Urdu translation of Britain: Diamond Bob - “Dude, I owe you big time!” (July 12, 2012).
[تحریر:راب سیول، ترجمہ:اسدپتافی]
ایلس ان دی ونڈر لینڈ(Alice in Wonderland)میں دلوں کی ملکہ جب سرشاری سے کہتی ہے کہ’’ان لوگوں کے تو سر ہی خالی ہوچکے ہیں‘‘ تو وہاں موجود جم غفیر ملکہ کی اس بات کی تائید کرتا ہے۔آج کل بینکاروں کے ضمن میں یہ بات بالکل صحیح لگتی ہے اور یہ بات کسی طور کوئی مذاق نہیں ہے۔دنیا کے بیشتر حصوں میں بینکارفراعین مصر کے درجے اور مرتبے پر پہنچ چکے ہیں۔جن کی سیاہ کاریوں نے عالم انسانی کوایک بحران میں دھکیل دیاہے۔اور یہی نہیں بلکہ یہ اس بحران کو دن بدن بحران کو شدید سے شدید تر بھی کرتے چلے جا رہے ہیں اور پھر اسی پر ہی بس نہیں، عالمی ڈکیتوں کے اس ٹولے کو عوام کے اداکردہ ٹیکسوں میں سے بیل آؤٹ کے نام پربھاری رقوم بھی دی جا رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں برطانیہ کے اندر عوامی مزاج ان لٹیروں کے ضمن میں بہت زیادہ بگڑ چکاہے اور ایک عمومی غیض و غضب کی کیفیت زوروں پر ہے۔ان انتہائی مراعات یافتہ جونکوں نے چالاکی و عیاری سے اربوں پونڈزہتھیا لیے ہوئے ہیں اوران کی اس سینہ زورچوری کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی گئی ہیں۔دوسری طرف یہ حضرات بڑے بڑے محلات اور پر تعیش کشتیوں میں اپنی اس دولت سے لطف اندوزہوتے پھررہے ہیں۔آج کل انسانی المیوں کے ان تاجروں کے کچھ قصے ذرائع ابلاغ میں سامنے آئے ہیں۔جن میں یہ صاحبان بولنگر شیمپین کی بوتلیں لہراتے ہوئے، اپنے اپنے بھاری بونسوں کا ذکر کرتے ہوئے اور اپنی مالیاتی کامیابیوں پر اتراتے ہوئے ایک دوسرے کو بڑی رنگین اور مزیدارضیافتوں کیلئے دعوتیں دے رہے ہیں۔’’سنو یار تم ایسا کرو کہ کسی دن کام سے فارغ ہو کر میری طرف آجاؤ،میں نے بولنگر شیمپین کی ایک بوتل کھولنی ہے ‘‘ یہ پیغام برکلے بینک کے ایک افسر اعلیٰ نے ایک بڑے تاجر دوست کو بھیجا۔جس نے اس بینکار کو یہ فرمائش کی ہوئی تھی کہ وہ قرضے کی شرح کو عارضی طورپر کم کر ے۔
بی بی سی ریڈیو4کے ایک پروگرام میں جو کہ ہر سوموار کو نشرہواکرتاہے،سرمایہ دارانہ نظام اور قانون کا موضوع زیر بحث تھا۔اس دوران بحث ناگزیر طورپر بینکوں کی طرف رخ اختیار کر گئی اور یہ گفتگو شروع ہو گئی کہ کیونکر ان بینکاروں کو جیلوں میں نہیں ڈالا جاتا؟اس سوال کے جواب اور دفاع میں بینکار نے کہا کہ ’’قانون کی حکمرانی ‘‘ کو کسی طور بھی ’’عوام کی حکمرانی‘‘کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔اس کا اشارہ سماج کی ان نچلی پرتوں کی طرف تھا کہ جو ’’لوٹ مار‘‘ کرتے ہیں۔ان چھوٹی ذات کے لوگوں کو کسی طور اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان معاملات میں الجھیں کہ جن سے ان کا سروکار نہیں ہوتا۔یہ ان بینکاروں کا حقیقی رحجان اور ذہنی رویہ ہے۔
لیکن پچھلے ہفتے حالات وواقعات میں ایک نیا موڑ آیا۔ پہلے تو ہمیں کہا گیا کہ برطانیہ کے سرکاری رائل بینک آف سکاٹ لینڈ کا کمپیوٹر نظام مبینہ طور پر منہدم ہوچکا ہے۔اس دوران بینک کے16.9ملین صارفین ایک ہفتے تک اپنی رقوم بینک سے نکلوانے میں ناکام رہے۔ جس پر اس کے صارفین انتہائی اضطراب اور غم وغصے میں مبتلاہوگئے۔ بینک کے اعلیٰ افسران نے اس بات سے انکار کیا کہ یہ ناکامی ان 36000برطرف کیے جانے والے ملازمین کی وجہ سے ہوئی، جنہیں مالیاتی بحران کے شروع ہونے کے بعد سے لاگت کم کرنے اورمنافعوں کو بڑھوتری دینے کی غرض سے فارغ کردیاگیاتھا۔لیکن اس قسم کی وضاحتیں کسی طور بھی لوگوں کی اشک شوئی نہیں کر سکیں۔ اس کے بعد برکلے،ایچ ایس بی سی،رائل بینک آف سکاٹ لینڈاور للائیڈز بینکنگ گروپ جن میں سے آخرالذکر دو عوام کا خاصا پیسہ ہڑپ کر چکے ہیں،کے بارے یہ بات کھلی کہ یہ سب چھوٹے اور میڈیم کاروباروں کیلئے شرح سود میں ہیرپھیر کرنے میں ملوث ہیں۔
جرمانے
اب،گارڈین جریدے کے مطابق،برکلے بینک پر 290ملین پونڈز کا جرمانہ عائد کردیاگیاہے جو ٹیکس کٹوتیوں کی مد میں ہوا ہے اور جو کہ بینک کے 13دنوں کے منافعوں کے برابر کی رقم ہے۔ اس کے بعد بینک کے چیف ایگزیکٹوباب ڈائمنڈکو چاروناچار اپنے عہدے سے استعفیٰ دیناپڑگیا۔اس پر الزام تھا کہ اس نے لندن انٹر بینک آفرڈ ریٹLibor میں ہیراپھیری کی ہے۔ اس کے باعث بینک کی قرضہ بازی کو شدیدمتاثر کیاہے اور جس کی وسیع پیمانے پر مذمت اور مخالفت کی جارہی ہے اور لوگ بھاری منافعوں کی اس غارت گر ہوس کے خلاف بہت اشتعال میں آچکے ہیں۔Libor rate دنیا بھر میں مالیاتی پیداوار کا 380ٹریلین ڈالرزکا مرکز ومحور ہے۔اور اس ریٹ کو بینکار ترتیب دیتے ہیں جس کی مدد سے،ان کے مطابق،بینکوں کی قرضہ بازی کی اوسط لاگت کی حدودووقیود متعین کی جاتی ہوتی ہیں۔
لبر ریٹ میں ہیراپھیری اورشرح سودکو ہیرپھیر سے بیچنا دونوں ہی دومختلف سکینڈل ہیں،اس کے باوجود یہ دونوں واضح طورپر ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔شرح سود کے ریٹ، لبر ریٹ سے ہی منسلک ہوتے ہیں۔اور ان دونوں کو یہ بینک ہی بناتے بگاڑتے آرہے تھے۔لبر ریٹ میں دھاندلی اس قدر گہرا اور وسیع سکینڈل ہے،اور اس کے جس طرح سے اثرات مرتب ہوئے ہیں،ان کی مناسبت سے یہ تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی تنازعہ بن چکاہے۔FSA.کے سربراہ لارڈ ٹرنرنے قرار دیاہے کہ ’’یہ بدمعاشی اور لالچ کی بدترین مثال ہے جس نے ہلچل مچا دی ہے ‘‘۔
2007/8کے مالیاتی انہدام کے بعد سے اس حوالے سے اضطراب اور غم وغصہ بتدریج بڑھتا چلا جا رہاتھا۔اس سے پہلے کی دہائیوں کے دوران ہی یہ بینکار صاحبان اپنے عزیز کاروباریوں کے ساتھ معاملات طے کرتے اور اپنی اپنی قسمتیں سنوارنے میں مگن رہے۔یہ بینکار اس سابقہ عرصے کے دوران اپنی صوابدید پر اور اپنی مرضی سے اربوں کھربوں کا لین دین اور ہیر پھیر کرتے رہے اور اس کیلئے کئی قسم کے مالیاتی اوزار بھی بنائے جن میں Collateralised Debt Obligations, Monoline Financial Guarantors, Credit Derivative Product Companies, Structured Investment Vehicles, Commercial Paper Conduits, Leverage Buyout Fundsجیسے ادارے شامل ہیں۔یہ سب کسی روسی گڑیا کے پرزوں کی طرح سے ایک دوسرے سے منسلک و پیوست تھے۔ اور ان کی مدد سے یہ اپنی اپنی مالیاتی سلطنتیں قائم کرتے چلے گئے۔ ان اداروں نے رسکی معاہدوں پر قرضے جاری کئے،اور پھر ان کو بار بار پیکج دیتے رہے اور اس کے بعد ریٹنگ ایجنسیوں سے کہا گیا کہ انہیں AAAریٹنگ سے نوازاجائے۔اور پھر اس سب کو اربوں میں بیچا جاتا رہا۔لہمن برادرز،سٹی گروپ،بیر سٹرنز،کریڈٹ سوئسی،یو بی ایس،رائل بینک آف سکاٹ لینڈاور کئی دوسرے بینکوں نے اپنے مالی معاملات اندھا دھندطریقوں سے چلائے۔سب پرائم قرضے لینے والوں کو ٹارگٹ کیا گیا،اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ ان کو دیے جانے والی رقوم کبھی بھی واپس نہیں ہو سکیں گی۔قرضے اس بے ڈھنگے پیمانے پر جاری کئے گئے کہ جس کی وجہ سے تاریخ کا سب سے بڑا کریڈٹ بلبلہ پیداہوتا چلاگیا۔2007ء کے کریڈٹ کرنچ تک یہی کھلواڑ جاری رہا جس کے بعد سرمایہ داری 1930ء کے معاشی انہدام کے بعد کے اپنے سب سے بڑے بحران میں دھنستی چلی گئی۔اور یہ سب کچھ کہیں کسی آسمان سے نہیں ٹپکا بلکہ مرکزی بینکوں کے انہی ناخداؤں کی کارستانیوں کے طفیل ہواہے۔
امریکی مرکزی بینک کے سربراہ بن برنانکے نے2005ء میں فرمایاتھا’’اگرچہ سٹے بازی اس وقت بھی قومی سطح پر کئی شعبوں میں بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر گھروں کی قیمتوں میں بڑھوتری اس بات کی واضح نشاندہی کرتی ہے کہ معیشت اپنی بنیادوں میں مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں سب ٹھیک بلکہ بہترین اور توانا جا رہاتھا۔ان دنوں ہر طرف اس قسم کے کئی کرشماتی تخلیق کار ہر طرف سونا ہی سونا دیکھ رہے تھے۔لیکن یہ سب کچھ سماج کو داؤ پر لگاتے ہوئے کیا جارہاتھا۔سٹے بازی تھی کہ پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہی جا رہی تھی یہاں تک کہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی شرح کو پہنچ گئی۔
سکینڈل
یہ پس منظر ہے مذکورہ لبر سکینڈل کا،ا ور جس کا یارلوگوں کو پتہ تھا کہ صورتحال کس طرف کو جارہی ہے۔لیکن اب یہ بدقسمتی سے ایرے غیرے کو بھی معلوم ہوچکی ہے۔سکینڈل کی شہ سرخی ارکان پارلیمان کی شاہ خرچیاں تھیں،پھر پرسی کے بے تاج بادشاہ مردوخ کا ہیکنگ سکینڈل جس میں اس کے حکومتی کے بالا حکام اور پولیس کے اعلیٰ ٰ افسران سے تعلقات کے بھید کھلے۔اس سے ہمیں مارکس کی وہ بات سمجھ میںآتی ہے جب اس نے کہاتھا کہ ’’جدید ریاست کی ایگزیکٹوایک ایسی کمیٹی کے سوا کچھ نہیں ہوتی جو کہ بورژوازی کے عمومی معمولات کی نگرانی ونگہبانی کرتی ہو‘‘۔ا س ساری سازش کے تانے بانے کہیں کسی فردوس بریں میں بنے گئے۔اعلی ٰ ترین اشرافیائی پرتوں نے بیٹھے بٹھائے تصور سے بھی زیادہ دولت اپنی تجوریوں میں بھر لی۔جس کے نتیجے میں یہاں برطانیہ میں لاکھوں عام لوگ بیروزگاری کی دلدل میں دھکیلے جا چکے ہیں۔جن کے روزگار باقی ہیں،وہ ان کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں۔اجرتوں میں کٹوتیوں کا دھڑکا بھی عام ہوچکاہے،معیار زندگی میں گراوٹ وبا کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ وقت کام کرنا اور کم لاگت پر ریٹائر ہونے کا ملال جلتی پر تیل کا کام کر رہاہے۔اس وقت برطانیہ میں13ملین خاندان غربت کی سطح کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اسی وجہ سے یہاں سماج میں بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق کے خلاف غم وغصہ اور حقارت بڑھتی چلی جارہی ہے۔امیر طبقہ، سماج کے باقی حصے کی قیمت پر امیر ترین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ برطانوی اسٹیبلشمنٹ اس ساری کیفیت کوٹالنے کیلئے اس وقت بینکوں کے سربراہوں اور بالا افسران کو اختیارات کے حد سے زیادہ استعمال پرسخت برا بھلا کہنا شروع ہو گئی ہے۔ ارب پتی جارج اوسبورنے نے کہا ہے کہ سٹی گروپ میں ایک ’منظم و باہم حرص پرستی کا کلچر ‘‘پروان پا چکاتھا۔یہاں تک کہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی اپنے بینکار دوستوں کو ڈانٹ پلانی پڑ گئی ہے کہ ان کی وجہ سے ایک عوامی بغاوت کا خطرہ منڈلانا شروع ہوگیاہے۔ کیمرون نے اس سلسلے میں ایک پارلیمانی تحقیقی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے (جس میں وہ ارکان بھی شامل کئے گئے ہیں جو اس بدعنوانی میں شریک رہے ہیں)۔یہ کمیٹی بینکاروں کی بداعمالیوں کی چھان بین کرے گی۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک زانی کو یہ کام سونپا جائے کہ وہ جسم فروشی بارے تحقیقات کرے۔برکلے کے افسران بالا کی جانب سے کف افسوس ملنا یا پھر اعتراف گناہ سے اس صورتحال کی سڑاند ختم نہیں ہوگی۔جریدے فنانشل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ’’ شاید بارکلے بینک کے معاملے میں دوسرے بینک سکینڈلوں والی اتنی چاشنی نہ ہو لیکن اس نے اپنے شرح منافعوں کے ضمن میں غلط رپورٹنگ کا بے لذت جرم کیا ہے،لیکن کئی بینکوں نے مالیاتی نظام کے پہلے سے گل سڑ چکے دل پر بجلیاں گرا دی ہیں‘‘۔ ’’یہ سب کچھ بڑے پیمانے پرمنڈی کا خون نچوڑنے کا عمل تھا۔اس سے زیادہ بدترین اور بھیانک کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔اس نے سرمایہ دارانہ نظام کی ساکھ کو تہہ وبالا کر دیاہے‘‘۔(فنانشل ٹائمز29جون2012ء)
خطرات
یہ ان سب کیلئے ایک حقیقی اور سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔ آگ کا یہ طوفان کسی طور کم ہونے والا نہیں جو کہ سماج میں بینکاروں کے خلاف شدید غم وغصہ پیدا کر چکاہے اور جو بھڑکتا جارہاہے۔جریدے اکانومسٹ نے اپنے ٹائٹل پر ’’بینکاروں کی بدمعاشیاں‘‘ کی پھبتی کسی ہے۔اور ساتھ ہی اس کے سرمایہ دارانہ نظام پر اثرات کا بھی لکھا ہے۔ اپنے آپ کو اس ساری بدعنوانی اور مالیاتی بدمعاشی سے الگ تھلگ رکھنے کی ہزار کوششوں کے باوجود سکینڈلز سرمایہ دارانہ نظام کا جینیاتی مرض ہیں۔سرمائے کے مالکوں اور مینیجروں کی لالچ اور طاقت کے حصول کی ہوس جسے مقابلہ بازی قراردیاجاتاہے،ناگزیر طور پر دھوکے بازی اور بدعنوانی کو جنم دیتی اورپھر اسے مسلسل پروان چڑھاتی رہتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام اور منڈی کی معیشت کی یہی فطرت ہوتی ہے۔اس کے عذرخواہوں کے تمام تر احتجاج اور شور شرابے کے باجود یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور چلتا رہے گا۔سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقی قوت محرکہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی قیمت پر کسی بھی حالت میں زیادہ سے زیادہ منافع بٹورا جائے۔
باب ڈائمنڈ نے قرار دیا ہے کہ ہمارے بعض احباب نے ہماری اقدار اور تہذیب کے بالکل خلاف کام کئے ہیں۔ لیکن پھر یہ اقدار اور تہذیب اس کے سوا نہ کوئی معنی رکھتی ہے نہ تاریخ کہ جیسے بھی ہوبڑا پیسہ کمایاجائے اور بس۔یہی وجہ ہے کہ کئی فنانسروں نے دھن دولت کمانے کے عمل میں جناب باب ڈائمنڈ کو ایک مثالی ہیرو قراردیاہے۔حالیہ سکینڈل میں کئی قسم کے شکوک وشبہات اور سوالات ایسے ہیں جو کہ جواب طلب ہیں۔باب ڈائمنڈ نے پہلے پہل بینک آف انگلینڈ پر یہ سوال کیا کہ اس نے دانستہ یا تو لبر ریٹ معاملے کی حوصلہ افزائی کی یا پھر اس سے چشم پوشی کئے رکھی۔یہ سکینڈل ابھی کچھ وقت اور بھی چلے گا۔اس کے ساتھ ہی کچھ اور نئے سکینڈلز بھی اس کی تقلید میں سامنے آئیں گے۔فنانشل ٹائمز اپنی پانچ جولائی کی اشاعت میں لکھتاہے ’’لبر سکینڈل ابھی پھیل رہاہے اوریہ ملی ڈاؤلر اور سٹیفن لارنس سکینڈلوں کی طرح سے فلیٹ سٹریٹ اور میٹروپولیٹن پولیس کیلئے توجہ کا باعث بن سکتاہے ‘‘۔
ایسے سکینڈل صرف عظیم برطانیہ تک ہی محدود نہیں۔بلکہ اس سے بڑے معاملات جاپان،امریکہ اور یورپ میں بھی موجود اورابھر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سکینڈلائزیشن سارے سرمایہ دارانہ تانے بانے کا حصہ ہے۔برکلے بینک اکیلا نہیں ہوگا جو کہ اس کی زد میں آئے گا،اس وقت تین براعظموں میں تحقیقاتی ادارے ایسے اداروں اور معاملات کی چھان پھٹک کررہے ہیں۔اس وقت 20بینکوں کو شرح منافع کے ضمن میں جانچااور پرکھا جارہاہے۔HSBC،رائل بینک آف سکاٹ لینڈاور رائل بینک آف کینیڈا کو عدالت میں طلب کرلیا گیا ہے۔
یہ دھونس دھاندلی کسی طور نئی نہیں ہے۔1991ء میں سالومن برادرز کا ٹریژری بانڈز سکینڈل سامنے آیاتھا جس کے نتیجے میں سالومن کا خاتمہ ہوگیا اور وہ اب سٹی گروپ کا حصہ بن چکاہے۔اس کے چیف ایگزیکٹو کو اس وقت استعفیٰ دینا پڑگیا جب اس کے ایک موکل نے اس کے خلاف ٹی بلز کے ضمن میں غلط کاریوں کی نشاندہی کی تھی۔2002ء میں امریکہ کی کئی گیس کمپنیاں دھوکے دہی کی مرتکب پائی گئیں اور جن پر جرمانے عائد کئے گئے تھے۔ان میں سے ایک پر یہ الزام تھا کہ اس نے حقیقی قیمت کے اوپر بوگس قیمت درج کی ہوئی تھی۔اور ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے مالیاتی منڈیوں پر یہ سوال اٹھائے گئے ہیں کہ وہ ڈالر اورحکومتی بانڈزکے سلسلے میں ہیراپھیری کر رہی ہیں۔اس سلسلے میں نیویارک کے کچھ بینکاروں کے ساتھ مل کر روزانہ کی بنیادپرنرخ فکس کئے جارہے ہیں۔اسی طرح تیل کی قیمتیں فکس کرنے کا معاملہ بھی منظر عام پر آچکاہے۔Ioscoجو کہ عالمی سطح کا ایک ریگولیٹری گروپ ہے،نے انتباہ کیا ہے کہ قیمتوں کے معاملے میں دھونس دھاندلی کے شدیداثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
ایک بار پھر یہاں برطانیہ میں اسی سال حکومت کو برکلے بینک پر سختی کرنی پڑی کہ وہ دو انتہائی اشتعال انگیز ٹیکس سکیمیں واپس لے،جن کے بعد قومی خزانے پر500ملین پونڈزکا بوجھ پڑجاتا۔اس کے ساتھ ہی حکومت نے بینک کے ٹیکس سٹرکچر بھی تشویش کا اظہار کیا۔اور پھر ایک نمایاں معاملہ باب ڈائمنڈ کا ہے جس نے 25ملین ڈالرز کے لگ بھگ رقم وصول کی۔اس میں6ملین پونڈز کی وہ رقم بھی شامل ہے جو کہ اس نے ٹیکسوں کی درستگی کے ضمن میں حاصل کی۔ڈائمنڈ باب کا کہنا ہے کہ ’’مجھے یقین کامل ہے کہ برکلے نے ہمیشہ ایک ذمہ دار کارپوریٹ شہری کی طرح اپنے فرائض سرانجام دیے ہیں۔اور یہ بینک دلجمعی اور دیانتداری سے وہ سب کچھ کر رہاہے جس سے سماج میں بہتری ہوسکتی ہے‘‘۔لیکن وائے قسمت جلد ہی باب کو اپنے ہی لفظوں کی تلوار پر گرجاناپڑا۔اور اب وہ سر فریڈ مین بن چکاہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ادارے کو چھوڑنے کے بعد مزید کتنی بھاری رقم وصولتاہے جو اسے اس کی’’ صاف ستھری اور مناسب‘‘کارکردگی کے صلے میں ملے گی۔اس کی یہ نصیحت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ’’بینکوں کیلئے معافی اور ندامت کا وقت گذر چکاہے‘‘۔
لیبر قیادت
اب ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ کی لیبر قیادت بینکوں کے ان سکینڈلوں کے ضمن میں کیا موقف اپنا رہی ہے۔کیا یہ بینکوں کو نیشنلائز کرنے کا کہہ رہی ہے ؟جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ لیبر شیڈو وزیر خزانہ چکا امونا نے فرمایا ہے کہ’’ بینکنگ سیکٹر کو فوری طور پر اعتماد کی بحالی کی ضرورت ہے ‘‘جبکہ پارٹی کے سربراہ ملی بینڈ نے اس سے آگے کی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بینکوں میں انقلاب ‘‘کی ضرورت ہے۔لیکن اس انقلاب کے خدوخال وہ کچھ یوں بیان کررہاہے کہ پانچ سب سے بڑے بینکوں کو اپنی کچھ برانچیں بیچ دینی چاہئیں۔اس کے ساتھ ہی دو نئے بینک بھی قائم کئے جائیں تاکہ مقابلے کی فضا قائم کی جاسکے۔یہ انقلاب نہ ہوا مذاق ہواگویا۔خیر،سوال یہ ہے کہ یہ دو نئے مجوزہ بینک کس کی ملکیت ہوں گے؟ملی بینڈ اصلاح پسندانہ سرمایہ داری کا نمائندہ ہے،ایک ایسی سرمایہ داری جو کہ ذمہ دار ی کے احساس سے سرشارہو اور جس کا کردار کسی بھی شک وشبہے سے پاک صاف ہو۔لیکن یہ محض خواب کی دنیا کا ہی قصہ اور حصہ ہوسکتاہے۔سرمایہ دارانہ نظام کبھی بھی کہیں بھی نیک نیتی کی سوچ سے کام نہیں کرتا ہوتا بلکہ اس کی واحد قوت محرکہ زیادہ سے زیادہ منافع خوری ہے۔جو بھی نئے بینک قائم کئے جائیں گے وہ سرمائے کے تقاضوں کے تحت ہی کام کریں گے۔اور اگر یہ بینک پیچھے رہ گئے تو بڑے بینک ان کو ہڑپ کر جائیں گے۔یہ سلسلہ ہم پچھلی کئی دہائیوں میں ہوتا دیکھ چکے ہیں کہ جب بینکوں نے ایک دوسرے میں انضمام کیا ہے۔جس کے بعد بینک باقی معیشت پر اجارہ داری قائم کر چکے ہیں۔
اس سارے کھیل تماشے کا ایک ہی حل ہے کہ بینکوں سمیت معیشت کے سبھی حاوی شعبوں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے۔جس کے بعد ہی ہمیں اپنی معیشت کو اپنے لیے موثر طورپر اور حقیقی معنوں میں بروئے کار لانے کا موقع مل سکے گا۔اسی سے ہی ہمیں منڈی کی تباہ کاریوں اور سیاہ کاریوں سے نجات مل سکے گی،ساتھ ہی ہر اس بدعنوانی سے بھی مکتی ملے گی جو اس کی کوکھ میں موجود ہوتی ہے۔سرمایہ داری کادوسرا نام ہی بدعنوانی ہے۔صرف سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر اور منافعوں کی ہوس کاری کو تہس نہس کر کے ہی ہم ایک ایسا معقول سماج تشکیل دے سکتے ہیں جو لوگوں کی سبھی ضرورتوں کی تکمیل کر سکے گا۔