بورس جانسن نے کل(24جولائی) 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں برطانیہ کے نئے نویلے وزیراعظم کے طور پر اپنی جگہ سنبھال لی۔ اس کی وزارت عظمیٰ کا دور گہرے بحران اور شدید طبقاتی جدوجہد سے عبارت ہو گا۔
[Source]
جانسن کو اپنے اس نئے عہدے کے لیے ٹوری پارٹی کے رجعتی دھڑوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس 1لاکھ60ہزار کے ہجوم میں سے دو تہائی نے اسے بے یار و مددگار تھریسا مے کی جگہ کنزرویٹو پارٹی کا سربراہ اور وزیراعظم چن لیا۔ حالیہ رائے شماریوں کے مطابق اس انتہائی دائیں بازو کے ٹولے کے سر پر ایک ہی چیز سوار ہے: بریگزٹ، ایک ایسا مقصد جس سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔
یہ اس پارٹی کی متعصب بنیادیں ہی ہیں جن کے بل بوتے پر جانسن 31 اکتوبر تک برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی بات کر رہا ہے۔ اس سے بڑے سرمایہ داروں میں دہشت کی لہر دوڑ گئی ہے، وہ بغیر معاہدے کے بریگزٹ کو حادثے سے قبل قریب آتی ہوئی ہوئی ٹرین کی طرح دیکھ رہے ہیں۔
لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کی کوشش تھی کہ بورس کو قابو کر کے کنزرویٹو پارٹی میں موجود زیادہ ”ہوش مند“ شخصیات کو تقویت دی جائے۔ مگر اب ”ہوش مند“ لوگوں کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مسخروں نے دربار پر قبضہ کر لیا ہے، یہ بات اس وقت بالکل واضح ہو جائے گی جب جانسن بریگزٹ کے جنونی حامیوں پر مشتمل اپنی کابینہ کا اعلان کرے گا۔
صرف ایک مسخرہ ہی نہیں
لیکن بورس جانسن صرف ایک مسخرہ ہی نہیں ہے۔ اس کا رجعتی نسل پرستانہ منشور اس کی سیاسی چال ڈھال اور آس پاس کے لوگوں سے واضح ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے ٹوری پارٹی کا لیڈر منتخب ہونے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبارک باد کے پیغامات ہی دیکھ لیں۔
اگر جنگی جنون، امیروں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور محنت کشوں اور مہاجروں پر حملوں کی بات ہو تو جانسن اور ٹرمپ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ بورس کے ”ملک کو متحد“ کرنے کے دعوؤں کے باوجود اس کا پروگرام سرمایہ داروں، بینکاروں اور تارکین وطن مخالف متعصب افراد کو ایک جانب لا کھڑا کرے گا اور محنت کشوں، نوجوانوں، غریبوں اور مظلوموں کو دوسری جانب۔
بورس کی جیت حکمران طبقے کے لیے بڑی تشویش کی بات ہے۔ یہ ٹوری پارٹی پر ان کی گرفت ختم ہونے کی علامت ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کی تاریخی محافظ تھی۔ اب ان کا مرکزی سیاسی نمائندہ وہ شخص ہے جو بریگزٹ کے معاملے میں کاروبار کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق تشویش کے اظہار پر کہتا ہے: ”کاروبار کی ایسی کی تیسی“۔
وزیراعظم کاربن
سرمایہ داروں کے دلوں میں حقیقی خوف وزیراعظم جانسن کا نہیں بلکہ اس امکان کا ہے کہ مستقبل قریب میں ہی انہیں جیرمی کاربن وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھا دکھائی دے گا۔
لہٰذا ایک طرف وہ عام انتخابات کو ٹالنے کی خواہش رکھتے ہیں اور دوسری طرف ان بلیرائٹس کی طرف سے جیرمی کاربن کے خلاف یہود مخالف ہونے کی مہم چلائی جارہی ہے، جو لیبر پارٹی میں سرمایہ داروں کے نمائندے ہیں۔
لیکن حکمران طبقے کی بدقسمتی یہ ہے کہ اب حالات کا تعین وہ نہیں کر رہے۔ مفلوج پارلیمان کو دیکھتے ہوئے تعطل ختم کرنے کی غرض سے بورس فوری انتخابات کروانے پر بھی مجبور ہو سکتا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ نئے ٹوری لیڈر کے اپنے ہی ساتھی جو یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ہیں، وہ بھی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اس کا کام تمام کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سب درہم برہم ہو جائے گا۔
اس دوران لیبر کا دایاں بازو جتنا چاہے کاربن کے خلاف سازشیں کر لے، لیکن لیبر پارٹی میں اس کی اپنی صورتحال خراب دکھائی دے رہی ہے۔ ان میں سے بہت سے موقع پرست غنڈے اگلے چند ہفتوں میں ہونے والے ”ٹریگر بیلٹ“ (پارٹی کی طرف سے دوبارہ چناؤ) میں اپنی سیٹیں گنوانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
عام لیبر اراکین کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بلیرائٹس کو نکال باہر کرنا ہوگا۔ اگر ہم ان بہروپیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتے تو اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر یہ اگلے عام انتخابات کے دوران لیبر کی کامیابی میں رکاوٹیں ڈال سکتے ہیں، یا پھر اس سے بھی بری صورتحال تب ہوگی جب کاربن کی حکومت بننے کے بعد یہ اسے گرانے کی کوشش کریں گے۔
ٹوری جاوے! کاربن آوے!
بورس کی طرف واپس آتے ہیں۔ ہم برطانیہ کے نئے ٹوری وزیراعظم کو لمحہ بھر کے لیے بھی سکون کا سانس لینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہزاروں لوگ پہلے ہی لندن کی گلیوں میں نکل آئے ہیں اور وہ جانسن کے اپنے الفاظ ہی دہرا رہے ہیں: بورس کی ایسی کی تیسی۔
آج(25جولائی) ہزاروں اور لوگ بھی پارلیمان کے باہر لیبر کی طرف سے عام انتخابات کے مطالبے پر کی جانے والی ریلی میں شامل ہوں گے۔ یہ درست مطالبہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے؟ ہم عام انتخابات کیسے کروا سکتے ہیں؟
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، بورس اور ٹوری پارٹی عام انتخابات ہماری جھولی میں نہیں ڈالنے والے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اپنے بہت سے ساتھی کنزرویٹو ممبران پارلیمان کی طرح جانسن کو خود بھی اپنی دارالعوام کی سیٹ چھن جانے کا خوف ہے۔
آکسبرج اور جنوبی روئیسلپ کے ممبر پارلیمان (بورس) کے پاس اپنے حلقے میں پانچ ہزار کی معمولی برتری ہے، جس پر مقامی لیبر کارکنان کی نظر ہے، اسی لیے انہوں نے پچھلے ہفتے کے اختتام پر پرجوش”بورس کو ہٹاؤ“ مہم کا دن منایا۔ یہ بالکل ممکن ہے، اور اس طرح جانسن وہ پہلا وزیراعظم ہو گا جو پارلیمان سے ہی نکالا جائے گا۔
آکسبرج میں نظر آنے والے جوش اور تحرک کو پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ لیبر کو محض عام انتخابات کا مطالبہ ہی نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے یقینی بنانے کے لیے ریلیوں اور جلسوں کی ایک پوری مہم چلانی چاہیے اور پورے برطانیہ کے تمام شہروں اور قصبوں میں اس پیغام کو گھر گھر لے کر جانا چاہیے۔
ٹریڈ یونینوں کو بھی اس مہم کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے ممبران کی مدد سے منظم ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہیے، جن میں سے بہت سے پہلے ہی ٹوری حکومت کے خلاف تنخواہوں، پنشنوں اور عوامی سہولیات کی خاطر لڑ رہے ہیں۔
اگر اس طرح مزدور تحریک کو اتنے بڑے پیمانے پر متحرک کیا جائے تو بورس کی کمزور اور ناپائیدار حکومت دو ہفتے بھی نہیں ٹک سکے گی۔
بورس جانسن کو ہٹانے کا امکان بذات خود عوامی تحریک شروع کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ محنت کشوں، نوجوانوں اور عوام کو متحرک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لیبر ٹوری پارٹی کی کٹوتیوں اور حملوں کا ایک مثبت متبادل پیش کرے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر کارکنوں اور ووٹروں کو ایک بے باک سوشلسٹ پروگرام اور ایک سوشلسٹ لیبر حکومت کا وعدے کے گرد متحرک کیا جائے۔