکست ہوئی لیکن سوشلسٹ پارٹی(PSOE) کی قیادت کا خیال غلط ثابت ہوا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن بنا لیں گے اور UP قیادت کا لائحہ عمل۔۔سانچیز کو شکست اور نئے انتخابات کا انعقاد۔۔بھی غلط ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں انہیں ووٹوں اور سیٹوں دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سیاسی پولرائزیشن، جس میں کیٹالان قومی سوال کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، انتہائی دائیں بازو، کیٹالان حریت پسند پارٹیوں، باسک اور گیلیشئین قومی سوال کے استحکام میں اہم ثابت ہوا ہے۔

14 اکتوبر کو سانتیاگو دی چلی میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا جسے چلی کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج کہا گیا ہے۔ اور یہ درست ہے کہ یہ ریلی 1988ء میں ”NO“ مہم کی اختتامی ریلی جس میں دس لاکھ لوگ اکٹھے ہوئے تھے، سے زیادہ بڑی تھی۔ 24 اکتوبر جمعہ کے دن پورے ملک میں مختلف شہروں اور علاقوں میں ہونے والی ریلیاں ایمرجنسی نافذ ہونے، سڑکوں پر فوج اتارنے اور پینیرا حکومت کی طرف سے کرفیو لاگو ہونے کے ایک ہفتہ بعد منعقد ہوئیں۔ پورے ملک میں حکومت کے خلاف 20 لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلے۔

یکم اکتوبر سے دیو ہیکل احتجاجوں اور ریڈیکل مظاہروں نے پورے عراق کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اس مرتبہ بغداد سے شروع ہونے والی یہ بغاوت تیزی سے پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ عراقی افواج اور پولیس نے شدید ظلم و جبر کیا ہے جس کی وجہ سے کم از کم 150 اموات ہو چکی ہیں (کچھ ذرائع کے مطابق 300 سے زائد) اور 6ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ لیکن اس خوفناک کریک ڈاؤن کے باوجود احتجاج نہیں رکے۔ 8 اکتوبر کے بعد ان میں ٹھہراؤ آیا ہے لیکن 25 اکتوبر کو پھر سے ملک گیر احتجاج کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔(یہ آرٹیکل جمعہ کو ہونے والے مظاہروں سے قبل لکھا گیا تھا۔ جمعے کے روز بھی بغداد، الناصریہ اور بصرہ سمیت پورے عراق میں مظاہرے ہوئے جن پر بدترین ریاستی جبر کیا گیا جس کے نتیجے میں 30افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات

...

چین کا قومی دن، جو یکم اکتوبر کو ماؤ کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی یاد میں منایا جاتا ہے، ہمیشہ دھوم دھام اور فوجی طاقت کی نمائش پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن 70 ویں سالگرہ کے موقع پر شی جن پنگ نے تمام حدیں پار کر دیں، جس میں چین کی آج تک کی سب سے بڑی فوجی پریڈ اور نئے سپر سانک خود کار ڈرون طیاروں اور ایٹمی میزائلوں کی فخریہ نمائش بھی شامل تھی۔ پیغام صاف اور واضح تھا، جیسا کہ شی نے خود کہا، ”کوئی بھی طاقت اس عظیم قوم کے مقام و مرتبے کو متزلزل نہیں کر سکتی“۔

اینگلز نے 1873ء میں لکھا تھا کہ ”بارسلونا نے دنیا کے کسی بھی شہر سے زیادہ مورچہ بند لڑائیاں دیکھی ہیں“۔ کل بارسلونا نے اپنی روایت دوبارہ زندہ کر دی۔ مختلف ریپبلکن اور جمہور پسند تنظیموں نے پورے کیٹالونیا میں سیاسی قیدیوں کو ملنے والی سزاؤں کے خلاف پر امن مظاہروں کا اعلان کیا۔ بارسلونا اور دوسرے علاقوں میں مظاہرین سے نمٹنے والی کیٹالونی اور ہسپانوی پولیس نے مظاہرین، جن میں خاندان، بزرگ اور بچے بھی شامل تھے، پر لاٹھی چارج، ربڑگولیوں اور بے ہوش کرنے والے آلات سے حملہ کیا۔

لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں انقلابی تحریک پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ 14 اکتوبر کو لینن مورینو کی حکومت نے فرمان نمبر 883 منسوخ کر دیا۔ کئی دنوں کی جدوجہد اور تحرک جب بغاوت میں تبدیل ہو گئی تو مورینو کو انقلاب کے ہاتھوں حکومت ختم ہونے کے امکانات کے پیشِ نظر ایک اہم رعایت دینی پڑی۔ مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کی تحریک نے جزوی ہی سہی لیکن 8 اموات، 1340 زخمیوں اور 1192 گرفتاریوں کی قیمت ادا کر کے ایک اہم کامیابی اپنے نام کرلی ہے۔

پچھلے اتوار ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کے ساتھ ایک فون کال کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ دونوں نے شمالی شام سے امریکی افواج کے انخلاء اور ترک فوج کشی پر اتفاق کر لیا ہے۔ کل سے حملہ شروع ہو چکا ہے۔

کشمیر میں ظلم و جبر کی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے اور اس خطے کے تمام حکمران طبقات سمیت دنیا بھر کی سامراجی طاقتیں اس خونی کھیل میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ بیس روز سے زائد ہو چکے ہیں اور وادی کشمیر میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن جاری ہے اور وادی کی اسی لاکھ سے زائد آبادی کو موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ سات لاکھ کے قریب فوج آزادی کے جذبے سے سرشار عوام کو کچلنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے۔ 5اگست کو مودی کے گھناؤنے فیصلے کے بعد سے اب تک تمام تر علاقے کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ہر شخص کے لیے ہر قسم کی نقل و حرکت بند ہے ۔ اشیائے خوردونوش کی شدید قلت ہوتی جارہی ہے جبکہ ادویات کی عدم دستیابی اور علاج کی سہولیات نہ ملنے

...

5 اگست کو مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضمانت اور باشندہ ریاست کے قانون کو تحفظ فراہم کرنے والی آئین کی دفعات 370 اور35A کا خاتمہ صورتحال میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی ہے۔ لمبے عرصے سے قائم ایک مخصوص توازن کو حتمی سمجھنے والوں اور اسی قسم کے حقائق سے اخذ کردہ فارمولوں کے ذریعے اس خطے کی سیاست، سماجی حالات اور سفارتی تعلقات کا تجزیہ کرنے والوں کے شعور کو اس اچانک اور غیر متوقع فیصلے نے اس قدر شدت سے جھنجوڑا ہے کہ ان کو اپنا دماغی توازن بحال کرنے اور نئی صورتحال کی تفہیم میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں اس خطے کے حکمران طبقات کے کے کچھ دھڑوں کے ساتھ وہ سبھی لبرلز اور نام نہاد بائیں بازو کے خود ساختہ دانشور سر فہرست ہیں جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کچھ بھی بدل

...

کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ خطے کی بعد از تقسیم تاریخ کا سب سے بڑا اور دھماکہ خیز اقدام ہے۔ آنے والے عرصے میں اپنے اثرات کے حوالے سے یہ ممکنہ طور پر تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ کہلائے گا۔ مسئلہ کشمیر کی تاریخی حیثیت کو اس نے یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور ایک حوالے سے اس تنازعہ کی اب تک کی کیفیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ 5اگست 2019ءسے پہلے گزشتہ 72 سالوں کے دوران کشمیر تنازعہ کی ایک خاص حیثیت تھی جس کو پاک بھارت ساڑھے تین جنگوں ،دوطرفہ مذاکرات اور عالمی سفارتکاری سمیت کشمیر میں جاری تحریک کے مجموعی اثرات بھی تبدیل نہیں کر سکے، اس حیثیت کو بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن تبدیلی ہے جو اس پورے خطے کی سیاست، معیشت اور

...

بورس جانسن نے کل(24جولائی) 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں برطانیہ کے نئے نویلے وزیراعظم کے طور پر اپنی جگہ سنبھال لی۔ اس کی وزارت عظمیٰ کا دور گہرے بحران اور شدید طبقاتی جدوجہد سے عبارت ہو گا۔

اتوار، 26 مئی کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس میں آٹھ لوگوں کے قتل کی تصدیق سامنے آ رہی ہے جبکہ تیس کے قریب زخمی بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو زیر حراست لے لیا گیا ہے اور ان پر مقدمہ قائم کرتے ہوئے آٹھ دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

سوڈان میں عبوری فوجی کونسل (TMC)اور انقلابی تحریک کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا عمل معطل ہو چکا ہے۔ اول تو یہ ہونے ہی نہیں چاہئیں تھے۔ لیکن اب وقت ہے کہ سوڈانی محنت کش طبقہ جارحانہ طرز عمل اپنائے۔

ایسٹر بغاوت کے 103سال مکمل ہونے کے موقع پر ہم اپنے قارئین کے لیے 2001ء میں لکھا گیا یہ آرٹیکل شائع کر رہے ہیں۔ آج ایسٹر بغاوت کو ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے مگر اس بغاوت کی بنیاد میں کار فرما تضادات آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ بریگزٹ اور برطانوی سرما یہ داری کا بحران ان تضادات کو ایک بار پھر سطح پر لے آیا ہے۔ دیگر قومی تحریکوں کی طرح آئرلینڈ کا سوال آج بھی حل طلب ہے۔ جیمز کونولی اور ایسٹر بغاوت کے واقعات میں موجودہ نسل کے لیے سیکھنے کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔