لینن نے ایک بار کہا تھا ”جنگ ایک خوفناک چیز ہے؟ ہاں، لیکن یہ ایک بہت منافع بخش چیز ہے“۔ مختلف سامراجی ممالک کے مابین موجودہ تنازعات اور پراکسی جنگوں کی شدت ایک بار پھر لینن کو بالکل درست ثابت کر رہی ہے۔ جبکہ ہزاروں لوگ غزہ، یوکرین، کانگو، سوڈان اور دیگر جگہوں پر قتل ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر دفاعی اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں، چند سرمایہ دار اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ مزدور طبقہ اس مہلک خرچ کی قیمت چکا رہا ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اہم سامراجی طاقتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات اور نئی پراکسی جنگوں نے سرمایہ دارانہ حکومتوں کو فوجی اخراجات کو بے مثال حد تک بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 2022ء میں عالمی فوجی اخراجات میں 3.7 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 2.24 ٹریلین ڈالر کی نئی بلندی پر پہنچ گیا۔ نیٹو اتحادیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے کم از کم 2 فیصد تک بڑھائیں اور تمام رکن ممالک اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سارا ٹیکس دہندہ کا پیسہ کس کے پاس جا رہا ہے؟
فنانشل ٹائمز کے مطابق، 2026ء میں 15 سب سے بڑے اسلحہ ساز (جنہیں ’دفاعی ٹھیکیدار‘ کہا جاتا ہے) کی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ وہ 52 بلین ڈالر کا منافع کمائیں گے اور اس میں سے نصف سے زیادہ منافع پانچ امریکی کمپنیاں (لاک ہیڈ مارٹن، آر ٹی ایکس، نارتھروپ گرومین، بوئنگ، اور جنرل ڈائنامکس) کما رہی ہیں۔“
یورپ کی دفاعی کمپنیوں کے سٹاک میں 2023ء میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ایسی کمپنیوں، جیسے کہ اسیلسان (Aselsan)، ہندوستان ایروناٹکس (Hindustan Aeronautics) اور رہائنمیٹل (Rheinmetall) کے حصص 2022ء کے بعد سے 340 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ سرمایہ دار اپنی نام نہاد اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر رہے ہیں تاکہ وہ اس جنگی منافعے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ایک دفاعی صنعت کے پیداکار نے کہا: ”کچھ مہینے پہلے لوگ ہم پر پابندی عائد کرنا چاہتے تھے، کہتے تھے کہ یہ صنعت بہت بری ہے۔ اب دنیا بالکل بدل گئی ہے۔“
یہ کمپنیاں مغربی حکومتوں کے ساتھ منافع بخش معاہدے کر رہی ہیں تاکہ یوکرین، اسرائیل اور تائیوان کو اسلحہ مہیا کیا جا سکے، ساتھ ہی اپنے ملکوں کے فوجی ذخائر کو دوبارہ بھرا جا سکے اور اپنی فوجوں کو مضبوط کیا جا سکے۔ یہ نئے ٹینک، میزائل اور گولے غزہ، لبنان، ڈونباس، یا کیف کے غریب لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، یا پھر بہترین صورت میں، امریکی یا مغربی یورپ کے فوجی گوداموں میں زنگ آلود ہو کر سڑ رہے ہیں۔
تاہم، ان حیرت انگیز اعداد و شمار کے باوجود صنعتی پیداوار میں واقعی اضافہ نہیں ہو رہا۔ یورپ کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے پاس 300 ارب ڈالر سے زیادہ کے آرڈرز کا بیک لاگ ہے اور انہیں اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔
کیوں؟ سرمایہ دار صنعتی صلاحیت میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں، جیسے کہ ”سپلائی چین کی مسلسل رکاوٹیں اور مزدوروں کی کمی“ یا اس خوف کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ مانگ ایک وقت کے بعد کم ہو جائے گی۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، ایک دفاعی مشیر نے کہا، ”سیاست تبدیل ہو سکتی ہے، سیکیورٹی کے اندازے تبدیل ہو سکتے ہیں اور اسی طرح دفاعی مانگ بھی۔“ تو کہاں گئیں ان کی ’کاروباری خطرات مول لینے‘ کی باتیں؟
در حقیقت، بڑے پیمانے پر اسلحے کا ذخیرہ کرنا اور نئی، وحشیانہ جنگیں معمول بنتی جا رہی ہیں کیونکہ سامراجی گروہوں کے درمیان منڈیوں اور اثر و رسوخ کے دائرے کے لیے مقابلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ نئی تباہ کن ٹیکنالوجی کی پیداوار بڑھا کر یقیناً منافع کمایا جا سکتا ہے، لیکن پیسہ کمانے کے اور بھی آسان طریقے موجود ہیں۔
اگر اس رقم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ پیداوار میں لگایا جا رہا ہے تو باقی پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اس کا جواب ایک سنیچر کنسلٹنٹ نے دیا: ”کمپنیاں عموماً اپنی بیلنس شیٹ پر بڑی مقدار میں نقد رقم رکھنا پسند نہیں کرتی ہیں۔۔۔ تو وہ اس رقم کے ساتھ کیا کرتی ہیں؟ سٹہ بازی (سٹاک بائی بیکس اور ڈیویڈنڈز) ایک طریقہ ہے۔“ صاف الفاظ میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی خزانے سے نکالا گیا اربوں ڈالر براہ راست چند سرمایہ داروں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ سرمایہ کاری کیوں کی جائے جب آپ نقد رقم سیدھی جیب میں ڈال سکتے ہیں؟
مغربی سرمایہ دار حکومتیں اسلحہ ساز کمپنیوں کی فضول خرچی کے معاملے میں کافی نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن فروری میں، امریکی بحریہ کے سیکرٹری نے صنعت کو ایک غیر معمولی عوامی تنبیہ کی، جو کہ مین سٹریم میڈیا میں رپورٹ نہیں کی گئی اور جس سے حکمران طبقے کی سیاسی پریشانیوں کا انکشاف ہوتا ہے:
”دفاعی ٹھیکیدار سٹاک بائی بیکس اور دیگر ہتھکنڈوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جو ان کی جیبوں کو بھر رہے ہیں اور دفاعی صنعتی بنیاد کو مضبوط کرنے یا شپ یارڈز میں سرمایہ کاری پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں۔
”آپ امریکی ٹیکس دہندگان سے زیادہ عوامی سرمایہ کاری کا مطالبہ نہیں کر سکتے جبکہ آپ اپنے سٹاک کی قیمتوں کو سٹاک بائی بیکس کے ذریعے بڑھاتے رہتے ہیں اور وعدہ کی گئی سرمایہ کاری کو ملتوی کرتے ہیں۔“
ڈیل ٹورو 1980ء کی دہائی کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ”کسی نے فیصلہ کیا کہ بحری جہاز سازی کو مارکیٹ کے حوالے کرنا ایک شاندار خیال ہے“، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین نے دنیا کی بحری جہاز سازی کا بڑا حصہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
”مارکیٹ نے کنٹرول سنبھال لیا اور چین نے بحری جہاز سازی اور تجارتی جہاز سازی میں سرمایہ کاری شروع کر دی، اور انہیں تمام فوائد حاصل تھے۔ سستا مزدور، کوئی ضابطہ نہیں۔“ ظاہر ہے کہ ڈیل ٹورو اسلحہ ساز کمپنیوں پر امریکی سامراجیت کے رجعتی نقطہ نظر سے تنقید کر رہا ہے، جسے دنیا کو لوٹنے کے لیے ایک طاقتور فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن غیر ارادی طور پر اس کے تبصرے سرمایہ دارانہ منڈی کی نااہلی، فضول خرچی اور بدعنوانی کو ظاہر کرتے ہیں۔ منڈی کے نظام کے یہ محافظ خود اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکے ہیں۔
کون قیمت چکا رہا ہے؟
سرمایہ دار منافع کما رہے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت کون چکا رہا ہے؟ مزدور طبقہ! یہ اپنے ٹیکسوں کے ذریعے براہ راست اس کی قیمت چکا رہا ہے، جیسا کہ امریکی بحریہ کے سیکرٹری ڈیل ٹورو نے تسلیم کیا۔ لیکن یہ بالواسطہ بھی اس کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ جب فوجی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے تو سماجی خدمات کو کم کر کے تباہ کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے پاس کبھی صحت یا تعلیم کے لیے پیسے نہیں ہوتے، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ہمیشہ ٹینکوں اور میزائلوں کے لیے اربوں ڈالر کا بندوبست کر لیتی ہیں۔
مثال کے طور پر، پرتگال، جو کہ عالمی سطح پر ایک چھوٹا سامراجی ملک ہے، نے 2023ء میں اپنے فوجی بجٹ میں 14 فیصد اضافہ کیا، جبکہ صحت کی دیکھ بھال کے لیے صرف 10 فیصد اضافہ کیا گیا، حالانکہ اس کا قومی صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اسے فوری نئی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ موجودہ پرتگالی حکومت نے اس دہائی کے آخر تک فوجی اخراجات کے اہداف مقرر کیے ہیں، جہاں فوجی اخراجات اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہونے والے پیسے سے تین گنا زیادہ ہوں گے! اسلحہ سازی پر ہونے والے یہ اخراجات قرضوں کا بوجھ بڑھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے مستقبل میں مزید کفایت شعاری کے اقدامات کی ضرورت ہو گی۔
لیکن اس کے ساتھ ہی جنگیں، جغرافیائی سیاسی تنازعات اور پابندیاں افراط زر کو بھی بڑھا رہی ہیں، جس سے مزدوروں کی حقیقی اجرتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ مختصراً، مزدور طبقے کو ہر طرف سے لوٹا جا رہا ہے تاکہ جنگجوؤں کے منصوبے پورے کیے جا سکیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب بھی جنگیں شروع ہوتی ہیں، تو مزدور اور غریب ہی مرتے اور اذیت کا شکار ہوتے ہیں: پھر چاہے وہ مشرق وسطیٰ ہو، ساحل ہو، یوکرین ہو، یا پھر روس، یا کوئی اور۔
انقلابی حل
کمیونسٹ ان فوجی اخراجات میں اضافے کی مخالفت کرتے ہیں، جو مزدور طبقے سے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ چند سرمایہ داروں کے لیے زبردست منافع پیدا کر رہے ہیں۔ ہم کتابیں چاہتے ہیں، بم نہیں! ہم ہسپتال اور سکول چاہتے ہیں، میزائل اور ٹینک نہیں!
تاہم، ہم یہ بھی خبردار کرتے ہیں کہ یہ خرچ صرف کسی حکومت کے ’نظریاتی انتخاب‘ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران مختلف سامراجی قوتوں کے مابین تنازعات کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ عالمی منڈی کا حصہ کم ہو رہا ہے اور اسی لیے اس کو تقسیم کرنے کی جنگ بڑھ رہی ہے۔ اسلحہ سازی اب تمام سرمایہ دارانہ حکومتوں کے لیے ضروری بن گئی ہے۔ لہٰذا کمیونسٹوں کی جنگ فوجی اور سامراجی جنگوں کے خلاف ہے، اور ساتھ ہی سرمایہ داری کے خلاف بھی، تاکہ عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکے۔