Urdu translation of Afghanistan ‑ the war is being lost (July 23, 2010)
تحریر: ایلن وڈز - ترجمہ: فرہاد کیانی
چنگاری ڈاٹ کام،02.08.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکانومسٹ میگزین کے نمائندے نے اس جریدے کے مخصوص ہتک آمیز اور بے اعتنائی کے لہجے میں بیان دیا ہے کہ جو چیز وہ معاف نہیں کر سکتا وہ یہ ہے کہ جنرل میکرسٹل فرانس کے علاقے براڈیے کی مشہور شراب(وائن) کے مقابلے میں افیون کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اس مشہور فرانسیسی شراب کے رسیا کو اس بات کا اضافہ کرنا پڑا کہ ذوق کی یہ کمی کتنی ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو اتنی بڑی وجہ نہیں تھی کہ ایک حاضر سروس امریکی جرنیل کو برطرف کر دیا جاتا۔ جنرل کی برطرفی کی اصل وجہ کہیں زیادہ سنجیدہ نوعیت کی تھی اور اس کا تعلق حکمران طبقے اور ریاست کے تعلقات سے ہے۔ بورژوازی یہ محسوس کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنی ریاست پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ لیکن ریاست میں ہمیشہ ایک رجحان ہوتا ہے جو آخری تجزیے میں مسلح لوگوں کی فوج ہوتی ہے کہ وہ سماج سے بالا ہو کر اپنی آزادی کو مسلط کرے یہاں تک کہ حکمران طبقے پر بھی۔ ہمیں یہ رجحان قدیم دور میں بھی نظر آتا ہے جیسا کہ سلطنت روم میں پریتورین ازم واضح طور پر دکھاتا ہے۔ اپنی مشہور کتاب ’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘ میں اینگلز وضاحت کرتا ہے کہ ریاست ’’ایک طاقت جو بظاہر سماج سے بالا ہوتی ہے، جو تضاد کو کم کرے گی اور اسے ’’نظم و ضبط ‘‘ میں رکھے گی،اور یہ طاقت جو سماج سے نکلتی ہے لیکن اپنے آپ کو اس سماج سے بالا کر لیتی ہے اور اپنے آپ کو اس سماج سے مسلسل بیگانہ کرتی چلی جاتی ہے‘‘۔ شدید طبقاتی جدوجہد کے ادوار میں جب کوئی بھی طبقہ فیصلہ کن فتح حاصل نہ کر رہا ہو تو ریاست فوج کی شکل میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مسلط کرتی ہے۔ طبقاتی حکمرانی کے عام طریقے ان طاقتوں کو قابو کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور حکمرانی کے دوسرے طریقے ضروری ہو جاتے ہیں۔بوناپارٹزم تلوار کی حکمرانی ہے۔ لیکن حکمران طبقہ ایسے اقدامات آسانی سے نہیں کرتا۔یہ پارلیمانی جمہوریت کے عام طریقہ کار کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ اس میں زیادہ بچت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے ایک ہزار ایک طریقے ہیں کہ جب محنت کش طبقہ ووٹوں کے ذریعے کامیاب ہو جائے تو اسے سماج اور ریاست پر کنٹرول حاصل کرنے سے روکا جائے۔ اس کے لیے بلواسطہ اور بلا واسطہ کرپشن کے لیے اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور دھڑے بندی کرنے،مارکیٹنگ،تعلقات عامہ اور میڈیا کے ذریعے ووٹ ڈالنے والوں کو دھوکے کے ذریعے یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ قوم کے مقدر میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن تمام وقت کنٹرول مضبوطی سے ایک اقلیت کے پاس ہوتا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی امریکہ کا صدر اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک وہ ارب پتی نہ ہو یا کم از کم ان بڑی رقوم تک رسائی نہ رکھتا ہو جو ارب پتیوں سے آتی ہیں۔ روایتی بورژوا جمہوریت کے اضافی اخراجات حکمران طبقے کی نظر سے ایک پریشانی ہیں لیکن امریکہ جیسے ممالک میں اس نظام کو کئی نسلوں سے چلا کراتنا بہتر کر لیا گیا ہے کہ یہ قابل برداشت ہے ۔اور متبادل کے اخراجات اور پریشانی بہت زیادہ ہے۔اس لیے عام حالات میں حکمران طبقہ ان جرنیلوں کو پسند نہیں کرتا جو حد سے زیادہ آزادی دکھائے اور اپنے سیاسی آقا ؤں کی خواہشات کے برعکس ا پنے ایجنڈے پر کام کرنے کا رجحان دکھائے۔ ان سیاسی آقاؤں کو بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کے مفادات کی ترجمانی کے لیے بہت احتیاط سے چنا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بورژوازی اپنا کنٹرول مسلط کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجووہ واقعہ کوریا کی جنگ کے دوران امریکی صدرٹرو مین اور جنرل ڈگلس میکارتھرکے تنازعے کی یاد دلاتا ہے۔ میکارتھر نے بوناپارٹسٹ رجحانات دکھائے تھے اور اسے برطرف کر دیا گیا تھا۔ میکرسٹل نے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی توہین کی ۔ بہت سے دوسرے اقوال زریں کی طرح اس نے دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر کو ’’مسخرہ‘‘ کہا، اس کے نائب صدر کو ’’بالکل غیر اہم‘‘ کہااور اس کے صدر کے متعلق کہا کہ وہ اعلیٰ فوجی قیادت کی موجودگی میں ’’بے آرام اور خوفزدہ‘‘ رہتا ہے۔ اپنے الفاظ اور اپنی حرکتوں سے جنرل نے محسن کشی اور بے عزتی کا مظاہرہ کیا۔اوباما نے پہلے ہی جنرل میکرنان کو برطرف کیا تھا، جو بش کے دور کا کمانڈر تھا۔ پینٹاگان کے دباؤ میں اس نے افغانستان میں فوج کی کمان کے لیے جنرل میکرسٹل کو نامزد کیا جسے وہ بہت کم جانتا تھا۔ گزشتہ سال کی خزاں میں اوباما نے جنرل میکرسٹل کے مزاحمت کے خلاف منصوبے کوین کی حمایت کی او ر اس نے جن اضافی فوجیوں کو مطالبہ کیا تھا اس کو بہت حد تک پورا کیا۔ یہ سب اس حقیقت کے باوجود تھا کہ جنرل ماتحت کے کردار سے منحرف ہو رہا تھا اور نائب صدر جو بائیڈن جو اس حکمت عملی کے خلا ف تھا اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اگر اوباما جنرل کو برطرف نہ کرتا تو وہ نائب صدر کی توہین کرتا اور ایسے لمحے میں کمزور نظر آتا جب وہ مضبوط دکھائی دیے جانا چاہ رہا ہے۔ جہاں کئی ماہ سے صدر کے ایسے تشخص کے لیے محنت کی گئی ہو جو برٹش پیٹرولیم کمپنی کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے، وہ ایسا تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ وہ اپنے جرنیلوں کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اب جنرل میکرسٹل کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس آگیا ہے۔ وہ اسٹیبلیشمنٹ کا زیادہ قابلِ اعتماد ملازم ہے، جو معزز ہے اور شاید سیاست میں آگیا ہوتا۔ میکرسٹل کی طرح آوارہ ، بد چلن نہیں جس کی انا بہت بڑی ہو ، منہ پھاڑ کے بات کرتا ہو جیسا ذہین لوگ بالکل نہیں کرتے۔ درحقیقت میکرسٹل آسانی سے چلا گیا۔ ملٹری قانون کے یونیفارم کوڈ کے مطابق جو افسر صدر یا نائب صدر کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کرے اس کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔ فوج پر اپنی اتھارٹی مسلط کرنے کے لیے بھی وائٹ ہاؤس میں رہنے والے شخص کو پینٹاگان پر اتنی سختی نہیں کرنی چاہیے اور محتاط رہنا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بش سے اوباما تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمایہ داری کے ایک بڑے بحران کے باعث حکمران طبقہ مجبور تھا کہ وہ ری پبلکن جارج بش کو دھوکہ دے اور اس کی جگہ ڈیموکریٹ باراک اوباما کو لائے۔ انہوں نے صرف اپنا وزن دائیں پاؤں سے بائیں پر ڈالا ہے۔ عوام کو بتایا گیا کہ اوباما انتظامیہ ’’تبدیلی‘‘کی نمائندگی کرتی ہے اور امریکی سماج میں تبدیلی کی ایک گہری خواہش موجود ہے۔واضح ہے کہ تبدیلی صرف شکل کی تبدیلی تھی۔ صرف ظاہر تبدیلی ہوا تھا حقیقت نہیں۔ اوباما انہی امریکی سامراج ، بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کے طبقاتی مفادات کی ترجمانی کرتا ہے جن کی بش کرتا تھا۔ لیکن وہ ایسا غصے سے کرنے کی بجائے مسکراہٹ سے کرتا ہے اور سفار تکاری کو (جو کہ سستی ہے) ننگی طاقت پر(جو کہ مہنگی ہے) پر ترجیح دیتا ہے۔ اور وہ کم ازکم اس وقت ملک میں اور بیرون ملک عوامی رائے عامہ کو یقین دلا سکتا ہے کہ وہ واقعی ایسا کرنا چاہتا ہے۔ امریکی سامراج کے نقطہ نظر سے عراق پر حملہ ایک مہنگی غلطی تھی ، ایک مہم جوئی تھی۔ دیر سے سہی لیکن اوباما نے کوشش کی کہ امریکہ کی فوجی پالیسی کو عراق کی بجائے افغانستا ن کی جانب موڑے۔ در حقیقت کوئی بھی عراق میں ہوتا اسے عراق سے انخلا کرنا ہی پڑتا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جنگ ہار چکا ہے اور بہانہ ڈھونڈ کر اپنے نقصان کم کرنا چاہتا ہے جو کہ بہت زیادہ ہیں۔ ہزاروں مارے جانے اور زخمی ہونیوالوں کے علاوہ عراق پر قبضے کے اخراجات ایک ہفتے کے دوران دو ارب ڈالر ہیں۔ کر ہ ارض کی سب سے دولت مند طاقت بھی خون اور سونے کی یہ ہولی برداشت نہیں کر سکتی۔ لیکن افغانستان کی جنگ بھی ٹھیک نہیں جا رہی۔ نومبر میں میکرسٹل کے دباؤ کے تحت اوباما نے اس مہم کے لیے تیس ہزار مزید فوجیوں کو وعدہ کیا تھا۔اس وقت سے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ میکرسٹل کا خیال تھا کہ نئے فوجیوں میں اضافے کے بعد وہ عراق کی طرح طالبان پر سبقت لے جائے گا اور افغا ن حکومت کے لیے اس کی فوج اور پولیس کی مدد سے کنٹرول حاصل کرنے کا موقع پیدا کرے گا۔ایسا نہیں ہو سکا۔ پیٹریاس جو اب کمانڈر ہے عراق میں ا مریکہ کا کامیاب جنرل تھا۔ اسی شخص نے مزاحمت کاروں کے خلاف منصوبے کوین کو لکھا تھا جسے میکرسٹل افغانستان میں لاگو کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پیٹریاس کے لیے یہاں کام مشکل ہو گا۔ یہ خیال کہ امریکی انخلا سے پہلے ایک مضبوط ریاست، فوج اور پولیس تخلیق کر لیں گے عراق میں ناکام ہو چکا ہے اور افغانستا ن میں کامیاب نہیں ہو سکتا جہاں پورا ملک لسانی، قبائلی،مذہبی تفرقوں میں بٹا ہوا ہے اور ریاست کرزئی کے گرد بد عنوان بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہے۔ میکرسٹل نے ہلمند کے علاقے مرجا میں نئی حکمت عملی کی کوشش کی۔یہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مزاحمت کاروں کے خلاف حکمت عملی کوین کیسے لوگوں کے دل جیتے گی اور طالبان سے چھٹکارا حاصل کرے گی۔لیکن میکرسٹل نے خود مرجا کو ایک ’’رستا ہوا زخم ‘‘ قرار دے دیا ہے۔اس لیے جرنیلوں اور سیاستدانوں میں پھوٹ کا یہ بد ترین لمحہ تھا۔ لڑائی کے موسم کے آغاز پرجنرل کی برطرفی مزاحمت کے خلاف پوری حکمت عملی کو تبدیل کر دے گی جو پہلے ہی بہت برے طریقے سے چل رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکہ جنگ ہا ر رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوبامانے افغانستان میں جنگ کو ’’ضرورت کی جنگ‘‘ قرار دیا ہے۔لیکن اب افغانستان میں امریکہ کی مہم ناکامی کے دہانے پر ہے۔جون میں افغانستان میں امریکہ کی مہم ویت نام کی مہم کا ریکارڈ توڑ کر اس کی تاریخ کی سب سے لمبی مہم بن چکی ہے۔ایک ہزار سے زیادہ امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔لیکن ابھی نتائج کافی برے ہیں۔طالبان اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اتحادی فوجوں کو گوریلا طریقوں سے ہراساں کر رہے ہیں اور ان قبائلی سرداروں کو بھی مار دیتے ہیں جو اتحادیوں کی معاونت کرتے ہیں اور سڑک کے کنارے بموں سے تباہی مچا رہے ہیں۔ اوباماکی خواہش ہے کہ وہ افغانستان سے باہر نکل جائے اور مقامی فوجوں کو امریکی مفاد میں ان سے لڑنے دے، جو یا تو ان کی اپنی وجہ سے لڑیں یا پھر پیسے کے لیے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے ایک ایسی افغا ن ریاست اور فوج بنانی ہو گی جو طالبان کے سامنے کھڑی ہو سکے۔ امریکی کوشش کر رہے ہیں کہ خطے کی مقامی فوجوں کو اتحاد میں شامل کیا جائے۔ کاغذوں میں یہ طالبان کو مذاکرات کے لیے مجبور کرے گا۔ لیکن حال ہی میں ایک باغی افغان رنگروٹ کی جانب سے اتحادی فوجی کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ ایک مضبوط افغان فوج کا قیام بہت دور ہے۔ مطلوبہ نتائج (مذاکرات )حاصل کرنے سے پہلے واشنگٹن حملہ کرنا چاہتا ہے جس طرح انہوں نے عراق میں کیا تھا۔یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ہلمند کے صوبے میں آپریشن پیشگی اندازو ں کی نسبت بہت سست ہے۔قندھار میں بھی فیصلہ کن حملے کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔یہ آپریشن جنگ کی سمت کا تعین کرے گا۔منصوبے کا ایک پہلو یہ تھا کہ قندھار میں کرزئی کے بد عنوان سوتیلے بھائی کو ہٹایا جائے۔لیکن وہ ابھی تک وہاں اقتدار میں ہے۔ میکرسٹل نے قندھار کا حملہ خزاں تک کے لیے اس لیے ملتوی کیا تھا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ مقامی لوگ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔ ایک سو بیس ایسے ضلعوں میں سروے کے بعد جہاں مزاحمت سب سے زیادہ ہے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک تہائی سے بھی کم افغانوں میں کرزئی کی حمایت ہے۔ایک بڑی اکثریت بیرونی قابضین سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے اور انہیں ملک سے باہر دیکھنا چاہتی ہے۔اور امریکی ڈرون حملوں سے ہر افغان شہری کے قتل کے بعد یہ نفرت اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ طالبان دشمن کی صفوں میں پڑنے والی دراڑوں سے حوصلہ افزائی حاصل کریں گے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ امریکہ میں لڑنے کی ہمت نہیں۔ چوبیس جون کو اکانومسٹ نے ایک دلچسپ سرخی نکالی’’ باراک اوباما نے افغانستان میں اپنے جنرل کو برطرف کر دیا ہے۔ لیکن اصل پریشانی یہ ہے کہ وہ جنگ ہار رہے ہیں‘‘۔یہ معاملے کی اصل حقیقت کو سامنے لے آتا ہے۔ مضمون میں مزید لکھا ہے،’’لیکن صدر کا فیصلہ کن ہونا ایک گہری حقیقت کو نہیں چھپا سکتا۔امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں جنگ ہار رہے ہیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون ذمہ دار ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی سامراج ہی طالبان اور القاعدہ کاذمہ دار تھا۔ امریکہ نے سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ مل کر نے ان نام نہاد مجاہدین کو منظم کیا اور ان کی پرورش کی تا کہ سویت یونین کو ایک گوریلا جنگ کے ذریعے شکست دے سکیں۔ جب تک وہ روسیوں کو قتل کر رہے تھے اس وقت تک ان رجعتی ڈاکوؤں کو مغرب میں ’’بہادر حریت پسند‘‘کے طور پر پیش کیا گیا۔ کچھ بائیں بازو کے گروپوں نے بھی جیسے برطانوی ایس ڈیلیو پی نے شرمندگی کی حد تک ان رجعتی طاقتوں کی حمایت کی۔ اس مرحلے پر امریکہ یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار تھا کہ ان اسلامی جنونیوں کو جنہیں اس وقت کابل میں سوویت نوا ز حکومت کے خلاف تیار کیا ہے افغانستان پر حکومت کریں گے۔ انہیں اسامہ بن لادن جیسے لوگوں کی سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ایک سعودی ارب پتی جس کے سی آئی اے سے گہرے روابط تھے۔لیکن جب انیس سو انانویں میں سوویت فوج نے افغانستان چھوڑاتو صورتحال تبدیل ہو گئی۔ فریکنسٹائن کی طرح واشنگٹن نے ایک ایسا بھوت تخلیق کیا تھا جسے وہ کنٹرول نہیں کر سکتے تھے۔ بہت سے دھڑے نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے اور تمام رجعتی تھے۔پاکستان میں واشنگٹن کے اتحادی افغانستان کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔آئی ایس آئی کے ذریعے پاکستان نے اس دھڑے کی حمایت کی جو اپنے آپ کو طالبان کہتا تھا اور اسے انیس سو چھیانویں میں اقتدار پر قبضہ کرنے میں مدد دی۔طالبان ایک عالمی دہشت گرد گروپ القاعدہ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جو مختلف ممالک میں امریکی اڈوں پر حملوں میں ملوث تھا۔اچانک امریکہ کا رویہ تبدیل ہو گیا۔’’بہادر حریت پسند‘‘ اچانک دہشت گرد بن گئے۔ اصل تبدیلی گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو ہوئی جب القاعدہ نے امریکی سرزمین پر حملہ کیا۔ بش نے جواباً عراق پر حملہ کر دیا جس کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے اور اس وقت القاعدہ سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس کے ساتھ ہی گیارہ ستمبر کے کچھ عرصہ بعد ہی امریکہ نے افغانستان میں بھی آپریشن شروع کر دیا۔ ایسا کرنے لے لیے امریکہ نے افغانستان میں شمالی اتحاد جیسی تنظیموں سے معاہدہ کیا جنہیں طالبان نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھااور ساتھ ہی مغربی افغانستان میں شیعہ تنظیموں کے ساتھ جو ایران اور بھارت کے قریب تھیں۔ان گروپوں نے طالبان کی مخالفت یا پھر پیسے کے لیے واشنگٹن کی حمایت کی۔اس حکمت عملی سے واشنگٹن کو زمین پر امریکی فوجیوں کی زندگی خطرے میں ڈالے بغیر حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ حملے میں امریکہ کا حصہ اتنا تھا کہ وہ فضا سے بی ۔ باون بمبار طیاروں سے طالبان پر بم گراتے تھے۔اس شدید بمباری سے طالبان شہروں سے نکل کر دیہاتوں میں چلے گئے۔ طالبان کو شکست نہیں ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے لڑائی ہی نہیں لڑی تھی۔اس کے بجائے انہوں نے اپنی طاقتوں کو محفوظ کیا اور افغانستان اور سرحد کے پار پاکستان کے پشتون علاقوں میں دوبارہ متحد ہوئے جہاں انہیں آئی ایس آئی میں موجود دوستوں سے تحفظ اور امداد ملی۔ اس وقت تک واشنگٹن نے زمین پر زیادہ امریکی فوجی نہیں اتارے تھے۔وہ دوسروں کو لڑوا رہا تھا۔لیکن اب سب بدل چکاہے۔ دو ہزار نو میں اوباما نے فیصلہ کیا کہ عراق کی بجائے افغانستان امریکی فوجی آپریشن کا مرکز ہو گا۔اس کا ارادہ تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے حالات بنائے جائیں اور 2011ء میں انخلا شروع کیا جائے۔ایسا کرنے کے لیے، جیسا کہ ہم نے دیکھا اوباما نے پہلے اپنی فوجوں میں اضافہ کیا تا کہ طالبان کو شکست دی جائے اور انہیں ایک سیاسی حل قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے جو امریکی انخلا پر منتج ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کیا ہو گا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حال ہی میں افغانستان میں بہت زیادہ معدنی دولت کی باتیں شروع ہو گئیں ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ایسا پراپیگنڈہ اس لیے کیا جائے تا کہ مغربی حکومتیں اپنی فوجیں وہاں سے نہ نکالیں۔لیکن اگر یہ سچ ہے (جو ابھی واضح نہیں) تو اس ممکنہ دولت کو ایک جنگ کے دوران نکالنابعید از خیال ہے۔اس لیے ہم شروع کے سوال پر واپس آگئے ہیں کہ تنازعے کو ختم کیسے کیا جائے؟ فوجی فتح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔امریکہ اب خطے میں اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ پھیلا چکا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کے پاس زمینی افواج کی مزید کمک موجود نہیں۔اس سے بھی بد تر یہ ہے کہ واشنگٹن کے نقطہ نظر سے افغانستان امریکہ کے لیے ضروری نہیں،اسی لیے تاریخی طور پر کبھی بھی یہاں وہ اپنی فوجوں سے نہیں لڑا بلکہ دوسروں کے خون کو استعمال کیاہے۔ اسی لیے امریکی افغان فوج اور ریاست کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ افغان عوام کے ’’دل اور دماغ ‘‘ جیتتے ہوئے جنگ لڑیں اور طالبان کو تنہا کر دیں۔لیکن جب سے القاعدہ نے اپنی کاروائیاں پاکستان، یمن اور صومالیہ اور دوسرے ممالک سے شروع کر دی ہیں اور افغانستان میں اپنے اڈوں سے انکار کر رہے ہیں ، اس کے بعد سے ایسے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جنگ کا یہ عام اصول ہے کہ کبھی بھی تمام فوجوں کو میدان میں نہ اتارو۔کسی بھی غیر متوقع و اقعے کے لیے کمک ہونی چاہیے۔لیکن امریکہ نے اس سنہری اصول کو توڑ دیا ہے۔ عراق اور افغانستان میں مشکل مہم کے باعث امریکہ دنیا میں دوسری جگہوں پر آسان ہدف بن گیا ہے۔امریکہ کے دشمن اتنے رحم دل نہیں ہوں گے کہ وہ دوسری جنگ شروع کرنے سے قبل پہلی جنگ کے خاتمے کا انتظار کریں۔پہلے ہی دہشت گردوں نے شمالی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں وسیع اڈے بنا لیے ہیں اور ساتھ ہی یمن اور صومالیہ کے غیر مستحکم اور دور دراز علاقوں میں بھی۔ اس صورتحال کو جاری نہیں رہنے دیا جا سکتا لیکن اوباما کو ایک المیے کا سامنا ہے۔ایک طرف ضروری ہے کہ جلد از جلد انخلا کیا جائے لیکن دوسری طرف جلد انخلا سے اتحادیوں کی تعمیر اور مذاکرات ممکن نہیں ہوں گے۔ اگر امریکی انخلا کر رہے ہیں تو طالبان کے لیے مذاکرات میں کوئی کشش نہیں۔اسی طرح امریکہ کے اتحادیوں میں بھی کوئی کشش نہیں جب امریکہ انخلا کی بات کر رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی عوامی رائے عامہ میں بھی مزید جنگ پر سوالیہ نشان سامنے آ رہا ہے۔جیسے جیسے جنگ لمبی ہو گی فوجیوں کو گھر لانے کی تحریک مضبوط ہو گی۔پہلے ہی امریکہ کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ جنگ سے تھک چکا ہے۔حال ہی میں امریکی کانگریس میں قانون سازوں نے اس وقت افغانستان کو امداد میں 4ارب ڈالر کی کٹوتی کی جب ایک اخبار افغانستان میں کرپشن کی خبر کو سامنے لایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنے سالوں کے قبضے نے کچھ حل نہیں کیا۔طالبان کے پاس منشیات کی رقم کے ذریعے بہت زیادہ پیسے اور وسائل ہیں۔ان کے پاس پاکستان میں محفوظ مقامات ہیں اور پاکستانی فوج اور ریاست کے اہم حصے کی حمایت بھی حاصل ہے۔ان حالات میں یہ سوچنا کہ جنرل تبدیل کرنے سے جنگ کی سمت میں کوئی واضح تبدیلی آئے گی غیر حقیقی ہے۔ آخر میں ایک صدی قبل برطانیہ کی طرح امریکی سامراج کو دشمن سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔افغانستان میں جہاں ننگی طاقت خصی ثابت ہو چکی ہو رشوت چمتکار دکھا سکتی ہے۔ افغانستا ن میں شکست تباہی ہو گی۔اس سے مغرب اور نیٹو کی توہین ہو گی۔جنگ کا سب سے محدود مقصد کہ القاعدہ کے کاروائیوں کے لیے اڈے ختم کیے جائیں ، بھی ناکام ہو جائے گا۔کہا جا رہا ہے کہ حامد کرزئی طالبان سے براہ راست مذاکرات کے رستے کھول رہا ہے۔افغان صدر نے اس کی تردید نہیں کی۔درحقیقت اس نے اس کا اعتراف کیا ہے۔یہ حیران کن نہیں۔وہ اپنی گردن بچانا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی افغانستان میں بڑھتی ہوئی بھارتی موجودگی پر غصے میں ہیں اور اپنی موجودگی بڑھا رہے ہیں۔ ایک خلا بن چکا ہے اور کسی کو اسے لازمی پر کرنا ہے۔ مغرب کا انخلا افغانستان کو ایک نئی خانہ جنگی میں دھکیل دے گا جو ماضی سے زیادہ خون ریز ہو گی۔یہ ہمسایہ ریاستوں کو مداخلت کی دعوت دے گا ۔ ایران ، پاکستان ، ہندوستان اور یہاں تک کہ روس بھی۔اس سے پورے وسطی ایشیا میں عدم استحکام پھیلے گا اور پاک بھارت جنگ کا خدشہ بڑھے گا۔ ہمیشہ کی طرح اصل نشانہ افغانستا ن کے عوام بنیں گے جو بربریت میں دھکیلے جا سکتے ہیں۔افغان بیرونی حملہ آوروں سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔بہت سے افغان طالبان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔ان حالات میں مارکسزم کی محدود قوتوں کا افغانستان میں کام انتہائی مشکل ہے۔انہیں لازمی طور پر سامراج اور بیرونی قبضے کے خلاف لڑنا ہو گا لیکن بنیاد پرست رجعتی طاقتوں کو کسی قسم کی کوئی رعایت دیے بغیر۔ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کے ذہنوں میں افغانستان کا مطلب پسماندگی،وحشت اور مذہبی جنونیت بن چکا ہے۔لیکن تاریخی طور پر یہ وسطی ایشیا کی عظیم ثقافت کا مرکز تھا۔کچھ عرصہ قبل یہاں ایک کمیونسٹ روایت تھی جو ابھی تک زندہ ہے گو کہ اسے بہت زیادہ دبایا گیا ہے۔افغان عوام کو چاہیے کہ وہ ماضی میں اس سنہری دور کی طرف دیکھیں جب ’’کمیونسٹ‘‘ اقتدار میں تھے۔ آخر کار جیسا کہ ہمیشہ ہوا ہے افغانستا ن کی قسمت کا فیصلہ کہیں اور ہو گا۔افغانستان وسطی ایشیا کا حصہ ہے۔اس کی سرحد چین اور ایران سے ملتی ہے۔یہ برصغیر جانے کا بھی راستہ ہے جو ہمالیہ کے پہاڑوں اورشمال میں پنجاب کے وسیع میدانوں سے لے کر جنوب میں بحر ہند تک پھیلا ہوا ہے۔ ہمسایہ ممالک میں تیار ہونے والی انقلابی تحریکیں افغانستان پر بڑے اثرات مرتب کریں گی۔سب سے بڑ ھ کر ایران میں ایک انقلاب تمام صورتحال کو تبدیل کر دے گا۔ یہی افغانستان اور پورے ایشیا کے لیے امید ہے
Source: Chingaree.com