پیپسی کولا فیکٹری فیصل آباد کے محنت کش گذشتہ روز 29 جنوری کو اس وقت ہڑتال پر چلے گئے جب ان کے 3 ساتھی محنت کشوں کو انتظامیہ کی جانب سے بغیر کوئی وجہ بتائے، بغیر کسی پیشگی نوٹس کے نوکری سے برخاست کردیا۔ اصل میں یہ تینوں محنت کش تنخواہوں اور دیہاڑی میں اضافہ کیلئے سرگرم تھے، جو ایک طرف محنت کشوں کو تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ کرنے کی اپیل کرتے تھے تو دوسری جانب انتظامیہ کے سامنے اس مطالبہ کو رکھتے تھے۔ اس نام نہاد ملٹی نیشنل کمپنی کے مزدوروں کو نہ تو مستقل روزگار کی سہولت موجود ہے نہ دوسری مراعات۔ چند ماہ قبل اسی فیکٹری کی انتظامیہ نے کئی سالوں سے کام کرتے آرہے مزدوروں کو حیلے بہانوں سے مکالنا شروع کردیا جس کے خلاف محنت کشوں میں شدید غم وغصہ موجود تھا۔ کئی ملازمین جو کہ مستقل ہونے والے تھے ان کو نکال باہر کیا گیا۔
پیپسی کولا، جو کہ اربوں روپے سالانہ یہاں سے بٹور تی ہے، میں کام کرنے والے محنت کشوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قانون کے رکھوالے لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے لیبر قوانین کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور انتظامیہ کے ٹاؤٹ لیبر ٹھیکیدار کے ذریعے بھرتی کئے جاتے ہیں سو مستقل روزگار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یونین سازی تو ویسے ہی شجرِ ممنوعہ بنا دی گئی ہے۔ EOBIاور سوشل سیکیورٹی بھی ان مزدوروں کے لئے کسی اور سیارے کی بات معلوم ہوتی ہے۔ بارہ بارہ گھنٹے سے زائد کام لیا جاتا ہے۔ محنت کشوں کی اکثریت ڈیلی ویجر پر کام کرتی ہے۔ کبھی ان کو دیہاڑی ادا کی جاتی ہے تو کبھی نہیں۔ درحقیقت پیپسی کی ہر بوتل میں مشروب نہیں بلکہ ان مزدوروں کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے جن پر جبر اور استحصال کی انتہا کردی گئی ہے۔Pepsi-Litre of Light جیسے اشتہارات کے ذریعے لوگوں کے گھروں کوروشن کرنے کی دعویدار یہ ملٹی نیشنل ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہزاروں محنت کشوں کی زندگیاں اندھیر کرکے منافعوں کے انبار لگا رہی ہے۔ یہی حالات اس وقت پاکستان بھر کی نجی صنعتوں میں کام کرنے والے باقی مزدوروں کے بھی جن کا استحصال کرکے ارب پتیوں کی دولت میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ہڑتال کے دوران محنت کشوں کا بنیادی مطالبہ اپنے برطرف کیے گئے ساتھیوں کی بحالی تھا۔ لگ بھگ 250 مزدوروں نے ہڑتال میں حصہ لیا جس کے باعث فیکٹری آپریشن مکمل طور پر بند رہا۔ گذشتہ رات مزدوروں نے فیکٹری کے گیٹ کے باہر شدید سردی میں دھرنا دئیے رکھا جس کو ختم کرانے کیلئے مقامی پولیس اور فیکٹری انتظامیہ نے کئی گھناؤنے حربے آزمائے جن میں مزدورں کے اوپر سامان سے لدا ٹرک چڑھا دینے کی دھمکی بھی شامل تھی۔ لیکن محنت کش شیروں کی طرح ڈٹے رہے۔ اس دوران انتظامیہ کے کچھ نمائندے ’مذاکرات‘ کیلئے بھی آئے اور مختلف حیلوں بہانوں سے محنت کشوں کو اپنے مطالبے سے دستبرداری کا کہتے رہے۔ اس دوران مقامی پولیس کی مزید نفری بھی مالکان نے طلب کی جس کا واحد مقصد محنت کشوں کو ڈرانا تھا۔ لیکن انتظامیہ کے نمائندوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اس دوران ریڈ ورکر فرنٹ کے کامریڈز مزدوروں کی یکجہتی کے لئے شانہ بشانہ موجود رہے اور اپنی تقریروں سے ان کے جذبے گرماتے رہے۔ رات گئے مزدوروں کی مشاورتی کمیٹی کی جانب سے تمام محنت کشوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ کل صبح دوبارہ فیکٹری گیٹ کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔
آج 30 جنوری صبح 10 بجے دھرنا دوبارہ شروع ہوا۔ اس دوران محنت کشوں کا ولولہ دیدنی تھا۔ محنت کشوں نے انتظامیہ و مالکان کے خلاف خوب نعرہ بازے کی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتظامیہ کے نمائندگان رات کی تاریکی میں کئی محنت کشوں کے گھروں میں جا کر لالچ بھی دیتے رہے لیکن محنت کشوں نے ان کے ٹکڑوں کو لات مارتے ہوئے طبقاتی وحدت کا ثبوت دیا۔
آخر کار انتظامیہ کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور برخاست محنت کشوں کو فوری بحال کرنا پڑا جبکہ تنخواہوں میں اضافہ کے متعلق انتظامیہ نے مارچ تک کی مہلت مانگی جس کے بعد باہمی مشورے سے محنت کشوں نے ہڑتال ختم کردی۔ ہڑتال کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اپنے برطرف مزدوروں کو بحال کروانے کے ساتھ مزدوروں نے مطالبہ کیا کہ ہڑتال کے ان دو دنوں کی اجرت بھی ادا کی جائے جو کہ فیکٹری انتظامیہ کو ماننا پڑا۔
اس دوران ریڈ ورکر فرنٹ کے کامریڈز وسیع پیمانے پر محنت کشوں کی حمایت جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اس ہڑتال میں باقی صنعتوں کے محنت کشوں کیلئے امید کی کرن ہے کہ صرف اور صرف طبقاتی جڑت سے ہی مالکان کو گھٹنے ٹیکنے اور اپنا حق لینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔