یہ تحریر 8 مئی کو ہماری عالمی ویب سائٹ پر انگریزی زبان مٰیں شائع ہوئی جسے پھر ہم نے ماہانہ کمیونسٹ اخبار “ورکرنامہ” (جون 2024 ایڈیشن) میں شائع کیا۔ اسے اب ہم اپنے قارئین کیلئے اپنی ویب سائٹ پر شائع کر رہے ہیں۔
[Source]
ایک طویل عرصے سے جاری منصوبہ بندی کے تحت اب رفاہ پر حملہ شروع ہو چکا ہے۔ 6 مئی، پیر کے دن IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) نے شہر پر ہوائی حملے شروع کر دیے اور تقریباً ایک لاکھ فلسطینیوں کو مشرقی محلوں سے نکل جانے کا حکم دے دیا کہ وہ ساحل کے قریب ال مواسی اور خان یونس کے مغرب میں نام نہاد ”انسان دوست علاقوں“ کی طرف نقل مکانی کریں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جن شہریوں کو پہلے غزہ شہر اور پھر خان یونس سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا اب انہیں شدید بدحالی اور مایوسی میں رفاہ سے بھاگنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ منگل کے دن ایک اسرائیلی ٹینک بریگیڈ نے مصر کی جانب رفاہ راہداری پر غزہ کی سائیڈ سے قبضہ کر لیا۔ اب تک آپریشن ”محدود“ ہے جس میں IDF بھرپور فوج کشی کے لئے پر تول رہی ہے۔ پھر تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
نتن یاہو اس وقت پل صراط پر چل رہا ہے۔ وہ اپنی ضروریات (یعنی اپنی حکومت میں انتہائی دائیں بازو کے حامیوں کی دلجوئی) اور بائیڈن حکومت کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوششیں کرر ہا ہے جس کو فکر لاحق ہے کہ رفاہ پر بھرپور فوج کشی امریکی سامراجی مفادات کے لئے کاری زخم ثابت ہو سکتی ہے۔
ایک ایسا حملہ جس میں ممکنہ طور پر غزہ حملے سے زیادہ شہریوں کی اموات متوقع ہیں، اس کے نتیجے میں اردن اور مصر جیسے ممالک کی عوام اپنی ریاستوں پر بے پناہ دباؤ بڑھا سکتی ہیں۔ اس عمل میں نئے بحران اور انقلابی سرکشیاں جنم لے سکتے ہیں جو ان ریاستوں کے لئے موت کا پروانہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور پورے خطے میں ایک ایسا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں امریکی تزویراتی مفادات اور نحیف عالمی معیشت دونوں برباد ہو سکتے ہیں۔
اس کا ایک اور اثر امریکہ کے بپھرے ہوئے نوجوانوں اور طلبہ کی مزید ریڈکلائزیشن کی شکل میں نکلے گا۔ ایک ایسی نسل جس کے ساحل سے ساحل تک یونیورسٹیوں میں احتجاجی کیمپوں نے پوری دنیا کے نوجوانوں کو ایک نئی جہت عطاء کر دی ہے۔ پورا ملک شدید منقسم ہے۔ حتمی تجزیے میں یہ بڑھتی طبقاتی تفاوت کا اظہار ہے اور سب سے بڑھ کر بائیڈن حکومت کی حمایت یافتہ اسرائیل کی اس نسل کش جنگ کے خلاف نوجوان شدید ریڈیکلائز ہو رہے ہیں۔ عوام سوال کر رہی ہے کہ جنگ و جدل اور تباہی و بربادی کے لئے ہمیشہ پیسے موجود ہوتے ہیں لیکن جب سوال نوکریوں، سماجی اخراجات اور معیاری انفرسٹرکچر کا ہو تو یہ پیسہ کہاں غائب ہو جاتا ہے؟ ”قانون اور امن“ کی بالادستی اسی وقت کیوں ہوتی ہے جب پولیس احتجاجیوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس برسا کر ان کا منہ بند کرنے کی کوششیں کرتی ہے لیکن جب امریکی اتحادی جنگی جرائم کریں تو سب جائز ہے؟
اب تک امریکی حکمران طبقہ نتن یاہو کی خون ریز جنگ کی حمایت کرتا آیا ہے لیکن امریکی نوجوان جنگ کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ وہ سماجی موڈ کا ایک اظہار ہیں اور غزہ جنگ پر ان کی دلیرانہ مزاحمت امریکی محنت کشوں کی وسیع پرتوں میں حمایت حاصل کر رہی ہے۔ ابھی طاقتور UAW یونین (یونائیٹڈ آٹو ورکرز) جو امریکی کیمپسوں میں محنت کشوں کو منظم کرتی ہے، اپنی یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے تحرک کا وعدہ کر رہی ہے۔ نوجوانوں کی تحریک امریکی محنت کش طبقے کی وسیع تر تحریک کی ایک ابتدائی علامت ہے۔ یہ حقیقت امریکی حکمران طبقے کی سمجھ بوجھ میں ایک کلیدی عنصر ہے۔
نتن یاہو اپنے سامراجی آقاوں کو منہ چڑا رہا ہے
ان تمام وجوہات کی بنیاد پر رفاہ حملہ تاخیر کا شکار ہے۔ نتن یاہو مسلسل اعلانات کر رہا ہے کہ بالآخر حملہ ہو کر رہے گا۔ وہ جس مسئلے کا شکار ہے اس کا انسان دوستی یا ہمدردی سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکی حمایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس حملے کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟
فنانشل ٹائمز جریدے میں ایک مضمون کے مطابق:
”فیصلہ (رفاہ پر فوج کشی کا آغاز) نتن یاہو کے طویل کیریئر کا سب سے بڑا جوا ہے۔ مغویوں کی بازیابی کے لئے جنگ کو بند کرنا حماس کی فتح ہو گا۔۔ اور اس کے کئی آزاد قائدین کے لئے بھی جن میں یحییٰ سیناوار بھی شامل ہے۔ رفاہ میں مزید فوج کشی کے لئے معاہدے کو رد کرنا امریکہ کے ساتھ بنیادی دراڑ کا موجب بن سکتا ہے اور مغویوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہو جائے گا۔ حماس کی تحویل میں 132 مغویوں کی قسمت نتن یاہو کی قیادت کا پیچیدہ ترین مسئلہ بن چکا ہے جس میں اس کا سیاسی کیریئر اور اسرائیلی سیکورٹی ایک ہی سکے کے دو رخ بن چکے ہیں“۔
اسرائیلی حکومت اپنے مرکزی سامراجی پشت پناہ امریکہ کے ساتھ متصادم ہو رہی ہے۔ انہوں نے حماس کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے امریکی رویے پر اعلانیہ اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ نے (ایک ”گمنام نمائندے“ کے ذریعے) جواب دیا ہے کہ ”حالیہ مذاکرات میں نتن یاہو اور جنگی کابینہ کی نیک نیتی کا فقدان نظر آ رہا ہے“۔
بائیڈن نے بھی متعدد مرتبہ کہا ہے کہ اس کی حکومت ”کسی بڑے عسکری آپریشن کی حمایت نہیں کرے گی اگر عوام کی حفاظت کے حوالے سے ایک مربوط منصوبہ موجود نہیں ہو گا“۔ یقینا اس طرح کی کوئی بھی ضمانت ناممکن ہے جب مردوں، عورتوں، بچوں اور ضعیف العمر افراد سے بھرے ایک گنجان آباد شہر پر بھرپور فوج کشی کا سوال درپیش ہو۔
ایک گمنام امریکی نمائندے کے مطابق بائیڈن حکومت نے پچھلے ہفتے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بھی روک دی ہے۔ اس قدم سے اسرائیلی حکومت اور واشنگٹن میں موجود سب سے باولے صیہونی شدید مشتعل ہوئے ہیں۔ نتن یاہو کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اس کی جنگ کو پیسے اور سامان کہاں سے مل رہا ہے اور اگر ہتھیاروں کی سپلائی بند ہو گئی تو نتیجہ کیا ہو گا۔
اگر اسرائیل رفاہ پر بھرپور فوج کشی کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی اس حقیقت کو بھی واضح کرتی ہے کہ امریکی عوام میں جنگ مخالف موڈ نے حکمران طبقے کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔
نتن یاہو کا کھلواڑ
اسرائیل میں مغویوں کے سوال پر بھی شدید تقسیم موجود ہے جسے حماس نے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اسرائیل کی بھاری اکثریت غزہ پر IDF حملے کی ابھی بھی حمایت کرتی ہے لیکن ایک قلیل اکثریت (56 فیصد) کا خیال ہے کہ رفاہ پر فوج کشی سے بہتر ہے کہ مغویوں کے حوالے سے کوئی معاہدہ کر لیا جائے۔
لیکن یہ واضح ہے کہ نتن یاہو اور خاص طور پر حکومت میں موجود اس کے باولے انتہائی دائیں بازو کے دوستوں کو مغویوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ انتہائی دائیں بازو کو موجودہ صورتحال میں ایک نادر موقع نظر آ رہا ہے کہ اپنا ایجنڈہ مسلط کر کے تاریخی فلسطین پر مکمل قبضہ کرتے ہوئے ایک ”عظیم اسرائیل“ تشکیل دیا جائے۔ ان انتہائی دائیں بازو کے باولے وحشیوں کو اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے کی اجازت دے کر نتن یاہو اپنے سامراجی پشت پناہوں سے سرکشی کر رہا ہے اور پورے مشرق وسطیٰ کو بھڑکانے کا خطرہ مول رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن شروع ہونے سے چند گھنٹوں پہلے حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ تین مرحلہ امن معاہدہ قبول کرنے کو تیار ہے جو تین مسلسل چھ ہفتوں کے عرصوں پر محیط ہو گا جس میں مغویوں کو بتدریج رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن یہاں بھی ایک معاہدہ پورا ہونے میں وہی رکاوٹ موجود تھی جو پچھلی تمام کوششوں میں موجود رہی ہے۔
حماس امریکہ اور دیگر قوتوں سے آہنی ضمانتوں کی متلاشی ہے کہ معاہدے کا مطلب مستقل جنگ بندی ہو۔ نتن یاہو حکومت مسلسل ایک ہی موقف اپنائے ہوئے ہے کہ وہ اسرائیلی مغویوں کی بازیابی کے لئے ایک عارضی جنگ بندی قبول کرنے کو تیار ہے جس کے بعد حماس کی مکمل تباہی کا ہدف پورا کرنے کے لئے جنگ دوبارہ مسلط کر دی جائے گی۔
اس رویے کے پیچھے نتن یاہو کی اپنی سیاست کارفرماء ہے۔ وہ حماس کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کو رد کر کے ہی اپنی مخلوط حکومت قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک طویل جنگ بندی کے نتیجے میں اس کی حکومت کے لئے تین مراحل کی تکمیل کے بعد جنگ دوبارہ مسلط کرنا اگر ناممکن نہیں تو شدید مشکل ضرور ہو جائے گا۔
اس کی مخلوط حکومت میں انتہائی دائیں بازو کے صیہونی انتہاء پسندوں نے واضح کر رکھا ہے کہ اگر اس قسم کی کسی جنگ بندی کو قبول کیا گیا تو وہ حکومت گرا دیں گے۔ اس کا مطلب نتن یاہو کی سیاسی موت ہے اور وہ عدالتوں میں جاری کرپشن کیسوں کے رحم و کرم پر ہو گا۔
اس وقت نتن یاہو کا سیاسی کیریئر اور شخصی آزادی دونوں داؤ پر لگے ہوئے ہیں اور اس کی کمر دیوار سے لگی ہوئی ہے۔ اس لئے اس نے ڈھٹائی سے اعلان کر رکھا ہے کہ اسرائیل اکیلا رفاہ پر حملہ کرے گا چاہے پوری دنیا مخالف ہو جائے!
رفاہ میں ممکنہ تباہی و بربادی
اگر بھرپور فوج کشی کا آغاز ہو جاتا ہے تو نتیجہ قیامت خیز ہو گا۔ رپورٹیں آ رہی ہیں کہ اسرائیل نے دو ”انسان دوست“ علاقوں کے لئے 40 ہزار خیموں کا آرڈر دے رکھا ہے جن میں 4 لاکھ افراد ”پناہ“ لے سکتے ہیں۔ لیکن رفاہ اور اس کے گرد علاقوں میں 15 لاکھ افراد موجود ہیں۔ مصر کے ساتھ سرحد اس وقت اسرائیل کی گرفت میں ہے اور کئی فلسطینی خاندان سوال کر رہے ہیں کہ ”ہم کہاں جائیں؟“
غزہ میں امدادی ٹرکوں کے داخلے کے لئے رفاہ مرکزی راہداری تھا۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ اسرائیل نے دیگر سرحدی راہداریوں پر اپنے کنٹرول کو سفاکی سے استعمال کرتے ہوئے امداد کی رسد کو شدید محدود کر رکھا ہے جس نے آبادی کو محسور کر دیا ہے۔ اب رفاہ راہداری پر اس کا براہ راست کنٹرول موجود ہے اور اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں کا مزید گلا گھونٹ سکتا ہے۔
غزہ راہداری اتھارٹی کے ایک ترجمان حشام ادوان نے کہا کہ یہ قدم ”پٹی (غزہ) کے رہنے والوں کے لئے سزائے موت ہے“۔ اس سزائے موت پر پہلے ہی عمل ہو رہا ہے جس میں بمباری کے دوبارہ شروع ہونے سے لے کر قحط تک کا خطرہ شامل ہیں۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیوکرٹی فیز کلاسیفکیشن (IPC) کے مطابق 11 لاکھ افراد، جو جنگ سے پہلے غزہ کی آدھی آبادی بنتی ہے، ”ہولناک طور پر اشیائے خورد ونوش کے عدم تحفظ“ کا شکار ہیں۔
رفاہ پر فوج کشی مختلف مراحل میں ہو گی۔ فی الحال شہر کے مشرق میں نقل مکانی احکامات کا اطلاق ہو رہا ہے۔ لیکن IDF نمائندوں کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی آخری چھے بٹالینز، ان کے مطابق، کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں جو رفاہ کے شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں چھپی بیٹھی ہیں۔ ان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک کے بعد دوسرے محلے پر مرحلہ وار اور منظم حملہ کرنا ناگزیر ہے۔۔ دوسرے الفاظ میں بھرپور فوج کشی جس کی بائیڈن مخالفت کر رہا ہے۔
یقیناً یہ حقیقت سب کو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پہلے دن سے نتن یاہو کا یہ دعویٰ کہ حماس کی تباہی و بربادی اصل ہدف ہے، جھوٹ ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کے لئے ہر قسم کی اہمیت والی چیز کو IDF منظم انداز میں ملبے میں تبدیل کر رہی ہے۔۔ رہائش، اسکول، یونیورسٹیاں، ہسپتال، ورثہ، پانی اور توانائی سپلائی اور ہر قسم کا موجود انفراسٹرکچر۔
IDF نے خبردار کر رکھا ہے کہ مشرقی اور جنوبی سرحدی باڑوں کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے اور نشاندہی کردہ نقل مکانی علاقوں میں جو بھی فرد موجود ہوا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ یہ واضح تنبیہ ہے کہ وہ ان علاقوں میں موجود ہر فرد کو جائز ہدف سمجھ رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج اب تک کم از کم 35 ہزار افراد قتل کر چکی ہے۔ اگر اسرائیلی فوج رفاہ پر چڑھائی کرتی ہے تو ہمیں اس سے بھی بڑی تباہی کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ اس تباہ کاری کو روکنے کا ایک ہی طریقہ کار ہے کہ یہ حملہ ہر صورت میں روکا جائے۔
عوامی مزاحمت
امریکی حکومت کو اس وقت غزہ کے حوالے سے اپنی پالیسی پر شدید مخالفت کا سامنا ہے جس میں خاص طور پر یونیورسٹی طلبہ کی ولولہ انگیز تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس پر ریاستی قوتوں اور صیہونی جنونیوں نے شدید تشدد کیا ہے۔ ہم نے پچھلے کئی مضامین میں لکھا ہے کہ غزہ میں صورتحال ایک عمل انگیز ہے جو پوری دنیا کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو شدید ریڈیکلائز کر رہا ہے۔
اب ایک ایسی تحریک جس کا آغاز نیویارک میں کولمبیاء یونیورسٹی سے ہوا تھا پورے امریکہ میں پھیلنے کے ساتھ اب سرحد پار کینیڈا اور سمندروں پار برطانیہ، فرانس، سوئٹزرلینڈ، ہسپانوی ریاست، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر کئی ممالک میں احتجاجی کیمپوں کے قائم ہونے کے ساتھ پھیل چکی ہے۔
ہم مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بھی طلبہ کو یکجہتی تحریکوں کا آغاز کرتے دیکھ رہے ہیں۔۔ قاہرہ، بیروت، کویت اور دیگر جگہیں، ان ریاستوں کے خلاف جو فلسطینیوں کے لئے مگر مچھ کے آنسو تو بہاتی ہیں لیکن اس ظلم و بربریت کے خلاف ایک انگلی نہیں اٹھاتیں۔ اب تک احتجاجوں کی یہ لہر پوری دنیا میں تقریباً 100 کیمپسوں تک پھیل چکی ہے۔
امریکہ میں تحریک ہائی سکولوں میں پھیلنی شروع ہو گئی ہے جس کی مثال بوسٹن ہے جہاں 12 ہائی سکولوں کے طلبہ یونیورسٹی طلبہ سے حوصلہ پکڑتے ہوئے احتجاجوں میں شریک ہو رہے ہیں۔
نوجوانوں کی اس نسل کو واضح ہو چکا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کھوکھلے اقدامات ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ جب ان کی حکومتیں غزہ بمباری کے شکار فلسطینی عوام کے لئے آنسو بہاتی ہیں تو وہ سب جھوٹ، فریب اور دھوکہ بازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے حکمران طبقے کو لفاظی نہیں بلکہ عمل کی کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں۔
ان کے اقدامات واشگاف اور واضح ہیں۔ وہ نتن یاہو کی جنگی مشین کو مسلسل پیسوں اور ہتھیاروں میں تول رہے ہیں۔ اس لئے امریکہ میں احتجاجی تحریک اتنی شدید ہے۔ طلبہ امریکی حکومت کا مقابلہ اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ فلسطینی عوام کی مدد کے لئے یہی ایک ٹھوس طریقہ کار ہے۔
وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں اور اسرائیل کے درمیان تمام معاشی اور فنانشل رابطوں کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایسے تمام روابط منقطع کئے جائیں اور اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈال کر قتل عام بند کرایا جائے۔
تحریک کو تیز تر کرو!
پوری دنیا میں نوجوانوں کو بخوبی ادراک ہے کہ ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کئی مارچ اور احتجاج کر لئے لیکن غزہ میں جنگ جاری ہے۔ اس وقت حقیقی خطرہ موجود ہے کہ رفاہ پر ابتدائی حملہ ایک وسیع فوج کشی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اسرائیلی حکمران طبقہ سفاکی سے اپنے مفادات کے تحفظ میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ ایک محدود طلبہ تحریک کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ ایک سیاسی پروگرام اور منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے تاکہ تحریک کو تیز تر کیا جائے۔
جہاں بھی احتجاجی کیمپ منظم ہو وہاں تمام شرکاء کے ساتھ ایک کھلی بحث ہونی چاہیے کہ مطالبات کا پروگرام کیا ہونا چاہیے اور اسے ٹھوس انداز میں کیسے آگے بڑھا یا جائے۔
ہر کیمپ میں طلبہ کی ٹیمیں منظم ہونی چاہیے جو تمام شعبوں میں لیفلیٹ، پوسٹر ز اور مقررین کے ساتھ پہنچیں تاکہ انہیں تفصیلی بتایا جائے کہ تحریک کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور طلبہ کو ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی جائے۔
وفود کو ان کیمپسوں میں بھیجنا چاہیے جہاں ابھی تحریک کا آغاز نہیں ہوا ہے۔ تمام رپورٹوں سے واضح ہو رہا ہے کہ کس تیزی کے ساتھ ایک کیمپس میں تحریک منظم ہو جاتی ہے چاہے اس کا آغاز چند افراد سے ہو۔ ان پر تعمیر کرتے ہوئے تحریک کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی طلبہ کو کیمپسوں میں ٹیمیں منظم کر کے اکادمیہ اور غیر اکادمیہ سٹاف کے ساتھ بحث مباحثہ کرنا چاہیے۔ کئی جگہوں پر پروفیسروں اور لیکچرارز نے شاندار ردعمل کا اظہار کیا ہے اور طلبہ کا پولیس گردی کے خلاف بھرپور دفاع کیا ہے۔ ٹیموں کو قریبی سکولوں میں جا کر طلبہ سے بات کرنی چاہیے، انہیں احتجاجوں میں شرکت کی دعوت دینی چاہیے اور سکولوں میں ایکشن کمیٹیاں تشکیل دینے میں مدد کرنی چاہیے تاکہ وہاں بھی احتجاج منظم ہو سکیں۔
بنیادی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ کیمپسوں میں تحریک کو نوجوانوں کی عمومی اور دیوہیکل تحریک میں تبدیل کیا جائے۔ یہ امریکی حکمران طبقے کے لئے ایک واضح پیغام ہو گا کہ اگر وہ نتن یاہو کی حمایت جاری رکھے گا تو گھر پر اسے شدید مزاحمت کا سامنا ہو گا۔
تحریک کی سمت درست ہے۔ طلبہ کی سرگرمیاں، ریلیاں اور مارچ، احتجاجی کیمپ اور دیگر اقدامات وغیرہ انتظامیہ پر شدید دباؤ ڈالنے کے بہترین ذرائع ہیں۔ یکے بعد دیگرے کیمپسوں اور ممالک کی وسیع ترین طلبہ پرتوں کو اس تحریک میں شامل کرنے کے دیوہیکل امکانات موجود ہیں۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں ہے۔ طلبہ کے پاس سماج کو مفلوج کرنے کی طاقت موجود نہیں ہے جس کے ذریعے حکمران طبقے کی منصوبہ بندی غارت کی جا سکتی ہے۔ اس لئے اس تحریک کو محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کے ساتھ جڑ کر اسے اپنے ساتھ شامل کرنا ہو گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس حجم کی دیوہیکل نوجوان تحریک کے محنت کش طبقے میں پھیل جانے کے دیوہیکل امکانات موجود ہوتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں طلبہ کی ریڈیکلائزیشن 1968ء کی مشہور تحریک پر منتج ہوئی تھی جس میں محنت کشوں کی دیوہیکل شمولیت موجود تھی۔
فرانس میں ہم نے مئی 1968ء کی طاقتور عام ہڑتال دیکھی جس میں لاکھوں کروڑوں محنت کشوں نے فیکٹریوں پر قبضے کر لئے تھے۔ اس کا آغاز ایک طلبہ تحریک سے ہوا تھا جو طبقاتی جدوجہد کو بھڑکانے کے لئے ایک چنگاری ثابت ہوئی۔ اٹلی، میکسیکو، پاکستان اور دیگر کئی ممالک میں 1968-69ء کے دوران یہی عمل کارفرما رہا۔ آج اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت بحران پورے نظام کے بخیے ادھیڑ رہا ہے اور اس تحریک میں امکان موجود ہے کہ یہ کیمپسوں اور قومی سرحدوں سے پار ہر جگہ پھیل جائے۔ اس لئے طلبہ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی تحریک کو منظم کریں، بحث مباحثہ کریں اور ان قراردادوں پر ووٹ دیں جنہیں پھر تمام کام کی جگہوں، ٹریڈ یونینز اور محنت کشوں کے محلوں میں لے جایا جائے۔
کچھ اثناء میں ہم نے محنت کشوں کو فلسطین کی یکجہتی میں اقدامات کرتے دیکھا ہے (ان میں بندرگاہوں کے محنت کش شامل ہیں جنہیں ہتھیاروں کی ترسیل کا کام سونپا گیا تھا اور ٹیکنالوجی ملازمین ہیں جو اسرائیلی دفاعی صلاحیتوں کے لئے کمپیوٹر سسٹم بنا رہے تھے)۔ ان پرتوں تک پہنچ کر تحریک اسرائیلی جنگی مشینری پر کاری مادی زخم لگا سکتی ہے۔
امریکی حکام کو امید تھی کہ سفاک تشدد اور جبر کے ذریعے تحریک کو کچل دیا جائے گا۔ لیکن اس جبر کے نتیجے میں تحریک تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اب رفاہ پر حملہ شروع ہو چکا ہے اور کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ تحریک کہاں تک پھیل سکتی ہے۔
امریکی سامراج کو رفاہ حملے کے حوالے سے ایک یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ ایسی تحریک کوئی اور ہی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس جدوجہد کو منظم اور تعمیر کر کے ہی حکمران طبقے کو ٹھوس طریقے سے بتایا جا سکتا ہے کہ اگر وہ غزہ میں نسل کش جنگ کی حمایت جاری رکھے گا تو اسے گھر میں ایک انقلابی بغاوت کا سامنا ہو گا۔ اس خطرے کے پیش نظر ہی وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوں گے۔
گھر پر جدوجہد کو مالکان اور بورژوا سیاست دانوں پر مسلط کر کے ہی فلسطینی عوام کی حقیقی مدد کی جا سکتی ہے۔ سامراجیوں کو ایک ایسی صورتحال سے دوچار کرنا پڑے گا کہ ان کو سمجھ لگ جائے کہ جنگ کی حمایت جاری رکھنے میں ان کا سب کچھ ختم ہو سکتا ہے۔