ترکی کے روزنامہ برگن نے ’مارکسزم کے دفاع میں‘ ویب سائٹ کے ادارتی بورڈ کے ممبر جارج مارٹن کا پیرو میں ہونے والی حالیہ دھماکہ خیز پیش رفت کے بارے میں انٹرویو کیا۔ کانگریس میں ہونے والے کُو کے نتیجے میں بائیں بازو کے صدر پیدرو کاستیلو کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس اقدام نے ایک عوامی احتجاجی تحریک کو جنم دیا ہے، جس کی قیادت مزدور اور غریب کسان کر رہے ہیں۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مارٹن نے حال ہی میں برگن سے بات کی۔ سرمایہ دار طبقہ، بینک، میڈیا، جاگیردار اور ملٹی نیشنل مائننگ کمپنیوں کے نمائندے اس مقبول شخصیت کو بحیثیت صدر قبول نہ کر سکے۔ تاہم، رعایتیں دے کر کاستیلو کی سمجھوتہ کرنے کی کوشش حکمران طبقے کو مطمئن نہیں کر سکی۔ لیکن دوسری طرف، بایاں بازو کاستیلو کی طرف سے دی گئی رعایتوں سے سخت مایوس ہوا۔
پیرو میں سیاسی بحران اور احتجاج جاری ہے، جو 7 دسمبر کو کانگریس کی جانب سے بائیں بازو کے صدر پیدرو کاستیلو کو برطرف کیے جانے کے بعد شروع ہوئے تھے۔ مظاہروں میں شدت آنے کے بعد، خاص طور پر ملک کے جنوب میں، اندوہیلاس ائیرپورٹ کو پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ سابق صدر کاستیلو، جن کا پارلیمنٹ نے مواخذہ کیا تھا، جیل میں قید ہیں۔ ملک کی تازہ ترین پیش رفت، بحران اور کانگریس کُو پر بات کرنے کے لیے ہم نے جارج مارٹن سے بات کی۔
پیرو میں کانگریسی کُو کے پیچھے کون ہے؟
یہ واضح ہے کہ صدر پیدرو کاستیلو کو ہٹانا دائیں بازو، کانفییپ (سرمایہ داروں کی تنظیم)، بین الاقوامی کان کن کمپنیوں، بورژوا میڈیا، فوج اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ او اے ایس (امریکی ممالک کی آرگنائزیشن) اور امریکی سفارت خانے کا کام ہے۔ انہوں نے کاستیلو کی اپنی کابینہ کے نائب صدر سمیت اراکین کی حمایت پر بھی اعتماد کیا۔
کاستیلو اپنے عہدے کے آغاز سے ہی پیرو کی اولیگارکی (Oligarchy) کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ کیا آپ اس عمل کا خلاصہ کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے کاستیلو کی گرفتاری ہوئی؟
شروع سے ہی پیرو کا سرمایہ دار طبقہ یہ قبول نہیں کر سکتا تھا کہ دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک مزدور رہنما اور پیشے سے استاد ملک چلا رہا ہے۔ انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا، اس کے وزراء اور وزیر اعظم پر حملہ کیا، عدلیہ کا استعمال کیا، اور کانگریس میں مواخذے کی تین تحریکیں پیش کیں، جہاں اس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ آخر کار 7 دسمبر کو کانگریس کے سامنے مواخذے کی ایک نئی تحریک پیش کی گئی۔ اسی دن، کاستیلو نے ایک تقریر میں بتایا کہ دائیں بازو نے اسے حکومت سے روکنے کے لیے کیا حربے استعمال کیے، اور کانگریس کو بند کرنے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ یہ اولیگارکی کے لیے بہت خطرناک تھا کیونکہ موجودہ اداروں میں کانگریس ان کی حمایت کا بنیادی نقطہ تھی۔ وہ یہ بات قبول نہیں کر سکتے تھے۔
انہوں نے کیا کیا؟
انہوں نے عدلیہ کے ذریعے فوری کاروائی کی، صدر پر ”بغاوت“ کا الزام لگایا اور ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ فوج اور پولیس نے ان کا ساتھ دیا۔ صدر کو ان کے اپنے سکیورٹی گارڈز نے گرفتار کیا جب وہ میکسیکو یا ارجنٹائن کے سفارت خانے جا رہے تھے۔ نائب صدر سمیت ان کے اتحادیوں نے انہیں چھوڑ دیا۔ کانگریس نے اجلاس بلایا اور اسے ”مستقل اخلاقی نااہلی“ کی بنیاد پر برخاست کرنے کے لیے ووٹ دیا۔ کُو کامیاب ہو گیا۔
بائیں بازو کی حکومت کی مخالفت کس نے اور کیوں کی؟
کاستیلو کو پیرو لیبرے (Peru Libre) میں اس نعرے کے ساتھ نامزد کیا گیا تھا: ’امیر ملک میں پھر کبھی غریب لوگ نہیں‘۔ اس کے پروگرام میں گیس کو قومی تحویل میں لینا اور بین الاقوامی کان کن کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید شامل تھی۔ اسے خاص طور پر محنت کش طبقے اور غریب کسانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، جو روایتی طور پر اقتدار سے باہر تھے۔ کاستیلو کی مہم نے سامراجی مفادات سے منسلک لیما میں حکمران طبقے کی اشرافیہ کے خلاف مقامی لوگوں کی بغاوت کی بھی نمائندگی کی۔ پیرو کا سرمایہ دار طبقہ-بینکوں کے مالکان، میڈیا، ملٹی نیشنل کان کن کمپنیوں سے قریبی تعلق رکھنے والے (بشمول چینی کمپنیاں)-اس بات کو ہضم نہیں کر سکتا تھا کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص صدر مملکت ہے۔
کیا کاستیلو کی جانب سے حکمران طبقے کو دی گئی مراعات کافی نہیں تھیں؟
ٹھوس پالیسی کے لحاظ سے کاستیلو پہلے ہی دائیں بازو اور حکمران طبقے کے دباؤ میں آ گیا تھا۔ اس نے بائیں بازو کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھنے والے وزراء کو ہٹایا، امریکہ کا دورہ کیا، بین الاقوامی کان کن کمپنیوں کو یقین دہانی کروائی اور مزدوروں کے حقوق سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے باوجود اولیگارکی کو اسے ہٹا کر یہ واضح کرنا تھا کہ ملک پرحقیقی حکومت کون کرتا ہے۔ کاستیلو کے پاس پارلیمانی اکثریت نہیں تھی اور اس لیے اسے شروع سے ہی اپنی بنیاد پارلیمنٹ کے باہر مزدوروں اور غریب کسانوں کی متحرک پرتوں میں بنانی چاہیئے تھی۔ اس کے بجائے، اس نے سوچا کہ حکمران طبقے کو مراعات دے کر وہ اپنے لیے کچھ رعایت حاصل کر لے گا۔
کاستیلو کو ”بدعنوانی، بے ضابطگی اور بدانتظامی“ کے الزامات پر اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
ان الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ درحقیقت، چونکہ وہ کچھ بھی ثابت نہیں کر سکے، اس لیے آخر کار انہوں نے ”مستقل اخلاقی نا اہلی“ کے الزام کا سہارا لیا، جس کا مطلب کچھ بھی ہو سکتا ہے اور جس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
بائیں بازو اور عوام پر اس کُو کا کیا اثر ہوا؟
ابتدائی طور پر بائیں بازو میں بوکھلاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ پیرو لیبرے اور اساتذہ کے بلاک کی اکثریت نے کاستیلو کی برطرفی کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ بورژوازی کی رائے کے دباؤ میں آئے اور ہار مان گئے۔ صورتحال بھی غیر یقینی تھی کیونکہ صدر عوام کو متحرک کرنے کی بجائے موقع سے فرار ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ اس کی جانب سے حکمران طبقے کو دی گئی مراعات اور سمجھوتوں سے مایوس ہوگئے تھے۔ لیکن بہت جلد صورتحال میں تبدیلی آئی۔ کانگریس کے انتہائی دائیں بازو کے ارکان کی نئے صدر کو مکمل حمایت دینے کی تصاویر نے مزدوروں اور کسانوں کے غصے کو جنم دیا۔ احتجاج اسی دن یعنی 7 دسمبر کو شروع ہوئے اور کچھ ہی دنوں میں دارالحکومت لیما کے ساتھ ساتھ غریب صوبوں کی طرف بڑھنا شروع ہوئے۔
بائیں بازو اور مارکسی جماعتوں نے یہ بیانات دیے: ”اصل کُو عوام کے خلاف کیا گیا“۔ پیرو کے حالات کس جانب بڑھ رہے ہیں؟
کئی تنظیمیں اب عوام سے سڑکوں پر نکلنے کا مطالبہ کر رہی ہیں، بشمول پیرو لیبرے، ملک کی مرکزی ٹریڈ یونین فیڈریشن سی جی ٹی پی، اساتذہ کی یونین فیناٹیپیرو، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، کسان تنظیمیں وغیرہ۔ کچھ علاقوں میں 12 دسمبرکو ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔ جبکہ 15 دسمبر کو ملک گیر ہڑتال ہوگی۔
یہ احتجاج کس پیمانے کے ہیں؟
دارالحکومت میں ہونے والے احتجاج اب تک زیادہ بڑے نہیں ہیں۔ صوبوں میں صورتحال مختلف ہے۔ مظاہرے جنوب اور اینڈین کے علاقوں کے ساتھ ساتھ کاجامارکا میں بھی پھیل رہے ہیں، جہاں سے صدر کا تعلق ہے۔ پین امریکی ہائی وے پر سڑکوں کو بلاک کیا گیا ہے۔ کچھ جگہوں پر، جیسے کہ انداہوئیلاس، پولیس افسران کو پکڑنے اور مقامی ہوائی اڈے پر قبضہ کرکے تحریک عوامی بغاوت کی شکل میں تبدیل ہو گئی ہے۔
سرمایہ داروں کی بولوارٹ کی صدارت کی ’تصدیق‘ کے پیچھے کیا وجہ ہے؟
ڈینا بولوارٹ حکمران طبقے کے لیے کارآمد تھی تاکہ کُو کو آئینی جواز فراہم کیا جا سکے۔ صدر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تو نائب صدر نے عہدہ سنبھال لیا۔ لیکن یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ دایاں بازو بولوارٹ کے خلاف ہو جائے گا تاکہ وہ اپنی پسند کے شخص کو صدر مقرر کرے۔ دائیں بازو کے سیاسی گروپوں کی جانب سے نئے انتخابات کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں (جو ان کے خیال میں وہ جیت سکتے ہیں)۔ بولوارٹ کو کانگریس میں بہت کم حمایت حاصل ہے، اس لیے وہ صرف سرمایہ دار طبقے کی کٹھ پتلی ہی رہے گی۔
کاستیلو کا مستقبل کیا ہوگا؟
پیرو کا سرمایہ دار طبقہ شاید اسے جیل میں رکھنا پسند کرے گا۔ انہیں خطرہ یہ ہے کہ اس کی گرفتاری تحریک کو مزید تیز کرتی ہے۔ اس وقت عوامی تحریک کے اہم مطالبات ہیں: کاستیلو کی رہائی، کانگریس کی تحلیل، نئے انتخابات اور آئین ساز اسمبلی۔
پیرو جیسی صورتحال برازیل، بولیویا، ہانڈوراس اور پیراگائے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا بائیں بازو کے دوسرے لیڈروں کو بھی ایسا ہی خطرہ ہے؟
یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ کاستیلو کی رہائی کا انحصار عوامی تحریک کی طاقت پر ہے۔ پیرو میں واضح طور پر سامنے آنے والا سوال یہ ہے کہ ”ملک کون چلاتا ہے؟“ کیا مزدوروں اور کسانوں کی جمہوری اکثریت رائے اصل طاقت ہے یا غیر منتخب، طفیلی، سرمایہ دار طبقے اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کی مرضی؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سوال ایک دستور ساز اسمبلی سے بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ایکواڈور اور بولیویا میں حالیہ برسوں میں آئین ساز اسمبلیاں اور نئے آئین بنے ہیں، لیکن سرمایہ دارطبقے کی معاشی اور سیاسی طاقت برقرار ہے۔ سوال صرف سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کا نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر طاقت کے توازن اور معیشت کی ملکیت کو محنت کش عوام کے حق میں تبدیل کرنے کا ہے۔