Urdu transaltion of The assasination of Archbishop Romero (March 25, 2010)
ایلن وڈز۔ ترجمہ؛اسدپتافی
چنگاری ڈاٹ کام،06.05.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’’آج جبکہ یہ بات سب پر واضح ہے ،کہ ہمارا چرچ مسلسل تین سالوں سے قتل وغارت کی زد میں آیاہواہے ،اس وحشت و بربریت کے باوجود یہ بات اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے کہ ان وجوہات کو دوبارہ ،مزید گہرائی و سنجیدگی کے ساتھ سوچا اور سمجھا جائے ،کہ جن کی وجہ سے ہم پر یہ قیامتیں ڈھائی جا رہی ہیں ۔ ہم پر یہ سب قیامت اسی لئے ڈھائی جا رہی ہے کہ ہم غریبوں کا دفاع کر رہے ہیں ؛ہم غریبوں کے مقدر بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ یاد رکھئے!کوئی بھی چرچ جو کسی مشکل کسی مصیبت سے نہیں گزر رہاہے اور جو اس کرہ ارض پر موجود ہر سہولت ہر مراعات سے لطف اندوز اور مستفید ہو رہاہے، وہ کسی طور بھی یسوع مسیح کا حقیقی چرچ نہیں ہو سکتا۔ہر ایسی تبلیغ جو گناہ کی تشریح وتوضیح نہیں کرتی،یہ تبلیغ کسی حوالے سے بھی انجیل مقدس سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی۔ہاں البتہ ایسی تبلیغ اور پند ونصیحت جو گناہگار وں کو خوشی دیتی اور انہیں مطمئن کرتی ہو،اور ان کو گناہوں کی دنیا کو محفوظ بنائے رکھتی ہو۔ ایسی پریکٹس انجیل کی تعلیمات سے مکمل غداری کے مترادف ہے۔ جب کبھی بھی چرچ کو کسی مظلوم کی آہ اورکسی محروم کی چیخ سنائی دیتی ہے تو وہ کسی طور نہ صرف ان سنی نہیں کر سکتا بلکہ اسے ان سماجی ڈھانچوں کی بھی مذمت کرنی لازمی ہے جن کی وجہ سے یہ مظلومیت اور یہ محرومی جنم لے رہی ہوتی ہے اور جن کے منہ سے یہ سب آہیں اور چیخیں نکل رہی ہوتی ہیں‘‘۔رومانو آربشپ اوسکر آر نولوفو گیارہ مارچ انیس سو اسی کی شب ، آرچ بشپ آسکر آرنلفورومیروکو نامعلوم قاتلوں نے سینے میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا ۔یہ قتل ایل سلواڈور کے رجعتی حکمرانوں کے براہ راست احکامات کے تحت منظم کیا گیاتھا۔رومیرو کو محض اس جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارا گیا کیونکہ وہ ظلم استحصال اور ناانصافی کا شکار ہونے والے عام انسانوں کی حالت زار پر آواز بلند کئے ہوئے تھا ۔اس کے قتل سے پہلے اوربعد میں آج دن تک ہرعام انسان ویسے ہی ظلم استحصال اور ناانصافی کے جبر مسلسل کی زد میں ہے۔کچھ بھی نہیں بدلا اور تبدیلی کاابھی تک انتظار کیا جارہاہے۔اپنے قتل سے صرف ایک دن پہلے ہی رومیرو نے اپنے ہفتہ وار خطبے میں ملک کے عام سپاہیوں کے ساتھ براہ راست خطاب کرتے ہوئے ان پر زور دیاکہ ’’خداوند کے نام پر!ان روتے بلکتے سسکتے ظلم واستحصال کا شکار انسانوں کے نام پر کہ جن کی آہیں ،سسکیاں اور چیخیں آسمان کو ہلارہی ہیں ۔میں آپ سب سپاہیوں سے ہاتھ جوڑتے ہوئے التماس بھی کر رہاہوں اور یہ حکم بھی دے رہاہوں کہ ظلم وجبر کا یہ سلسلہ ختم کرو!‘‘۔ رومیروکے قتل پر عوام میں شدید غم وغصے کی لہر دور گئی ۔دارالحکومت سان سلواڈور میں آرچ بشپ کی آخری رسومات کے دوران کیتھیڈرل سے باہرایک بم دھماکہ ہوا۔جبکہ اس دوران رسومات میں شریک پچاس ہزار افراد پر ریاستی اداروں کی طرف سے فائرنگ کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ جس کے نتیجے میں چالیس افراد ہلاک جبکہ دوسو سے زائد زخمی ہو گئے۔رومیرو کے قتل کے اگلے دن ہی یہ الزام عائد کردیا گیا کہ رومیرو کے قتل کے پیچھے کیوبا کا ہاتھ ہے ۔مگر اس قتل میں کیوبائی باشندوں کا کوئی سوال تھا نہ امکان ۔ہر خاص وعام پر یہ راز عیاں تھا اورہے کہ کون اس ہلاکت کا منصوبہ ساز اور ذمہ دار ہے؟اس رجعتی وحشیانہ قتل کو آٹھ غنڈوں کے ٹولے نے سرانجام دیا تھاجنہوں نے اس بہیمانہ واردات کے ایک ہی سال بعد ایل سلواڈور میں رابرٹو ڈی آبوسن کی زیر قیادت اے آر ای این اے پارٹی کی تشکیل کی تھی۔یہی رابرٹو ہی تھا جس نے اس پارٹی کی تشکیل سے قبل ملک میں قاتلوں اور غنڈوں کا ایک گروپ قائم کر رکھا تھا اور اسی ہی کے حکم پر آرچ بشپ رومیرو کو قتل کیا گیاتھا۔ بعد ازاں اقوام متحدہ کے حقائق کمیشن برائے ایل سلواڈور کی رپورٹ میں حسب ذیل حقائق سامنے لا ئے گئے؛ ’’اس بات کی مکمل شہادتیں موجود ہیں کہ میجر رابرٹونے ہی آرچ بشپ کے قتل کے احکامات جاری کئے تھے ۔اور اس کیلئے اس نے اپنے ’’سیکورٹی اہلکاروں ‘‘کو خصوصی ہدایات جاری کی تھیں ۔کہ وہ ایک قتل کرنے والے سکواڈ کی حیثیت میں اس فریضے کو منظم اور انجام دیں‘‘۔آرچ بشپ رومیرو وسطی امریکہ کے اپنے ملک پر راج کرنے والی فوجی جنتا کی طرف سے مسلط کردہ آہنی آمریت کا سخت ترین ناقد اور حق بات کہنے والا انسان تھا جسے اپنے ملک میں انتہائی احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔اس وحشی فوجی آمریت کی بربریت کے خلاف ،جو اس نے اپنے ملک کی سالوں پر محیط خانہ جنگی کے دوران اپنے عوام پر مسلط کر رکھی تھی،انتہائی جرات سے بات کرنے کی وجہ سے مقبول ترین انسان بن چکاتھا۔سارے وسطی امریکہ اور ایل سلواڈور کے عوام ہر سال اس کی برسی کے دن کو انتہائی احترام کے ساتھ مناتے ہیں ۔اس بہیمانہ قتل کی تیسویں برسی کے موقع پر ایل سلواڈور میں لاکھوں لوگ تائیس مارچ دو ہزار دس کو سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے ملک کے اس عظیم جراتمند سپوت کو یاد کرتے ہوئے اسے خراج عقیدت پیش کیا۔ رومیرو کی ہلاکت ایک ایسے وقت میں منظم کی گئی کہ جب ایک انقلابی کیفیت ابھر چکی تھی اور طاقت کا توازن محنت کشوں اور کسانوں کے ہاتھوں میں آچکا تھا ۔ انیس سو سترکی دہائی کا عرصہ عوام کی تحریکوں سے مزین تھا۔ایل سلواڈور میں بھی مزدور اور کسان اپنی زندگیاں بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔المیہ یہ ہوا کہ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی ،، پی سی ایس،، درکارقائدانہ کردار ادا نہیں کر رہی تھی۔بجائے اس کے کہ پارٹی عوام کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیتی ،اور پرولتاریہ انقلاب کو اپنا مطمع نظر بناتی۔ پی سی ایس،ملک کے’’ترقی پسند ‘‘سرمایہ داروں یہاں تک کہ فوجی جنتا کی توجہ اور ہمدردیاں جیتنے پر زیادہ وقت اور محنت صرف کرتی رہی۔ اس غلط برخودپالیسی کا نتیجہ بہت بھیانک نکلا اور نوجوانوں کی بہت بھاری تعداد گوریلا تنظیموں کی طرف ملتفت ہوتی چلی گئی۔ہزاروں نوجوانوں نے ،، ایف اے پی یو ،، ۔ ،، بی پی آر ،، ۔ ،، ایل پی آٹھائیس ،، ۔ یو ڈی این وائے ،، ۔ ،، ایم ایک این،، ۔ جیسی لیفٹ ونگ تنظیموں میں شمولیت کرلی جنہیں ایسی گوریلا قیادتیں چلا رہی تھیں جو مسلح لڑائی کی قائل تھیں ۔انقلاب کے خواہش مندوں کے بھاری حصے کا اس قسم کی رجعتی صورتحال کی طرف راغب ہونا ایک قابل فہم فطری عمل تھا ۔ردانقلابی تشدد کی طویل کیفیت پہلے ہی ایل سلواڈور سماج کی کمرتوڑ چکی تھی۔مزدوروں ،کسانوں، ٹریڈیونینوں اور پادریوں کو کئی عرصے سے گرفتار کیا جارہاتھا ،ان پر تشدد کیاجاتا،کئی کو قتل کردیاجا رہاتھا اور کئی غائب کر دیے گئے تھے۔ رومیرو نے اس وقت کے امریکی صدرجمی کارٹر کو بھی ایک خط کے ذریعے اپیل کی تھی کہ جب تک فوجی جنتا ظلم و بربریت کے اس مکروہ دھندے کو ختم نہیں کرتی ،امریکہ کو ہر قسم کی امداد فوری طورپر بندکر دینی چاہئے لیکن ہمیشہ کی طرح اس مطالبے کو بھی ان سنا کردیاگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ آزادی کا عقیدہ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایل سلواڈور ،کل کی طرح آج بھی امریکہ کا ہی دست نگر ملک ہے۔یہاں کی بیشتر برآمدات امریکہ ہی کو جاتی ہیں جبکہ اس کی بیشتر آمدنی کا ذریعہ بھی امریکہ میں کام کرنے والے مزدوروں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم پر مبنی ہے۔وسطی امریکہ کے دوسرے ملکوں کی طرح یہ ملک بھی پسماندہ ہے جس کی معیشت زراعت کی حامل ہے۔اور جس کے پیداواری و زمینی رشتے جاگیرداری طرز کے حامل ہیں ۔معیشت مٹھی بھر امیر جاگیرداروں کے قبضے اور تصرف میں ہے۔بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے ایک گٹھ جوڑ قائم کیاہواہے۔ اسی اشرافیہ نے ہی کئی نسلوں سے معیشت سیاست اور ریاست سمیت سارے سماج کو اپنے چنگل میں لیا ہواہے۔اس قلیل مگر بااثر اشرافیہ نے منظم ریاستی جبروتشدد کے تحت طاقت واقتدار کو اپنی مٹھی میں بند کر کے رکھا ہوا ہے۔جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ سترکی دہائی میں یہاں کے سماج میں تناؤ اورتشدد بہت بڑھا ہواتھا ،جو بالآخر خانہ جنگی میں بدل گیاتھا۔ سماج میں نسلوں سے چلا آنے والا یہ تناؤ اور اضطراب زیادہ تر اپنا اظہار کیتھولک چرچ کی نچلی پرتوں میں کرتاہے۔یہ پرت ایسے پادریوں پر مبنی ہے جو کہ ہمہ وقت مظلوموں اور غریبوں سے جڑے ہوئے رہتے آرہے ہیں ۔اسی تناؤ اور اضطراب کی کوکھ سے ہی یہاں وہ تحریک پھوٹی ہے جسے ’’آزادی کا عقیدہ‘‘ کہاجاتاہے۔ آرچ بشپ رومیرو کی ابتدائی زندگی سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہ غریبوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے ایک شہید ہیرو کا درجہ پا جائے گا۔چرچ سے اس کی وابستگی بلاشبہ ایک ایسے رجعتی اور قدامت پرست پادری کے طورپر ہوئی جو کہ دائیں بازوکی کیتھولک تنظیم اوپوز ڈائی کا حمایتی تھا۔ لیکن پھر جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ تاریخ میں ہمیں ہر قسم کی تبدیلیاں سامنے آتی دکھائی دیتی ہیں ۔ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہ تبدیلی کا منبع و محور بن جایاکرتے ہیں ۔ایسانہ ہوتا چلا آرہاہو تو تاریخ کی ساری رونق شونق ہی ختم ہو کے رہ جائے۔کولمبیاکے ایک سابق پادری کامیلو تورس نے جو بعد ازاں ایک مسلح گوریلا بن گیاتھا ،نے ایک بارکہاتھا ۔ ’’میں نے پادری کا لبادہ اتار پھینکا ہے تاکہ میں ایک سچا پادری بن سکوں ۔ہر کیتھولک پر یہ فرض عائدہوتاہے کہ وہ ایک انقلابی بن جائے اور یہ ہر انقلابی کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ انقلاب کو کر کے دکھائے ۔ہر وہ کیتھولک جو انقلابی نہیں بن رہا،وہ ایک مہلک گناہ کا ارتکاب کر رہاہے‘‘۔ اس قسم کے لوگ بلاشبہ ابتدائی عیسائی انقلابیوں کی اس لڑی سے تعلق رکھتے ہیں کہ جنہوں نے کرہ ارض میں سے غریبوں ،گناہگاروں اور مظلوموں کیلئے جدوجہدکیے رکھی ۔اور انہوں نے جبرواستحصال کا خاتمہ کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی جانیں تک قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔یہ وہ جدید شہیدہیں کہ جن کا احترام کرنا ہر اس انسان پر فرض ہے جو انصاف اورآزادی کو اپنا اولین آدرش مانتے ہیں ۔ انیس سو آٹھاسٹھ سے لے کر انیس سو آٹھہترتک کے دوران لاطینی امریکہ میں آٹھ سو پچاس سے زیادہ پادری، نن اور بشپ افرادکو گرفتار کیاگیا ،ان پر تشددکیاگیا ،انہیں قتل یا پھر غائب کردیاگیا۔ ایل سلواڈور کے جیسواٹ رو ٹیلو گرانڈے نے اپنے قتل سے پہلے یہ کہا تھا کہ ’’آج کل یہ انتہائی خطرناک اور غیر قانونی ہو چکاہے کہ آپ خود کو لاطینی امریکہ میں مستند کیتھولک ڈیکلیر کریں۔اور ہاں یاد رکھیں کہ میرازور مستند پر زیادہ ہے‘‘۔ انیس سو آٹھاسٹھ میں لاطینی امریکہ کے سبھی کیتھولک بشپ صاحبان، میڈلین کولمبیامیں جمع ہوئے ۔اس اجتماع میں نہوں نے ’’منظم گناہ‘‘ پر بحث کی جو کہ لاطینی امریکہ کی اکثریت کو دبائے ہوئے تھا ۔اس اجتماع نے دنیا بھر کے چرچ سے مطالبہ کیا کہ وہ غریبوں کے حق میں اٹھ کھڑاہوجائے ۔ رومیرو بھی شروع شروع میں ایک عام سا ہی پادری تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک قدامت پسند پادری کے ساو کچھ بھی نہ تھا۔اس نے کمیونٹی کی بنیادوں پر ہونے والے منصوبوں کی بھی مخالفت کی تھی جو کہ اس کے خیال میں ’’زیادہ ہی ریڈیکل ‘‘تھے۔وہ سٹیٹس کو کا حمایتی تھا۔فروری انیس سو ستاہتر میں اسے سان سلواڈور کے مرکزی چرچ کیلئے آرچ بشپ کے طورپر نامزدکیاگیا۔اس کے انتخاب کو عام پادریوں کی مخالفت کا سامنا کرناپڑاجبکہ اشرافیہ اور دائیں بازو کی طرف سے اس نامزدگی کا انتہائی جوش جذبے کے ساتھ خیر مقدم کیاگیا۔یہ سب رومیرو کو ایک ایسا انتخاب قراردے رہے تھے جو ’’کمیونسٹ چرچ‘‘کا قلع قمع کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا۔رومیرو کا انتخاب بھی اس کی قدامت پسندی کی وجہ سے کیاگیاتھا۔یوں رومیرو کو فوج کے سبھی سربراہوں اور اشرافیہ کی مکمل تائید وآشیرباد میسر تھی۔وہ آئے روز ’’آزادی کا عقیدہ‘‘نامی تحریک کے لتے لیتارہتا تھا جو ان دنوں دن بدن مقبول ہوتی چلی جارہی تھی۔ انیس سو ستاہتر میں ملک کے اندر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ہر طرف ہڑتالیں اور مظاہرے ہورہے تھے ۔کسانوں نے جاگیرداروں کی زمینوں پر قبضے شروع کر دئے تھے۔ آٹھائیس فروری کو،یعنی رومیرو کی نامزدگی سے کچھ دنوں کے بعد ،الیکشن فراڈ کے خلاف ہونے والا ایک مظاہرہ خون میں ڈبو دیاگیا جب دارالحکومت میں فوج نے عوام پر گولی چلا دی۔رومیرو نے اس واقعے پر نہ تو کچھ کہا نہ اس پر کوئی احتجاج کیا۔لیکن پھربارہ مارچ انیس سو ستاہتر کو ایسا واقعہ ہوا کہ جس نے اس کا نقطہ نظر یکسر بدل کے رکھ دیا۔اس دن ایک ریڈیکل پادری روتیلیو گرنڈی کو ایک نوعمر نوجوان اور ایک باہتر سالہ بزرگ سمیت قتل کر دیاگیا۔فادر روتیلیو جس کا ایک معزز پس منظر رکھنے والے کسان گھرانے سے تعلق تھا ،اسے میڈلین لائن میں خاصی قدرومنزلت سے دیکھاجاتاتھا۔وہ ایک ایسا آدمی تھا جس کے رومیرو کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔رومیرواس کی بہت عزت کیاکرتاتھا۔رومیرو نے اس کے قتل پر پوچھا کہ اس کی انکوائری کیوں نہیں کرائی جا رہی؟اس نے ملک کے صدر کو ایک خط لکھا جس میں رومیرو نے اپنی تشویش اور تحفظات کا اظہار کیاتھا۔’’میں آپ کی طرف سے اپنے لیے خیر سگالی کے جذبات کا شکریہ ادا کرتاہوں۔میں آپ کی نیک دلی کی بھی قدر کرتا ہوں۔مجھے اس پر بھی کوئی شک نہیں کہ آپ کیتھولک برادری کے مطالبات کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے۔مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی شان پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیں گے‘‘۔ یہ فطری بات ہے کہ رومیرو کی اس عرضداشت کا کوئی جواب نہیں دیاگیا۔پھر تو اس کے بعد رومیرو نے حکمرانوں سے سوالات پوچھنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔جس نے اس ساری امیر اشرافیہ کو ہراساں کرنا شروع کر دیا جس نے اس کی بطور آرچ بشپ تقرری کی حمایت کی تھی ۔یہی تو وہ لوگ تھے جو اس ساری قتل وغارتگری کے پیچھے تھے یا پھر،کم از کم ، جنہوں نے اس سب کچھ سے چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی۔اسی سال یکم جولائی کو جنرل کارلوس نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا ۔اس سے پہلے وہ کابینہ میں وزیر دفاع تھا اور شاید وہی فادر روتیلیو کے قتل کا ذمہ دار بھی تھا ۔ا س دوران ہڑتالوں اور قبضوں کا سلسلہ جاری تھا اور زورپکڑرہاتھا۔حکومت اس تحریک کو کچلتی جارہی تھی اور تحریک تھی کہ اس جبروتشدد کے باوجود بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔کسان اور نوجوان پولیس بربریت سے بچنے کیلئے چرچوں میں پناہ لیتے تھے ۔ انیس سو آٹھاہتر کے ایسٹرکے موقع پر بی آر پی نامی ایک گوریلا تنظیم نے کیتھیڈرل پر قبضہ کر لیا ۔رومیرونے انتظامیہ سے کہا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت نہ کرے ۔اس نے کہا کہ وہ اس قبضے کو خود بھی ناجائز سمجھتاہے۔لیکن حکومت نے کسانوں اور نوجوانوں کو کوئی بھی متبادل دینے سے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد رومیرو نے بلا تکان انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں اور فوج کے علاوہ قاتل سکواڈز کی جانب سے انسانی قتل عام کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔اس نے دائیں بازو کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا اور دیہی و غریب علاقوں میں ترقیاتی کام کرانے کی حوصلہ افزائی شروع کر دی۔اپنے قتل سے صرف ایک مہینہ پہلے ہی رومیرو نے اپنے خطبے میں کہا کہ ’’ملک کا سیاسی اقتدار فوج کے قبضے میں ہے ۔ اور وہ اپنے اس اقتدار کو اندھادھند اور وحشیانہ طورطریقوں سے چلا رہی ہے۔انہیں صرف یہی کرنا آتا ہے کہ کیسے عوام کو دبانا اور کچلنا ہے ۔اور کس طرح سے ملک کے امیروں کے مفادات کی نگہبانی کرنی ہے‘‘۔ رومیرو ان لوگوں کی آواز بنتا چلا گیا تھا جنہیں کوئی نہیں سنتا تھا۔وہ ایل سلواڈور میں واحد آواز تھی جسے کوئی سنسر نہیں کر سکتا تھا۔اس کے پاس ایک چھوٹا سا ریڈیو سٹیشن تھا جس پر وہ گم یا غائب ہو جانے والوں کے نام نشر کیا کرتا تھا۔ایک آدمی جسے ایک بار اٹھا لیا جاتا تھا اس کا دوبارہ کوئی نام ونشان تک نہیں ملتاتھا۔اس کے اہل خانہ پادریوں سے رابطہ کرتے کہ وہ گم ہو جانے والے کی تلاش کیلئے دعا اور مدد کریں۔جس پر پادری صاحبان آرچ بشپ سے رابطہ کرتے تھے اور وہ ان گمشدگان کے بارے سوال کیا کرتا تھا۔اس نے مسلسل انتظامیہ سے پوچھ گچھ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔کہ لوگوں کو کس لیے پکڑا جا رہاہے؟وہ کہاں ہیں اور ان کے ساتھ کیا کیا جارہاہے؟مئی انیس سو اناسی میں رومیرو نے پوپ کو سات دستاویزات پیش کیں جن میں ایسی رپورٹیں اوردستاویزات تھیں جو پکڑ دھکڑ،ہلاکتوں،گمشدگیوں اور ایل سلواڈور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی تھیں ۔اسی دوران ہی سماج میں انقلابی ابھار بڑھتا چلا جا رہاتھا ۔جوآرچ بشپ کو بھی ساتھ ساتھ ریڈیکلائز کرتا جا رہاتھا۔جنوری انیس سو اسی میں ورکروں ،کسانوں اور نوجوانوں کی مختلف تنظیموں نے مل کر عوامی انقلابی کوآرڈینیشن کمیٹی قائم کر دی۔ یہ اتحاد انیس سو بتیس میں ایل سلواڈور میں ہونے والی انقلابی سرکشی کی سالگرہ کے موقع پر قائم کیاگیا۔اس دن اس چھوٹے سے ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا جس میں تین لاکھ افراد شریک ہوئے اور جسے انتہائی سختی سے کچل دیاگیا۔اور جس کے بعد ملک میں مظاہرے پھوٹ پڑے ۔رومیرو نے اس ریاستی تشدد کی سخت مذمت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ عوام کو اس قسم کے جبروتشدد کے خلاف مزاحمت کا قانونی حق ملنا چاہئے ۔دو فروری کو دئے گئے اپنے انٹرویو میں اس نے کہا ’’عیسائیوں کو جدوجہدکرنے سے نہیں روکا اور ڈرایاجا سکتا۔ہاں لیکن وہ امن کی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیں گے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی آمریت انسانی حقوق کو یکسر نظر انداز کرتی ہے ،جب وہ عام انسانوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرتی ہے اور وہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھتی ہے تو یہ سب ناقابل برداشت ہوجاتا ہے اور تب کسی قسم کی بات کرنے کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں ۔اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر چرچ کو ایسے میں آواز بلند کرنی پڑتی ہے اور وہ لوگوں کی مزاحمت کو قانونی اور برحق قرار دیتا ہے۔یہ دن طے کرنا کہ کب عوام اس جبروتشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔اور یہ دیکھنا کہ جب گفتگو اور بات چیت کے دروازے بند ہوجائیں تو پھر کیا کیا جاناچاہئے ؛یہ طے کرنا چرچ کا کام نہیں ہے ۔لیکن میں یہاں اپنے ملک کی اشرافیہ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھ کھول دیں اور اپنی انگلیوں میں پہنی انگوٹھیاں اتار دیں کیونکہ ایسا نہ ہوا تو وہ دن قریب آجائے گا جب ان سب کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں گے‘‘۔ یوں رومیرو کا اپنے ملک کی معاشی وسیاسی صورتحال کا تجزیہ واضح شفاف اور انقلابی ہوتا چلا گیا۔ پندرہ فروری کو پرنزا لاطیناکو دیا جانے والا اس کا انٹرویو اگرچہ کچھ طویل ہے لیکن یہ بہر طور اس قابل ہے کہ اسے یہاں پیش کیا جائے اور پڑھا جائے۔ ’’یہاں ہر خرابی کی وجہ صرف اور صرف یہاں کی اشرافیہ ہے ۔چند خاندانوں کا یہ مرکزہ ، اس بات کی پرواہ ہی نہیں کرتا کہ یہاں کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ۔اس کی بجائے انہیں اس بات کی زیادہ فکر ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم اجرت دے کر اپنی فصلوں کا کام کروائیں۔تاکہ وہ اپنی فصلوں کو آگے برآمد کر سکیں۔ملکی وغیر ملکی صنعتی کمپنیاں انسانی بھوک کی قیمت پر عالمی منڈی میں اپنا سارا کاروبار کرتی ہیں ۔اور اسی سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کسی قسم کی اصلاحات کا ہونا محال ہے۔نہ ہی یہاں ٹریڈ یونین تنظیموں کو منظم ہونے دیا جاتا ہے جو عوام کی حالت کو سدھارنا چاہتی ہیں ۔اشرافیہ کسی طور بھی اجازت نہیں دے گی کہ مزدور اور کسان اہنی اپنی یونینیں تشکیل دے سکیں کیونکہ وہ یہ جانتی ہے کہ ایسا ان کے معاشی مفادات کے خلاف ہوگا۔چند خاندانوں کا یہ گروہ عام لوگوں پر ہر قسم کے جبر وتشدد کو جائز سمجھتا ہے اور وہ اسے اپنے منافعوں میں اضافے کیلئے لازمی قراردیتا ہے۔یہ سب جائز اور قانونی ہے چاہے اس کیلئے مزدوروں اور کسانوں کو غربت کے جہنم میں ہی کیوں نہ دھکیل دیاجائے۔ علاوہ ازیں ،دولت ا ور خوشحالی کا ارتکازسماجی سیاسی اور معاشی طاقت کے ارتکاز کابھی باعث بن جاتاہے ۔اس کے بغیر مراعات کا حصول اور ان میں اضافہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔چاہے اس کیلئے انسانی عزت وشرف کو ہی کیوں نہ داؤ پر لگا دیا جائے ۔ہمارے ملک میں ہر قسم کے جبرو تشدد اور استحصال کی یہی ایک وجہ ہے ،اور آخری تجزیے میں یہی ہمارے ملک میں سیاسی سماجی اورمعاشی پسماندگی کی مرکزی وجہ بھی ہے۔ مسلح افواج کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ وہ اسی اشرافیہ کے مفادات کو یقینی بنائیں اور وہ اس معاشی و سیاسی ڈھانچے کا تحفظ بھی کرے اور مسلح افواج سے یہ سب قومی سلامتی کے نام پر کرا یا جاتا ہے۔اس قسم کی ریاست سے جو بھی اختلاف کرتا ہے ،اسے قوم کا دشمن اور غدار قرار دے دیا جاتاہے۔جبکہ اس قومی سلامتی کے نام پر انتہائی بھیانک جرائم کئے اور کرائے جاتے ہیں ۔اور یہ سب کچھ اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے کیا جاتا ہے۔اور یہ مفادات کلی طور پر عام انسانوں اور ان کے حقوق کی نفی کرتے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ انتہائی ناقابل برداشت تھے چنانچہ اشرافیہ اور دائیں بازوکے سیاستدانوں نے اسے کارسرکار میں مداخلت سمجھا۔اور دکھ تو یہ بھی تھا کہ یہ سب وہ کہہ رہاہے جسے انہوں نے خود ہی نامزد اور منتخب کیاتھا اور جو ان کے بھروسے کا آدمی تھا۔اشرافیہ نے اسے غدار قراردیتے ہوئے اپنے لئے خطرہ بھی سمجھ لیا اورلازمی ہوگیاتھا کہ خطرہ بنتی اس آواز کو خاموش کردیاجائے ۔اور یہ خاموشی انہوں نے مسلط کر بھی دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سزاؤں کے منتظر قتل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رومیرو کے قاتل نہ تو پکڑے گئے نہ ہی کسی سزاکو پاسکے۔لیکن یہ تو صرف ایک کیس ہے ۔ہزاروں اور بھی کیس ہیں جن کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔دس سالوں سے بھی طویل عرصے کے دوران ،فوج ،سیکورٹی فورسز اور قاتل سکواڈز نے کئی کئی قتل عام منظم کئے جن میں بعض اوقات تو سینکڑوں انسانوں کو ایک ہی وقت میں موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ سلواڈور کی سیکورٹی فورسز اور پیراملٹری ڈیتھ سکواڈز نے فرابونڈو مارٹی نیشنل فرنٹ،، ایف ایم ایل این ،، کی گوریلا قوتوں کے خلاف اپنی کئی سالوں پر محیط جنگ کے دوران لاتعداد انسان گم غائب یا ہلاک کر دئے گئے ۔اس جنگ کے دوران پچہتر ہزار انسان تاریک راہوں میں مارے گئے جبکہ سات ہزار سے زائد غائب ہوگئے۔جبکہ لگ بھگ دس لاکھ انسان اس جبرو بربیت سے عاجز آکر قریبی ملکوں میں جلاوطنی اختیار کر گئے۔ ریاستی جبر تشدد کے نتیجے میں اس قتل نامے کی فہرست میں آٹھارہ کیتھولک پادری اور نن بھی شامل ہیں۔جن میں سے چار کا تعلق امریکہ سے تھا۔ اقوام متحدہ کے حقائق کمیشن نے اس بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں تفتیش اور شہادتوں کی بنیاد پر تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔اس میں انیس سو اسی سے جولائی انیس سو اکانویں تک ایل سلواڈورمیں ہونے والی بدترین اور بے حساب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔یہ دستاویزدلچسپ معلومات پر مبنی ہیں جو پڑھے جانے کے لائق ہیں اور جن سے سلواڈورکی اشرافیہ کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سامنے آتے ہیں۔مثال کے طور پر اس میں کہاگیا ہے۔ ’’ کمیشن کو پتہ چلا ہے کہ نومبر انیس سو اناسی میں سلواڈورآرمی کی ہائی کمان نے جیسویسٹ پادریوں کے قتل کے احکامات جاری کئے ۔یہ فرائض ملٹری اکیڈمی کے افسروں نے سرانجام دئے۔ فوج کی اٹلاکاٹل بٹالین کے عناصر نے جیسویسٹ سمیت چھ پادریوں کوموت کے گھاٹ اتارا۔اس کے گھریلو ملازمین اور اس کی بیٹی بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔بعد ازاں اس بہیمانہ واردات کو باغی گروپ ایف ایم ایل این کے کھاتے میں ڈالنے کیلئے خصوصی غلط ثبوت بھی وہاں پھیلا دئے گئے۔ ’’ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کمیشن کو معلوم ہواہے کہ ایل موزوٹے میں فوج نے انیس سو اسی میں دوسو سے زائد افراد کو ہلاک کرڈالا جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے ۔سابقہ اٹلاکاٹل بٹالین کے کمانڈرکرنل ڈومینگو باریوساور کرنل ناتیویداد،، جو اس وقت میجر تھا ،، نے یہ قتل عام کیا ۔کمیشن کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے سربراہ ماریشو کاسترونے اس قتل عام کی عدالتی تحقیق و تفتیش میں غیر ذمہ دارانہ مداخلت کی تھی۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔’’کمیشن کو یہ معلوم ہواہے کہ میجررابرٹوڈی ابوسن نے آرچ بشپ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ آرمی کیپٹن ایڈورڈواویلااور سابق کیپٹن الوارو سواریا نے فرنانڈو سگریرا کے ساتھ مل کر اس قتل کو ممکن اور منظم کیا۔کمیشن کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایل سلواڈور کی سپریم کورٹ نے امریکہ کے کہنے پر سواریا کو ملک سے باہر بھیجنے میں سرگرم کردار ادا کیا ‘‘۔ رپورٹ کو ’’متوازن‘‘ کرنے کیلئے ایف ایم ایل این کی طرف سے متشدد کاروائیوں کو بھی سامنے لایا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’کمیشن کو پتہ چلا ہے کہ ایف ایم ایل این کی جنرل کمانڈ نے سویلین مئیروں کے قتل کے احکامات جاری کئے ۔اور یہ ایف ایم ایل این کی پیپلز ریولوشنری آرمی کم از کم گیارہ سویلین مئیروں کے قتل کی ذمہ دار ہے ۔کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ ،،ای آر پی ،،کے کمانڈروں جیکوئن ولالبوس، آنا مارٹینیز، مرسیڈیز لیٹونا، جارج میلینڈیز، اور ماریسولزگالینڈوان قتلوں کے ذمہ دار ہیں‘‘۔ وسیع معنوں میں کمیشن نے یہ طے اورتجویز کیا کہ ایف ایم ایل این ہی ان سبھی متشدد غارتگریوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔کمیشن نے کہا ہے کہ صورتحال کے سیاسی حل کیلئے ایف ایم ایل این پر مستقل پابندی عائد کر دی جائے ۔تاہم اسی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’’ کمیشن کے علم میں آنے والی وارداتوں کی زیادہ تر تعداد کے ذمہ دار فوج یا ان سے منسلک گروپس ہیں ‘‘۔ کیا بات اب بھی واضح نہیں ہو رہی؟کہ وارداتوں کی زیادہ تر تعداد کے ذمہ دار فوج یا ان سے منسلک گروپس ہیں ،یعنی ڈیتھ سکواڈز۔اور اگر معاملہ یہی ہے ،، اور ہم سمجھتے ہیں کہ بالکل یہی معاملہ ہے ،، تو پھر کیونکر ہم چھوٹے سرکش گروپوں کی طرف سے کی جانے والی غارتگری اور ریاست کی طرف سے کئے جانے والے جرائم اور جبر کو ایک ہی نظر سے دیکھتے اور ایک ہی پلڑے میں تولتے ہیں ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ امریکی سامراج کا کردار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ حقائق کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’کمیشن کو اس بات پر بھی سخت تشویش ہے کہ میامی امریکہ میں رہائش پذیر سلواڈوری باشندوں نے انیس سو اسی سے انیس سو تراسی کے دوران ڈیتھ سکواڈز کی سرگرمیاں منعقد کیں اور جن کی امرکی حکومت کو کچھ نہ کچھ سدھ بدھ تھی۔امریکی سرزمین کو اس قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں کیلئے کام میں لائے جانے کی مکمل چھان بین ہونی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس کا اعادہ نہ ہو سکے ‘‘۔یہ بات ہر کس و ناکس کے علم میں ہے کہ امریکہ اس سارے عرصے کے دوران وسطی امریکہ کے معاملات میں مسلسل مداخلت کرتا رہا ہے ۔ انیس سو اناسی میں نکاراگوا میں سیڈینستا انقلابی تحریک نے سوموزا کی جابرانہ حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا ۔یہ خاندان انیس سو تیس سے اس ملک پر مسلط چلا آرہاتھا۔امریکہ نے فور ی طور پر ہی انقلابی حکومت کے خلاف دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ۔اور اس کے خلاف ایک وسیع سفارتی ،عسکری اور معاشی محاذکھول دیے۔ انیس سو اسی کی ساری دہائی کے دوران ہی امریکی سامراج نے نکاراگوااور ایل سلواڈور کے عوام کے خلاف ایک خونی جنگ چھیڑے رکھی اور یہ سب امریکی صدر کی کمیونزم کے خلاف عالمگیر جنگ کے نام پر کیا گیا۔اس بیہودہ جنگی مشن پر امریکی سامراج نے اربوں ڈالر پھونک ڈالے ،جس میں دہشت گردی،سیاسی قتل وغارت،تشدد،اغواسمیت سبھی قسم کے جرائم کئے اور کروائے گئے۔آرچ بشپ رومیرونے امریکی حکومت کی طرف سے ایل سلواڈورمیں مداخلت پر سخت نکتہ چینی کی جس نے خانہ جنگی کے دوران سلواڈور حکومت کو اربوں ڈالر کی عسکری امدادفراہم کی جبکہ فوجی تربیت بھی فراہم کی گئی۔ایل سلواڈور میں بدنام زمانہ ڈیتھ سکواڈز کا بانی مبانی میجر رابرٹوڈی ابوسنامریکی سکولوں کا پڑھا لکھا اور امریکی عسکری ادارے سے سرکشی سے نمٹنے کی خصوصی تربیت لے چکاتھا۔ اپنے قتل سے صرف کچھ ہفتے پہلے ہی رومیرو نے اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کو ایک خط بھیجا ،جس میں اس نے لکھا کہ ’’تم یہ دعوی ٰ کرتے ہو کہ عیسائی ہو۔اگر تم ایک سچے عیاسائی ہو تو میں یہ گزارش کرتاہوں کہ میرے ملک کی فوج کو فوجی امداد فوری طورپر بند کردو۔کیونکہ اس کے ذریعے میرے ملک کے غریبوں کو قتل کیا جارہاہے‘‘۔اس خط کا بھی جواب نہ آناتھا نہ ہی آیا۔ یہاں ہم جو کہہ رہے ہیں اور جو دیکھ رہے ہیں وہ کسی طور بھی نیا نہیں ہے۔امریکہ بہادر ایل سلواڈور سمیت سارے وسطی و لاطینی امرکہ کو اپنا پچھواڑہ سمجھتا ہے۔جس پر وہ ایک بدنیت پراپرٹی ڈیلر کی طرح سے ہر وقت آنکھ رکھے رکھتا ہے اور اسے اپنی مقبوضہ ملکیت سمجھتا ہے۔اور ایک سمجھدار مالک کی طرح وہ اس بات کی لازمی پرواہ کرتا ہے کہ اپنی اس مقبوضہ ملکیت پر محافظ کتے باندھے رکھے جو دن رات اس ملکیت کی رکھوالی کرتے رہیں۔اس قسم کے کتوں کا خونخوار دکھائی دینا بھی حفاظتی اصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے اور یہ بھی کہ وہ بوقت ضرورت کاٹنے کا بھی فن اور حوصلہ رکھتا ہو۔اسی قسم کی محافظ، ایلسلواڈورکی اشرافیہ بھی ہے جس کے پاس جبر وتشددکا ایک بہت بڑا ڈھانچہ اور نیٹ ورک موجود ہے۔اس میںآرمی ،پولیس،انٹیلی جنس ایجنسیاں،جیل وارڈنز،اور ان کے ساتھ ماہرین تشدد و غارت اور اجرتی قاتل بھی اس نیٹ ورک کااہم حصہ ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک فرد ہزار وسیلوں اور ذریعوں سے امریکی سی آئی اے اور سامراج سے وابستہ و منسلک ہے۔میامی جیسے شہروں میں ان کو قتل وغارتگری کی تربیت دی جاتی ہے ۔چنانچہ امریکہ سے یہ کہنا کہ وہ ایسا نہ کرے ،یہ ایسا ہی ہے جیسا قبضہ کررکھنے والے مالک سے یہ کہنا کہ وہ مہربانی کرتے ہوئے اپنے کتے کو پٹہ ڈالے،جس کا یقینی طورپر مالک نے یہی جواب دینا ہے کہ میں اپنے کتے سے تمہاری جان چھڑاسکتاہوں بشرطیکہ مجھے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ میرے اس پلاٹ پر کوئی بھیڑ اوربکری گھاس نہیں کھائے گی۔ مذکورہ بالا رپوررٹ کے مصنفین اس بات پر نفی میں اپناسر ہلاتے نظر آتے ہیں ویسے ہی جیسے ایک سکول ماسٹر اپنے کسی پیچیدہ طالبعلم کے ساتھ کررہاہوتا ہے۔یہ مصنفین حضرات امریکہ بہاد رکی طرف اپنی انگلیاں کھڑی کر کے اسے ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔اچھے بچے ایسی حرکت نہیں کیا کرتے۔لیکن امریکی سامراجیوں کو اس قسم کے پند ونصائح سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ان کے انتہائی سنجیدہ مفادات اس سب سے وابستہ ہیں اور وہ ان کیلئے سب کچھ کر گزرنے سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔ اور یہی ان کا سنجیدہ طریق کار بھی ہے۔ عراق اور افغانستان کے عوام اس قسم کے امریکی طور طریقوں سے اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں ۔کیونکہ وہ انہیں اچھی طرح سے بھگت رہے ہیں ۔ دہشت گردی جنگ کا ہی ایک اوزار ہواکرتی ہے ۔بلکہ یہ کسی بھی جنگ کا ایک لازمی عنصر ہواکرتا ہے۔کیونکہ ہر جنگ کا بنیادی مطمع نظر ہوتا ہی یہی ہے کہ اپنے دشمن کو کسی نہ کسی طرح زیر کیا جاسکے ۔اور اگر کہیں آپ کا دشمن تعداد میں آپ سے بہت زیادہ ہو تو ایسے میں دہشت گردی کا استعمال تو بہت ہی کار آمد و کارگر ثابت ہوتا ہے۔ایل سلواڈور میں بھی یہی کیفیت درپیش تھی۔جہاں کی محدوداور طفیلی اشرافیہ کو بے چین و مضطرب مزدوروں کسانوں اور نوجوانوں کے ایک بپھرے ہوئے سمندر نے چاروں طرف سے گھیرا ہواتھا۔اسی قسم کا معاملہ افغانستان اور عراق میں بھی ہم سب کے سامنے ہے۔جہاں جارح طاقتوں کوبپھرے ہوئے عوام کے غیض وغضب کا سامنا ہے۔ سامراجی اپنے مقبوضہ ملکوں میں عوام کے خلاف یہی دہشت گردی کا طریق کار بروئے کار لاتے ہیں ۔ان ملکوں کے عوام بھی اپنے دفاع کیلئے دہشتگردی کو استعمال کرتے ہیں اور اس طریقے سے وہ اپنے غیر ملکی دشمن کا نکال باہر کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں ۔مزاحمت کے عنوان کی ایسی دہشت گردی مغرور بھی ہوتی ہے ،کرخت بھی اور ناکامیاب بھی۔جبکہ سامراجیوں کی طرف سے بروئے کار لائی جانے والی دہشت گردی انتہائی نفیس ہوتی ہے ،جسے انتہائی بھاری سرمائے ،جدید ترین تکنیک، سائنسی آلات اورہتھیاروں کی مددومعاونت حاصل ہوتی ہے۔یہ نفیس دہشت گردی ،کرخت دہشت گردی سے کہیں زیادہ بندے مارتی اور مطلوبہ نتائج حاصل کرتی ہے۔ مقدس بائبل یہ حکم دیتی ہے کہ کسی انسان کو قتل نہ کیاجائے ۔لیکن عیسائی حکمرانوں کی ساری تاریخ اس بات کا اعلان کرتی دکھائی دیتی ہے کہ ان کی حکومتوں نے مقدس کتاب کے اس حکم پر ذراسی توجہ دینے اورا س پر عمل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔اگر کتاب مقدس کے ساتھ ان کا یہ برتاؤ ہے تو ہم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ یہ مقدس عیسائی حکمران اقوام متحدہ کے حقائق کمیشن کی رپورٹ میں درج اپیل پر کان دھریں گے!؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مصالحت؟ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ’’کمیشن کو معلوم ہواہے کہ ڈیتھ سکواڈزجنہیں اکثر ملٹری ہی چلاتی ہے ،اور جنہیں طاقتور تاجروں،جاگیرداروں اور کچھ بڑے سیاستدانوں کی پشت پناہی اور آشیرباد حاصل ہے ،بہت لمبے عرصے سے ایل سلواڈور میں کامکرتے چلے آرہے ہیں ۔ اور وہ خاصا اثرورسوخ اور رعب و دبدبہ بھی رکھتے ہیں ۔کمیشن کو آٹھ سو سے زائد ایسی شہادتیں ملی ہیں جنہوں نے ڈیتھ سکواڈ ز کے جبر کو بہ نفس نفیس بھگتا ہے۔یہ صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ کمیشن اس پر خصوصی فوری اور سنجیدہ تفتیش کا مطالبہ کرتا ہے ۔تاکہ ان ڈیتھ سکواڈز کی حقیقت سب کے سامنے لائی جا سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس کو اس طرح ختم کیا جائے کہ دوبارہ ایسا نہ کیا جا سکے۔کمیشن کو فوج،کرائے کے قاتلوں،اور انتہاپسندوں کے مابین گہرے تعلقات پر بھی بہت تشویش ہے۔یہی نہیں بلکہ گہرے اور باہمی تعلقات کا یہ سلسلہ مہان تاجروں اور بااثر خاندانوں تک پھیلا ہواہے۔جو جھگڑوں کو ختم کرانے کیلئے قتل کا اہتمام کراتے رہے‘‘۔ اب ہم اہم ترین پوائنٹ کی طرف آتے ہیں ۔ایک ایسی صورتحال میں کہ جب متحارب فریقین ،، سرکاری اور غیر سرکاری ،، کی جانب سے وسیع پیمانے پر کیے جانے والا قتل عام کا میلہ سجایا گیا اور اسی طرزکے اور جرائم منظم کئے گئے،تاکہ اپنے ہی ملک اور اپنے ہی لوگوں کو ایک حالت جنگ میں رکھا جائے۔آخر اس سب سے کسی کو کیا حاصل ہونا ہے؟یہ کسی طور بھی ثانوی سوال نہیں ہے۔کیونکہ اگر اب ایسے موثر اقدامات نہیں کئے جاتے جن کی مدد سے ’’ذمہ دار،قصور وار‘‘کی شناخت ہو سکے ،اور اس کے بعد انہیں ان کے کئے کی سزا دی جا سکے ،تو پھر آپ کسی طور بھی مستقبل میں اس قسم کے جرائم اور زیادتیوں کو دوبارہ سرزدہونے سے نہیں روک سکتے۔ریاست کو لازماً ایسے عناصر کا سر کچلنا چاہئے جو اس کے باشندوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا حقائق کمیشن اس حوالے سے کیا تجاویز پیش کرتاہے؟حقائق نامے کی اس دستاویز کا سب سے منفی پہلویہیں ملتا ہے۔جیسا کہ کوئی بھی اقوام متحدہ سے توقع رکھ سکتا ہے ،اس کی بنیادوں میں طبقاتی نوعیت کا ایک بھی ذرہ شامل نہیں ہے۔چنانچہ یہ ادارہ ایل سلواڈور میں جاری خانہ جنگی کو بھی منافقانہ اخلاقیات کے نقطہ نظر سے ہی دیکھتا جانچتا اور پرکھتا ہے۔یہ ادارہ’’ عمومی طور ‘‘پر تشدد کی سخت مذمت کرتاہے لیکن یہ کسی طور بھی اس تشدد کے حقیقی عوامل و عناصرکا تجزیہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔یہ اس حقیقت کو تو آشکار کرتا ہے کہ ’’وہاں ‘‘ تشددتھا مگر یہ کبھی نہیں بتاتا کہ یہ تشدد وہاں کیونکرتھا؟اور یہ بھی نہیں بتایا جاتاکہ حقیقی جارح کون تھا اور حقیقی مظلوم کون؟دوسروں لفظوں میں یہ ظالم و مظلوم کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا پرکھتا ہے۔ اگر ایک خاتون پر کسی گلی میں کوئی مرد حملہ کردیتا ہے اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانااور قتل کردیناچاہتا ہے تو ایسے میں اگر خاتون اپنے تحفظ کیلئے جوابی لڑائی کرے تو کیا ہم دونوں کی، بیک وقت، مذمت کریں گے؟کیا زبردستی کرنے والے کی لڑائی اور زبردستی کو روکنے والے کی لڑائی کو ایک ہی جیسا قراردیں گے؟ ہمارا نہیں خیال کہ کوئی بھی معقول انسان اسے ایک جیسا قراردے گا۔لیکن اقوام متحدہ کا اس حوالے سے نقطہ نظر کچھ اور ہی ہے ۔ مثال کے طور پر’’حقائق کمیشن کو امید ہے کہ راکھ کے اس ڈھیر سے ایک نیا ایل سلواڈور ابھرے گا ،یہ راکھ ایک ایسی جنگ کا نتیجہ ہے جس میں ملوث سارے فریق غلطی پرہیں ‘‘۔ یہ ایک ایسی منافقت ہے جس میں ظلم و جارحیت کا شکار ہونے والوں کو یہ تجویز کیا جارہاہے کہ وہ خود کو غیر مسلح کردیں اور ظلم و جارحیت کرنے والوں کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیں ۔’’سارے فریق غلطی پر ہیں‘‘یہ کہنا ایسا ہے جیسے کوئی غلام اگر اپنے آقا کے ہاتھوں کوڑے کھانے سے انکار کردے اور مزاحمت کرے تو اس غلام کی مزاحمت اور آقاکے کوڑے مارنے ،دونوں کو ہی غلط قراردے دیا جائے ۔ اقوام متحدہ کی مذکورہ دستاویز یہ تجویز بھی پیش کرتی نظر آتی ہے کہ ’’درگذرہی واحد حل اور مداواہے‘‘مگر پھر اگلے ہی فقرے میں اپنی اس عالمانہ نصیحت کی تردید بھی کرتی ہے ’’جو تذلیل اور توہین ایل سلواڈور کے لاکھوں انسانوں نے سہی ہے اسے نہ تو بھلایا جا سکتا ہے اورنہ ہی بھلایا جانا چاہئے‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کیا ہم انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں ؟ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی ہاں یہ واضح ہے اور اس پر کسی کو بھی کسی طور حیران وپریشان نہیں ہونا چاہئے۔لیکن جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ جو سوال ابھرتا ہے ،وہ یہ ہے کہ ’’کیا کیا جانا چاہئے‘‘۔ ’’کمیشن محسوس کرتاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جائے ۔لیکن ایسا نہیں کہ ہم ہی کوئی پابندیاں عائد کریں اور ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سلواڈور کا موجود ہ عدالتی نظام اس قابل نہیں ہے کہ یہ معاملات کا دیانتدارانہ جائزہ لے سکے اور کوئی سزا تجویز یا نافذکر سکے۔چنانچہ یہ کمیشن محسوس کرتا ہے کہ اسے کسی عدالتی تحقیقات کی سفارش کرنی چاہئے کہ جو اس رپورٹ میں مذکور ذمہ داران کے خلاف کوئی کاروائی کرے۔ہاں البتہ وہاں عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائیں‘‘۔ فطری طورپر ہم قانونی و عدالتی نظام میں اصلاحات کرنے کے حق میں ہیں کہ جن کی وجہ سے آبادی کی ضرورتوں اور مطالبات کو زیادہ جمہوری اور جوابدہ قوانین میسر آسکیں ۔ہاں البتہ جہاں تک ایل سلواڈورکا معاملہ ہے وہاں تو ساری کی ساری عدلیہ کو ہی برطرف کرنا اور بیشتر عادلوں کو تو جنگی جرائم میں معاونت کرنے کے جرم میں کٹہرے میں کھڑا کرناہوگا۔وہاں اس قسم کی اصلاحات کافی اثرات مرتب کریں گی ۔اور یہ صرف اسی صورت کارگر ثابت ہو سکیں گی کہ جب تک سماج کی انقلابی تعمیر و تشکیل نہیں کی جاتی۔یعنی اوپر سے لے کرنیچے تک مکمل تبدیلی۔ کمیشن کی رپورٹ میں رومیرو کے کیس کے حوالے سے کہا گیاہے کہ اس معاملے میں وہاں کی حکومت نے بیشتر عالمی قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی ہے ،جو عدل وانصاف سے متعلق ہیں۔ رپورٹ مزید مشورہ دیتی ہے ’’ریاست کو ایک مکمل ،غیر جانبدارانہ اور موثر عدالتی تحقیقات کرائی جائیں ،تاکہ ان واقعات میں ملوث سبھی افراد جو بالواسطہ یا براہ راست ان کے ذمہ دار ہیں ،کوشناخت کیا جائے ،ان کی تفتیش کی جائے اور ان کو سزا دی جاسکے ۔انہیں کسی طور معاف نہ کیا جائے‘‘۔ ہر مزدور اور ہر کسان اس بات سے واقف ہے کہ عدلیہ بھی سرمایہ دارانہ ریاست کا ہی ایک جزو ہواکرتی ہے ۔اور یہ بھی کہ امیر وں ا ور طاقتوروں میں سے ہی عدلیہ کے بڑے اصحاب مرتب ومنتخب کئے جاتے ہیں ۔’’غیرجانبداری ‘‘کے سبھی کھوکھلے اور منافقانہ دعووں کے باوجود ،یہ کسی طور بھی غیر جانبدار نہیں ہوتی ،نہ ہی ہو سکتی ہے ۔ آخری تجزیے میں،یہ اقلیتی امیر وں کے مفادات کو غریب اکثریت کے مفادات پر فوقیت اور ترجیح دے گی۔یہ بات جدید ترقی یافتہ اور جمہوریت یافتہ ملکوں کے اندر بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ایل سلواڈور میں تو یہ کیفیت اور بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ کمیشن آگے چل کے فیصلہ دیتا ہے’’ایک ریاست اپنے داخلی قوانین کے تحت ہی صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روک سکتی ہے۔اور یہ ذمہ دارافراد کو قانون کے کٹہرے میں لاسکتی ہے ،اور اس قسم کے جرم کو ہونے سے روک سکتی ہے‘‘۔لیکن ایل سلواڈور میں اس کے علاوہ اور ہو ہی کیا رہاہے ؟اسی سال ہی کہ جب اس کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی،وہان کی قانون ساز اسمبلی نے عام معافی کا قانون پیش اور پاس کیا ۔ا س وقت اسمبلی میں اے آر ای این اے پارٹی کی برتری تھی اور یہی وہ پارٹی ہی تھی کہ جس نے ان سب وارداتوں کو منظم اور ان کے وارداتیوں کی سرپرستی کی تھی۔ موقع کی مناسبت سے حکمران طبقات عدل و انصاف کے احترام اور اس کی بالا دستی بارے نیک جذبات کو فروغ دیں گے ۔تاکہ عوام الناس کے دلوں کو ایک دلفریبی سے روشن رکھنے کی کوشش کی جائے کہ ریاست قطعی طور پر غیر جانبدار ہے اور یہ کہ آج کے بعد عدل وانصاف کا ہی بول بالاہوگا۔یہ بھی ہو سکتاہے اور ہو گا کہ ماضی کے چند ایک کرداروں کوعبرت کے طورپر عدل وانصاف کی دیوی کے بھینٹ بھی چڑھادیاجائے ۔ یہی کچھ سلواڈور کے سابق ائر فورس کیپٹن الوارو سواریا کے ساتھ کیاگیاتھا جسے دوسرے فوجی افسروں سمیت رومیرو کے قتل کا ذمہ دار قراردیاگیاتھا۔سواریا اپنے خلاف تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی امریکہ ہجرت کر گیاتھا ۔ انیس سو ستاسی میں اسے امریکی انتظامیہ نے اس وقت پکڑ لیا جب سلواڈور میں تفتیشی اداروں نے اس کی وطن واپسی کا مطالبہ کیا ۔مگر پھر جلد ہی سلواڈور حکومت اورعدلیہ نے ااے حوالے کرنے کی اپنی درخواست واپس لے لی۔اور یہ موقف اختیار کیاگیا کہ اس سلسلے میں موجود ثبوت ناکافی ہیں ۔چنانچہ انیس سو آٹھاسی میں سواریا کو بری کردیاگیا۔ آرچ بشپ کی باقیماندہ فیملی جس میں اس کے دو بھائی شامل ہیں اور جن کی عمریں ستر سال سے زائد ہو چکی ہیں ،نے امریکہ بہادر کی عدالتوں سے رجوع کیا اور وہاں کیلی فورنیا میں ٹورٹورے وکٹیم پروٹکشن اورایلین ٹور کلیمزآرٹ کے تحت سول مقدمہ دائر کردیا۔یہ قوانین ایسے امریکی شہریوں کے خلاف مقدمات کا حق دیتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے امریکہ سے باہر کسی ملک میں کیا ہو۔سواریاکو کیلی فورنیا کی وفاقی عدالت کی جانب سے دس ملین ڈالرز بطور ہرجانہ اداکرنے کی سزا سنائی گئی۔سواریا اس سماعت کے دوران کبھی عدالت پیش نہیں ہوا اور یہ سزا اس کی غیر حاضری میں سنائی گئی۔اگرچہ اس کے بارے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہتا بستا ہے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ وہ امریکہ ہی میں کہیں مقیم ہے ۔ پندرہ مارچ دو ہزار نو کو ایل سلواڈور کے عوام کو الیکشن میں ایک بہت بڑی تاریخی کامیابی ملی جب ایف ایم ایل این کے ماریشو فونس کو کامیابی ملی اوریوں پہلی بار وہاں کے لیفٹسٹوں کو حکومت میں آنے کا موقع ملا۔ماریشو نے اعلان کیا ہے کہ وہ غریبوں اور مظلوموں کا ساتھی ہے اور ان کا ساتھ دے گا۔یہ واقعی بہت ہی اچھی بات ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ باتوں کو عمل میں لایا جائے۔ایل سلواڈور کے عوام سچائی کیلئے تڑپ رکھتے ہیں ۔ وہ جبر واستحصال اور ناانصافی کا خاتمہ چاہتے ہیں اورحق و انصاف کے طلبگار ہیں ۔ سلواڈور کی حکومت اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ وہ رومیروکے قتل کے سبھی محرکات اور عوامل کو سامنے لانے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے مکمل عدالتی تحقیقات کرائے گی۔یہ بلا شبہ درست سمت کا قدم ہے لیکن محض اسی ایک قدم سے کچھ نہیں ہو گا۔اور بھی بہت کچھ درکار ہے ۔لازمی ہے کہ انیس سو ترانویں میں منظور کئے جانے والے عامممعافی کے کالے قانون کو فوری طورپر ختم کیا جائے جس کے تحت خونریز خانہ جنگی کے ذمہ دارافراد کو معافی دے دی گئی تھی۔ آرچ بشپ رومیرو کا قتل سارے عوام کے خلاف کیا گیا ایک جرم تھا اور یہ حکمران طبقات کی لاقانونیت اور اندھیر نگری کی نمایاں مثال تھا۔اور اسے کسی بھی اندھے قانون کے تحت نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔سالہا سال تک اے آر ای این اے حکومت کی سرپرستی میں اس قتل کو دبانے کی کوشش کی گئی ۔اس کی بحالی ازحد ضروری ہے اگر نئی حکومت واقعتاً اپنے عوام کی دلجوئی اور عدل وانصاف کا بول بالا کرناچاہتی ہے ۔ان دنوں عام طور پر ایک فیشن کی وبا چل پڑی ہے جس کے تحت ’’ڈائیلاگ،درگذر،برداشت اور مصالحت‘‘ کا واویلا اور نصیحتیں کی جارہی ہیں ۔’’قومی مصالحت‘‘ اور’’ قومی یکجہتی‘‘جیسے عمدہواعلیٰ خیال آج کل ہر طرف پھیلائے جارہے ہیں ۔ انصاف کے دشمنوں کے پاس انصاف کے حق میں دلائل کی کبھی کمی نہیں ہوتی ۔ان کی تازہ دلیل قابل توجہ ہے کہ’’مستقبل کی طرف جانے والوں کو ماضی کے کربناک دکھوں سے صرف نظر کرنا عین دانشمندی ہوگی‘‘۔’’پرانے زخموں کو کریدنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہواکرتا‘‘۔’’ایسا کرنے سے قوم میں نفاق پیداہونے کا اندیشہ ہے‘‘۔وغیرہ وغیرہ ۔۔لیکن یہ سب گفتگو محض اور محض وقت کا ضیاع اور نری منافقت ہے۔امیروں اور غریبوں کی کوئی فیملی نہیں ہواکرتی ہے ۔مظلوموں اور ظالموں کے مابین کوئی مصالحت نہیں ہواکرتی۔قاتلوں اور مقتولوں کے مابین کوئی یکجہتی نہیں ہوتی ہے۔یہ جو اٹھتے بیٹھتے جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں ۔ اور جمہوری عمل کا رونا روتے رہتے ہیں ، ان سے پوچھا جائے کہ جب استحصال اور جبر کرنے والوں کی حکمرانی ہوگی تو کیسی جمہوریت اور کہاں کا جمہوری عمل ؟جب تیس سال پہلے قتل عام کرنے والے سرعام دندناتے پھر رہے ہوں اور اپنے مظلوموں کا منہ چڑاتے پھرتے ہوں تو انصاف کہاں سے عوامی یا غیر جانبدارہوگا؟ حقائق کمیشن کی یہ رپورٹ کہتی ہے ’’جنگ اور خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی یا دمیں ایک قومی یادگار قائم کی جانی چاہئے ۔مارے جانے والوں کی یاد میں ایک قومی دن مقررکیا جاناچاہئے۔ اور اس دن کو قومی مصالحت کے جشن کے طورپرمنایا جائے ۔ اور اس رپورٹ کو ایل سلواڈور میں قومی سطح پر پیش کیاجائے تاکہ اس کیلئے مناسب ماحول پیداکیا جاسکے‘‘۔یہ سب کچھ بہت اچھا ہے مگر اس سے محض مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے نہ کہ اس کے حل کا اشارہ ملتا ہے۔یہ بہت ہی آسان ہوتا ہے کہ آپ کسی سنجیدہ مسئلے کو لیں اور اس کے حل کے بارے گفتگو شروع کر دیں اور کرتے ہی چلے جائیں۔کچھ ہی دیر میں پتہ چلتا ہے کہ آپ صرف علامتوں ہی کی بات کر رہے ہوتے ہیں جبکہ کوئی سنجیدہ عمل کہیں بھی سنائی اور دکھائی نہیں دے رہاہوتا۔یہی کچھ ہم یہاں اس معاملے میں بھی ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔اس سال ایل سلواڈور میں آنجہانی آرچ بشپ کی یاد میں ہزاروں قسم کی دعائیہ تقریبات کا اہتما م کیا جارہاہے ۔ دو ہزار پانچ میں بھی سلواڈور کے کیتھیڈرل کو رنگ برنگے قمقموں سے سجا کر مقتول رومیرو کی یاد کو تازہ کیا گیاتھا ۔ اس سال کا بھی وہاں کی قومی اسمبلی نے طے کیا کہ چو بیس مارچ کو موسیو رومیرو کے یادگاری دن کے طورپر سرکاری سطح پر پورے اعزاز کے ساتھ منایا جائے گا اور اس اعزاز میں اے آر ای این اے پارٹی بھی دامے درمے سخنے حصہ لے گی ۔یادوں کے چراغ جلانے اور مذہبی وثقافتی تقریبات کے انعقادسے ہٹ کر ،ایک سوال لازمی پوچھا جانا چاہئے کہ رومیرو کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں ؟فاشسٹ فوجی اور پولیس افسران کے خلاف کیا کاروائی کی جارہی ہے جن کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ جب تک ان جیسے سوالوں کا جواب نہیں ملتا ہم اس بات کی کیسے تسلی کر سکتے ہیں کہ ماضی کے جرائم کو مستقبل میں نہیں دہرایا جائے گا۔ ایل سلواڈور کے عوام کیلئے یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے نہ کہ ثانوی۔ ایف ایم ایل این حکومت کا قیام ایک آگے کا قدم ہے ۔ لیکن محض ایک الیکشن کی کامیابی کوئی فیصلہ کن کامیابی نہیں ہواکرتی ۔ اس حکومت کو عوام نے اس لئے ووٹ دیے کہ ان کی روزمرہ کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آئے گی ۔اور جب تک بھی اقتدار کا منبع اسی جابر اور سفاک اشرافیہ کے پاس ہی رہے گا اس قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ۔ماضی میں سٹالنسٹ حضرات تباہ کن مرحل وار انقلاب کے نظریے کو اپنائے رہے ۔یعنی یہ کہ ایل سلواڈورکے مزدوروں اور کسانوں کو فی الحال اقتدار میں آنے کی جلدی نہیں کرنی چاہئے بلکہ ترقی پسند سرمایہ داروں کو تلاش کرکے ان کے ساتھ مل کر جمہوریت کو فروغ اور رائج کرنے کی جدوجہد کو ہی اپنا اوڑھنابچھونا بناناچاہئے ۔اپنی ابتدا سے اپنے انجام تک یہ دلیل غلط تھی اور ہے ۔ایل سلواڈور میں کوئی ترقی پسند سرمایہ داری نہیں ہے،وہاں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے ایک رجعتی گٹھ جوڑقائم کیا ہواہے جو وہاں کی عمومی اجتماعی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔البتہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہاں جمہوری مطالبات کیلئے جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے۔جیسا کہ عوام کے ساتھ زیادتیاں کرنے والوں کی گرفتاری،ان کو سزا دلایا جانا،فوج پولیس اور عدلیہ کے ان عناصر کی سرکوبی کہ جنہوں نے قتل عام کا اہتمام کیا،اور ان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جانا۔ان جائز اور ضروری مطالبات کو یقینی طورپر عوام کی بھاری اکثریت کی بھاری تائید وحمایت میسر ہو گی۔مگر جس کی طاقتور اشرافیہ بھرپور مخالفت اور مزاحمت کرے گی۔ وہ اسے اپنے اقتدار پر ایک حملہ تصور کرے گی۔ریاست کو رجعتی ٹولہ چلا تا آرہاہے۔لیکن مزدوراور کسان ہی ملک کا اکثریتی طبقہ ہیں ،ایک بار جب وہ منظم اور متحرک ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت بھی ان کو سماج کی تبدیلی سے نہیں روک سکتی ۔ صرف ایک انقلابی سوشلسٹ پروگرام ہی اس جمود کو توڑ سکتاہے۔ بی پی جے کی طرف سے سامنے آنے والا مارکسی رحجان ہی اس پروگرام کا نمائندہ رحجان ہے۔ہم کوئی یوٹوپین یا انارکسٹ نہیں ہیں ۔ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ سوشلزم کی لڑائی تنہا لڑائی نہیں ہے۔بلکہ یہ مختلف ایشوز پر لڑی جانے والی کئی لڑائیوں کا مجموعہ ہوا کرتی ہے۔روزمرہ کی انہی لڑائیوں کیلئے جدوجہد کو منظم اور سرگرم کر کے ہی ،جن میں انتہائی ایڈوانس جمہوری مطالبات بھی شامل ہیں ،عام نہ صرف طاقت حاصل کرسکتے ہیں بلکہ فیصلہ کن لڑائی کیلئے درکار اعتماد بھی حاصل کر سکتے ہیں ؛یعنی اقتدارکی فتح۔ایل سلواڈور کے عوام الیکشن کے فرنٹ پر ایک بڑی کامیابی حاصل کر چکے ہیں اب انہیں اس بات کو یقینی بناکر دکھانا ہے کہ وہ رجعتی اشرافیہ کو بھی فیصلہ کن شکست دے کر اس کا قلع قمع کر سکتی ہے۔جمہوریت کیلئے جدوجہد اگر مسلسل اور صبر آزما طریقے سے جاری رہے تو یہ صرف اشرافیہ کو اقتدار سے الگ کرتی ہے ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جدوجہد جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور بینکاروں کی بیخ کنی کر سکتی ہے اور مزدرو طبقے کی طرف سے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا جانا،ایل سلواڈور میں سوشلزم کی کامیابی کا پہلا قدم ثابت ہوگا۔وہیں نہیں بلکہ سارے وسطی اور لاطینی امریکہ کیلئے بھی اور جو آگے بڑھتے ہوئے عالمی سوشلسٹ ا نقلاب کیلئے فیصلہ کن قدم قرار پائے گا۔ . . . . . . . .