مستونگ میں ہزارہ کمیونٹی کا حالیہ قتل عام ماضی قریب میں شروع ہونے والے ایک ایسے سلسلے کی کڑی ہے جس کا انت پورے خطے میں بربریت کا بھیانک تناظر پیش کررہا ہے۔ شام اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک دوسرے سے متصادم مذہبی آمریتیں پاکستان میں بھی معصوم لوگوں کو اپنی پراکسی جنگ کا ایندھن بناتی چلی جارہی ہیں۔ کیا یہ خونی کھیل کبھی ختم ہوگا یا مذہبی عقائد کو جواز بنا کر اس مظلوم قومیت کا ایک ایک بچہ ذبح کر دیا جائے گا؟اس نظام کی سیاست اور ریاست کے پاس اس دہشت گردی کا کوئی حل ہے نہ ہی حکمران اپنی رعایا کے اس حصے کو تحفظ فراہم کرنے کے خواہاں نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ دو سال کے دوران ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کا سلسلہ شدت پکڑ گیا ہے۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد غم و غصے اور انتقام کی لہر ابھرتی ہے، مذہبی جنونیوں کا نشانہ بننے والوں کے لاشے کوئٹہ کی سڑکوں پر رکھ کے دھرنے دئیے جاتے ہیں، عورتیں اور بچے ان دھرنوں میں کئی کئی دن ٹھٹھرتے ہیں۔ لواحقین اس امید میں آہ و پکار کرتے ہیں کہ شاید ان کے دکھوں کا کوئی مداوا ہوجائے، بے حس ریاست ان کے زخموں پر مرہم رکھ دے اور ان کے تحفظ کا کوئی بندوبست کردیا جائے۔ حکومتوں کے وزراء ہیلی کاپٹروں اور جہازوں پر اپنے وفود کے ہمراہ مگر مچھ کے آنسو بہانے دھرنوں میں جاپہنچتے ہیں، متاثرین کے ’’رہنماؤں‘‘ کے ساتھ ’’افسوس‘‘ کرتے ہیں، فاتحہ پڑھتے ہیں اور سخت سیکیورٹی میں ہونے والے ’’مذاکرات‘‘ کی ’’کامیابی‘‘ کے بعد دھرنے ختم کردئیے جاتے ہیں۔ حکومتی نمائندگان سے مذاکرات کرنے والے ’’ہزارہ کمیونٹی کے رہنماؤں‘‘ کا انتخاب بھی بلوچستان اور دوسرے ’’نازک معاملات‘‘ پر اصل اختیار رکھنے والے ریاستی ادارے کرتے ہیں۔ ان رہنماؤں میں سے زیادہ تر کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے ہوتا ہے جن کی دولت اور جائیدادوں کو ریاستی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے اور بدلے میں انہیں بوقت ضرورت ریاست کے کام آنا پڑتا ہے۔ معاملات وقتی طور پر ٹھنڈے ہوجانے پر حکومتی وزراء جعلی مسکراہٹوں کے ساتھ کیمروں کے سامنے خود کو ماہر ’’سٹیٹس مین‘‘ ثابت کرتے ہیں۔ کچھ وقفے کے بعد یہ قتل عام پھر سے شروع ہوجاتا ہے اور یہی ڈرامہ پھر رچایا جاتا ہے۔ مستونگ کی حالیہ وحشیانہ دہشت گردی کے بعد بھی یہی کچھ ہوا ہے اور بنیادی طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔
فرقہ پرست جنونیوں کی حالیہ واردات کے بعد، پہلے کی طرح اس بار بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے اور دھرنے ہوئے ہیں لیکن اس احتجاج کا المیہ یہ ہے کہ اسے مذہبی بنیادوں پر صرف ایک فرقے تک محدود کردیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس قسم کے احتجاج نہ تو وسیع عوامی حمایت حاصل کرسکے ہیں اور نہ ہی فرقہ وارانہ ظلم و بربریت کے خلاف کوئی بڑی مزاحمتی تحریک ابھر سکی ہے۔ جب احتجاج پر کسی مخصوص فرقے کا لیبل لگ جائے تو دوسرے مذہبی مسلکوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش اور نوجوان شرکت سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کے شہید ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق بالادست طبقے سے نہیں ہیں۔ غریب اور محنت کش طبقے کے عام لوگ مذہبی جنون کی اس آگ میں جل رہے ہیں۔ بلوچستان سمیت پورے ملک کی ترقی پسند پارٹیوں، ٹریڈ یونینز اورطلبہ تنظیموں کو اس بربریت کے خلاف عام ہڑتال کا اعلان کر کے اس کو لاگو کروانے کی ضرورت ہے۔ دھرنوں میں بیٹھے بچوں اور خواتین کے دکھ میں بے حس حکمران کاروائیاں نہیں کیا کرتے۔ اس نظام میں انسان اگر پتھر دل اور ظالم نہ ہو تو وہ اس مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتا جہاں یہ حکمران براجمان ہیں۔ ان سرمایہ دار حکمرانوں کی ترجیح ہی یہ ہوتی ہے کہ بس کاروباری زندگی میں خلل نہ پڑے، باقی جو مرضی ہوتا رہے۔ دھرنوں سے حکمران طبقات کے مفادات کو براہ راست ضرب لگتی ہے نہ ہی انہیں کوئی مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس ایک فیکٹری میں بظاہر معمولی نظر آنے والی ہڑتال بھی ان کے لئے اقتصادی طور پر ناقابل برداشت ہوتی ہے جبکہ عام ہڑتال ان سیاسی بیوپاریوں کے مالی مفادات پر ایسی کاری ضرب لگاتی ہے کہ یہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ماضی کے دلخراش واقعات کے بعد ایک ٹھوس حکمت عملی کے تحت احتجاج کا سلسلہ کراچی، لاہور اور دوسرے بڑے صنعتی شہروں تک وسیع کر کے مختلف قومیتوں اور مذہبی عقائد کے محنت کش عوام کو طبقاتی بنیادوں پر اس تحریک کا حصہ بنایا جاتا تو نوبت آج یہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی۔
اگر ’’ترقی پسند پارٹیوں‘‘ کی بات کی جائے تو بلوچستان میں ایک ترقی پسند پارٹی ہی اپنی مخلوط حکومت قائم کرکے ریاست کو سہارا فراہم کررہی ہے۔ اگر بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کو لینن کی کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘ پڑھ کر بھی اس نظام زر کی سیاست اور ریاست کی سمجھ نہیں آئی تو کم از کم اس تجربے سے ہی کچھ سیکھا جاسکتا ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد حاصل ہوا ہے۔ ’’مسنگ پرسنز‘‘ کے معاملے میں ڈاکٹر مالک اپنی بے بسی کا اظہار کئی بار سر عام کر چکے ہیں۔ اب اس بہیمانہ قتل و غارت گری کے بعد کیا ان کو اس وزارت اور اقتدار سے مستعفی نہیں ہوجانا چاہئے تھا؟ قدیم یونانی کہاوت ہے کہ دیوتا جنہیں تباہ کرنا چاہتے ہیں، پہلے ان کی عقل چھین لیتے ہیں۔ بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ ایک بحران زدہ گلے سڑے اقتصادی نظام میں ’’جمہوری اقتدار‘‘ محض سیاست دانوں کی عیاشی کا سامان ہوتا ہے۔ اصل طاقت ان اداروں کے پاس ہوتی ہے جو جبر کی قوت رکھتے ہیں۔ جن بنیادوں اور جتنے ووٹوں سے یہ ترقی پسند حضرات بلوچستان میں مسند اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں اس میں بھلا کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی قسم کا دباؤ ریاست پر ڈال سکیں؟ ویسے بھی ساری زندگی اقتدار کے لئے ترسنے والے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے محسن پر کیا حکم چلائیں گے!
اس متروک نظام اور اسکی مفلوج ریاست نے بلوچستان کی پسماندگی کو مٹانے کی بجائے مزید بگاڑ دیا ہے۔ جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر تو دور کی بات اس خطے کے باسیوں کو تو17ویں صدی کا معیارِ زندگی بھی فراہم نہیں کیا جاسکا۔ بلوچستان کا سماج قدیم قبائلی نظام سے لے کر نیم جاگیرداری، نیم تجارتی سرمایہ داری اور مسخ شدہ جدیدیت کا عجیب و غریب ملغوبہ بن چکا ہے۔ صدیوں کے تاریخی مدارج پر مشتمل یہ خطہ طرح طرح کی تفریقوں میں بٹا ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات معدنیات سے مالا مال اس سنگلاخ سرزمین کے وسائل کو تو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں لیکن یہاں کے باسیوں کو علاج، تعلیم، صحت بخش خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم نہیں کرسکے۔ مقامی حکمرانوں کے علاوہ مختلف ممالک کی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں نے بھی بلوچستان کو گدھوں کی طرح نوچا ہے۔ اس بے دریغ لوٹ مار نے نہ صرف غریب طبقات کی ذلت میں اضافہ کیا ہے بلکہ بلوچستان کے عوام میں قومی محرومی کے جذبات زیادہ شدت سے سلگنے لگے ہیں۔ بلوچستان میں جاری ملکی اور سامراجی آقاؤں کی لوٹ مار ہی اس پراکسی جنگ کی اہم وجہ ہے جو یہاں کے عوام کو تاراج کررہی ہے۔ اس کے علاوہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر استحصال اور ریاستی جبر کے خلاف بلوچ عوام کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف وحشیانہ فوجی آپریشن جاری رہتے ہیں تو دوسری طرف عوام کے زخموں پر جمہوریت اور مصالحت کی نمک پاشی کی جاتی ہے۔
معاشرہ جب آگے کی جانب نہ بڑھ پارہا ہو تو جمود کا شکار ہو کر بدبودار ہوجاتا ہے اور جدیدت کے عہد میں بھی پسماندگی سماجی شعور پر غالب آجاتی ہے۔ فرقہ واریت پنپتی ہے، جرائم کی معیشت پھلتی پھولتی ہے اور غریب عوام مسلسل استحصال اور ظلم و بربریت کی اذیت سے دوچار رہتے ہیں۔ ہوائی باتیں اور جعلی پیکج استحصال اور قومی محرومی کے گھاؤ نہیں بھرسکتے۔ کوئی بھی نظام اور اس کے حکمران اپنے ہی دئیے ہوئے دکھوں کا ازالہ نہیں کرسکتے۔ جلد یا بدیر ظلم سہنے والوں کو ہی ظالم کے ہاتھ سے تازیانہ چھیننا پڑتا ہے۔ موجودہ ملکی صورتحال کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں۔ مظلوم عوام یہ تازیانہ جب اس نظام پر برسائیں گے اوراس سے ان بے گناہوں کی لاشوں کا انتقام لیں گے وہی وقت سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کا وقت ہو گا۔