دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو چکا۔ مشال کے قتل کے اصل محرکات چھپانے کی ہر کوشش بری طرح ناکام ہو ئی ہے۔ اس ناکامی سے دلبرداشتہ پالیسی سازوں نے اب پاناما کیس اور دیگر نان ایشوز میں عوامی غم وغصے کو زائل کرنے کی واردات شروع کر دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مٹھی بھر جنونی ملاؤں اور مذہبی وحشیوں کے علاوہ آبادی کی بھاری اکثریت نے مشال خان کے قتل پر نہ صرف خون کے آنسو بہائے ہیں بلکہ ریاست، نظام، حکمرانوں، ملاؤں اور سیاستدانوں کے خلاف دل کھول کر نفرت اور حقارت کا اظہار بھی کیا ہے۔ جوں جوں مشال خان قتل کیس میں پیشرفت ہو رہی ہے یہ غم و غصہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ شروع میں اس بہیمانہ واقعے کی خبر کو ہی دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن دوسرے دن جونہی یہ خبر اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچنا شروع ہوئی تو زیادہ تر لوگوں کا پہلا ردِ عمل اس واقعے کے ذمہ داران کے خلاف نفرت اور مشال خان سے ہمدردانہ جذبات پر مبنی تھا۔ اس میں یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ مشال خان بے گناہ ہے اور اس نے کسی قسم کی توہینِ مذہب کا ارتکاب نہیں کیا، یہ بات تیسرے یا چوتھے دن جا کر واضح ہوئی تھی۔ پہلا عوامی ردِ عمل ان سب باتوں سے قطع نظر بحیثیتِ مجموعی مشال خان کی حمایت میں ابھرا۔ مشال خان کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے توہینِ مذہب کے اس قانون کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ شاید اس لیے کیا ہو گا کہ اس سے وہ یکطرفہ طور پر عوامی حمایت جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے، کوئی اس قتل کے حوالے سے سنجیدہ
سوالات بھی نہیں اٹھائے گا اور سب سے بڑھ کرمذہب کی اس ڈھال کے پس پردہ ان کی لوٹ مار اور بدمعاشی جس کے خلاف مشال سراپا احتجاج تھا، وہ یونہی چلتی رہے گی۔
وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب بھی تھے۔ کیونکہ اس سے قبل اسی طرح کئی معصوموں کو مشتعل ہجوم نے اسی قسم کے الزامات کی بھینٹ چڑھا دیا تھا اور کسی قسم کا کوئی ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1990ء سے اب تک 65 لوگوں کو اسی طرح کے الزامات کی بنا پر قتل کیا جا چکا ہے۔ یہ ریاست، اس کے پالیسی ساز، سرکردہ اور انکے بغیر وردی کے جلاد سب دراصل رسمی اور روایتی انداز سے سوچنے کے عادی ہیں۔ لیکن نتائج انکی توقعات کے بالکل برعکس برآمد ہوئے۔ بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان نام نہاد انقلابی دانشوروں کی بھی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہونگی جو ہر وقت ’سماجی ابتری اور پراگندگی ‘ کی شکایت کرتے تھکتے ہی نہیں۔ ان قنوطیت پسندوں کی اپنی ذہنی پراگندگی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے، اس لیے یہ عوام کی اکثریت کے نقطہ نظر اور محنت کش طبقے کے وجود سے ہی منکر ہو چکے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ 1990ء سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ سچ پوچھیں تو ان کو تو مشال خان کے قتل جیسے ہر واقعے پر خوشی ہوتی ہے تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ ابھی تو جمود کا عہد ہے اور ابھی ان کی مفاد پرستی اور موقع پرستی سراسر جائز ہے۔ مشال کے قتل پر ہونے والے ردِ عمل کو کوئی عوامی تحریک، بغاوت یا انقلاب تو نہیں کہا جا سکتا مگر یہ اس عوامی بغاوت اور انقلابی پوٹینشل کا واشگاف اعلان ضرور تھا جو اس سماج کی رگ و پے میں خون بن کر دورڑرہا ہے۔ یہ اس انقلاب کی نوید ضرور ہے جو اس مملکتِ خداداد کا مقدر بن چکا ہے۔
مرکزی ملزم وجاہت کے اعترافی بیان، مشال کے استاد ضیاء اللہ ہمدرد کے ٹی وی انٹرویو اور مختلف ویڈیوز نے ثابت کر دیا ہے کہ مشال کا قتل ایک منظم سازش تھی جس میں مختلف طلبہ تنظیموں کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ براہِ راست ملوث تھی۔ مشال خان اصل میں یونیورسٹی انتظامیہ کی بے اصولیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف ایک تحریک کو منظم کر رہا تھا۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ تھی کہ وہ مہنگی تعلیم اور فیسوں میں ہونے والے مسلسل اضافوں کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلند کر چکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے فیس بک اکاؤنٹ پر سرسری سی نظر ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ مارکسزم کے عظیم انقلابی نظریات کی طرف کھچا چلا جا رہا تھا اور باقی طلبہ بھی تیزی کے ساتھ اس کی طرف راغب ہو رہے تھے۔ وہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کو بہت پہلے یہ کہہ کر خیر باد کہہ چکا تھا کہ ’یہ سب نالائق اور نا اہل ہیں‘۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان نام نہاد روایتی تنظیموں میں اب ترقی پسند نظریات کے لیے رتی بھر گنجائش بھی باقی نہیں بچی۔ اس لیے مشال خان اس فرسودہ نظام کے خلاف کسی سنجیدہ لڑائی کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نکتے پر وہ صرف یونیورسٹی انتظامیہ کا ہی مجرم نہیں ٹھہرتا بلکہ اس بنیاد پرست ریاست کا بھی حدف بن جاتا ہے۔ یہاں پر ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ انصاف سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن اور اسلامی جمعیت طلبہ تمام تنظیموں کی قیادت اور کارکنان کو اتنی برق رفتاری سے ایک ہی ایشو اور مقصد کے لیے منظم اور متحد کس طرح کر لیا گیا؟یہ یقیناً یونیورسٹی انتظامیہ کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی اس طرح کے پر پیچ مقاصد کے لیے ان کی تربیت کی گئی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی نہ کسی تربیت یافتہ پیشہ ور فرد، گروہ یا ادارے کی خدمات ضرور حاصل کی گئی ہیں۔ اور پاکستان میں یہ ’پیشہ ور قاتل‘ کون ہیں، یہ حقیقت اب مکمل طور پر بے نقاب ہو چکی ہے اور اندھے سے اندھا شخص بھی نوشتہِ دیوار کو دیکھ سکتا ہے۔ عقل اور ضمیر کے اندھوں کو استثنا حاصل ہے۔
اگر اس قتل کے پسِ پردہ عزائم منظرِ عام پر نہ آتے توریاستی اداروں اور ان کے معذرت خواہان کا موقف یہی ہونا تھا کہ مشتعل ہجوم کا ڈیوٹی پر معمور چند پولیس اہلکار آخر کر ہی کیا سکتے تھے، سب پر گولی تو نہیں چلائی جا سکتی تھی نا اور وہ بھی اس وقت جب معاملہ بھی اس حد تک حساس نوعیت کا ہو۔ یہی دلیل ہم اس نوعیت کے گزشتہ واقعات میں بیسیوں بار سن چکے ہیں۔ لیکن اگر ذرا سا غور سے جانچ پھٹک کی جائے تو اس دلیل کی بے مائیگی اور بوسیدگی مکمل طور پر عیاں ہو جاتی ہے۔ ہم ان صاحبانِ آئین و سلاسل سے کہتے ہیں کہ جنابِ والا ریاست کہتے کس کو ہیں؟اسی دلیل کے اندر ہی درحقیقت نہ صرف پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کا اعتراف موجود ہے بلکہ یہ بھی مضمر ہے کہ یہاں کا حکمران طبقہ کسی قسم کا ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کا اہل ہی نہیں۔ ریاست کہتے ہی ان چند(بظاہر) اجتماعی نوعیت کے انتظام و انصرام ادا کرنے والی مشینری کو ہیں جن کو ادا نہ کر سکنے کو معمول کی بات یا حجت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ آخر ہجوم مشتعل ہوتا ہی کیوں ہے؟یہ سوال نفسیات اور سماجیات کے زمرے میں آتا ہے۔ بنیادی طور پرکوئی بھی شخص اور اس کی دیکھا دیکھی ایک ہجوم کچھ ایسا کام کرنے کے لیے ہی متحرک یامشتعل ہو سکتا ہے جس کو آئینی، اخلاقی یا قانونی حمایت حاصل ہو۔ مثال کے طور پر چوری کرنا یا ڈاکہ ڈالنا قانوناً و اخلاقاًایک مستندجرم ہے، تو اگر لوگ ریاست پر اعتماد نہیں کریں گے تو خود چور کو پکڑنے یا سزا دینے کی کوشش ضرور کریں گے چاہے وہ سزا ریاست کے قانون کے مطابق طے کردہ سزا سے کوئی بھی مطابقت نہ رکھتی ہو۔ یاد رہے کہ گزشتہ برسوں میں ڈاکوؤں کو زندہ جلانے کے واقعات کی تعدادمذہب کے نام پر قتل کیے جانے کے واقعات سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ریاست کے قانون کے مطابق چوری یا ڈاکے کی سزا، سزائے موت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف توہینِ مذہب کی سزا تو با قاعدہ طور پر سزائے موت نہ صرف آئین میں درج ہے بلکہ ہر گلی محلے کی مساجد میں کئی بار ہر کس و ناکس کو اس کی وعید اور تکرار سننے کو ملتی رہتی ہے۔ مرنے کے بعد جنت اورحوروں وغیرہ کے لالچ کو عام طور پر اس قسم کے مذہبی جنونی افعال کی اصل وجہ قرار دیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے، دراصل اس قسم کے اندھے اور رجعتی عقائد کا ان معاملات میں عمل دخل ثانوی نوعیت کا ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کو جنت وغیرہ کا لالچ دے کر کوئی بھی ایسا کام کرنے کے لیے بمشکل ہی تیار کیا جا سکتا ہے، جس کو مروجہ اخلاقیات یا قانون کی اخلاقی حمایت میسر نہ ہو۔ جرائم پیشہ لوگ جب ریاست کے آئین کے طے شدہ اصولوں کے خلاف چوری، ڈکیتی یا دیگر قتل جیسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں تو ان کا واحد محرک مادی و معاشی فوائد اور نجی ملکیت وغیرہ کا حصول یا تحفظ ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ ریاست کا نظریہ اور پالیسی، بالعموم اور توہینِ مذہب جیسے قوانین میں بالخصوص، ہی ہجوم کے مشتعل ہوجانے کا سب سے بنیادی محرک ہیں۔ یوں نہ صرف مشال بلکہ آج تک مذہب کے نام پر جتنے بھی لوگوں کو قتل کیا گیاہے ان سب کی قاتل یہ ریاست خود ہے جس نے بیک وقت دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کو اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی کا محور بنایا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ توہینِ مذہب کا قانون، جسے چند ایک قدرے ’لبرل ‘مذہبی سکالر اسلام کے خلاف بھی قرار دے چکے ہیں، دراصل پاکستان بننے سے بہت پہلے انگریزوں نے برِ صغیر میں سامراجی مقاصد کے لیے لاگو کیا تھا۔ انگریز 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سے ہندوستان میں مذہبی منافرت کے بیج بو رہے تھے تا کہ یہاں کے لوگوں کو تقسیم کر کے حکومت جاری رکھی جا سکے۔ لیکن انگریز کے وقت اس کی چاروں دفعات 295,296,297,298 کی رو سے زیادہ سے زیادہ سزا دو سال اور کچھ جرمانہ تھی جبکہ اس کے لیے ملزم کی نیت، ارادے اور دانستہ کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ان دفعات میں درج ہے کہ ’تاہم مشتعل بحث کے دوران ادا کیا گیا کوئی جملہ یا اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے دی گئی کوئی بھی دلیل توہینِ مذہب شمار نہیں ہو گی ‘۔ لیکن بعد ازاں پاکستان بننے کے بعد افغان جنگ کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کے لیے جس جنون اور وحشت کی ضرورت تھی، اس کو عام کرنے کے لیے ان دفعات میں مزید ذیلی دفعات امریکی سامراج کے ایما پر ضیا ء الحق کے دور میں شامل کی گئیں۔ ان دفعات میں جہاں موت جیسی انتہائی سزا متعارف کروائی گئی وہیں جان بوجھ کرنیت، ارادہ اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کا مقصد جیسے کلیدی اہمیت کے حامل الفاظ حذف کر دیے گئے تاکہ عوامی شعور کو مشتعل اور گمراہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ آسانی ہو۔ اس سامراجی قانون میں ترامیم کی نہیں بلکہ اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا کہ برطانوی سامراج کے بنائے گئے قانون اور امریکی سامراج کی ایما پر اس میں کی گئی ترامیم اور اضافوں کی حفاظت کو ہمارے مذہبی اکابرین اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ اسی سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ وظیفہ خوار ملاں کس کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور مشال جیسے نوجوان ہی ان وحشیوں کے انسداد کی واحد امید ہیں۔ یہ ریاست ان میں سے کون سے فریق کے ساتھ ہے مشال خان قتل کیس نے اس حقیقت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
بٹوارے سے پہلی کانگریس کے صدر مولانا ابولکلام آزاد نے کہا تھا کہ ’مسلمانوں کے لیے بنایا جانے والا یہ ملک پاکستان کرہ ارض پر مسلمانوں کا سب سے بڑا قید خانہ ثابت ہو گا‘۔ اس وقت صرف دو ہی ریاستیں ہیں جو مذہب کے نام پر سامراجی طاقتوں نے تخلیق کی تھیں۔ اسرائیل اور پاکستان۔ دونوں ریاستوں کا کردار کافی حد تک ملتا جلتا ہے۔ پاکستانی ریاست کی بنیاد سامراجی مقاصد کے لیے اس غلط مفروضے کی بنیاد پر رکھی گئی تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جو اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ مسلمانوں کو اپنا الگ آزاد وطن چاہیئے۔ بنگالیوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد عملاً یہ نظریہ اپنی طبعی موت مر چکا ہے مگر اس کے بعد ’وہابیت ‘کے سٹیرائیڈ اور آجکل منشیات اور دیگر گھناؤنے جرائم پر مبنی کالی معیشت کے وینٹی لیٹر پر اس فرسودہ نظریے کو غیر ضروری طور پر زندہ رکھا گیا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو مبالغہ آمیز حد تک مسلسل بڑھتے ہوئے دفاعی بجٹ اور سعودی عرب کی سامراجی گماشتگی کو جواز فراہم کرنے کے لیے آج اس مردہ نظریے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج، عدلیہ، پولیس، بیوروکریسی سمیت ریاست کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو مذہبی تعصبات سے لتھڑا ہوا نہ ہو۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحب، جن کی اپنی بد عنوانی کے قصے زبان زد عام ہیں، کے بیانات سب کے سامنے ہیں۔
میڈیا بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ہر ٹی وی چینل کالعدم تنظیموں کے مکروہ لیڈروں کو حسبِ منشا اور ضرورت نوازتا رہتا ہے۔ طارق جمیل اور طاہر اشرفی تو جیسے اب ٹی وی چینلوں کی رونق بنتے جا رہے ہیں۔ مشال خان کے قتل کے بعد بھی ہم نے دیکھا کہ ہر ٹی وی چینل پر ایک ہی ٹاک شو میں بیک وقت تین تین نام نہاد علما کرام براجمان تھے۔ بیچ میں ایک آدھ لبرل یا نیم سیکولر طرز کے نام نہاد سول سوسائٹی کے نمائندے شایدصرف اس لیے بٹھائے جاتے رہے کہ کہیں ٹاک شو کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ اگر مذہبی نقطہِ نظر کو پروگرام میں شامل کرنا ضروری مان بھی لیا جائے تب بھی پینل میں ایک مولوی کیوں کافی نہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنونی ملاں دراصل کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ یہ عوام کے منتخب کیئے گئے نمائندے تو ہیں نہیں۔ حکومت کا اگر مؤقف درکار ہو تو بے شمار وفاقی و صوبائی وزرا(شاید پاکستان وزرا کی تعداد میں دنیا میں پہلے نمبرپر ہے)موجود ہیں۔ اپوزیشن کا نقطہِ نظر پیش کرنے کے لیے درجنوں سیاسی لیڈر موجود ہیں۔ دانشوروں کی رائے چاہیئے تو ٹی وی سکرین پر خود کو دیکھنے کے پاگل پن کی حد تک شوقین ’انقلابی‘ دانشوروں کی بھی کمی نہیں۔ ریاست کا نقطہ نظر دینے کے لیے پولیس افسران اور دفاعی تجزیہ کار بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ آخر ان ٹی وی ٹاک شوز میں ان ملاؤں کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ اب تو کراچی میں امن کا مسئلہ ہو تو تب بھی ملاؤں کی ’ماہرانہ‘ رائے ضرور لی جاتی ہے جیسے یہ بیچارے ہی ’خدانخواستہ‘ امن برباد کرنے کے ذمہ دار ہوں۔ مشال خان کی شہادت کے بعد بھی ہم نے دیکھا کہ اکثر ٹاک شوز میں دانستہ ایک بریلوی، ایک وہابی، ایک شیعہ یا اہلحدیث مولوی پینل کا حصہ بنائے گئے۔ گویا میڈیا اور ریاست خود ہی فرقہ وارانہ تقسیم کو عین فطری، لازمی اور منطقی قرار دے چکے ہیں۔ کہاں گیا نام نہاد دو قومی نظریہ؟ جس کی روشنی میں مسلمانوں کو ایک قوم بننا تھا۔ یہ سب مسالک کیا اب الگ الگ گروہی مفادات میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ یہ ایک قوم تو درکنار اب ایک دوسرے کی نمائندگی بھی نہیں کر سکتے۔ ٹائی کوٹ میں ملبوس معزز ٹی وی اینکر اور جینز شرٹ میں ملبوس شوخ خواتین ان ملاؤں کی ہاں میں ہاں ملا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ دیکھیںیہ علما کرام تو ’بہت امن پسندہیں‘۔ پہلے دن ان سب نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کا لب ولہجہ کچھ اور تھا لیکن بعد میں عوامی ردِ عمل کے خوف سے ان کو اپنا قبلہ درست کرنا پڑا۔ اہم بات یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی طرح یہ ریاست بھی اپنی طبعی عمر کب کی پوری کر چکی۔ ملاؤں کی بیساکھی کے بغیر یہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔
ریاست کا المیہ یہ ہے کہ جس عہد میں اس کا جنم ہوا وہ سرمایہ داری کے بڑھاپے کا عہد تھا۔ سرمایہ داری کے خلاف بغاوت جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی تھی۔ سوویت بلاک بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ابھر رہا تھا جبکہ امریکی سامراج نے سرمایہ دارانہ بلاک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی۔ پاکستان کی نومولود بورژوازی کے پاس اپنی تاریخی تاخیر زدگی اور مذکورہ بالا نظریاتی بنیادوں کے باعث امریکی سامراج کا آلہِ کار بننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ سرد جنگ نے جہاں پاکستانی ریاست کی مذہبیت میں کئی گنا اضافہ کر دیا وہیں پر عالمی مالیاتی سرمائے کی آزادانہ حرکت اور عالمی اجارہ داریوں کی منڈی کی ضروریات کے لیے کسی حد تک جدید طرزِ معاشرت اور مغربیت کو بھی فروغ دینا پڑا۔ اسی لیے ضیا ء الحق کے بعد مشرف آمریت کا تجربہ بھی دیکھنے میں آیا۔ مشرف کے دور میں عالمی معیشت اپنی حقیقی حدود سے متجاوز ہو کر مصنوعی طور پر پھل پھول رہی تھی۔ اسی کے زیرِ اثر پاکستان میں بھی مصنوعی گروتھ ریٹ بڑھتے بڑھتے 7.5 فیصد تک پہنچ گیا۔ اسی دوران بڑے پیمانے کی بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی۔ ٹیلی کمیونیکیشن اور کمپیوٹر کے شعبے کو بہت مہمیز ملی اور پاکستان کی نئی نسل سالوں میں عشروں سے بھی زیادہ کا تکنیکی فاصلہ طے کر گئی۔ سوشل میڈیا نے تیزی سے پسماندہ سماج کے مضطرب اجتماعی شعور کو متجسس اور متنوع بنانا شروع کر دیا۔ مشرف کے جانے کے بعد یہ عمل کم ہونے کی بجائے برق رفتاری سے بڑھتا گیا۔ مشال خان بھی انہی نوجوانون میں سے ایک تھا جو تیزی سے سچ کی تلاش میں ترقی پسند انہ سوچ کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ یوں ایک طرف ریاست عالمی و علاقائی سامراجی پراکسیوں کے لیے نئے نئے دہشت گرد مذہبی گروہ تشکیل دیتی رہی اور دوسری طرف قلیل ہی سہی مگر نئی نسل کی ایک پرت عالمی سطح پر ہونے والی تیز ترین معاشی، تکنیکی، سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے زیرِ اثر ریاستی پالیسیوں کے ردِ عمل میں متبادل اور نئے فکری و عملی افق تلاش کرنے پر مجبور ہوتی گئی۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دس سے پندرہ سالوں میں روایتی مذہبی طلبہ تنظیموں کی گرفت تعلیمی اداروں میں مسلسل کمزور ہوتی گئی ہے جبکہ ریاست کو انکی ضرورت آج پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایسی رپورٹیں بھی شائع ہوئی کہ دہریت اور لبرل نظریات پاکستان کی جامعات میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اس سے ریاستی اداروں کی فرسٹریشن میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی کے بیانات بھی اسی کا شاخسانہ ہیں۔ اسی عرصے میں اسلامی جمعیت طلبہ کو پھر سے طلبہ تحریک پر مسلط کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں جو بری طرح ناکام ہوئیں۔ ریاست کے تھنک ٹینک نے ریاست، نظام اور اہم شخصیات کے کردار کے بارے میں اٹھائے جانے والے سولات کو سائبر کرائم قرار دے دیا۔ اس ضمن میں مقدس پارلیمان سے بل بھی منظور کرائے گئے۔ ان سب اقدامات کے باوجود ریاست سماجی بے چینی اور سیاسی گراوٹ کے نوجوانوں کے شعور پر پڑنے والے انکے اثرات کے آگے بے بس ہے۔ مشال خان کے قتل کے ذریعے عوامی شعور کوہراساں کرنے کی یہ کوشش بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ اس کے برعکس ریاست کا مکروہ چہرہ بری طرح بے نقاب ہو گیا ہے۔ اب ان فرسودہ ’نظریاتی سرحدوں ‘ کے تحفظ کے لیے حکمران طبقے کو یا تو نام نہاد قومی ریاست کے ڈھونگ کا لبادہ اتار پھینکنا ہو گا اور ریاست کو براہِ راست مذہبی جنونیوں کے حوالے کرنا ہو گا یا پھر یہ ’ڈبل گیم‘ خود ہی بے قابو ہو کر انتشار کو جنم دے گی۔ ہر دو صورتوں میں نئی نسل کی طرف سے مزاحمت ناگزیر ہے۔ یہ نظام اور ریاست کے خلاف پیداواری قوتوں اور تیکنیک کی فیصلہ کن بغاوت ہے اور پاکستان کی نئی نسل نے بھی اس بغاوت کا علم تھام لیا ہے۔ ریاست اور انکے پالتو وحشی جتنے بھی مشال خان ماریں گے، ان سے زیادہ مشال خان پیدا ہوتے رہیں گے۔
یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مشال خان مارکسی نظریات سے متاثر تھا۔ یہ الگ بات کہ وہ کسی مارکسی پارٹی کا عملاً حصہ نہیں بن سکا تھا۔ اس کی فیس بک پوسٹیں اس کے نظریاتی سفر کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ وہ انقلابی ذہن رکھنے والوں کی اکثریت کی طرح تصوف کے راستے سے ہوتا ہوا سائنسی سوشلزم تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تصوف مخصوص حالات کے اندر مذہبی جنونیت کے خلاف پہلا ممکنہ ردِ عمل بن جاتا ہے۔ لیکن چونکہ تصوف جدوجہد کا کوئی عملی طریقہ کار وضع کرنے کی بجائے بے عملیت کی طرف لے جاتا ہے اس لیے سچے انقلابی بہت جلد اس منزل پر تھوڑا سا سستا کر پھر نئے جوش اور امنگ سے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ مشال بھی انہی میں سے ایک تھا۔ لیکن لائقِ تحسین بات یہ ہے کہ وہ اپنے نظریاتی سفر کے کسی بھی لمحے میں نام نہاد لبرل دانشوروں کی طرف مائل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ایک غلط العام وطیرہ یہ ہے کہ اکثر لوگ لبرل ازم اور سوشلزم میں تمیز نہیں کر پاتے۔ حالانکہ یہ دونوں متضاد اور متصادم نظریات ہیں۔ لبرل ازم سرمایہ داروں کا نظریہ ہے جبکہ کمیونزم محنت کش طبقے کا۔ اور ان دونوں طبقات میں کشمکش ناقابلِ مصالحت ہے۔ عام طور پر جو کوئی بھی مولویوں اور مذہب کے ٹھیکیداروں کو حدفِ تنقید بناتا ہے اسے کمیونسٹ کہا جانے لگتا ہے۔ لیکن یہ بالکل بھی درست نہیں۔ گزشتہ دس بارہ سالوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا پر لبرل گروپ کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے گروپ بالکل غیر سیاسی ہیں جن کا لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جیسے کسی بھی عوامی ایشو سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ لوگمذہب کا مذاق اڑا کر انتہائی بھونڈے اور بیہودہ انداز میں دوسرو ں سے الگ نظر آنے کے لیے اپناکیتھارسس کرتے ہیں۔ یہ تمام لوگ یا تو پہلے سے ہی بیرونِ ملک مقیم ہیں یا پھر وہاں جانے کے لیے قانونی تقاضے پورا کرنے کے چکر میں اس قسم کے مکارانہ طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مارکسی نظریات سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ مذہبی بنیاد پرستی کو تقویت دیتے ہیں اور مذہبی منافرت کو کم کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ بڑھاوا دیتے ہوئے محنت کش عوام میں اپنے لیے نفرت پیدا کرتے ہیں۔ حکمران اس چھوٹے سے گروہ کے گرد نان ایشوز کو اچھال کر کروڑوں محنت کشوں کی زندگیوں کے حقیقی ایشوزکو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مشال خان کے قتل میں یہ لوگ بھی اتنے ہی برابر کے حصے دار ہیں جتنا کہ وہ مولوی صاحبان جو ہر وقت منبر پر فلاں کافر اور فلاں کافر کی گردان سناتے رہتے ہیں۔ ایسے لبرل خواتین و حضرات سے مارکسیوں کا کسی بھی قسم کا کوئی عملی اتحاد ممکن نہیں۔ یہ نام نہاد لبرل اورمذہبی بنیاد پرست ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور مالیاتی سرمائے کے الگ الگ دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مارکسی تمام جمہوری مطالبات کی حمایت کرتے ہیں مگر بورژوازی کے رجعتی اور مزدور و انقلاب دشمن کردار کے باعث اس کیخلاف نا قابل مصالحت جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔ طالبان اور مذہبی دہشت گردوں کے خلاف صرف ان قوتوں کے ساتھ متحدہ محاذ بنایا جا سکتا ہے جو حکمران طبقے کے کسی بھی مالیاتی دھڑے کی نمائندگی اور کسی بھی سامراجی قوت کی گماشتگی سے مبرا ہوں۔
مذہب کی طرف کمیونسٹوں کا رویہ بھی دوٹوک اور واضح ہے۔ کمیونسٹ انسانی آدرشوں اور جذبات کا بھرپور احترام کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی انسان کے مذہبی جذبات یا کسی بھی مذہب کی توہین و تحقیر کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ عوامی مسائل کے خاتمے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن وہ مذہبی قوتیں جن کو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی اس نظام اور ریاست کے خلاف بغاوت کو زائل کرنے کا فریضہ سر انجام دیں گی، ان کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنا کمیونسٹ نہ صرف اپنا فرض سمجھتے ہیں بلکہ اس کے بغیر کوئی بھی انقلاب فتح یاب ہو ہی نہیں سکتا۔ کون نہیں جانتا کہ طالبان، القاعدہ اور داعش امریکی سامراج نے خود بنائے تھے۔ اور اب تو یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ شام میں بشار الاسد کے خلاف اسرائیل اور سعودی عرب ’پکے ‘اتحادی ہیں۔ وہ کہاں گئے جو ساری قوم کو یہودو نصاریٰ کے خلاف فتوے سناتے رہے ؟ہم کمیونسٹ جب اس قسم کے سوال کریں گے تو بھلاکیوں نہ کافر قرار دیئے جاویں۔ اگرچہ سرمایہ داری مذہبی قوتوں کو شکست دے کر ہی تاریخ میں ابھری تھی مگر اب اپنے زوال کے دنوں میں اس نے پھر مذہبی قوتوں سے ساجھے داری کر لی ہے۔ اور یہ دونوں مل کر کمیونسٹوں کو نیست و نابود کر دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ صرف کمیونسٹ ہی ایک عوامی بغاوت کو اس کے منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے سرمایہ داری کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے نہ صرف مذہبی قوتیں بلکہ خود مذہب بھی سرمایہ داروں کا آلہ کار بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کو جب چاہے، جس طرح چاہے توڑ مروڑ لیا جاتا ہے۔ توہینِ مذہب کا قانون اس کی بہترین مثال ہے۔ مشال خان کے معاملے میں بھی ہم نے دیکھا کہ جب مذہب کو استعمال کیا جاتا ہے تو کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ کارل مارکس کے ایک جملے کو سیا ق و سبا ق سے کاٹ کر کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ’مذہب انسانیت کے لیے افیون ہے‘۔ اس جملے کے نظریاتی پسِ منظر کو پسِ پشت ڈال بھی دیا جائے تو کیا مشال خان کے قتل کا اندوہناک سانحہ اور اس واردات میں ملوث انسانوں کے افعال و حرکات کارل مارکس کو درست ثابت نہیں کر رہے؟
مشال خان کی شہادت نے کمزور اور متذبذب طلبہ تحریک کو ایک نئی معیاری جست لگائی ہے۔ اس نے دکھایا ہے کہ فیسوں میں اضافے سے لے کر دیگر مسائل کے حل کے لیے جرات مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ آج بھی لڑا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی تمام بڑی جامعات میں مشال خان کے قاتلوں کو عبرتناک سزائیں دیئے جانے کے مطالبے پر خود رو احتجاج ہو رہے ہیں۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں تو انتظامیہ کے خلاف بجلی اور پانی کی عدم دستیابی پر بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری طرف ریاست اور ان کے پالتو ملاں بھی اتنی جلدی ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ وہ مشال خان کے قاتلوں کو بچانے کی ہر ممکن کوششیں کریں گے۔ لیکن اس کشمکش میں طلبہ تحریک سارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے کر 68-69ء کی طرز کی انقلابی تحریک کو جنم دے سکتی ہے۔ دیگر ہم عصر دانشور اس امکان کو یکسر رد کر چکے ہیں۔ کچھ سابقہ مارکسی دانشور تو ہر واقع سے جمود کا پہلو تلاش لاتے ہیں۔ وہ تو جمود کے اتنے خبطی ہو چکے ہیں کہ شاید کچھ دنوں میں یہ دلیل بھی دینا شروع کر دیں کہ سورج ابھی تک مشرق سے ہی نکلتا ہے اور مغرب میں ہی غروب ہوتا ہے، دیکھا ہم نے کہا تھا نا کہ جمود ہے کچھ نہیں بدلا۔ انہوں نے تو مشال خان کے قتل کے بہیمانہ واقعے کو پہلے ہی لمحے میں اس عہد کے جمود کا عکاس قرار دے دیا تھا۔ لیکن وہ شاید مشال خان کے پسماندہ گاؤں کے ان سینکڑوں لوگوں بشمول درجنوں خواتین کو یہ بتانا ہی بھول گئے کہ یہ جمود کا عہد ہے۔ شاید اسی لیے وہ مشال کو انصاف دلانے کے لیے سڑکوں پر آنے سے اپنے آپ کو روک نہیں پائے۔ وہ اس شدید ترین عوامی ردِ عمل کو دیکھنے اور اس کی پیش بینی کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے جس کے باعث وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھی واقعے کی مذمت کرنا پڑی اور امامِ کعبہ اور مفتی نعیم کو بھی مشال کے حق میں بیانات جاری کرنا پڑے۔ فوج کو اپنی روایتی ’پھرتی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نورین لغاری کو بازیاب کرانا پڑا اور احسا ن اللہ احسان کی بھی گرفتاری عمل میں لانا پڑی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم تو دہشت گردوں کی ’کمر‘ توڑنے پر بضد ہیں مگر یہ کمر ہے ہی اتنی آہنی کہ کم بخت ٹوٹتی ہی نہیں۔
مشال خان کے قاتلوں کو بچانے کی ہر ریاستی کوشش ان کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو گی۔ جس مشال کو ان بھیڑیوں نے بجھانے کی کوشش کی تھی وہ اب ایسا چراغ بن گیا ہے جس کو بجھانا پھونکوں تو کیا آندھیوں کے بس کی بات بھی نہیں۔ مشال خان کے قتل کا سانحہ بے شک افسوسناک اور دلسوز ہے مگر ساتھ ہی وہ دھماکہ خیز امکانات سے حاملہ سماجی تضادات کا عکاس بھی ہے۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عمل ہے جو انقلابی اور ردِ انقلابی قوتوں کی سرد جنگ کو گرما گرم بنانے میں اہم پیشرفت ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سابقہ مارکسی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ انتہائی نفیس اور خوشگوار ماحول کے اندر ہی سماج معیاری تبدیلی کے لیے پک کر تیار ہو جائے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ مارکسی اساتذہ نے وضاحت کی تھی کہ ’تشدد پرانے سماج کی حاملہ ہوتی ہے اور نئے سماج کی دایہ‘۔ ’ریاست اور انقلاب‘ میں لینن وضاحت کرتا ہے کہ ’’واقعات کا یہ سلسلہ انقلاب کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی طاقت اور تمام قوتوں کو ریاستی طاقت کے خلاف مجتمع کر لے اور اپنا یہ مقصد بنائے کہ اس نے ریاستی ڈھانچے کو بہتر نہیں کرنا بلکہ اس کو پاش پاش اور برباد کرنا ہے‘‘۔ مشال خان کی شہادت بھی بڑے بڑے سیاسی طوفانوں کا پیش خیمہ ہے۔ ہم انقلابیوں کا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی شہادت کو ضائع نہ ہونے دیں۔ جہاں مشال خان کے لیے انصاف ہر ممکن قربانی دے کر بھی حاصل کیا جائے گا وہیں چند لوگوں کو سزائے موت یا یونیورسٹی کانام اس کے نام پر رکھ دینے سے مشال خان کے خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے کم از کم اس طبقاتی معاشرے کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور ایسا سوشلسٹ معاشرہ تعمیر کرنا ہو گا جہاں پر مفت اور معیاری تعلیم اور علاج ہر انسان کو بآسانی میسر ہو۔