Urdu translation of The class struggles in South Yemen (January 12, 2010)
فریڈرک اوہسٹن ۔ ترجمہ:اسدپتافی۔15.03.2010۔۔۔۔۔۔۔ ان دنوں مغرب کے مہان ذرائع ابلاغ نے یمن کے حوالے سے بہت کہانیاں گھڑنااور بیان کرنا شروع کیا ہواہے۔لیکن ان میں سے اکثر وبیشتر کا یمن میں موجود زمینی حقائق اور وہاں کی حقیقی صورتحال سے کوئی تال میل نہیں ہے۔مزیدبرآں یہ کہ یمن میں موجود طبقاتی جدوجہد اور وہاں انقلابی روایات کے بارے سراسرچشم پوشی و پردہ پوشی اختیار کی جارہی ہے۔ دس جنوری اتوارکے دن یمن کے چارصوبوں دھالے، شابوا،لاہاج اور ابیان میں ایک عام ہڑتال نے زندگی کو مکمل طورپر مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ا س عام ہڑتال کے دوران چھوٹی بڑی ہر دکان اور ہر قسم کی ٹرانسپورٹ چھ گھنٹوں تک بند رہی۔اس ہڑتال کی کال ساؤدرن موومنٹ کی طرف سے دی گئی تھی اور جودارالحکومت صنعامیں موجود مرکزی حکومت کی استحصالی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے طورپر منظم کی گئی ۔یہ عام ہڑتال کئی واقعات کے بعد اور ان کے نتیجے میں سامنے آئی۔جن کے دوران ،جنوب کے علاقے میں ، مظاہرین کو ریاست اور حکومت کی طرف سے کئی بار انتہائی جبروتشددکا بھی سامناکرناپڑاہے۔انہی میں سے ایک اہم اور قابل ذکر واقعہ پچھلے سال نومبر میں عتاق شہرمیں ہونے والاایک احتجاجی مظاہرہ تھا جس پر ریاستی اداروں نے گولیاں چلا دی تھیں اور جس کے نتیجے میں کم و بیش پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔البتہ انہی دنوں میں ہی یمن کی حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی نام نہاد’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘کا بھی نشانہ ،زیادہ تر وہاں کے غریب عوام ہی تھے۔اور یہ عذاب ناک کیفیت اب بھی اسی طرح برقرار ہے۔اس کی ایک بھیانک مثال پچھلے ہی سال بیس بیس دسمبر کے روز ،ابیان صوبے میں یمن کی فوج کی جانب سے کی جانے والی فضائی فائرنگ کے واقعات ہیں۔جن کے نتیجے میں ایک سرکاری افسر کے مطابق کم وبیش پچاس بے گناہ عام افراد ہلاک ہوئے جن میں سے اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔اسی قسم کے فضائی حملے مغربی صوبوں میں معمول بنے ہوئے ہیں ۔ جن کی کوئی خبر بھی منظر عام پر نہیں آنے دی جاتی۔یمن کے پارلیمانی الیکشن کے اعلان کے بعد سے تو وہاں کے جنوبی حصے میں تناؤ اور اضطراب کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوگیاجو کہ اپریل دو ہزار نو میں ہوناتھے مگر جو اس تناؤ اور اضطراب کی شدت کی وجہ سے دو سال کیلئے ملتوی اور موخر کر دیئے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنوبی یمن میں تحریک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یمن کی جنوب کی تحریک (الحرکتہ الجنوبیہ)مختلف حکومت مخالف سیاسی پارٹیوں اور رحجانات کے اتحادپر مشتمل ہے۔جن کی جڑیں بہت حد تک انیس سو چوانویں میں،شمالی اور جنوبی یمن کے مابین ہونے والی خانہ جنگی سے ملتی ہیں ۔ انیس سو نوئے میں رجعتی شمالی یمن عرب جمہوریہ،، وائے اے آر ،، اور ’’مارکسسٹ‘‘جو درحقیقت سٹالنسٹ تھا ، پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن، پی ڈی آر وائے ،، کے ادغام کے بعد نئی مرکزی حکومت قائم کی گئی جس نے شمالی صنعا کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ سابق شمالی یمن کا صدر علی عبداللہ صالح اس نئی حکومت کا سربراہ بن گیا۔ جنوبی یمن کی سابقہ پرولتاریہ بوناپارٹسٹ عوامی جمہوریہ انیس سو نانویں میں سٹالنسٹ روس کی حمایت سے محروم ہوجانے کے بعد انیس سو نوئے میں منہدم ہو گئی اور اسے شمالی یمن کی رجعتی قبائلی حکومت کے ساتھ الحاق کرناپڑگیا۔حقیقت میں یہ جنوبی یمن کے شمالی یمن کے دست نگر ہونے کا ہی عمل تھا جس میں فاتحین نے اپنے مقبوضہ علاقے اور سماج کے ہر شعبے اور حصے میں ردانقلابی اصلاحات کرنی شروع کر دیں ،خاص طور پر زرعی شعبے میں ۔شمال نے جنوب میں نیشنلائز ہو چکی زمینوں کو اپنے قبضے اور تصرف میں لا نا شروع کر دیاجو زمینداروں اور سلطانوں کو دے دی گئیں۔جنوبی یمن میں انقلاب کے بعد قبائلیت کی جڑیں اکھاڑ کر پھینک دی گئی تھیں۔لیکن اس الحاق کے بعد اسے پوری شدت اور قوت کے ساتھ دوبارہ بحال اور موثر کردیاگیا۔وقت کی گھڑی کی سوئیوں کو صدیوں پیچھے کی طرف موڑ دیاگیا۔اس مراجعت اور رجعتیت کے عمل میں شمال کی رجعتی حکومت نے امریکی سامراج اور خطے کی دوسری رجعتی قوتوں کی مدداور آشیرباد سے وہاں بنیاد پرستی کو ابھارنا اور فروغ دینا شروع کر دیا۔ یہ ابھارمحض اس لئے کیاگیا کہ جنوبی یمن میں انقلاب کی حاصلات اور اس کے ثمرات کو تہہ وبالا اور نیست ونابود کیا جاسکے۔ انیس سو ترانویں میں منعقدکرائے جانے والے جمہوری تماشے نے جنوب اور شمال کی اس تقسیم کو اور بھی وحشی و خونی کردیا۔شمال میں پڑنے والے ووٹ اسلامی پارٹی ’’اصلاح ‘‘اور علی عبداللہ کی ’’جنرل پیپلز کونسل‘‘ کے کھاتے میں آئے جبکہ جنوبی یمن میں یمن سوشلسٹ پارٹی کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔اپریل سے جون انیس سو چورانویں کے دوران شمال اور جنوب کے مابین پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی کا نتیجہ جنوب کی شکست کی صورت میں نکلا۔ جنوب کے ’’سوشلسٹوں‘‘ کو کچلنے اور ختم کرنے کیلئے شمال نے جہادیوں کوبھرتی اور استعمال کیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد فاتحین کی طرف سے ریاست کے ڈھانچے کو تہس نہس کرتے ہوئے جنوبیوں کو مکمل طورپر نکال باہر کرتے ہوئے ان کی جگہ شمالیوں کوبھرتی یاتعینات کردیاگیا۔جنوبی یمن کے تیل کے ذخائر جو پہلے عوام کی فلاح کیلئے بروئے کار لائے جاتے تھے ،وہ شمالی یمن کی اقلیتی اشرافیہ کے ہتھے چڑھ گئے اور وہ اپنی جیبیں بھرنے لگ گئے۔ جنوبی یمن میں شروع ہونے والی اس حالیہ تحریک کی شروعات دو ہزار سات میں جنوب سے تعلق رکھنے والے چھوٹے فوجی افسروں کی طرف سے کیے جانے والے چھوٹے چھوٹے احتجاجوں سے ہوئی تھی۔ان افسروں کو زبردستی اور بلا وجہ ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیاگیا تھا۔یہ تحریک اپنی ملازمتوں کی بحالی اور پھر اپنی پنشنوں میں اضافے کیلئے جاری رہی۔ان فارغ اور برطرف ہوجانے والے فوجی افسروں نے سوسائٹی آف ریٹائرڈ ملٹری آفیسرز قائم کرلی اور پھر دھرنوں اور احتجاجی مارچوں کا ایک سلسلہ شرو ع کردیا۔وکلاء اساتذہ، دانشور، طالب علم ،صحافی اور جنوب کی دیگر پرتیں بھی رفتہ رفتہ اس سلسلہ ء احتجاج میں شامل اور شریک ہوتے چلے گئیں ۔پھر جلد ہی دیکھتے دیکھتے جنوب کی سیاسی قوتیں بھی اس میں شامل ہونے لگیں جن کی قیادت یمن سوشلسٹ پارٹی کر رہی تھی اور ان میں جمال عبدالناصر کے ہم خیال اور بعث پارٹی والے بھی تھے۔ان سب نے مل کر نچلی سطح تک تحریک کو لے جانے میں اہم کردار اداکیا۔تب سے اب تک ساؤدرن موومنٹ بہت حد تک خود کو منظم کر چکی ہے اور موثر جڑیں قائم کر چکی ہے۔ دو ہزار نو کے گرما میں اسے ایک مرکزی قیادت کی شکل دینے کی ابتدا کی گئی جسے ’’کونسل فار دی لیڈر شپ آف پیس فل ریولیشن آف ساؤتھ ایشیا‘‘کا نام دیاگیا۔اس قیادت میں یمن سوشلسٹ پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ سمیت ریٹائرڈ افسران کی سوسائٹی کے قائدین اور کچھ قبائلی عمائدین بھی شامل ہیں جو پہلے کبھی صدرعلی عبداللہ صالح کے اتحادی ہواکرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، سابق ، عوامی جمہوریہ یمن کا ورثہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انیس سو ستاسٹھ تک اور اس سے پہلے کے سالوں میں برطانیہ کی نوآبادی عدن میں ابھرنے والی انقلابی تحریک نے برطانوی راج کومجبورکردیاکہ وہ علاقے کو چھوڑ دے۔انقلاب کے ساتھ ہی یہ بات فوری طورپر عیاں ہو چکی تھی کہ وہاں کے بورژوا اور پیٹی بورژواجمہوریت پسندوں کا نیشنل فرنٹ، وہاں کی زرعی اشرافیہ کو اکھاڑ پھینکنے اور اپنے عوام کو درپیش حقیقی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے یکسر قاصر تھا۔نیشنل فرنٹ میں شامل سب سے انقلابی دھڑے کو مجبوراًمنظر عام پر آکر اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینی پڑگئی۔ لیکن تب ان حالات میں جاگیرداری اور زمینداری نظام کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے انہیں مروجہ حدودسے کہیں بڑھ کے کچھ کرنا پڑگیاتھا۔انہیں سرمایہ داری یا پھر سرمایہ داری کے کچھ عوامل وعناصر کا بھی قلع قمع کرنا پڑگیاجو ان دنوں میں جنوبی یمن میں موجود تھے۔ انیس سو ستر میں جنوبی یمن نے خود کو ایک ’’مارکسی‘‘ریاست قرار دے دیا۔جبکہ اپنی نوع میں یہ ایک فوج اورپولیس کی ایسی حاکمیت و حکمرانی تھی جو اپنی معاشی بنیاد منصوبہ بند معیشت پر رکھ رہی تھی۔ ہاں البتہ اس کو عوام کی بھاری اکثریت کی مکمل تائید وحمایت حاصل تھی‘خاص طور پر سماج کے متحرک اور سرگرم حصوں کی۔یمن کے انقلابیوں کے سامنے انقلاب کے جو ماڈل موجود تھے ان میں کیوبا ،چین اور سٹالنسٹ روس میں قائم حکومت تھی۔ اگرچہ جنوبی یمن کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا تھا(اور اب بھی ہوتا ہے)تاہم اس وقت وہاں موجود جاگیرداری اور سرمایہ داری کے عناصر کا خاتمہ ہونے سے اس ملک میں بہت جدت اور پیش رفت سامنے آتی گئی۔ملک کا انفراسٹرکچر بڑی حد تک بہتر ہوتا چلاگیااورتعلیم سب کیلئے یکساں اور مفت کر دی گئی۔بیروزگاری کا نام ونشان تک نہیں رہا۔اس عرصے نے جنوبی یمن کے لوگوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش مرتب کئے ۔بالکل ویسے ہی جیسے آج کل سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کوماضی کی منصوبہ بند معیشت اور ان دنوں میسر معاشی و سماجی حاصلات آج تک نہیں بھولیں ۔ انیس سو اسی کی دہائی کے دوران جنوبی یمن کی معیشت بحران کی زد میں آ گئی اورجمود کا شکار ہونے لگی(ہر چند کہ انہی دنوں میں ہی وہاں تیل کی دریافت ہوئی اور اس کی وجہ سے اسے کچھ سنبھالا بھی ملا)لیکن معیشت پر افسر شاہی کی بدانتظامی اوربدعنوانی نے اور اس پر ایک پسماندہ ملک میں انقلاب کی تنہائی اور وہ بھی محدودوسائل کاحامل ملک ہونے کی وجہ سے سب کچھ الٹ اور بے بسی کا شکار ہوتا چلا گیا۔کسانوں نے اپنی پیداوار کی ا نتہائی ارزاں قیمتوں پر فراہمی سے انکار کرناشروع کر دیا۔صورتحال یہ ہوگئی کہ ایک وقت میں عدن میں جو غذائی اجناس میسر تھیں ان میں صرف آلو،پیاز اورروٹی شامل تھیں۔یہی تعطل اور جمود اتنا بڑھتاچلاگیا کہ جنوب والوں کو شمال والوں کے ساتھ الحاق کیلئے خود کو پیش کرناپڑگیا۔دراصل اور درحقیقت یہ سٹالنسٹ طرز سیاست کے دیوالیہ پن کا ہی اظہارتھا۔جنوبی یمن میں جو ناکامی ہوئی وہ مارکسزم اور سوشلزم کی نہیں بلکہ سٹالنزم کی ناکامی تھی یعنی’’ایک ملک میں سوشلزم ‘‘کے نظریے،افسرشاہانہ فوج اورپولیس کے ملغوبے کی حامل ایک ایسی حکمرانی کی شکست تھی جس میں مزدوروں کے کنٹرول اورمزدوروں‘ کسانوں کی جمہوریت کا دوردور تک نام ونشان تک نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ معیشت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یمن کی کل برآمدات اور حکومتی آمدنی کا پچہتر فیصد تیل کی آمدنی سے وابستہ ہے لیکن پھر یمن کی تیل پیدا کرنے کی صلاحیت اپنی انتہاؤں کو پہنچ کر اب واپسی اور تنزلی کی طرف گامزن ہوچکی ہے۔ دو ہزار دو میں یہاں چار سو ساٹھ ہزار فی بیرل روزانہ پیداوارتھی جوکہ اب دو ہزار دس میں دو سو آٹھاسٹھ ہزار فی بیرل روزانہ تک گر چکی ہے۔ دو ہزار آٹھ میں خام تیل کی برآمد سے سات اعشاریہ چھ بلین ڈالرز کی آمدنی ہوئی جس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا عالمی رحجان تھا۔ دو ہزار نو میں یہ آمدنی دو اعشاریہ آٹھ بلین ڈالرز کو پہنچ گئی۔عالمی بینک نے پیشین گوئی کی ہے کہ دو ہزار سترہ تک یہاں کی تیل کی آمدنی صفر ہو جائے گی۔ شمال اور جنوب میں ادغام کے بعد سے وہاں آئی ایم ایف کی طرف سے متعارف و مسلط کی جانے والی اصلاحات نے تو عوام کا بیڑہ ہی غرق کر ڈالا ہے۔کہاں وہ وقت کہ جب یہاں بیروزگاری کا نام ونشان تک نہیں ہوتا تھا ورکہاں یہ عالم کہ اب وہاں بیروزگاری کی شرح چالیس فیصدکو چھورہی ہے۔آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کردہ اصلاحات و اقدامات میں سے ایک اہم ’’جنرل سیلز ٹیکس ‘‘ہے جو بڑھتے بڑھتے اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ عوام کی قوت خریدہی ختم ہو کے رہ گئی ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ تیل کی آمدنی پر سے پچہتر فیصد سبسڈی کے خاتمے اور دیگر اقدامات نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔حکومت عوام کے انتہائی رد عمل کے خوف سے اگرچہ کھل کر اصلاحات کے نام سے کئے جانے والے حملے نہیں کر پارہی ہے تاہم دھیرے دھیرے اور مختلف حیلوں‘ بہانوں سے معیارزندگی کو بدتر سے بدترین بنا کے رکھ دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ اپنے جغرافیے کے اعتبار سے یمن کا بیشتر علاقہ لق و دق صحراپر مشتمل ہے ۔اس لئے جاگیردارانہ اور پست درجے کی سرمایہ کاری کی حامل پیداواریت(low-capital intensive productive sector)کی بنیاد پر اس ملک میں ترقی وخوشحالی ناممکن عمل ہے ۔سونے پر سہاگہ کہ عالمی سامراج اورسعودی عرب سمیت دیگر رجعتی خلیجی ریاستیں اس ملک کو اپنی سیاسی مشق ستم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ انقلابی راہ نجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ جنوب کی تحریک کو یمن کے جنوبی حصوں میں عوام الناس کی وسیع پرتوں کی تائید وحمایت حاصل ہوتی جارہی ہے اور یہ وہاں کی عوامی و سماجی بے چینی کا سیاسی اظہار بھی ہے۔اسی دوران ہی شمال میں ہاؤتھی باغیوں کی سرکشی بھی جاری ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ قبائلی جہادیوں(جو کہ پہلے افغانستان میں روس اور پھر یہاں کی سوشلسٹ پارٹی کے خلاف جہاد کے نام پر استعمال کیے جاتے رہے ہیں )اور حکومت کے مابین بھی جھڑپیں جاری و ساری ہیں اور یہ سب اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہاں کا حکمران طبقہ جن عناصر کو پہلے بائیں بازو کو کچلنے کیلئے استعمال کرتا رہا ہے،اب انہی کے ساتھ اس کا تصادم روزبروز شدت پکڑتاجا رہاہے۔یہ کیفیت خود حکمرانوں میں باہمی تفریق وتصادم کو بھی آشکار کرتی ہے۔اور پھر یہ سب واضح اعلان ہے کہ موجودہ جاگیرداری و سرمایہ داری طرز معیشت اب سماج کو چلانے اور اسے زندہ رکھنے کی صلاحیت و اہلیت سے یکسر قاصر ہوچکی ہے۔ ان حالات میں جنوب کی تحریک ایک انتہائی متحرک قوت بن چکی ہے ،یہ ایک حقیقی عوامی تحریک ہے جس میں شامل پرتیں بہتر معیار زندگی کے حصول کیلئے سرگرم اور سرگرداں ہیں۔اس وقت محض ایک ایسے پروگرام کی ضرورت ہے جس کے ذریعے جاگیرداری و سرمایہ داری کے خاتمے کو ممکن بناتے ہوئے ایک انقلاب کو سارے یمن میں پھیلایا جا سکے۔ مارکسسٹ اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں جو کہ استحصال اور صنعا کی حکومت اور وہاں کے جاگیرداروں کی لوٹ مارکے خلاف برسرپیکار ہے۔لیکن مناسب ہوگاکہ جدوجہد کوسوشلسٹ خطوط پر استوار اور منظم و متحرک کیا جائے ۔اس جدوجہد کومعیشت کی ازسرنو نیشنلائزیشن کے مطالبے سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ بلکہ اس کا دائرہ یمن کے ساتھ عمان،سعودی عرب اور دیگر ملکوں تک بھی پھیلایا جانا چاہیے۔ یمن کی ابھرتی ہوئی ایک سوشلسٹ نوجوان نسل سارے ملک کو اپنے جذبے میں لپیٹتی ہوئی نہ صرف شمال اور جنوب کو بدل کر ر کھ سکتی ہے بلکہ یہ عرب خطے میں سوشلسٹ انقلاب کا پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہ