Urdu translation of Britain: Biggest student demonstration in decades ‑ and this is just the beginning (November 12, 2010)
تحریر: آدم بوتھ اوربین پیک ۔
ترجمہ: فرہاد کیانی
چنگاری ڈاٹ کام،27.11.2010
برطانیہ میں واقعات نے ایک نیا موڑ لیا جب ٹوری پارٹی کی مخلوط حکومت کی جانب سے کی جانے والی وحشیانہ کٹوتیوں کے خلاف اس ہفتے پہلا عوامی ردعمل سامنے آیا۔ بدھ، 10نومبر کو لندن میں اعلیٰ تعلیم میں کٹوتیوں کے خلاف 50,000 سے زائد طلباء نے احتجاج کیا۔ اس مظاہرے کا اہتمام نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس(NUS) اور یونیورسٹی اینڈ کالج لیکچرر یونین (UCU)نے مشترکہ طور پر کیا تھا اور یہ برطانیہ میں جاری طبقاتی جدوجہد میں ایک انتہائی اہم موڑ ہے جسے ہر جگہ پر محنت کش پورے سماج میں پھیلی بے چینی اور غصے کے پہلے اظہار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ عراق جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد پہلی دفعہ برطانیہ میں اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین اکٹھے ہوئے بلکہ 1968ء میں ویتنام جنگ کے خلاف گروس وینور سکوئیر کے مشہور طلباء مظاہرے بھی اس سے کچھ ہی بڑے تھے۔ فیسیں اور کٹوتیاں 1998ء میں نیو لیبر کی حکومت نے مفت تعلیم اور گرانٹوں کا خاتمہ کر دیا۔ انتخابات کے دوران کیے گئے وعدوں کے برخلاف نیو لیبر نے 2004 ء میں اعلیٰ تعلیم (یونیورسٹی) کی فیسوں میں اضافے کا قانون پاس کیا جس سے فیس 1250 پاؤنڈ سالانہ سے بڑھا کر 2390پاؤنڈ سالانہ کر دی گئی۔ پارلیمینٹ میں یہ قانون انتہائی چھوٹی اکثریت سے پاس ہوا اور ٹونی بلےئر کو لیبر پارٹی کے ممبران کی بغاوت کی وجہ سے ٹوری پارٹی کی مدد لینا پڑی۔ سرمایہ داری کے بحران میں براؤن ری ویو نے 12اکتوبر کو تمام خدشات سے کہیں بڑھ کر سفارش پیش کی کہ یونیورسٹیوں کو لا محدود حد تک فیس بڑھانے کی اجازت دی جائے۔ اس سے ہمیں بحران کی گہرائی کا اندازہ ہوتاہے۔ براؤن ری ویو کی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کے وعدے کے باوجود ٹوری اور لبرل پارٹی کی مخلوط حکومت سیاسی اور سماجی نتائج سے گھبرا کرآخری لمحے پر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ آخر میں 9000 پاؤنڈ سالانہ کی حد تک یونیورسٹی فیس کی اجازت دی گئی ۔ اگرچہ طلباء کو یہ رقم فوری طور پر ادا نہیں کرنی پڑے گی لیکن اس کے لیے انہیں سود پر قرض لینا پڑے گا، سود جو سیدھا بینکوں کے پاس جائے گا! فیسوں میں اضافے کے علاوہ مخلوط حکومت نے 20اکتوبر کو اخراجات پر جامع جائزے Comprehensive Spending Review (CSR) میںیونیورسٹیوں کے تدریسی بجٹ میں40%کمی کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اس سے یونیورسٹیوں کی مکمل بندش کا حقیقی خدشہ پیدا ہو گیا ہے اور زیادہ تر یونیورسٹیوں میں بہت سے کورس ختم کر دیے جائیں گے۔ چناچہ صرف طلباء ہی ان کٹوتیوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔UCU کے اندازے کے مطابق یونیورسٹیوں میں 22,000 سے زائد نوکریاں خطرے میں ہیں جن میں لیکچرر اور دیگر ملازمین شامل ہیں۔ 16 سے 18سال کی عمر کے افراد کے لیے فردر ایجوکیشن(FE )کے لیے حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں جس کے لیے 25% کٹوتی کا منصوبہ ہے۔ FE اداروں میں تعلیم اور تربیت حاصل کرنے والے 16 سال سے زائد عمر افراد کی تعداد باقی 6 اقسام کی یونیورسٹیوں کے مجموعی طلباء سے زیادہ ہے۔ان اداروں کی ضرورت اور اہمیت واضح ہے کیونکہ 16سے24سال عمر کے 10لاکھ افراد "NEETS" کے زمرے میں آتے ہیں یعنی ایسے لوگ جو نہ تو زیر تعلیم یا تکنیکی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی برسر روزگار ہیں۔ غریب گھرانوں کے طلباء کے لیے ہفتہ وار زیادہ سے زیادہ 30پاؤنڈکا تعلیمی الاؤنس Education maintenance allowance (EMA) بھی ختم کر دیا جائے گا۔ پورے ملک میں FE کے 46%طلباء EMA حاصل کرتے ہیں اور غریب علا قوں میں تویہ شرح 80%کے قریب ہے۔ یہ کٹوتیاں عوامی سہولیات پر ایک بڑے حملے کا حصہ ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے جاری نام نہاد اتفاق رائے کی سیاست کے خاتمے کا اعلان ہیں۔ برطانیہ میں جیسی تیسی سہی میرٹ کی قدر ہے اور آپ کے بچوں کے پاس کچھ محنت کر کے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہیں ، یہ خوش فہمی چکنا چور ہو چکی ہے۔ اس لیے غصے کا اس شدت سے سر عام اظہار اتنا حیران کن نہیں ہے۔ ملک گیر احتجاج کچھ عرصہ پہلے تک یونیورسٹی کٹوتیوں کے خلاف تحریک کی قیادت یونیورسٹی ملازمین کر رہے تھے جو برطرفیوں، تنخواہوں میں عدم اضافہ، پینشن اور حالاتِ کار پر حملوں کی صورت میں اس بحران کے فوری اثرات کا شکار ہو رہے تھے۔ چناچہ گزشتہ برس UCU نے متعددبار FE اور HE اداروں میں ہڑتالیں کیں۔ لیکنNUS کی قیادت نے ابھی تک ایسی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا اور حتیٰ کہ2008 ء کی نیشنل کانفرنس میں وہ مفت تعلیم کے اپنے موقف سے بھی پیچھے ہٹ گئے ۔ براؤن ریویو اور CSR کی سفارشات کی تفصیلات کے سامنے آتے ہی یونیورسٹیوں میں ہلچل شروع گئی۔ پورے ملک میں طلباء یونینوں نےNUS کے تعاون کے ساتھ کٹوتیوں اور فیسوں کے خلاف مظاہروں اور جلسوں کی بھرپور حمایت شروع کر دی۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں1000 طلباء کا احتجا ج اور اسی طرح کے دیگر مظاہرے طلباء کے موڈ کی عکاسی کر رہے تھے۔ مظاہرے کے دن کے آغاز سے ہی فضا میں ایک واضح تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ مقام آغاز پر دور دور سے مارچ کرتے آرہے طلبا کی گھن گرج سنائی دے رہی تھی۔ ایک میلے کا سا سماں تھا۔جوں جوں مزید طلباء مظاہرے میں شامل ہوتے گئے اور مظاہرین کی کثیر تعداد واضح ہوتی گئی، توں توں مظاہرہ اپنی قوت کے احساس سے سرشار ہوتا چلا گیا۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد سے اب تک بہت سے لوگ دہشت زدہ خاموشی کے ساتھ حالات و واقعات کو دیکھ رہے تھے۔ بہت سے لوگ شکوہ کرتے تھے کہ کٹوتیوں کے خلاف کوئی آواز اور تحریک نہیں ہے۔ لیکن طلباء کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ جیسے تنہائی اور لاچارگی کی کیفیت کے ایک دور سے گزر کر اب انہیں یہ احساس ہو رہا ہو کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ ایک واضح مقصد کے لیے ایک بڑی تحریک کا حصہ ہیں۔ یونیورسٹی طلباء کے ساتھ ساتھ لندن کے سکولوں کے طلباء کی آمد سے جنہوں نے اس دن اپنے سکولوں کا بائیکاٹ کیا، NUSکے مطابق مظاہرین کی تعداد 50,000سے تجاوز کر گئی۔ یہ تعداد انتہائی حیرت انگیز تھی اور پر جوش طلبا کا لندن کی سڑکوں پر پانچ گھنٹے احتجاج ایک شاندار نظارہ تھا۔ 50,000 کی تعداد اور بھی معنی خیز ہو جاتی ہے اگر ہم یہ دیکھیں کہ مظاہرین میں چند ایک یونیورسٹی ملازمین کے علاوہ تقریباً تمام طلباء تھے اورمظاہرہ چھٹی کے دن نہیں تھا جس کے باعث دیگر محنت کش اظہار یکجہتی کرنے کے لیے اس میں شامل نہ ہو سکے اور طلباء کو اپنی کلاسیں چھوڑنا پڑیں۔ طلباء کے جوش و ولولے کا یہ عالم تھا کہ طلباء کے بارے میں مشہور سست روی کے بر عکس مظاہرہ مقررہ وقت سے پہلے ہی مقام آغاز سے روانہ ہو گیا۔ سیاسی شعور حاصل کرتی طلباء کی ایک نئی پرت یہ صاف ظاہر تھا کہ مظاہرین کی اکثریت کے لیے کسی بڑے مظاہرے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ یہ طلباء تحریک اور طبقاتی جدوجہد کے لیے ایک انتہائی خوش آئند قدم تھا۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کی ایک عوامی تحریک سے ہی ان کٹوتیوں کے منصوبوں کو شکست دی جا سکتی ہے ۔ نئے طلباء کارکنان کی اس بڑی تعداد کی جھلک سیاسی نعروں اور بینروں سے بھی نظر آرہی تھی۔ اکثریت فیسوں میں اضافے پر برہم تھی۔ خاص طور پر بڑی تعداد میں موجود سکول کے طلباء جو 9,000 پاؤنڈ سالانہ تک اس مجوزہ فیس میں اضافے کا پہلا شکار بنیں گے۔ نعروں اور بینروں کی اکثریت ’’مفت تعلیم‘‘ کی تھی جو NUSکی ’’گریجویٹ ٹیکس‘‘(جس کے تحت روزگار ملنے پر گریجویٹس کی آمدن پر بتدریج ٹیکس لگایا جائے گا) کی سرکاری پوزیشن کے بر عکس ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نئی پرتS NU کی قیادت سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ سکاٹ لینڈ کے طلباء کی جانب سے بھی شاندار شرکت رہی جو کہ ٹوری پارٹی کی حکومت کے ان حملوں سے براہ راست متاثر نہیں ہوں گے لیکن وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان پر بھی ایسے ہی حملے کیے جائیں گے۔ NUS کی قیادت کی جانب سے گریجویٹ ٹیکس کی حمایت اور کٹوتیوں کے خلاف کوئی واضح حکمت عملی نہ ہونے کے با وجود طلباء بہت پر عزم تھے۔ خصوصاً سکول کے طلباء جن میں سے بہت سے بتا رہے تھے کہ ان کے اساتذہ نے ان کو کلاسیں چھوڑنے کو کہا اوریہ طلباء سوشلسٹ اپیل کے لیفلیٹ کے بنڈل اٹھا اٹھا کر تقسیم کر رہے تھے۔ لوگ کامریڈوں کے ہاتھوں سے لیفلیٹ چھین کر پڑھ رہے تھے۔ اس سے اس مظاہرے کا سیاسی کردار اور کٹوتیوں کے خلاف لڑنے کے لیے واضح حکمت عملی سے لیس قیادت کی ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ طلباء کا موڈ پورے سماج کی کیفیت کا ایک قابل اعتبار بیرومیٹر ہوتا ہے ۔ جیسا کی مئی1968ء میں فرانس میں ہوا جہاں فرانسیسی محنت کشوں کی عظیم تحریک کی شروعات طلبا ء سے ہوئی اور اس سے ایک کروڑ فرانسیسی محنت کشوں کی عام ہڑتال ہوئی جس نے فرانس میں سرمایہ داری کا تختہ تقریباًالٹ دیا تھا۔ فرانس میں ہونے والے حالیہ واقعات نے یقینی طور پر برطانوی محنت کشوں اور طلباء کو حوصلہ دیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانوی سماج فرانس کی مثال سے متاثر ہوا ہے۔ بورژوا میڈیا نے اس حقیقت پر بہت تبصرے کیے ہیں اور کہا ہے کہNUSاورUCU نے ’’فرانسیسی انداز‘‘ کے مظاہرے کیے ہیں۔وال سٹریٹ جرنل نے لکھا کہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو سرکوزی سے بدنام زمانہ مظاہرے کچلنے والی پولیس CRS کے دستے ادھار لینے چاہییں تا کہ طلباء کو قابو کیا جا سکے۔ برطانوی طلبا ء پر ’’فرانسیسی طریقہ کار‘‘ کا الزام در حقیقت ان کے ریڈیکل ہونے کا اعتراف ہے۔ NUSقیادت کے غلط اندازے مظاہرے کے دن سے قبل پولیس کا اندازہ 10,000کی شرکت کا تھا۔ NUS کے اندازے میں 30,000کی شرکت متوقع تھی۔ دونوں طلباء کے موڈ کا ٹھیک طور پر اندازہ لگانے میں ناکام رہے اور 50,000سے زیادہ طلباء نے مظاہرے میں شرکت کی۔ یہ بائیں بازو کے ان افراد کے لیے صاف جواب تھا جوکافی عرصے سے مختلف مواقعوں پر انتہائی غیرذمہ دارانہ طریقے سے ایک ’’نئی، ریڈیکل، جمہوری، لڑاکا‘‘طلباء یونین کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہNUS میں سپلٹ کرانے کی کوشش کے مترادف ہے کیونکہ ان کے خیال میں NUS صرف بیئر کے ٹوکن اور کپڑوں کی قیمت میں رعایت کروا سکتی ہے۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ NUS برطانیہ میں طلباء تحریک کی روایتی تنظیم ہے۔ 1960ء کی دہائی میں یہ حالات کے دباؤ کے تحت بائیں بازو کی جانب بہت زیادہ جھک گئی تھی۔ NUS کی موجودہ قیادت معاشی ابھار کی وجہ سے نسبتاً طبقاتی امن کے دور کی پیداور ہے۔ یہ حالات کے تھپیڑوں کے نتیجے میں نیچے جنم لینے والی تحریک کے شعور کا ایک نامکمل عکس ہے۔ آنے والے دنوں میں NUS بائیں بازو کی جانب مزید جھکے گی جب طلباء اسے اپنے مفادات کی ترجمان تنظیم بنانے کی کوشش کریں گے۔ آج 80%سے زائد طلباء کو گزارہ کرنے کے لیے پارٹ ٹائم کام کرنا پڑتا ہے، اور اس وجہ سے طلباء مجموعی طور پر پرلتاریہ کے حالات میں ڈھل چکے ہیں اور یقینی طور بائیں بازو کے خیالات رکھتے ہیں۔ بحران کے آتے ہی یہ ثابت ہو گیا ہے۔ طلباء میں بڑھتے ہوئے غصے کے دباؤ میں NUS کی قیادت پہلے جون2009ء میں ایک خصوصی’’کٹوتی کانفرنس‘‘ اور پھر UCU کے ساتھ مل کر ملک گیر مظاہرے کی کال دینے پر مجبور ہوئی۔یہ اعلانات طلباء سیاست میں ایک معیاری تبدیلی کی عکاسی تھے جو کہ چند سالوں سے غزہ جیسے ایشوز پر چھوٹے پیمانے پر یونیورسٹیوں پر قبضے تک محدود تھی۔ طلباء کی روایتی تنظیم ہونے کی وجہ سےNUS کے پاس موجود طاقت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے اوربدھ کے مظاہرے نے یہ ثابت کیا ہے۔ گزشتہ دہائی میں NUSکی قیادت پر اصلاح پسند کیرئیرسٹوں کا غلبہ رہا ہے۔ NUS کا صدر ایرون پورٹر اپنے پیش روؤں کے بر عکس بد قسمتی سے ’’ایک دلچسپ‘‘ دور میں پیدا ہو گیا ہے اور کبھی بھی مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن نیچے سے دباؤ نے اسے مظاہرے کی کال دینے پر مجبور کر دیا۔ کام کے دن مظاہرے رکھنے کا مقصد شرکت کو کم رکھنا تھا۔NUS کی قیادت اس مظاہرے کی مدد سے طلباء میں موجود غصے کو خاموشی سے زائل کرنا چاہتے تھے، جیسے یورپ میں ٹریڈ یونین لیڈر ایک دن کی عام ہڑتال کروا کر مزدور تحریک کے دباؤ کو کم کرتے ہیں۔ در حقیقت طلباء کا مظاہرہ ’قیادت کے باوجود‘ انتہائی کامیاب رہا اور اس سے طبقاتی جدوجہد کے میدان میں داخل ہونے والی نوجوانوں کی نئی پرت کا شعور آگے بڑھے گا۔ برطانوی سماج میں بڑے پیمانے پر پھیلے عدم اطمینان نے اس موڈ کو جنم دیا اور یہ 25 سال سے کم عمر کی فراموش شدہ نسل میں مجتمع ہو گیا ہے جو بہت تیزی سے یہ سمجھتے جا رہے ہیں کہ ان کٹوتیوں کے اثرات کیا ہوں گے۔ مِلی بینک میڈیا طلباء کی جانب سے اس بڑے مظاہرے کی حقیقی روح کو چھپانے کی کوشش میں تمام تر رپوٹیں مِلی بینک ٹاور کے واقعے کے متعلق پیش کر رہا ہے جہاں حکمران کنزرویٹو پارٹی کا مرکزی دفتر واقع ہے۔ اس عمارت کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں اور کچھ مظاہرین اس کے چھت پر چڑھ گئے۔اس سے ارد گرد موجود تقریباً دو سے تین ہزار( شائد اس سے بھی زیادہ) طلباء متوجہ ہوئے جو عمارت کے باہر کھڑے ہو کر کئی گھنٹے تک ٹوری پارٹی کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے جب تک کہ پولیس کی مزید نفری نے آ کر مظاہرین کو مار بھگایا اور عمارت کو خالی کروا لیا۔ اگرچہ مِلی بینک ٹاور پر حملے کے پیچھے واضح طور ا لٹرا لیفٹ افراد کی ایک چھوٹی سی اقلیت تھی لیکن طلباء کی ایک بڑی تعدادہمدردی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ ایک طالب علم نے کہا:’’جب اقتدار میں بیٹھے لوگ عوام پر حملے کریں تو پھر یہی ہوتا ہے‘‘۔ اس عمل سے کوئی مسلہ حل نہیں ہوا اور نہ ہی مزدور تحریک کا یہ طریقہ کار ہے لیکن ہمیں حکومتی حملوں کی شدت اور اس کے نتیجے میں عوام اور طلباء میں پھیلنے والی نفرت اور ٹوری پارٹی اور حکمران طبقے کے خلاف نفرت کو بھی سمجھنا چاہیے۔ بد قسمتی سے رپورٹر نے میڈیا پر آکر سارا وقت اس واقع کی مذمت پر صرف کیا اور حکومت کی جانب سے برطانوی عوام پر کیے جانے والے حملوں پر کوئی بات نہیں کی۔ حکومت کی جانب سے عوام پر حملے اس سے کہیں زیادہ پر تشدد ہیں۔ سرمایہ دار میڈیا نے اس خبر کی سنسنی کو اچھالا تا کہ اصلی مسئلے کی جانب سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ کیمرون اور دیگر حکومتی لیڈران نے طلباء کی مذمت کرنے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کی۔ لیکن عام محنت کشوں نے اس واقع کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھاہے۔ 1980ء کی دہائی میں تھیچر نے محنت کشوں پر حملے کرتے وقت پولیس کی تنخواہ میں اضافہ کیا لیکن اس بحران کی کیفیت میں یہ ممکن نہیں ہے اور پولیس بھی انہی کٹوتیوں کا شکار ہے اور دو سال قبل 25,000 پولیس والوں نے لندن میں مظاہرہ کیا تھا۔ طلباء تحریک کا تناظر صاف ظاہر ہے کہ مظاہروں سے کٹوتیاں ختم نہیں ہوں گی۔ 2003ء میں دس لاکھ افراد کے عراق جنگ مخالف مظاہروں سے بلےئر حکومت جنگ کرنے سے نہیں رکی۔ حکمران طبقہ مظاہروں کو اس قوت تک براداشت کر سکتا ہے جب تک وہ ان کے حق حکمرانی کو چیلنج نہ کریں۔ ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو اس حکومت کو گرا سکے۔ فوری طور پر طلباء کو فیسوں اور کٹوتیوں کے خلاف ہر یونیورسٹی میں کمپےئن چلانے کی ضرورت ہے جس میں سکولوں کے طلباء اور یونیورسٹی ملازمین کو ساتھ ملانا ہو گا جن میں UCU ، یونائٹ اور یونیسن وغیرہ شامل ہیں۔ ہرکیمپس میں طلباء قیادت پر دباؤ ڈالنا ہو گا اور اس تحریک کو مقامی مزدور تحریک سے جوڑنا ہو گا۔ مئی1968ء کے فرانس کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ طلباء اور محنت کش ایک مشترکہ لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ حتمی طور پر ہمیں طلباء اور مزدوروں کے سامنے سچ بیان کرنا چاہیے کہ ماضی کی اصلاحات مثلاً مفت تعلیم، مفت علاج، 65سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ اب سرمایہ داری میں ممکن نہیں ہیں اور سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ مظاہرہ نہایت اہم تھا کیونکہ یہ طلباء تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے کی جانب پہلا قدم تھا۔ یہ سماج میں موجود عدم اطمینان کا پہلا اظہار تھا اور ٹوری حکومت کے پاس عوام کے غصے کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ ہزاروں طلبا اپنے گھروں اور یونیورٹیوں کو اس سبق کے ساتھ لوٹے ہیں جسے وہ سینکڑوں کتابوں اور سیمیناروں میں نہیں سیکھ سکتے اور باہر سے دیکھنے والے لاکھوں افراد بھی خود سے نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ 10نومبر کو برطانیہ میں ایک اہم شروعات کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ طلباء تحریک طبقاتی جدوجہد کا طبل جنگ ہے اوربرطانوی محنت کش طبقے کی بیداری کی جانب پہلا قدم ہے۔
Translation: Chingaree