جینا امینی: کرد خاتون کا قتل اور ایران میں تحریک کا جنم

13 ستمبر کو ایرانی ’اخلاقی پولیس‘ نے جینا ایمینی نامی ایک کرد لڑکی کو حراست میں لیا، جو اپنے بھائی کے ساتھ ایرانی کردستان کے شہر سیقیز سے تہران آئی تھی۔ اس کے بھائی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی اور پولیس سے پوچھا: ”ہم یہاں غیر ملکی ہیں، آپ اسے کیوں گرفتار کر رہے ہیں؟“، تو انہوں نے اسے بھی مارا پیٹا۔ اس کے بعد انہوں نے جینا کواس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا جب تک وہ بے ہوش نہیں ہوگئی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا، اور جمعہ 16 ستمبر کو وہ زخموں کی شدت کی وجہ سے انتقال کر گئی۔

[Source]

اس کی موت کے بعد، حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس کی موت بیماری کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ جینا کی والدہ نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے ایک نیوز چینل کے ساتھ فون کال میں کہا: ”میری بیٹی صحت مند تھی، انہوں نے اس کے ساتھ ایسا کیا۔“

”اخلاقی پولیس“ کا عذر یہ ہے کہ اس کا حجاب ”غیر مناسب“ تھا؛ گویا اگر یہ سچ بھی ہے تو جیسے یہ ان عفریتوں کو اس کے قتل کا جواز فراہم کر سکتا ہے۔ ایرانی پولیس مشین کی بربریت سب کو معلوم ہے اور یہ طرز عمل ان کے لیے روز کا معمول ہے۔ ایرانی سیاسی کارکن پوران ناظیمی کا اس پر کہنا تھا کہ:

”میں، ایک ایسے شخص کے طور پر جسے سیکورٹی پولیس نے متعدد بار مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا، ایک سال اور کچھ دن پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ وزیران کی اسی جیل ]جہاں جینا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا[ میں تھی۔ جہاں ہماری توہین اور مار پیٹ کی گئی۔ میں پولیس کو یاد دلاتی ہوں کہ اس جیل میں بہت سے حفاظتی کیمرے ہیں۔ اگر آپ سچ کہہ رہے ہیں تو ان کیمروں کا پورا ریکارڈ شائع کریں تاکہ عوام دیکھ سکے۔“

پوران ناظیمی کے بیان کے بعد ایرانی حکومت نے متاثرہ شخص کی بے ہوش ہونے کی ویڈیو جاری کی۔ اس 01:06 منٹ طویل ویڈیو کا مقصد ان کے الزامات کو سچ ثابت کرنا تھا۔ جینا کے والد نے بعد میں ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ وہ ویڈیو مکمل جھوٹ ہے اور اسے اسٹیج کیا گیا تھا۔ اور اس نے مزید کہا: ”22 سال میں میری بیٹی کو ہلکے پھلکے زکام کے علاوہ کوئی بیماری نہیں ہوئی۔“

منافقت، منافقت اور مزید منافقت

نام نہاد ”کرد آزادی کی جدوجہد کے رہنما“ اس غم و غصے پر بے شرمی سے خاموش تھے۔ کردستان علاقے کے صدر نیروان بارزانی نے برطانیہ میں ملکہ الزبتھ دوم کے سرکاری جنازے میں شرکت کی، وہ نوآبادیاتی طاقت جس نے خطے کے زندہ جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور کئی دہائیوں سے کردوں پر ظلم ڈھانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا، لیکن وہ جینا کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولا!

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جینا کے والد سے کہا: ”آپ کی بیٹی میری بیٹی ہے، اور جو کچھ ہوا مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میرے عزیز کے ساتھ ہوا ہے“۔ یہ وہی رئیسی ہے جس کی کچھ عرصہ پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے ملاقات ہوئی، اور اُس نے اِس کا پرتپاک خیرمقدم کیا تھا کیونکہ انہوں نے ”دہشت گردوں“ (یعنی خاص کر کرد عوام) کے خلاف تعاون کرنے کے معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔

اس کے علاوہ، ریاست ہائے متحدہ کے موجودہ قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان نے ٹویٹ کیا کہ جینا ایمینی کی موت ”ناقابل معافی“ ہے۔

یہ اسی امریکی ریژیم کا نمائندہ ہے جس نے روجاوا میں کردوں کو بیچ دیا تھا: اور اب یہ جرم ناقابل معافی ہے! امریکی سامراج کو دراصل جس چیز کی فکر ہے وہ ان کے اپنے خام اور تنگ نظر مفادات ہیں، کرد عوام اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ایک سانحے سے مزاحمت کے تہوار تک

جینا کی موت کے بعد، ہزاروں لوگوں نے اس کے جنازے میں شرکت کی، جس میں محنت کش خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اور جب ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی امید نہیں ہے، جب جینا کی ماں نے کہا: ”انہوں نے میری بیٹی کو مار ڈالا اور ہم خاموش رہنے پر مجبور ہیں“، تب ایک عوامی تحریک کی دھوپ غم کے بادلوں کو کاٹنے لگی۔

لوگ: بوڑھے، جوان، مرد اور خواتین، کرد انقلابی گیت گانے لگے، اور انہوں نے خوبصورت نعرہ ژن، ژیان، ئازادی، ”عورت، زندگی، آزادی“ کا نعرہ لگانا شروع کیا۔ جینا کی موت کا المیہ اور اس کے خاندان کو خاموش کرنے کی کوشش مزاحمت کے ایک تہوار میں بدل گئی، جو کہ حکومت کے خلاف شدید غصے کی وجہ سے ایک عوامی تحریک میں بدل گئی۔

عام ہڑتال

کردستان کے علاقے (ایران، عراق، ترکی اور شام میں کرد علاقوں) میں عام ہڑتال کی اپیل کی گئی۔ ہڑتال ایرانی علاقوں میں شروع ہوئی، اور یہ بہت کامیاب رہی۔ دکانیں بند ہیں، گلیاں خالی ہیں، اور ورکرز کام پر نہیں جا رہے۔

یہ ایک بہت اہم پیشرفت ہے۔ جیسا کہ لینن نے کہا تھا: ”ہر ہڑتال محنت کش کے ذہن میں سوشلزم کے خیالات، سرمائے کے جبر سے نجات کے لیے پورے محنت کش طبقے کی جدوجہد کی سوچ لاتی ہے۔ ”ہڑتال مزدوروں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ پورے معاشرے کی متحرک قوت ہیں۔ اور اگر وہ کام کرنا چھوڑ دیں تو پورا معاشرہ ان کے ساتھ رُک جاتا ہے۔ یہ معروضی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ حکمران طبقہ اور اس کے نمائندے محض طفیلی ہیں اور جو چیز دولت بناتی ہے اور مشینیں، ٹرک اور ٹرینیں چلاتی ہے وہ مزدور ہیں۔ یہ طاقت کا سوال بھی سامنے لاتا ہے۔ اس سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہاں حکمرانی کون کرے گا؟

لیکن ساتھ ہی، صرف یہی اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ایک ایسی انقلابی قیادت کی ضرورت ہے جو ورکرز کی صفوں کو منظم کر سکے اور انہیں سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے باقی محنت کشوں کی حمایت حاصل کر نے میں مدد کر سکے۔

اگر عوام کی نظروں میں معتبرانقلابی قیادت موجود ہوتی تو یہ ہڑتال تمام بڑے شہروں میں بیک وقت ہوتی۔ اس میں خطے کے تمام محنت کشوں خصوصاً ایران اور ترکی میں نہ صرف کردوں بلکہ ان سب پر ظلم کرنے والے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دینی چاہیے تھی۔ یہ حکومت کے لیے ایک مہلک دھچکا ہو سکتا تھا۔

یہ آگ بجھنے والی نہیں!

جینا کے قتل کی چنگاری نے ایک مشعل کو بھڑکا دیا جس کی آگ اب بجھنے والی نہیں، یہ انقلاب کی مشعل ہے۔ اس طرح اگر موجودہ تحریک ختم بھی ہو جائے تو اس کا سبق رائیگاں نہیں جائے گا، بلکہ پورے خطے کے ہزاروں محنت کشوں کیلئے مشعل راہ بنے گا۔

اس تحریک نے ہمیں پہلے ہی کئی قیمتی اسباق دیے ہیں۔ اس نے ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت دکھائی ہے۔ اس نے ہمیں سکھایا ہے کہ عوام صرف اپنی طاقت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ نہ آزادی پسند اور نہ ہی سامراجی طاقتیں ظلم اور ناانصافی کے خاتمے میں کوئی حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں، اور نہ ہی ان میں اس کی کوئی خواہش اور صلاحیت ہے، یہ صرف محنت کش طبقے کا ہی مفاد ہے اور وہی یہ کر سکتا ہے۔

آگے بڑھنے کا واحد راستہ محنت کش طبقے کے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے انقلابی جدوجہد ہے، یعنی عام ہڑتال اور انقلابی بغاوت۔ ہمیں اپنے بھائیوں اور بہنوں؛ خطے کے محنت کشوں؛ عربیوں، ترکوں اور ایرانیوں کو دعوت دینی چاہئیے کہ ہم سب پر ظلم کرنے والی سرمایہ دارانہ حکومتوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریں۔

پوری دنیا کے محنت کشوں کے مفادات یکساں ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سامراج اور خطے (ایران، عراق، ترکی اور شام) میں رائج حکومتیں کردوں پر ظلم کر رہے ہیں، لیکن کرد ایک متحد بلاک نہیں ہیں۔ خواہ ان ممالک میں ہو یا خود کردوں میں، متضاد مفادات کے حامل مختلف طبقات موجود ہیں۔

کرد عوام کو محنت کش طبقے کی بنیادوں پر مبنی پروگرام اور خطے کے تمام محنت کشوں اور نوجوانوں سے برادرانہ اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہم پورے مشرق وسطیٰ میں سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک سکتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ یہ نعرہ بلند کرنا چاہیے: ”دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!‘۔

جینا کی شہادت نے ہمیں وہ سبق سکھایا ہے جو ہمیں برسوں پہلے سیکھنا چاہیے تھا: کہ تمام حکمران طبقوں کے مفادات ایک جیسے ہیں، ہمارے ساتھ جو بہادر لوگ کھڑے ہیں وہ صرف محنت کش ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر کی ویڈیوز میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہزاروں عام لوگ اسلامی جمہوریہ کا سامنا کرنے کے لیے بے خوف کھڑے ہیں۔ یہ جرات ہماری جدوجہد کا راستہ ہونا چاہئیے۔

لیکن ہم غلط ہوں گے اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ تحریک، تنہا اور اکیلے، ایرانی حکومت کو مستقل طور پر تباہ کرسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ عوام کی کچھ پرتیں متحرک ہو رہی ہیں، لیکن صرف یہ فتح کی ضمانت نہیں دے گا۔ ٹراٹسکی نے ایک بار کہا تھا کہ: ”ایک رہنمائی کرنے والی انقلابی تنظیم کے بغیر، عوام کی توانائی اُس بھاپ کی طرح ضائع ہوجائے گی جو پسٹن کے ڈبے میں بند نہیں ہوتی۔ بہر حال جو شے چیزوں کو حرکت دیتی ہے وہ پسٹن یا ڈبہ نہیں بلکہ بھاپ ہے۔“

ہمیں ان جدوجہدوں اور قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہئیے۔ ہمیں اس جرم کو سزا کے بغیر نہیں جانے دینا چاہئیے۔ اس لیے ہمیں ایک ایسی انقلابی قیادت تیار کرنی ہوگی جو خطے کے محنت کشوں کو ان خونخوار، آمرانہ سرمایہ دارانہ حکومتوں کا تختہ اُلٹ سکے اور ایک سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل کر سکے جہاں خطے کے تمام لوگ پُرامن ہم آہنگی اور باہمی تعاون سے رہ سکیں۔

ژن، ژیان، ئازادی!
کرد عوام کی جدوجہد زندہ باد!
محنت کش طبقے کی جدوجہد زندہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد، آمریت مردہ باد!