اقوام متحدہ میں تمام تر ہنگامے، پر شور پروپیگنڈے اور چالبازیوں کے بعد شام میں ہونے والی جنگ بندی اچانک شرمناک اور ناقابلِ یقین انداز میں ختم ہو چکی ہے۔ درحقیقت اس کی مثال ایک ایسے بچے کی سی ہے جو اپنی پیدائش سے پہلے ہی مردہ حالت میں تھا۔
’’جنگ سب کا باپ اور بادشاہ ہے جس نے کچھ کو دیوتا بنایا اور کچھ کو آدمی، کچھ کو غلام بنا دیا اور کچھ کو آزاد۔‘‘ ہیراکلیتس
’’انھوں نے ’’امن امن‘‘ پکار کر میرے لوگوں کے زخموں پر کچھ مرہم پٹی کی، جبکہ امن تھا نہیں۔‘‘ (یرمیاہ 6:14)
To read this article in English, click here
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے متفقہ طور پر 30 روزہ جنگ بندی کی قرارداد منظور کی تا کہ متاثرہ علاقوں سے زخمیوں کو نکالا جائے اور امداد پہنچائی جا سکے۔ اس کا مقصد مشرقی غوطہ کے عوام کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کرنا تھا، جو کہ دمشق کے ساتھ ایک محصور علاقہ ہے، جس پر کچھ عرصے سے بشارالاسد کے مخالف گروہوں کا قبضہ ہے اور پچھلے ہفتے سے حکومتی افواج وہاں بمباری کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیررز کا کہنا ہے کہ مشرقی غوطہ ’’زمین پر جہنم‘‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ سچ ہے۔ مگر شام کے زیادہ تر علاقوں پر یہ بات صادق آتی ہے۔ پورے ملک کو 6 سالوں سے جاری جنگ نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے جس میں شام بیرونی طاقتوں اور ان کی علاقائی اور مقامی پراکسیوں کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
دنیا کو ایک ایسی جگہ کی ہولناک تصویر دکھائی جا رہی ہے جہاں 393000 لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور اس جگہ پر بیرل بم اور گولے گرائے جا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سکولوں اور ہسپتالوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا پر بڑی تعداد میں زخمی بچے اور لاشیں دکھائی جا رہی ہیں۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کا شامی مبصر ادارہ شامی حکومت اور روس کو قصور وار قرار دے رہا ہے۔ جبکہ روس نے براہ راست مداخلت کی تردید کی ہے اور شامی حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے عوام کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ وہ تو مشرقی غوطہ کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں کس پر یقین کرنا چاہیے؟
’’اقوام متحدہ‘‘
جنگ بندی پر رائے شماری کئی مرتبہ تعطل کا شکار ہوئی اور یہ سب ایک گھناؤنے مذاق جیسا تھا۔ روس، جو کہ شامی حکومت کا اتحادی ہے، نے امید کے مطابق متن میں تبدیلوں کا مطالبہ کیا۔ امریکہ اور اس کے چمچوں نے بھی امید کے مطابق روس پر وقت ضائع کرنے کا الزام لگایا۔
روس کو جنگ بندی کی کوئی جلدی بھی نہیں تھی کیونکہ اس کے شامی اتحادی میدان میں جنگ جیت رہے تھے۔ اس کے برعکس امریکی بہت ہی جلدی میں تھے کیونکہ ان کے اتحادیوں کو مار پڑ رہی تھی۔ جنگ کی ہولناکیوں کا سامنا کرنے والی بیچاری عوام کو تو کوئی شمار کرنے کو بھی تیار نہیں تھا، سوائے اس کے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی انتہائی مکاری سے ان کی تصاویر روس کے خلاف پراپیگنڈہ جنگ جیتنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
جنگ بندی پر رائے شماری کئی مرتبہ تعطل کا شکار ہوئی اور یہ سب ایک گھناؤنے مذاق جیسا تھا
اقوام متحدہ میں امریکہ کی مندوب نے روس پر ’’مذاکرات کو گھسیٹنے‘‘ کا الزام لگایا۔ اس نے غصے میں پوسٹ کیا: ’’یہ تین دن جو قرارداد منظور ہونے میں لگے ہیں، اس دوران کتنی ماؤں کے بچے بموں اور گولوں کی نذر ہو گئے ہوں گے۔‘‘ کتنی عجیب بات ہے کہ اس نے موصل کی ماؤں اور بچوں کے بارے میں ایسے جذبات کا اظہار نہیں کیا جو بلاتفریق بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بنے تھے۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ بم امریکی طیاروں سے گرے تھے؟ ہم موصل پر بھی آگے تفصیل سے بات کریں گے۔
اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے ویسلے نبینزیا نے کہا کہ جنگ میں شامل گروہوں کی شمولیت کے بغیر جنگ بندی ممکن نہیں ہے اور اس نے باغیوں کے قبضے میں موجود مشرقی غوطہ کو لے کر کیے جانے والے پروپیگنڈے کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس نے کہا، ’’شام میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی ہو رہی ہے اور فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن صرف مشرقی غوطہ میں ہی نہیں بلکہ شام کے تمام حصوں میں امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔
اس طویل اور گرما گرم بحث کے دوران روسیوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرارداد کے متن میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ صرف دمشق کو ہی تمام خون خرابے کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جا سکے۔ بالآخر روس نے سیکیورٹی کونسل کی 30 روزہ جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کر دیے۔ مگر وہ کیا تھا جس پر انھوں نے دستخط کیے؟ یہ قرارداد اس قدر مبہم اور غیر واضح تھی کہ اس میں وہ تاریخ بھی بیان نہیں کی گئی تھی کہ جس سے اس پر عملدرآمد کا آغاز ہونا تھا۔ اس میں صرف مشرقی غوطہ نہیں بلکہ پورے شام کا ذکر تھا۔
اس بات کا ادارک ہوتے ہی کہ امریکہ ایک بار پھر روس کی سفارتی چالوں سے شکست کھا چکا ہے، اقوام متحدہ میں امریکا کی مندوب نکی ہیلے نے قرارداد پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسے شام پر یقین نہیں کہ وہ اس قرارداد پر عمل کرے گا۔ اور یقیناًاس معاملے میں وہ بالکل درست تھی۔
آخر میں جنگ بندی محض 5 گھنٹے تک محدود ہو کر رہ گئی جس میں اقوام متحدہ کو وعدے کے مطابق امداد پہنچانا تھی اور لوگوں کو محصور علاقوں سے نکلنے کی اجازت دی جانی تھی۔ مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ جہادیوں نے دمشق پر گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا اور شامی بھی بم برساتے رہے۔ کسی قسم کی امداد نہیں پہنچائی گئی اور جن لوگوں نے مشرقی غوطہ سے بھاگنے کی کوشش کی انھیں روکنے کے لیے جہادیوں نے ان پر مارٹر گولوں سے حملے کیے۔
نام میں کیا رکھا ہے؟
امریکی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عام باغیوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ اب جنہیں ’’سرگرم شامی کارکنان‘‘ کے خوشگوار نام سے پکارا جا رہا ہے۔ سرگرم تو وہ یقیناً ہیں، مگر صرف انٹرنیٹ اور پروپیگنڈے کے حوالے سے۔ مگر ایک لڑنے والی قوت کے طور پر وہ ناقابلِ ذکر ہیں۔ محصور علاقوں پر درحقیقت جنگجو جہادی قابض ہیں جو داعش اور القاعدہ جیسے زہریلے نظریات رکھتے ہیں اور انھی سے منسلک بھی ہیں۔
نام نہاد ’’اسلامی اعتدال پسند گروہ‘‘ محض ایک اختراع ہے۔ انہیں صرف اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سی آئی اے بشارالاسد کو سبق سکھانے کے لیے خونخوار انتہا پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ سبق وہ نہیں بلکہ بشارالاسد روسی مدد کے ساتھ ان باغیوں کو سبق سکھا رہا ہے۔
شامی جہادی گروپ جبہت فتح الشام، جو جولائی میں القاعدہ سے رسمی طور پر علیحدہ ہونے سے پہلے النصرہ کہلاتا تھا، نے کئی مرتبہ اپنا نام تبدیل کیا ہے۔ لیکن گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے سے ان کے رجعتی کردار میں رتی بھر بھی فرق نہیں آیا۔ جیسا کہ فرانسیسی کہاوت ہے: ’’یہ جتنا تبدیل ہوتا ہے، اتنا ہی پہلے سا رہتا ہے۔‘‘)
جہادی جان بوجھ کر مشرقی غوطہ کے لیے آنے والی امداد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور عوام کو مضافاتی علاقہ چھوڑنے سے جبراً روکتے ہیں۔ بالکل حلب اور موصل کی طرح انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ وہ دمشق پر بھی گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہیں جو ’’انسانی ہمدردی پر مبنی جنگ بندی‘‘ کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن مغربی میڈیا اس سب پر خاص توجہ نہیں دے رہا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کا اطلاق داعش یا النصرہ پر نہیں ہوتا، اور روس نے احتیاطاً دوسرے گروہوں کو بھی اس میں شامل کرنے کا کہا جن کے ان کے ساتھ مراسم ہیں۔ نتیجتاً حتمی متن میں یہ واضح کیا گیا کہ ان تمام افراد، گروہوں اور تنظیموں کے خلاف آپریشن جاری رہے گا جو القاعدہ، داعش اور ان دوسرے گروہوں کے ساتھ منسلک ہوں گے جنہیں سیکیورٹی کونسل کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ ڈھونڈنا مشکل ہو گا کہ کونسا ایسا ’’باغی‘‘ گروہ ہے جو ان میں نہیں آتا۔
سب سے بڑے اور اہم باغی گروہوں، جن میں جہادی اور ان کے ساتھی شامل ہیں، پر جنگ بندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ النصرہ کا القاعدہ کے ساتھ تعلق ہے اور اس بات کو جھٹلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور چونکہ انھیں کے پاس طاقت اور بڑی مقدار میں اسلحہ موجود ہے، یہی مشرقی غوطہ پر قابض ہیں۔ چنانچہ جنگ بندی کے معاہدے کی حیثیت اس کاغذ کے ٹکڑے جتنی بھی نہیں ہے جس پر اسے لکھا گیا تھا۔
موصل اور حلب: دو شہروں کی کہانی
مغربی میڈیا مشرقی غوطہ کو لے کر بہت شور مچا رہا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے حلب کے بارے میں شور مچایا تھا۔ لیکن موصل کے بارے میں وہ حیران کن طور پر خاموش رہے، جو 20 لاکھ افراد پر مشتمل ایک شہر ہے اور جہاں پر اس سے کہیں زیادہ مظالم ڈھائے گئے۔ امریکی حمایت یافتہ عراقی فوج کو موصل کو داعش کے قبضے سے چھڑانے میں تقریباً 9 ماہ لگے۔ بالآخر پچھلے سال 10 جولائی کو شہر ’’آزاد‘‘ کروا لیا گیا۔ مگر اس کی قیمت بہت بھیانک تھی۔ وہ جو کبھی ایک عظیم شہر ہوا کرتا تھا، آج ملبے اور پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے جس کے نیچے نہ جانے کتنے مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشیں دبی ہیں۔
ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ سکول تہس نہس ہو چکے ہیں، بجلی گھر کھنڈر بن چکے ہیں اور سڑکیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ دریائے دجلہ پر موجود پانچ پل ٹوٹ چکے ہیں۔ شہر کا مرکزی ہسپتال ایک مہینہ جنگ کی زد میں رہنے کے بعد جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ شہر کی بربادی کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:
10 میں سے 9 بڑے ہسپتال
98 میں سے 76 طبی مراکز
دریائے دجلہ پر موجود 6 بڑے پل
400 تعلیمی ادارے جن میں سکول، یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی مراکز شامل ہیں
11ہزار رہائشی مراکز
4 بجلی گھر اور بجلی کا 65 فیصد نظام
6 پانی صاف کرنے کے مراکز اور شہر کا زیادہ تر پانی کی فراہمی کا نظام بموں سے اڑایا جا چکا ہے
دوائیاں بنانے والی انڈسٹری
تمام زرعی اجناس کے سٹور
2 بڑے ڈیری کے مراکز
212 آئل ریفائنریز، پٹرول اور گیس سٹیشن
تمام سرکاری عمارتیں
تمام سرکاری اور پرائیویٹ بینک
63 مذہبی مراکز (مساجد اور چرچ) جن میں زیادہ تر تاریخی اہمیت کے حامل تھے
250 ورکشاپیں، بڑی اور چھوٹی فیکٹریاں جن میں زرعی انڈسٹریاں بھی شامل ہیں
29 ہوٹل
40000 سے زیادہ سویلینز کی ہلاکتیں
مغربی موصل میں 54 میں سے 38 رہائشی علاقوں کی تباہی
نینوا کے گورنر آفس کے ایک سٹاف ڈائریکٹر نے کہا، ’’مشرقی موصل آدھا تباہ ہو چکا ہے اور مغربی موصل میں تباہی اس سے بہت زیادہ ہے۔‘‘ مقامی رضاکاروں کے گروپ کے ایک ممبر نے بتایا کہ مغربی موصل 99 فیصد تک تباہ ہو چکا ہے۔
یہ تمام تر بربادی، جس نے موصل جیسے عظیم شہر کو تقریباً صفحہ ہستی سے مٹا دیا، امریکی بموں، میزائلوں، گولہ بارود اور سفید گندھک کے استعمال سے ہوئی تھی، ایک ایسا ہتھیار جس کا رہائشی علاقوں میں استعمال پوری دنیا میں ممنوع ہے۔ یہ سب امریکہ کے جنگی جرائم کا حصہ ہے۔
لیکن حلب(اور اب مشرقی غوطہ) کے بارے میں ہمیں روزانہ شامی حکومت اور ان کے روسی اتحادیوں کے جنگی جرائم کی مذمت سننے کو ملتی ہے، چاہے وہ جرائم حقیقی ہوں یا افسانوی۔ مگر موصل کے عوام کے خلاف ہونے والی بربریت کو جھوٹ، خاموشی اور آدھے سچ کے انبار تلے دبا دیا گیا تھا۔
مغرب کی نظر اندازکردہ انسانیت سوز تباہی
باقی تمام نقصانات سے زیادہ المناک انسانی جانوں کا نقصان ہے۔ عوام کے جانی نقصان کا آج تک اندازہ نہیں لگایا جا سکا، کیونکہ امریکہ اور بغداد میں بیٹھے ان کے اتحادیوں نے لاشوں کو گننے کی زحمت ہی نہیں کی، جن میں سے زیادہ تر آج بھی ملبے کے نیچے پڑی ہیں۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ 40ہزار سے زائد افراد فضائی حملوں، گولہ باری اور پولیس کی گولیوں سے موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ داعش کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوانے والے اس کے علاوہ ہیں۔
یہ انسانیت سوز مظالم بڑے پیمانے پر مغربی میڈیا کی جانب سے نظر انداز کیے گئے۔ اس قیامت خیز قتل عام کو عالمی میڈیا، صحافیوں اور سیاست دانوں کی طرف سے بہت کم توجہ حاصل ہوئی۔ اب ذرا اس کا موازنہ 2016ء میں مشرقی حلب میں شامی حکومت اور روسی فوجوں کی جانب سے کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں اٹھنے والے غم و غصے کے طوفان سے تو کر کے دیکھیں۔
اس سب میں شامل قوتوں میں سے کسی نے بھی مرنے والوں کی حقیقی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، چاہے وہ داعش ہو، بین الاقوامی اتحاد ہو، عراقی حکومت ہو اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے بھی اس بارے میں خاموشی قائم رکھی۔ پریس رپورٹس کے مطابق صرف فضائی جنگ میں ہی 19 فروری اور 19 جون 2017ء کے درمیان اندازاً 5805 افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن ہمیں علم ہے کہ پریس رپورٹس میں اصل ہلاکتوں کی تعداد سے کئی گنا کم بتایا جاتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ موصل میں ہونے والی عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد حیران کن طور پر بہت زیادہ ہے؟ اس کی وضاحت ہمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ سے مل سکتی ہے جس کا عنوان ہے: کسی بھی قیمت پر: مغربی موصل میں شہریوں پر ڈھائی جانے والی قیامت۔
اگرچہ یہ رپورٹ مرنے والوں کی درست تعداد تو نہیں بتاتی مگر اس نقصان کی تصدیق ضرور کرتی ہے جو مسلسل پانچ ماہ کے گولہ بارود اور راکٹوں کی وجہ سے محصور عوام کو سہنا پڑا، جو وہاں سے نکل بھی نہیں سکتے تھے۔ بہت سے لوگ اپنے گھروں میں ہی رہے کیونکہ بھاگنے کی کوشش کرنے والے داعش کے ہاتھوں مارے جاتے تھے۔ لیکن بہت سارے لوگ اس لیے بھی گھروں میں رہے کیونکہ حکومت نے انہیں ایسا کرنے کو کہا تھا۔ فوج نے ہیلی کاپٹروں سے پرچے پھینکے جن میں لوگوں کو نکلنے سے منع کیا گیا تھا۔ یہ ان کے لیے سزائے موت کے مترادف تھا۔
بلا امتیاز بمباری اور گولہ باری سے، بالخصوص پرانے شہر پر آخری حملے میں پورا شہر خون میں نہا گیا، جس میں زیادہ تر عورتیں اور بچے مارے گئے۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ 4ہزار سے زائد لاشیں ابھی بھی ملبے تلے موجود ہیں اور لاشیں گلنے سڑنے کی بو ابھی تک فضا میں پھیلی ہوئی ہے۔ عراقی افوج کی بربریت کے کئی چشم دید گواہ موجود ہیں۔ ایک آن لائن خبروں کی ویب سائٹ Middleeasteye پر ایک عراقی فوجی کے یہ الفاظ دہرائے گئے: ’’ہم نے سب کو مار ڈالا، داعش، مرد، عورتیں اور بچے۔ ہم نے ہر کسی کو مار ڈالا۔‘‘
’’لاشوں میں بہت سے عام شہری ہیں‘‘، ایک عراقی میجر نے کہا۔ ’’جب آزادی کا اعلان ہوا تو ہمیں حکم ملا کہ کچھ بھی حرکت کرتا ہوا نظر آئے تو اسے گولی مار دو‘‘۔ اپنا نام صیغۂ راز میں رکھے جانے کی شرط پر میجر نے بتایا کہ یہ احکامات غلط تھے مگر پھر بھی سپاہیوں کو ان پر عمل کرنا پڑا۔ ’’یہ بالکل بھی درست نہیں تھا‘‘، اس نے کہا۔ ’’داعش کے جنگجوؤں کی اکثریت نے ہتھیار ڈال دیے تھے، لیکن پھر بھی ہم نے انہیں مار ڈالا۔‘‘
9ماہ کے محاصرے کے دوران 10لاکھ سے زائد لوگ بھاگنے پر مجبور ہوئے اور ان کی اکثریت کبھی واپس نہیں آئی۔ مرد، عورتیں اور بچے جو موصل کی تباہی سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے انھیں ٹینٹوں میں رکھا گیا، جو اکثر جیل کی طرح ہوتے تھے۔ وہ عورتیں اور بچے جن پر شک تھا کہ ان کا تعلق داعش کے مارے جانے والے جنگجوؤں کے خاندان سے، انہیں ’’بحالی کے کیمپوں‘‘ میں بھیج دیا جاتا۔
پہلے وہ داعش کے ہاتھوں عذاب میں مبتلا تھے، اور اب وہ عراقی فوجیوں کے ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ مگر کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا۔ عراقی وزیراعظم العبادی اکثر انسانی حقوق کی تنظیموں پر تنقید بھی کرتا رہتا ہے جو ان جنگی جرائم کی چھان بین کرتی ہیں۔ ظلم اور بربریت عراقی افواج کی روایت بن چکی ہے اور اس معاملے میں عدلیہ بھی خاموش رہتی ہے۔
بغداد حکومت کے اندازے کے مطابق پورے ملک میں تعمیرِ نو کے لیے 100 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ موصل کے مقامی لیڈروں کے مطابق اتنی رقم صرف موصل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی لیے چاہیے ہو گی، جو کہ داعش کے قبضے میں عراق کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق 40ہزار گھروں کو پھر سے تعمیر و مرمت کی ضرورت ہے۔ اور 20 لاکھ کی آبادی میں سے 6 لاکھ ابھی تک واپس نہیں آ سکے۔
ابھی تک کوئی بھی یہ رقم ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ حکومت نے عراق پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر تعمیر نو کے لیے رقم ادا نہیں کریں گے۔ عراق کو امید ہے کہ سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک مدد کو آئیں گے، اور شاید ایران بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ عراق کے دو درجن کے قریب شہروں اور قصبوں میں تعمیر نو کا کام کر رہی ہے مگر اس کے لیے فنڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے لوگ اپنی جمع پونجی استعمال کرتے ہوئے جتنا ہو سکے تعمیر نو کا کام کر رہے ہیں۔
اسی دوران حلب کی جنگ کی باریک سے باریک تفصیلات کو بھی ’’آزاد میڈیا‘‘ بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا۔ موصل کے عوام نے جو ہولناکیاں برداشت کیں اس پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ ایسا کیوں؟
ایک اور ’’زہریلی گیسوں کا حملہ‘‘
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفارتی شکست سے باغیوں میں غصے اور مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور انہیں غضبناک انداز میں اس کا رد عمل دیا۔ مگر اس غصے سے خصی پن جھلک رہا تھا۔ امریکہ کی براہ راست مدد کے بغیر شامی باغی کسی کھاتے میں نہیں آتے۔ بشارالاسد کی افواج منظم انداز میں ان کا قلع قمع کر رہی ہیں۔ مگر امریکہ اس دلدل میں اپنی فوجیں اتارنے کو تیار نظر نہیں آ رہا۔ انہیں کس طرح مداخلت پر مجبور کیا جائے؟
باغیوں کا رد عمل فوری اور قطعی غیر متوقع نہیں تھا۔ انہوں نے پروپیگنڈا مہم تیز کر دی اور اس بار ایک اور پینترا آزمایا(جو نیا نہیں تھا)۔ حلب کی جنگ کے دوران مغربی میڈیا نے نام نہاد ’’وائٹ ہیلمٹس‘‘ (White Helmets) کا خوب چرچا کیا، ایک گروپ جو خود کو ایک غیر جانبدار انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والی NGO بتاتے ہیں اور مبینہ طور پر لوگوں کی جانیں بچانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ NGO درحقیقت جہادی تنظیم ہے اور ان کا واحد کام شہریوں کی اموات کی المناک وڈیوز بنانا ہے(جو آج کل کے شام کی صورتحال میں کوئی مشکل کام نہیں ہے)، تاکہ پوری دنیا کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔
ان کی یہ چال اس قدر کامیاب رہی کہ 2017ء میں وائٹ ہیلمٹس کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر مبنی ویڈیو پر انھیں ’’بہترین مختصر دورانیے کی دستاویزی فلم‘‘ کا آسکر ایوارڈ دے دیا گیا۔ اس کے باوجود کہ ان پر غلط معلومات پھیلانے اور بوگس امدادی کارروائیاں دکھانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
اب بتایا جا رہا ہے کہ الشفونیہ کے قریب طبی مراکز میں بہت سے مریضوں کو داخل کیا گیا ہے جن میں ’’سانس کی تکلیف، سانس کی نالی میں جلن، آنکھوں میں جلن اور سر چکرانے کی علامات‘‘ موجود تھیں۔ وائٹ ہیلمٹس کے مطابق کئی عورتوں اور بچوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا اور ’’کم از کم ایک بچہ‘‘ دم گھٹنے سے ہلاک ہوا۔
اگرچہ ان دعووں کی آزاد ذرائع سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی لیکن مغربی دنیا کی ’’آزاد صحافت‘‘ نے اسے روزانہ اس طرح بیان کرنا شروع کر دیا کہ جیسے یہ سب حقیقت پر مبنی ہے۔ ایسی ایک مثال سکائی نیوز کی یہ سرخی ہے: ’’شامی حکومت کا عوام پر کلورین گیس کا مہلک حملہ‘‘۔
جہادیوں نے امریکی فوج کی مداخلت کا جواز پیدا کرنے کے لیے مشرقی غوطہ پر زہریلی گیس کے حملے کا الزام پہلی بار نہیں لگایا۔ انہوں نے 2013ء میں بھی یہی کام کیا تھا جس پر اوبامہ نے کلورین گیس کے حملے کو جواز بنا کر شامی فوج پر بمباری کے لیے امریکی طیارے بھیجے تھے۔
اوبامہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے سینئر شامی اہلکار کی کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق بات چیت کے ثبوت حاصل کر لیے ہیں، مگر جب ثبوت سامنے لانے کی بات آئی تو صاف انکار کر دیا گیا۔ اور AP کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق بات چیت کی تفصیلات دکھانے کے مطالبے کو بھی رد کر دیا گیا، جس میں مبینہ طور پر شامی فوجیوں کو گیس ماسک تیار رکھنے کا کہا گیا تھا۔
میڈیا پر جاری چیخ و پکار کے پیچھے ان حملوں کا رتی برابر بھی ثبوت موجود نہیں تھا، سوائے کچھ دھندلی تصویروں کے جن سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ہلاکتوں کی تعداد اور دیگر تفصیلات میں یکسانیت نہ ہونے کی وجہ سے شکوک وشبہات کو مزید ہوا ملی۔ مبینہ حملوں کے دو دن بعد سرکاری میڈیا نے باغیوں کی پناہ گاہوں سے ملنے والے پلاسٹک کے جگ، گیس ماسک، دوائیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے شیشے کے برتن، دھماکہ خیز مواد اور دیگر اشیاء کی تصاویر جاری کیں۔ ایک بیرل پر تو ’’میڈ ان سعودی عریبیہ‘‘ کی مہر بھی ثبت تھی۔
یہاں تک کہ ٹائمز آف اسرائیل کے طرف سے بھی شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا جہاں سے بالکل بھی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔ 8 ستمبر 2013ء کو چھپنے والے ایک آرٹیکل میں چارلس ہے مین، جو برطانوی فوجی افسر اور برطانیہ کے فوجی جریدے ’دی آرمڈ فورسز آف یو کے‘ کا ایڈیٹر ہے، کا حوالہ دے کر لکھا گیا تھا:
’’ہم اس پر یقین نہیں کر سکتے۔۔۔ ایک سپہ سالار دمشق کے مضافاتی علاقے پر وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر کیسے راضی ہو سکتا ہے جبکہ اس کے مستقبل میں بہت نقصانات ہیں؟‘‘
واقعی کیوں! اور آج بھی یہی سوال اٹھتا ہے۔ جنوری میں جب روس کے شہر سوچی میں مختلف شام کے مختلف دھڑے شامی نیشنل کانگریس کے لئے اکٹھے ہوئے تو اس قبل، امریکہ کے وزیر خارجہ نے ان رپورٹوں کا سہارا لے کر کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق روس کو قصوروار ٹھہرایا، اس بات سے قطع نظر کہ یہ حملے کس نے کیے تھے۔
کسی بھی قتل کی تحقیقات میں وکیلوں کا سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ اس سے ’کس کو فائدہ پہنچا‘؟ بشارالاسد اور اس کی فوج ایسے ہتھیاروں کے استعمال سے کیا فائدہ حاصل کر سکتی ہے جس کا لازمی نتیجہ امریکہ کے حملے کی صورت میں نکلتا ہے؟ سوال کا جواب بھی سوال میں ہی موجود ہے۔ بشارالاسد کا اس حماقت میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا جو اسے بری طرح نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بشارالاسد پر بہت سے الزام لگائے جا سکتے جن میں حماقت قطعی طور پر شامل نہیں ہے۔
شامی فوج کا اصرار ہے کہ اس کے پاس کلورین گیس موجود نہیں ہے، کیونکہ وہ امریکہ اور روس سے ڈیل کے نتیجے میں کچھ سال پہلے اس سے دستبردار ہو چکی ہے۔ اس بات کی تصدیق کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے OPCW نے بھی کی ہے۔
اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی انہیں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی پوری طاقت سے باغیوں کا کامیابی سے صفایا کر رہے ہیں۔
مشرقی غوطہ کو اسلامی انتہا پسند گروہوں سے پاک کرنے کے لئے،شامی فوجیں ’’دمشق سٹیل‘‘ کے نام سے آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، جنہوں نے سالوں سے وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، اور انہوں نے ہتھیار ڈال کر نکل جانے کی ہر پیشکش کو مسترد کیا ہے۔ اب جبکہ شامی فوج ان کے خلاف فیصلہ کن زمینی جنگ کی تیاریوں میں لگی ہے، ایسے میں وہ ان کے خلاف کلورین گیس جیسے ناقابل بھروسہ ہتھیار کا استعمال کیوں کریں گے جو ہوا کا رخ تبدیل ہونے پر خود انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔
درحقیقت کلورین گیس کے حملے کا فائدہ صرف جہادیوں کو ہے، جن کے پاس یہ موجود بھی ہے اور وہ اسے شامی حکومت پر الزام لگا کر امریکہ کے فضائی حملے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کے مقصد کے تحت استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
امریکہ کئی مرتبہ دھمکی دے چکا ہے کہ اگر شامی افواج نے ملک میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو ان پر مزید فضائی حملے کرے گا۔ پچھلے سال اپریل میں ادلب پر کیمیائی حملے کے جواب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شعیرات ائیر بیس پر ٹاماہاک میزائل داغنے کا حکم دے دیا۔ رتی بھر ثبوت کے بنا ہی فوری طور پر بشارالاسد کو اس کا قصوروار قرار دے دیا گیا۔ فرانسیسی صدر امانوئل میکرون نے بھی وعدہ کیا کہ شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ثبوت سامنے آیا تو وہ بھی شام پر فضائی حملے کرے گا۔
میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا واحد مقصد دنیا بھر کی رائے عامہ میں کنفیوژن پیدا کرنا ہے تا کہ امریکا کے دشمنوں کو بدنام کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں مزید سامراجی مداخلت کا ’اخلاقی‘ جواز پیدا کیا جا سکے۔ بہرحال موجودہ پروپیگنڈے کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ جنگ کا اختتام میدان جنگ میں شامی افواج کی فتح کی صورت میں نکلے گا۔ آخری تجزیے میں یہی بات اہمیت کی حامل ہے۔
بے بسی میں چنگھاڑتا واشنگٹن
درحقیقت امریکی سامراج کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی پر انگلی اٹھائے۔ یہ امریکہ کی عراق میں مجرمانہ مداخلت ہی تھی جو اس خونی کھلواڑ کی بنیادی وجہ بنی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی ہوئی اور لاکھوں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کی زندگیاں برباد ہو گئیں۔
خطے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن نے بالواسطہ یا بلاواسطہ مشرق وسطیٰ کی سب سے رجعتی طاقتوں کی حمایت کی۔ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ صدام حسین ایک خونی درندہ تھا یا بشارالاسد ایک آمر ہے۔ لیکن واشنگٹن ’’جمہوریت سے محبت‘‘ کا درس کیسے دے سکتا ہے جبکہ وہ خود سعودی عرب کی حمایت کرتا ہے؟ وہابی دہشت گردی کی ایک پناہ گاہ جہاں عوام کو دبانے کے لیے تشدد، سر عام پھانسی، سر قلم کرنے، مصلوب کرنے اور سنگسار کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ہر دہشت گرد تنظیم کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ تھا، چاہے وہ طالبان ہوں، القاعدہ ہو بن لادن ہو یا داعش۔ 9/11 کے حملوں میں بھی سعودی دہشت گرد ملوث تھے۔ صدام حسین کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی وہ سعودی عرب نہیں عراق تھا جس پر حملہ کر کے اسے تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا۔ اور واشنگٹن کے ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ابھی بھی ریاض میں بیٹھے درندوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔
بائیں بازو کے کچھ گمراہ لوگ بھی میڈیا کے اس گمراہ کن پراپیگنڈے سے دھوکا کھا گئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’باغی‘‘ 7 سال پہلے شام میں اٹھنے والی انقلابی تحریک کے حقیقی وارث ہیں۔ لیکن اس تحریک کو فوراً برباد کر دیا گیا تھا، اس میں اتنا ہاتھ بشارالاسد کا بھی نہیں جتنا ان رجعتی سعودیوں کا ہے جنہوں نے پیسہ لگا کر وہاں اپنی مرضی کا انتہا پسند اسلام (داعش کی صورت میں) بھیجا جس نے اس تحریک کی جگہ لے لی۔
سعودیوں(اور قطریوں) نے ان رجعتی جہادی گروہوں کو اسلحہ اور مالی مدد دی جو گزشتہ 6 سالوں سے شام میں دندناتے پھر رہے ہیں، لوگوں کو قتل کرتے ہیں، بلادکار کرتے ہیں، تشدد کرتے ہیں اور ان کے رستے میں جو کچھ بھی آتا ہے اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ یہ گروہ مختلف ناموں سے موجود ہیں مگر ان کے ایک جیسے مقاصد اور انتہا پسند اسلامی نظریات ہیں۔ انہیں سی آئی اے اور پینٹاگون کی حمایت بھی حاصل ہے جو ان قصائیوں کو عادتاً ’’باغی‘‘ یا آج کل ایک نئے خوشنما نام ’’سرگرم شامی کارکنان‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
سامراج اپنے مکروہ عزائم کے تکمیل کے لیے ان کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہیں سعودی عرب سے کھلا پیسہ ملتا ہے کیونکہ سعودی عرب خطے میں اپنے برانڈ کے وہابی اسلام کا مکمل قبضہ چاہتا ہے۔ کوئی بشارالاسد کے بارے میں کچھ بھی سوچتا ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ ان رجعتی غنڈوں کی جیت بھی شامی عوام کے لیے ایک بھیانگ خواب سے کم نہیں ہو گی۔
یہ ضروری ہے کہ جھوٹ اور پراپیگنڈے کی دبیز دھند کو صاف کرتے ہوئے اس سب میں شامل مختلف کے قوتوں کے حقیقی عزائم سے پردہ اٹھایا جائے۔ ہمیں اس کا آغاز بنیاد سے کرنا ہوگا۔ امریکی سامراج اس دنیا کی سب سے زیادہ رد انقلابی قوت ہے۔ بایاں بازو اس کی کسی بھی قسم کی ظاہری یا پوشیدہ حمایت نہیں کرسکتا۔
جہاں تک نام نہاد اقوام متحدہ کی بات ہے یہ ایک مرتبہ پھر واضح ہو گیا ہے کہ یہ ایک فراڈ اور ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں۔ حالیہ بحث کے دوران اقوام متحدہ میں فرانس کے مندوب فرینکوئس ڈیلاٹر نے قرارداد کے ’تاخیر زدہ‘ ہونے کا رونا رویا۔ اس نے ڈرامائی انداز میں یہ تک کہہ دیا کہ اگر اقوام متحدہ کچھ نہ کر سکی تو یہ خود بھی ختم ہو جائے گی۔ مگر اس بات کا کوئی خاص ڈرامائی اثر نہیں ہو سکا کیونکہ وہاں موجود ہر شخص یہ جانتا ہے کہ اقوام متحدہ بہت پہلے سے ہی ختم ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ اصل میں باتوں کی ایک دکان ہے جہاں چھوٹے ملکوں کے نمائندوں کو خوب شور مچانے اور پر جوش تقاریر کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ انہیں یہ لگے کہ وہ بھی اہم ہیں، جبکہ بڑی قوتیں ہی اصل فیصلے کرتی ہیں۔ ڈیلاٹر جیسا احمق ہی یہ سمجھتا ہو گا کہ اقوام متحدہ کوئی فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔۔۔ ہم بھی یہ قیاس ہی کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتا ہے۔
ترکی اور کرد
شام میں روس کی مداخلت سے حالات فیصلہ کن انداز میں بشارالاسد کے حق میں چلے گئے۔ حلب کی شکست ایک فیصلہ کن موڑ تھا، نہ صرف امریکہ، بلکہ اس کے اتحادیوں خاص کر سعودی عرب کو انتہائی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکیورٹی کونسل میں ہونے والی بحثوں کے دوران واشنگٹن کے نمائندے چیختے اور چنگاڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ غصہ ان کے خصی پن کی علامت ہے، کہ وہ میدان جنگ میں کچھ نہیں کر پائے جہاں کرنا بنتا تھا۔
امریکی حکمران طبقے کا ایک دھڑا جنگ جاری رکھنے کے حق میں تھا، مگر ان کی یہ کوشش ناکام رہی۔ پیوٹن نے ہر قدم پر ان کی چالاکیوں کو ناکام بنا دیا۔ جب روس نے قازقستان(جو اس کی گماشتہ ریاست ہے) میں ایک امن کانفرنس بلائی تو اس میں امریکا اور یورپ کو دعوت تک نہیں دی گئی تھی۔ اور بالآخر تمام شور شرابے کے باوجود امریکہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ماسکو کے کیے گئے فیصلے ماننے پڑے۔
اس میں کسی قسم کا شک باقی نہیں کہ اب روسی شام میں غالب قوت کے طور پر موجود ہیں۔ امریکہ کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا۔ یہ ایک انتہائی کڑوی گولی ہے مگر امریکیوں کو یہ نگلنی ہو گی۔ وہ جھوٹی دلیری دکھانے کے لیے بشارالاسد اور روسیوں کے اقدامات کے خلاف پراپیگنڈے کا کوئی بھی موقع ہاتھ جانے نہیں دیتے۔ حالانکہ انہوں نے خود اپنی حرکتوں سے کوئی زیادہ اچھی اخلاقی مثالیں قائم نہیں کیں۔
داعش کو شام اور عراق دونوں میں شکست ہو چکی ہے۔ اب کچھ وقت ہی باقی ہے کہ بشارالاسد روس اور ایران کی مدد سے باقی ماندہ مخالفین کو بھی با آسانی شکست دے گا۔ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ امریکہ کلورین گیس والے پراپیگنڈے کی آڑ میں کچھ فضائی حملے کر سکتا ہے۔ مگر اس سے جنگ کے حتمی نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جس کا فیصلہ زمینی فوجوں سے ہی ہو گا۔
بہرحال اس سب کے باوجود بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ آگے کیا ہو گا؟ عراق اور شام ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں اور آنے والے وقتوں میں غیر مستحکم ہی رہیں گے۔ ایرانیوں نے پورے خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر لیا ہے اور یہ بات امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ترکی نے عفرین میں کردوں کے خلاف جارحیت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ جو کچھ بھی ہاتھ لگے اس پر قبضہ کر لیں۔
جہادی جنگجو اور دوسرے گروہ جنہیں امریکہ اور یورپ نے دہشت گرد قرار دیا ہے، کردوں کے خلاف ترک فوجوں کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف بشارالاسد کی حمایت یافتہ ایرانی ملیشیا نے ترک گھس بیٹھیوں کے خلاف مزاحمت میں شامی فوج اور کردوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے۔
ماسکو کی بات کی جائے تو وہ بھی شام میں گھناؤنا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ مختلف قوتوں کے درمیان توازن قائم کر تے ہوئے ہمیشہ اپنے مفادات کی تکمیل کی تگ ودو میں رہتا ہے۔ اس نے بشار الاسد کو تو بچا لیا ہے مگر ساتھ ہی ترکی کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف ہے۔ روس کی اجازت کے بغیر یہ بات مشکل لگتی ہے کہ اردوگان شام میں کردوں پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیجتا۔ کوئی شک نہیں کہ روس نے اردوگان سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ ادلب میں شامی اور روسی فوجوں کی کاروائیوں کی مخالفت نہیں کرے گا اور ترکی نے حمایت بھی کی۔ مگر ترکی اس معاہدے پر قائم رہتا ہے یا نہیں یہ بھی ایک سوال ہے۔
روس شام میں جنگ کے دوران ایران کے ساتھ اتحاد میں رہا ہے، مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ شام میں ایران کا اثر و رسوخ حد سے زیادہ بڑھے۔ یہ بھی اس کے ترکی کی جانب مائل ہونے کی ایک وجہ ہے۔ روس کردوں کی مدد کرتا رہا ہے مگر اپنے مفادات کی خاطر وہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچایا۔ شاید پیوٹن کے خیال میں ترکوں کا YPG پر حملہ ان کی امریکہ کے ساتھ چپقلش کا باعث بنے گا۔
ترکی امریکا کا اتحادی مانا جاتا ہے اور نیٹو کا ایک اہم رکن بھی ہے، مگر ترکی اور امریکہ شام میں مخالف قوتوں کی حمایت کر تے رہے۔ یہ بھی واشنگٹن کے لیے درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ اس مخالفت میں ترک روس کے قریب چلے جائیں۔ ایک مرتبہ پھر کردوں کو اندازہ ہو گا کہ سامراجی قوتوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھنا کتنی بڑی بے وقوفی ہے۔
YPG کے پاس بڑی بھاری اسلحہ موجود ہے اور یہ بات ترک فوج کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ اردوگان بڑی تعداد میں ترک فوجی مروانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا جس سے خود ترکی میں شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ اسی لیے ترکی ابھی جہادی گروہوں پر انحصار کر رہا ہے۔ ترکی کے طیارے بمباری کر کے حالات سازگار بناتے ہیں اور پھر یہ گروہ آتے ہیں۔ اور ان کے پیچھے پیچھے ترک فوجیں۔
مگر اس بار شاید ترک حماقت کر بیٹھے ہیں۔ شروع میں ترکی نے دعویٰ کیا کہ عفرین کو فتح کرنے میں کچھ دن ہی لگیں گے۔ مگر یہ ان کے لیے ٹیرھی کھیر ثابت ہو گی۔ کرد جنگ کا تجربہ رکھنے والے لڑاکا ہیں جو اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ شام اور ایران کی مدد سے ممکن ہے کہ وہ اردوگان کو ناکوں چنے چبوانے میں کامیاب ہو جائیں۔ ایسا ہوتا ہے تو شامی کرد بشارالاسد کی بانہوں میں کھنچے چلے جائیں گے، جو غالباً انھیں شام کا حصہ رہنے کی شرط پر خود مختاری دینے پر راضی ہو جائے گا۔ یہ کسی بھی حالت میں اردوگان کی ہاتھوں میں اپنی تقدیر دینے سے کہیں بہتر ہو گا۔
اس طرح شام میں ہونے والی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، جس میں سرحد پار بیٹھی قوتیں اور ان کے مفادات نئی سمتوں کا تعین کریں گے۔مختلف قوتوں کے درمیان اتحاد مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں اور مستقبل میں مزید تبدیل ہوں گے۔ یہ جنگ آنے والے کچھ وقت تک چلتی رہے گی۔ صرف ایک بات یقینی ہے۔ اصل نشانہ، ہمیشہ کی طرح، ایک عرصے سے مصائب میں گھرے شام کے عوام ہی ہوں گے۔