تیس نومبر کو سرکاری شعبے کے بیس لاکھ سے زیادہ محنت کشوں نے ہڑتال کی۔فی الواقعہ یہ سرکاری شعبے کی عام ہڑتال تھی۔ہڑتال میں شریک محنت کشوں کی تعداد 1979ء کے ’’بے چین موسم سرما‘‘ اور حتیٰ کہ 1926ء کی عام ہڑتال سے زیادہ تھی۔ یہاں تک کہ بڑے تاجروں کے اخبار فنانشل ٹائمز نے بھی حیران کن طور پراس ہڑتال کو ’’بلا شبہ تاریخی‘‘ قرار دیا۔
میڈیا کا سارا ہڑتال مخالف پروپیگنڈابے سود ثابت ہوا۔ انتیس مختلف یونینوں نے اس میں حصہ لیا جن میں کئی اس سے پہلے تاریخ میں کبھی بھی ہڑتال میں شامل نہیں ہوئیں۔یہ کامیابی مزدور تحریک میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے جو کئی دہایؤں کے جمود کے بعد پھر سے اٹھ رہی ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کئی محنت کش حکومت کی جانب سے پینشن پر حملوں پرغصے میں ہیں۔موسم خزاں کی سرکاری مالیاتی رپورٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کے مطابق بہت زیادہ دولت غریب ترین افراد سے امیر ترین لوگوں کی طرف منتقل ہوئی ۔اس غصے کا اندازہ ہیڈ ٹیچر سیلے بیٹس کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اگر ایمانداری سے بتاؤں تومیں اس سب میں خود کو کافی بالشویک محسوس کر رہی ہوں‘‘۔
جارج اوسبورن(وزیر خزانہ) کی جانب سے ہڑتال منسوخ کر دینے کی درخواستیں بے اثر ثابت ہوئیں ، خاص طور پرایک دن پہلے جب یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت کے بے رحمانہ کٹوتیوں کے اقدامات اگلی پارلیمان کے دور تک جائیں گے۔ اس بے شرم ٹوری نے انتہائی آرام سے اعلان کیا کہ مزید تین لاکھ محنت کش ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے اور اجرتوں میں کمی آئے گی (جبکہ امیر امیر تر ہوں گے)۔ 2026ء میں ریٹائرمنٹ کی سرکاری عمر بڑھا کر 67برس کر دی جائے گی جو کہ پہلے کے اعلانات سے دس برس قبل ہے۔
اگلے ہی روز برطانیہ کے محنت کشوں نے اپنا جواب دے دیا۔ سارے برطانیہ میں سرکاری خدمات جام ہو گئیں۔پی سی ایس (پبلک اینڈ کمرشل سروسز) یونین کے مطابق کچھ سرکاری محکموں میں90فیصد سٹاف ہڑتال پر تھا جس میں محکمہ مال اور کسٹمز شامل ہیں۔
سکاٹ لینڈ میں 300,000اور ویلز میں170,000محنت کش ہڑتال پر تھے۔ ہڑتالیوں کی اکثریت خواتین پر مشتمل تھی جو ہڑتالی کیمپوں اور مظاہروں میں ان کی شرکت سے واضح ہے ۔ صبح سے ہی ہزاروں ہڑتالی کیمپ لگنا شروع ہو گئے جن میں ہزاروں رضاکار موجود تھے جن میں سے اکثر ایسا زندگی میں پہلے مرتبہ کر رہے تھے۔ ماحول انتہائی پر جوش تھا اور ہڑتالی شوخ نارنجی رنگ کی یونین جیکٹیں پہنے ہوئے تھے اور سڑک سے گزرنے والے ہارن بجا کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ جو محنت کش متزلزل تھے یا براہ راست طور ہر ہڑتال میں شریک نہیں تھے، انہیں ہڑتالی ناکہ بندی پار کر کے کام پر نہ جانے کے لیے قائل کیا جا رہا تھا۔ ہڑتال کے اثر کو چھپانے کے اوچھے ہتھکنڈے کے طور پر سرکار نے این ایچ ایس (نیشل ہیلتھ سروس) ٹرسٹ کو ہڑتال میں شریک مقامی سٹاف کی تعداد کا اعلان کرنے سے روک دیا لیکن ایک اندازے کے مطابق محکمہ صحت میں این ایچ ایس کے 400,000ملازمین ہڑتال پر تھے۔ طلباء نرسوں اور ہسپتال کے عملے کے ہڑتالی کیمپوں اور مظاہروں میں شریک ہوئے۔
سکولوں کے لاکھوں طلباء ان کے بند ہونے کی وجہ سے سکول نہ گئے۔90فیصد سکول بند تھے اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے بھی کام نہیں کر رہے تھے۔ لندن کے ایک استاد نے کہا کہ ’’لوگوں کو ہڑتا ل کا شوق نہیں ہے لیکن جب تک اپنے حقوق کے لیے کھڑ ے نہیں ہوں گے ہمیں دبایا جاتا رہے گا‘‘۔ یونیورسٹیوں اور کالج کے طلباء لیکچراروں اور ملازمین کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوئے۔
لندن کے ایمبولینس کے محکمے کے آدھے ملازمین ہڑتال پر تھے اور بہت سے ہسپتال صرف جان لیوا ایمرجنسی والے کیس لے رہے تھے۔ لائبریریاں، عدالتیں، تیراکی کے تالاب، تفریحی مراکز سب بند تھے، حتیٰ کہ ٹریفک وارڈن بھی ہڑتال پر تھے۔دریائے مرسی کی سرنگوں کے محنت کشوں نے آدھی رات سے ہی ہڑتالی کیمپ لگانے شروع کر دیے تھے۔ کونسل کے دفاتر اور ڈیپو بھی بند تھے اور کونسل ملازم اور کوڑا اکٹھا کرنے والے ہڑتال پر تھے۔
انتہائی غیر متوقع واقعہ یہ رونما ہوا کہ مانچسٹر میں کراؤن پراسیکیوشن سروس کے باہر وکلا ء ہڑتالی کیمپ میں شامل ہو گئے۔ سکاٹ لینڈ پارلیمان کے مطابق اس کے آدھے سے زیادہ ملازمین غیر حاضر تھے۔ لندن میں مجمع نے بہت خوشی کا اظہار کیا جب ایک مقرر نے ریلی سے خطاب میں بتایا کہ وائیٹ ہال میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی ٹیم کے کچھ ملازمین بھی ہڑتال میں شامل ہو گئے ہیں۔
بڑے مظاہرے
ملک بھر میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ لندن میں ایک لاکھ، مانچیسٹر میں بیس ہزار سے زیادہ اوربرمینگھم میں پندرہ ہزار سے زیادہ کے مظاہرے ہوئے‘ اگرچہ ٹوری پارٹی کی کونسلوں(مقامی حکومتوں) نے ان پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’’ میں کئی برسوں سے ٹریڈ یونین میں ہوں لیکن جو انتہائی حیران کن چیز میں نے دیکھی کہ ایک بھی پولیس والا موجود نہیں تھا! مغربی مڈلینڈز پولیس کے اپنے مسائل ہیں اور تین ہزار ملازمتیں ختم کی جا رہی ہیں جن میں ایک ہزارپولیس کے سپاہی ہیں۔ پولیس کی سول سٹاف کی اکثریت ہڑتال پر تھی۔
پولیس نے سٹی کونسل کی بدمعاشی کے آگے اپنا فیصلہ سنا دیا اور ڈیڑھ گھنٹے کے مظاہرے میں سارے شہر میں ایک بھی پولیس والا دکھائی نہیں دیا۔ ‘‘
گلاسکو اور ایڈنبرا میں دس ہزار افراد کے مظاہرے ہوئے۔ کارڈف میں پانچ ہزار، نیوکاسل اور شیفیلڈمیں دس ہزار مظاہرین تھے۔ بیلفاسٹ میں پندرہ ہزار افراد نے ریلی نکالی۔ برائیٹن، وارتھنگ، ہورشام اور ہیسٹنگ میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا۔ ان کے علاوہ بہت سے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ایک ہزار یا اس سے زائد افراد شریک ہوئے جس سے اس تحریک کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
لیبر پارٹی
مخلوط حکومت کے محنت کشوں پر ان حملوں کی وجہ سرمایہ داری کا بحران ہے نہ کہ ’’ٹوری نظریات‘‘ جیسا کہ بائیں بازو کے چند لوگ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آخری تجزیے میں حکومت کے ان حملوں کا مقابلہ صرف سیاسی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو گرا کر لیبر پارٹی کی نئی حکومت منتخب کرنا ہو گی۔ لیکن اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہو گا لیبر پارٹی کی حکومت محنت کشوں کے مفادات کا تحفظ کرے۔ اس صورتحال میں محنت کش طبقہ اپنے قائدین سے توقع کرتا ہے کہ وہ کھل کر سامنے آئیں بغیر کسی ابہام کے ان کی حمایت کریں۔ لیکن اس جدوجہد کے آغاز سے ہی لیبر پارٹی کے لیڈر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے یونینوں کی حمایت میں کھل کر آنے سے انکار کیا ہے اور ’’ہڑتال کی بجائے مذاکرات‘‘ کی اپیل کی ہے۔ لیکن جب حکومت کسی بامعنی بات چیت میں شامل ہونے سے انکارکرے تو محنت کشوں کے پاس اپنے واحد ہتھیار کو استعمال کرنے کے علاوہ کیا چارہ ہے۔
محنت کشوں کے غصے کے ایوان نمائندگان کے بے حس ماحول میں پہنچنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ 30نومبر کو وزیر اعظم کے وقفہ سوالات میں لیبر پارٹی کے رہنما ایڈ ملی بینڈ نے ڈیوڈ کیمرون سے پوچھا کہ ایک سکول ہیڈ مسٹریس جس کی کیمرون نے جون میں ہڑتال میں نہ جانے پر تعریف کی تھی اب پینشن میں کٹوتی کے خلاف اپنا سکول بند کر کے کیوں ہڑتال میں شامل ہوئی ہے۔ جواب میں وزیر اعظم نے لیبر لیڈرپر ’’بائیں بازو‘‘ سے تعلق اور ہڑتال کی حمایت کا الزام لگایا۔ لیبر لیڈر نے اس طنز کے جواب میں کہا کہ ’’وزیر اعظم کے بر عکس میں سکول میں بچوں کو کھانا دینے والی خاتون یا صفائی کرنے والی یا نرس کو شیطان بنا کر پیش نہیں کروں گا۔۔۔جوپورے سال میں اتنا کماتے ہیں جتنا وزیر خزانہ اپنی چھٹیوں میں اڑا دیتے ہیں‘‘۔یہ اس کے ماضی کے بیانات سے بہتر ہے لیکن ناکافی ہے۔ محنت کش لیبر پارٹی کے لیڈر سے ان کی حمایت کرنے کی توقع کرتے ہیں جیسا کہ سارے ملک میں لیبر پارٹی کے بہت سے عام ممبران کر رہے ہیں۔ سکاٹش پارلیمان اور ویلز کی اسمبلی کے لیبر ممبران کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کھل کر ہڑتال کی حما یت کی اور ہڑتالی ناکہ بندی کو پار نہیں کیا۔ بائیں بازو کے ممبر پارلیمان جان میکڈونل لیبر ممبران کے اس چھوٹے سے گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے ہڑتال کی کھل کر حمایت کی۔ وہ ایوان نمائندگان کے ہڑتالی کیمپ میں یونین ممبران کے ساتھ شامل ہو ئے اور کہا ’’ایڈ ملی بینڈ نے صبح صاف صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اس ہڑتال کی حمایت نہیں کرتا۔ میں اس کی حمایت کرتا ہوں ، اور میرے خیال میں ایسا کرنا ہی درست ہے اور مجھے امید ہے کہ و ہ ہڑتالی کیمپوں میں موجود کچھ لوگوں کی آواز ضرور سنے گا۔ ان میں سے کچھ نے زندگی میں اس سے پہلے کبھی ہڑتال نہیں کی، کچھ یونینیں ایسی ہیں جو تاریخ میں اس سے قبل کبھی ہڑتال پر نہیں گئیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ کتنے غصے میں ہیں اور لیبر پار ٹی اور لیبر قیادت کو اس غصے کی عکاسی کرنی چاہیے۔‘‘ پی سی ایس کے جنرل سیکرٹری مارک سروٹکا نے لندن میں ریلی سے خطاب کے دوران کہا کہ ’’اب وقت آ گیا ہے کہ لیبر پارٹی کھل کر ہڑتال کی حمایت کا اعلان کرے‘‘۔ٹریڈ یونینیں جن کے چندے پر لیبر پارٹی چلتی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ لیبر پارٹی کے قیام کے مقصد کو یقینی بنائیں جو محنت کش طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔ گہرے بحران میں گھِرے سرمایہ دارانہ نظام کو پیوند لگانے کی کوششوں کی بجائے لیبر پارٹی کو اسے ختم کرنے کی جدوجہد کرنا چاہیے۔ اس سے کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کو ٹوری اور ان کے لبرل دم چھلوں کی حکومت کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کا لیے ایک نیا عزم ملے گا۔ واپسی کا ایک قدم بھی نا منظور! حکومت کی جانب سے آخری ’’پیشکش‘‘ واپس لینے اور ٹریڈ یونین مخالف قوانین میں سختی کی دھمکی سے محنت کش ڈرے نہیں بلکہ مزید پر عزم ہوئے ہیں۔ ’’سونے کی پینشن‘‘ کو بنیاد بنا کر نجی اور سرکاری شعبے کے محنت کشوں کو تقسیم کرنے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی ہے۔تمام محنت کش حملوں کی زد میں ہیں اور نجی شعبے کے محنت کش بھی ان ہی نتائج پر پہنچیں گے۔ بی بی سی کی رائے شماری کے مطابق آبادی کا 61فیصد بشمول 79فیصد نو جوان، 67فیصد خواتین اور71فیصد سکاٹ ہڑتال کے حامی ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معیارِ زندگی میں گراوٹ اور کئی نسلوں کی شدید ترین کٹوتیوں سے اس احساس میں شدت آئے گی ۔ پینشن میں کٹوتیاں تو محض آغاز ہیں جس سے لاکھوں محنت کش خوفزدہ ہیں۔ پینشن کے معاملے پر حکومت اور ٹریڈ یونینوں میں مذاکرات ایک مذاق ہیں۔ حکومت کے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ٹریڈ یونینوں کو سمجھنا ہو گا کہ کیا کچھ داؤ پر ہے۔ انہیں تاریخ کی سب سے بڑی لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہونا ہو گا۔
الگ الگ ہڑتال کرنے کا خیال پیچھے کی جانب ایک قدم ہو گا۔ ساؤتھ ہمپٹن میں کٹوتیوں کے خلاف چھ ماہ سے جاری جدوجہد میں مختلف شعبوں کی الگ الگ ہڑتالوں سے کونسل ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
’’طبقاتی جنگ‘‘
بالآخر برطانوی محنت کش طبقہ حرکت میں آ گیا ہے۔ انہیں ٹوری اور لبرل مخلوط حکومت نے للکارا ہے اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے لڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ یہ امیروں کی غریبوں کے خلاف اور مالکان کی محنت کشوں کے خلاف جنگ ہے۔محنت کش پر عزم ہیں اور انہیں اپنی مشترکہ طاقت کا احساس ہو رہا ہے۔ اگلا قدم سرکاری اور نجی شعبے کی مشترکہ 24گھنٹے کی ہڑتال ہونا چاہیے۔ 30نومبر کی ہڑتال بہت بڑا قدم تھا
لیکن یہ صرف آغاز ہے۔
ہمیں نہ صرف پینشن پلان کی منسوخی کا مطالبہ کرنا چاہیے بلکہ بینکاروں کی حکومت کا خاتمہ اور سماج میں بنیادی تبدیلی لانا ہو گی۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر صرف کٹوتیاں ہی ہو سکتی ہیں۔صرف معیشت کے بڑے شعبوں کو محنت کشوں کے کنٹرول اور انتظام میں لے کر ہی سماج کے وسائل کو چند بینکاروں اور کروڑ پتیوں کی بجائے سب کے مفاد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
30نومبر برطانیہ میں طبقاتی جدوجہد میں ایک سنگ میل تھا۔ واقعات محنت کشوں کو باور کرائیں گے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی مرمت کر کے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جنگ سماج کو جڑ سے بدلنے کی ہو گی۔ یہی مستقبل کا واحد راستہ ہے۔
24گھنٹے کی ہڑتال کی تیاری کرو!
ہم بینکاروں کے بحران کی قیمت نہیں چکائیں گے!
ٹوری اور ان کے لبرل دم چھلوں کو مار بھگاؤ!
لیبر پارٹی محنت کشوں کا دفاع کرے، نہ کہ مالکان کا!
Translation: Chingaree.com (Pakistan)