چار اپریل کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی چونتیسویں برسی منائی گئی۔ 1979ء کو اس روز پاکستان کی تاریخ کے ظالم ترین آمر ضیا الحق نے انہیں تختہ دار پر قتل کر دیالیکن اگر ہم پیپلز پارٹی کے 1970ء اور 2013ء کے انتخابی منشوروں کا موازنہ کریں تو ان دستاویزات کی معاشی، سماجی اور طبقاتی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حالیہ برس میں آنے والے انتخابات پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے بعد منعقد ہو رہے ہیں۔ اس مخلوط حکومت کے دوران معاشی وسیاسی پالیسیاں تباہ کن رہی ہیں اور پیپلز پارٹی کے کئی پرانے کارکنان کو بھی یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ حکومت اور اسمبلیوں کے پانچ سال مکمل کر لینے کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے اور جشن منایا جارہا ہے کہ جمہوری حکومت اور انتقالِ اقتدار میں کسی اور ادارے (یعنی فوج) نے مداخلت نہیں کی۔
جو بڑے کارنامے جتائے جا رہے ہیں ان میں بہت سے اختیارات اور شعبہ جات کو صوبوں میں منتقلی کے لیے کی جانے والی آئینی ترامیم، غریب ترین خاندانوں کے لیے خیرات (بینظیر انکم سپورٹ پروگرام) اور چند مزید قانونی اصلاحات و سطحی اقدامات شامل ہیں جن سے اس ملک کے محنت کش عوام کی وسیع اکثریت کو کائی سروکار نہیں۔ جہاں تک فوجی مداخلت نہ ہونے کا سوال ہے تو اس میں سول حکومت کا کوئی کمال نہیں بلکہ اس کے پیچھے سماج کو تاراج کرتی بربادی ہے جس نے ریاستی اداروں کو بھی غیر مستحکم کر دیا ہے۔ فوج کی اعلیٰ کمان اس بات کو بخوبی سمجھ رہی تھی کہ فوج کا براہِ راست اقتدار پر قبضہ خود فوج میں توڑ پھوڑ کا باعث بنے گا۔ ہزاروں سپاہیوں کی جانیں گنوا کر لڑی جانے والی داخلی اور خارجی بے نتیجہ جنگیں، فوج کی سرِ عام بے عزتی، اسامہ کے معاملے اور دوسرے واقعات میں اس کے تشخص کی بدنامی کی ماضی میں مثال نہیں ملتی جس سے اختلافات گہرے اور اندرونی تنازعات میں شدت آئی ہے۔ ان حالات میں مارشل لاء کا نفاذ سارے ریاستی ڈھانچے کو توڑ سکتا تھا۔
اس ’جمہوری تبدیلی‘ کی ایک اور وجہ دولت مند طبقات کی تمام جماعتوں کی ریاستی اقتدار، وسائل اور پیسے میں کسی نہ کسی حدتک شرکت تھی۔ اگرچہ وہ مسلسل باہم متصادم رہے لیکن لوٹ مار کے لیے کی جانے والی مفاہمت کے اس نظام سے سب کے مفادات وابستہ تھے۔ سب ہی اس نظام کو بچانا چاہتے تھے۔ جمہوریت کو حقیقت کے بر عکس ایک سماجی اور معاشی نظام کے طور پر پیش کیا گیا۔ میڈیا، دانشور اور حکمران طبقات انتہائی عیار انہ سازش کے ذریعے ایک سیاسی فارمولے کو سماجی و معاشی نظام بنا کر پیش کر رہے تھے۔ اپنی سوشلسٹ بنیاد و ں سے منحرف ہونے کے بعد سے پیپلز پارٹی کی قیادت بورژوا جمہوریت کی علمبردار بنی ہوئی ہے۔ بینظیر کے قتل کے بعدبھی یہ نعرہ دیا گیا کہ ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘۔ یہاں تک کہ بنیادی نعرہ ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کو پارٹی پروگرام سے حذف کر دیا گیاہے۔ پیپلز پارٹی کا سماجی و معاشی پروگرام، نظریہ اور واحد پالیسی ’’جمہوریت بن گئی‘‘ ہے۔
لیکن ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے جس جمہوریت کا خواب دیکھا تھا وہ کچھ اور طرح کی جمہوریت تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی تحریر میں واضح طور پر کہا تھاکہ ’’جمہوریت ضروری ہے لیکن یہ کوئی حتمی مقصد نہیں۔ جمہوریت کی جدوجہد میں ہمیں معاشی مقاصد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو کہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر لوگوں کو غلامی سے نجات دلانا ہے تو جمہوریت کو عقلی سوشلزم کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ سوشلزم جمہوریت کا اعلیٰ ترین اظہار اور اس کی منطقی تعبیر ہے۔‘‘ بھٹو کی شخصیت کو استعمال کر کے سرمایہ داری کے استحصالی نظام کو جمہوریت کے نام پر جاری رکھنا بھٹو کی میراث کے ساتھ شدید نا انصافی ہے۔
بھٹو پر ایوب آمریت کی پیداوار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن اس آمر کو للکارنے والا بھی بھٹو ہی تھا اور انقلابی سوشلزم کا پروگرام دینے کی وجہ سے وہ اس تحریک کا قائد بنا جس نے بالاآخر فوجی آمریت کا تختہ الٹ دیا۔ کیا پاکستان کے سب سے وحشی آمر کی پیداوار شریف برادران اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں؟ الطاف حسین اور اس کی ایم کیو ایم، بے شمار انواع و اقسام کی مسلم لیگوں، جماعتِ اسلامی اور دوسری بے شمار رجعتی سیاسی جماعتوں کوبھی ضیاء الحق کی درندہ صفت آمریت کے دوران ’جمہوریت‘ کے نام پر ہی تخلیق کیا گیا تھاجنہیں یہ ریاست آج تک پال پوس رہی ہے۔ آج کے عہد میں یہ سب ضیاء کی ظالم حکومت کی مسلط کردہ بنیاد پرستی اور فاشسٹ نظریات کے رجعتی وارث ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں کئی سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فوجی حکومت کی جگہ جمہوری سیٹ اپ لانے کی جدوجہد کر رہی تھیں لیکن صرف بھٹو اوربائیں بازو کے دوسرے رہنماؤں کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اس سوچ کو مسترد کر کے ایک انقلابی تبدیلی کا پیغام دیاتھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی دستاویزات میں واضح لکھا ہے کہ ’’پارٹی کی پالیسی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو ہمارے وقت میں صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ راتوں رات پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بننے والی پیپلز پارٹی کے پاس لینن اسٹ کیڈر نیٹ ورک اورڈھانچے موجود نہیں تھے جو ریاست کے اندر ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے سڑکوں پر امنڈ کر انقلاب کی قیادت کرسکتے۔ 30 نومبر 1967ء کو پارٹی کے تاسیسی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے کہا ’’عظیم تحریکوں کی شروعات اکثر بہت معمولی ہوتی ہے۔‘‘ تاریخ کے میدان میں ظاہر ہونے والے انقلابات انقلابی پارٹیوں کی تعمیر کا انتظار نہیں کرتے۔
1970ء کے انتخابات، جنگ، پاکستان کی تقسیم، اور اس وقت رونما ہونے والے دیگر دھماکہ خیز واقعات کے دوران ایک بالشویک پارٹی کے فقدان نے انقلاب کے ضائع ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی کو اقتدار پیش کیا گیا اور انہوں نے اسے بورژوا ریاست کے اداروں کی حدود کے ساتھ قبول کر لیا۔ ان حالات میں اگر وہ نظام کو تبدیل کرنا بھی چاہتے تو نہ کر پاتے۔ اگرچہ عوام کے لیے صحت، تعلیم اور دوسرے شعبوں میں بہت ریڈیکل اصلاحات کی گئیں لیکن پاکستان کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان اصلاحات کو جاری رکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ معاشی بحران اور بڑے پیمانے کے افراطِ زر نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کر ڈالا اور سامراج کی مدد سے فوج نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔ دو سال سے بھی کم وقت میں بھٹو کو نیشنلائیزیشن اور بورژوازی کو گھائل کرنے والے دوسرے اقدامات کے انتقام میں قتل کر دیا گیا۔
کال کوٹھری سے اپنی آخری وصیت میں انہو ں نے لکھا کہ’’ آبرو مندانہ مصالحت ایک فرضی خیال ہے۔ اس فوجی بغاوت سے ظاہر ہے کہ طبقاتی جدوجہد ناقابلِ مصالحت ہے اور اس کا حتمی نتیجہ ایک طبقے کی دوسرے پر فتح ہے۔ ‘‘ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اس نتیجے اور میراث سے خوف زدہ ہے۔ بھٹو اور ان کے کامریڈوں نے کم از کم سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد تو کی۔ ان سے کئی غلطیاں ہوئیں جنہیں تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی اور موت سے درست کرنے کی کوشش کی۔ بھٹو کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی سرمایہ نواز حکومتوں نے پارٹی کی سوشلسٹ بنیاد کو پامال کیا ہے۔ ان پالیسیوں نے مجبور عوام کو برباد اور پیپلز پارٹی کو بطور محنت کشوں کی روایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وجود کا دارومدار پیپلز پارٹی کے قیام کے ادھورے مقاصد کو پورا کرنے کی خاطر نئی نسل کے انقلابی عزم و حوصلے پر ہے،بشرطیکہ پارٹی وہ وقت آنے سے قبل ہی بطور عوامی روایت ختم ہو کر بکھر نہ جائے۔ ایسا ہونے پر ایک نئی تحریک محنت کش طبقے کی ایک ترو تازہ روایت کو جنم دے گی جو انقلاب کے فریضے کو ادھورانہیں چھوڑے گی۔
Source: The Struggle (Pakistan)