Urdu translation of G20 Summit: Trying to square the circle (July 1, 2010)
چنگاری ڈاٹ کام،06.07.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پچھلے دنوں ٹورانٹو میں ہونے والے جی ٹوونٹی اجلاس میں عالمی سرمایہ داری کے تمام تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ہر سرمایہ دارملک دوسرے کے کاندھوں پر پیر رکھ کے اس بحران سے نکلنا چاہتا ہے۔ تمام ممالک طلب کو برقرار رکھنے کی بات کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے ملکوں میں عوامی اخراجات میں کٹوتیاں کر رہے ہیں۔اور اس کی بنیادی وجہ ہر ملک پر چڑھا قرضوں کا بے پناہ بوجھ ہے۔ انتہائی پرامید ہو کر بھی دیکھا جائے تو یورپ کی معیشت بے حد سست رو ہے۔ گزشتہ برس سارا یورپ معاشی گراوٹ میں تھا۔جی ڈی پی میں آٹھ فیصد(فن لینڈ) سے لیکر دو فیصد( قبرص) تک کمی آئی۔ جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کا جی ڈی پی پانچ فیصد ، سپین میں چار فیصد اور فرانس میں تین فیصد تک گر گیا۔حالیہ برس کی پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار ایک انتہائی لاغر اور تقریباً نہ ہونے کے برابر بحالی دکھا رہے ہیں۔ جرمنی میں شرح نمو صفر اعشاریہ دو فیصد ، فرانس میں صفر اعشاریہ ایک فیصد اٹلی صفر اعشاریہ پانچ فیصد سپین صفر اعشاریہ ایک فیصدبرطانیہ میں صفر اعشاریہ تین فیصد جبکہ یونان اور آئرلینڈ ابھی اس گراوٹ سے باہر نہیں نکل پائے اور شرح نمو منفی صفر اعشاریہ آٹھ فیصد اور منفی دو اعشاریہ تین فیصد ہے۔اگر سارے یورو زون کو دیکھا جائے تو معیشت میں بمشکل کوئی حرکت ہوئی ہے اور مجموئی معاشی شرح نمو صفر اعشاریہ دو فیصد رہا ہے۔ امریکہ میں معاشی ترقی نسبتاً تیز ہے اور شرح نمو دو اعشاریہ سات رہی جو کہ وزارتِ تجارت کے اندازوں سے کچھ کم ہے۔امریکہ میں یہ مسلسل تیسری سہ ماہی ہے جس میں معیشت سکڑی نہیں اور اسی وجہ سے یہ کم شرح ترقی بھی(جس کے بارے میں سرکاری توقعات میں دو دفعہ کمی کرنا پڑی ہے) بورژوا ماہرین معیشت کے لیے بہت معنی خیز ہے۔گزشتہ بحرانوں میں بحالی کے اس مرحلے پر شرح نمو اس سے بہت زیادہ رہی ہے۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں دو ہزار نو کی شدید گراوٹ کے بعد جاپان کے جی ڈی پی میں5%سالانہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس ترقی کا بنیادی عنصر برآمدات خصوصاً چین کو اور حکومتی معاونت مثلاً گاڑیوں اور گھریلو سامان کی خریداری پر دی جانے والی سبسڈی ہے۔اس طرح کی حکومتی معاونت زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھی جا سکتی خصوصاً جاپان پربے پناہ قرضوں کی موجودگی میں( آگے مزید پڑھیے)۔یورپی یونین کا معاشی جمود اور امریکی معیشت میں توقع سے کم شرح نمو عالمی معیشت کی موجودہ کیفت میں فیصلہ کن عناصر ہیں۔ یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔یہ عالمی جی ڈی پی کا آٹھائیس فیصد پیدا کرتی ہے جبکہ امریکہ چوبیس فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اگر جاپان کا آٹھ اعشاریہ سات شامل کیا جائے تو یہ تین مل کر عالمی معیشت کا ساٹھ فیصد ہیں۔ ان تینوں کو گہری معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔چین اب قریباً جاپان کے برابر پہنچ چکا ہے اور اس کا عالمی جی ڈی پی میں آٹھ اعشاریہ چار فیصد حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہ یورپ اور امریکہ میں صورتحال کو بدل دینے کے لیے ناکافی ہے۔ عالمی معیشت کے ان تین بڑے حصوں میں شرح نمو کا فرق ان اختلافات کا باعث ہے کہ مختلف سرمایہ دار حکومتیں کیا پالیسیاں اپنائیں۔ یہ اختلافات امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں واضح ہیں،بلکہ یورپی یونین کے ممالک کے مابین بھی، جہاں فرانس اور جرمنی میں واضح اختلاف ہے، جرمنی دیگر یورپی ممالک میں شدید ترین کٹوتیوں پر زور دے رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اخراجات یا کٹوتی؟ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ اس کا اظہار بورژوا ماہرین معیشت کے مابین اس بحث میں بھی ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا پالیسی اپنائی جائے۔بورژوا معیشت میں بنیادی طور پر دوہی راستے ہیں۔یا تو وہ کینشین طریقہ کار پراس بحران سے نکلنے کے لیے ریاست کی جانب سے اخراجات کر کے طلب میں کمی کو پورا کر سکتے ہیں، یا پھر وہ مالیاتی سرمائے پر مبنی پالیسی کے تحت متوازن بجٹ کا طریقہ اپنا سکتے ہیں۔ لیکن کینشین ازم اورmonetarismتصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں۔ کینشین طلب میں اضافے کے لیے بڑے پیمانے پر حکومت کی جانب سے اخراجات کے ساتھ شرح سود میں کمی کے حامی ہیں۔ ان کے مطابق جب ریاست بڑے پیمانے پر اخراجات کرے تو اس سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست سڑکیں، مکان، ہسپتال بنائے اور بڑے پیمانے پر سرکاری شعبے میں روزگار اور سہولیات دے تو اس سے عوام کی جیب میں پیسہ جاتا ہے۔ ایک سرکاری ہسپتال کی تعمیر کرنے والے مزدور کو تنخواہ ملتی ہے جسے وہ خرچ کرتا ہے اور اس سے دوسرے شعبوں میں طلب پیدا ہوتی ہے۔شرح سود میں کمی کی وجہ سے سستے قرضوں سے بھی فائدہ ہونا چاہیے۔ اگر سرمایہ دار کم شرح پر قرضہ لے سکے تو وہ زیادہ سرمایہ کاری کرے گا جس سے زیادہ روزگار اور آمدن خرچ کرنے والے زیادہ محنت کش ہوں گے۔یہ ان کا بنیادی فلسفہ ہے۔جبکہ حقیقت میں سرمایہ داری اتنی سادہ نہیں ہے۔Monetaristسکے کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔اگر معیشت میں بہت زیادہ پیسہ پھینک دیا جائے اور اس کے ساتھ حقیقی دولت یعنی پیداوار میں اضافہ نہ ہو تو اس سے افراط زر جنم لیتا ہے، کیونکہ مزید پیسہ انہی اشیا کی خرید کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انیس سو ستر کی دہائی میں یہی کچھ ہوا۔ کینشین مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت پال کرگ مین بہت پریشان ہیں کہ دو ہزار ااٹھ اور نو میں بحران کو مزید گہرا ہونے اور مالیاتی نظام کے انہدام کو بچانے کے لیے ریاستوں کی جانب سے بہت زیادہ پیسہ جھونکنے کے بعد حالیہ جی بیس اجلاس میں ایک نئی سوچ سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ ریاستی اخراجات پر قابو پانے کے لیے ہر ملک میں عوامی اخراجات میں بڑے پیمانے کی کٹوتیاں کی جائیں۔ گارڈین اخبار میں اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں: مجھے خدشہ ہے کہ ہم ایک تیسرے گہرے بحران کے ابتدائی مرحلے پر ہیں ۔ یہ انیس سو تیس کی دہائی کے شدید بحران کی بجائے انیسویں صدی کے بہت لمبا عرصہ چلنے والے بحران کے جیسا ہو گا۔لیکن عالمی معیشت پر اس کے اثرات، اور اس سے بڑھ کے ان کروڑوں انسانوں پر جن کی زندگی بیروزگاری کی وجہ سے برباد ہو گی اس کے اثرات بہت بھیانک ہوں گے۔ اور یہ گہرا بحران بنیادی طور پر پالیسیوں کی ناکامی ہے۔ دنیا میں ہر جگہ اور خصوصاً جی20-کے مایوس کن اجلاس میں حکومتیں افراط زر کے بارے میں پریشان ہیں جبکہ اصل خطرہ اس کے بر عکس تفرطِ زر ہے اور اخراجات میں کٹوتی کی بات ہو رہی ہے جبکہ اصل مسئلہ حکومتوں کی جانب سے عوامی شعبے میں ناکافی خرچ ہے۔ اسے یہ خدشہ ہے کہ جیسے ہی عالمی معیشت بحران سے نکلنے کی راہ پر آئی ہے عوامی شعبے پر اخراجات میں کٹوتی کی عمومی پالیسی سے یہ دوبارہ سے بحران میں دھکیلی جا سکتی ہے یعنی مشہور زمانہ دو گراوٹوں والے بحران ۔ ٹورانٹو میں جی بیس اجلاس میں دنیا کی طاقتور ترین معیشتوں کے سربراہان قومی بجٹوں کا خسارہ کم کرنے پر متفق ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ معاشی ترقی میں اضافے کے بھی خواہاں ہیں۔اس اجلاس سے قبل ہی جی۔ بیس ممالک نے بجٹ خسارے کو اگلے تیں سال یعنی دو ہزار تیرہ تک نصف کرنے کی پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ قرضوں کے بوجھ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اگر قرضوں کا بے پناہ بوجھ نہ ہوتا تو کچھ وقت لے لیے کینشین پالیسیاں چل سکتی تھیں۔ لیکن ہر طرف قرضوں کا ایک پہلے کبھی نہ دیکھا گیا بوجھ ہے۔جی ڈی پی کے فیصد کے حساب سے قومی قرضہ جات کچھ اس طرح سے ہیں: اٹلی ایک سو پندرہ اعشاریہ آ ٹھ فیصد یونان ایک سو پندرہ اعشاریہ ایک فیصد ، بلجیم چھیانویں اعشاریہ سات فیصد ، فرانس ستہتر اعشاریہ چھ فیصد ، پرتگال چھہتر اعشاریہ آٹھ فیصد ، جرمنی تہتر اعشاریہ دو، برطانیہ آٹھاسٹھ اعشاریہ ایک فیصد اور سپین ترپین اعشاریہ دو فیصد ۔ دو ہزار دس کی پہلی سہ ماہی کے آخر میں امریکہ کا قرضہ اس کے جی ڈی پی کے ستاسی اعشاریہ تین فیصد کے برابر ہے موجودہ صورتحال کے مطابق یہ جی ڈی پی کے سو فیصد تک اوباما دور حکومت میں پہنچ جائے گا جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک ریکارڈ سطح ہے۔ صرف دو ہزار نومیں اس میں ایک اعشاریہ چار کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جاپان میں حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے دو سو فیصد کی سطح پر ہے۔صورتحال اتنی خراب ہے کہ جاپان کے نو منتخب وزیر اعظم ناوٹو کان نے حال ہی میں خبر دار کیا ہے کہ قرضوں کے اس پہاڑ تلے ملک کوانہدام کا خطرہ لاحق ہے اور یونان جیسے انجام سے بچنے کے لیے مالیاتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا کہ ہمارے ملک پر بے پناہ قرضے کا بوجھ ہے۔۔۔ہماری حکومتی معیشت طرقی یافتہ ممالک میں بد ترین ہو چکی ہے لیکن قرضے کی بیماری کا شکار صرف ریاستیں نہیں ہوتیں؛ کارپوریشنیں اور گھر بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اگر ہم ریاست، کارپوریشنوں اور نجی گھریلو قرضوں کو جمع کر کے جی ڈی پی سے تناسب نکالیں تو مزید بھیانک صورتحال سامنے آتی ہے جیسے جاپان چار سو اکہتر فیصد، برطانیہ چار سو چھیاسٹھ فیصد ، امریکہ دو سو چھیانویں ، جرمنی دو سو چھیاسی فیصد ،سپین تین سو چھیاسٹھ فیصد ، فرانس دو سو تیتیس فیصد ، اور اٹلی تین سو پندرہ فیصد ۔ میک کنسکی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے اکانومسٹ میں چھپے سروے کے مطابق دس بڑی معیشتوں کا اوسط قرضہ انیس سو پچانویں میں جی ڈی پی کے دو سو فیصد سے بڑھ کر دو ہزار آٹھ میں تین سو فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ آئس لینڈ اورآئرلینڈ جو چھوٹے ممالک ہیں اور بحران کی شدت کی وجہ سے خبروں کی سرخیوں میں رہے، ان کا قرضہ جی ڈی پی کا بالترتیب بارہ سو فیصد اورسات سو فیصد تک جا پہنچا ہے۔ دو ہزار کی دہائی کا معاشی عروج اس سطح کے قرضوں کے گرد ہی تھا۔ انیس سو سانویں اور آٹھانویں کے بحران نے جنوب مشرقی ایشیا کی معیشتوں کو بری طرح سے متاثر کیا اور اس کے علاوہ دنیا کی اور بھی کئی معیشتوں کو جن میں روس، ارجنٹینا، امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ لیکن وہ ایک عمومی عالمی بحران نہ بنا۔ دو ہزار ایک میں معیشت میں بہت ہلکی سی گراوٹ تھی جس سے امریکہ اور یورپی یونین متاثر ہوئے۔دنیا کی بڑی معیشتیں جس راستے سے انیس سو ستانویں اور آٹھانویں کے بعد کے بحران سے باہر آئیں وہ ہر سطح پر قرضوں کا بے پناہ پھیلاؤ تھا۔جب تک معیشت عروج پر رہی اور منافعے زیادہ رہے یہ کھیل چلتا رہا۔ لیکن اب سرمایہ داری کے سنجیدہ پالیسی ساز ایک بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ دو ہزار کی دہائی کے عروج کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے قرضوں کو بے پناہ حد تک بڑھایا اور پھیلایا۔اس کے بغیر منڈیوں میں وہ پھیلاؤ نہ آتا جیسا کہ ہر جگہ پرآیا۔لیکن اب ان غلطیوں کا حساب دینے کا وقت آ چکا ہے۔جیسا کہ بی بی سی نے حال ہی میں جاپان کے بارے میں لکھا بیس سال سے حکومت خرچ کرنے کے لیے قرضہ لیے جا رہی تھی ، اس امید میں کہ جامد معیشت میں جان ڈل جائے جس کی وجہ سے یہ صنعتی ممالک میں جی ڈی پی کے تناسب سے سب سے زیادہ مقروض ہو چکا ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ کرگ مین مزید قرضے کی حمایت میں ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ لیکن اس کے باوجود کینشین ازم کے کرگ مین جیسے حامی بے چینی سے مزید قرضہ لینے کی وکالت کر رہے ہیں۔ لیکن قرضوں کے پہلے سے موجود اس پہاڑ کے اوپر مزید کتنا قرضہ لیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ حکومتیں اب اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ایک چھوٹا سا مسئلہ اور بھی ہے جس کے بارے میں دس جون کا اکانومسٹ لکھتا ہے، بانڈوں کی منڈی کے دباؤ کے تحت، یورپ میں قرضے کے بحران کے مرکز ی ممالک یونان، سپین، پرتگال اور آئر لینڈ کے پاس سخت کٹوتیاں کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں خود کو تسلی دیتے ہوئے آگے اس مضمون میں لکھا ہے کہ سپین کے علاوہ یہ سب چھوٹی معیشتیں ہیں۔بہت آسانی سے اس مضمون میں ان حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ اول ان ممالک کو قرضہ جات جرمن اور فرانسیسی بینکوں نے دیئے ہیں اور دوم یہ کہ اٹلی جیسے بڑے ممالک جلد ہی ان منڈیوں کا شکار بن سکتے ہیں۔ کرگ مین جیسے افراد کی بڑی مہربانی ہے کہ وہ معاشی پالیسی سازوں سے منڈیوں کو تحریک دینے کی التجا کر رہے ہیں لیکن سٹہ بازوں کی عادت ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتے۔ ان کے لیے صرف ان کے منافعے معنی رکھتے ہیں، خواہ اس کے لیے پورے ملک کی معیشت کو ہی برباد کرنا پڑے۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ متضاد ملکی مفادات کے ہوتے ہوئے کوئی متفقہ عالمی معاشی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔فرانسیسی جرمنوں کو اخرجات میں کمی سے روک رہے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ فرانسیسی بورژوازی جرمنی کو اس کی داخلی منڈی کی توسیع کا کہہ رہی ہے تا کہ فرانس کی صنعت وہاں برآمدات کر سکے۔ اوباما بھی یہی راگ الاپ رہا ہے۔جی بیس اجلاس سے خطاب میں اس نے کہا ایک مستحکم اور دیر پا عالمی بحالی کو متوازن عالمی طلب پر ہی تعمیر ہونا چاہیے اور میں نجی شعبے مین کمزور طلب اور کچھ ممالک کی جانب سے برآمدات پر بھاری انحصار سے فکر مند ہوں جن کے پاس پہلے ہی بہت زیادہ زر مبادلہ ہے۔۔۔ وہ بحران سے نکلنے کی کوشش میں امریکی شرح نمو کو برآمدات کے ذریعے برقرار رکھنا چاہ رہا ہے ۔جیسا کہ یورپی یونین امریکہ کی بڑی برآمدی منڈیوں میں سے ایک ہے تو لازمی طور پر اوباما کی توجہ بھی اسی طرف ہے، خصوصاً جرمنی پر۔ اوباما چین پر بھی اپنی کرنسی کی قدر میں رد و بدل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے جس سے امریکہ کے لیے چین کو برآمدات بڑھانا آسان ہو جائے گا۔جبکہ چین کو بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اس لیے چینی قیادت کو اپنے حریفوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا زیادہ شوق نہیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ تحفظاتی تجارت کا خطرہ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ یہاں بھی کرگ مین اوباما کی مدد کو حاضر ہے۔ چوبیس جون کو نیویارک ٹائمز میں میں لکھتا ہے: گزشتہ ہفتے چین نے اپنی کرنسی پالیسی میں تبدیلیاں کی ہی، جن کا مقصد واضح طور پر جی۔ ٹوونٹی اجلا س میں امریکہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے دباؤ کو کو کم کرنا تھا۔بدقسمتی سے اس سے نئی پالیسی سے اصلی مسئلہ حل نہیں ہوتا، جو چینی برآمدات میں اضافہ ہے اور باقی دنیا کو اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ اوریہ(چینی کرنسی کی قدر میں کمی) کی پالیسی بہت نقصان دہ ہے، اس وقت جب دنیا کی بیشتر معیشت گہرے بحران میں ہے۔عام حالات میںیہ کہا جا سکتا تھا کہ چین کی جانب سے امریکی بانڈوں کی خریداری سے جہاں تجارت پر برے اثرات پڑ رہے تھے وہیں اس سے ہمیں سستا قرضہ دستیاب تھا۔اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ چین کی غلطی نہیں تھی کہ ہم نے اس قرضے کو گھروں کے بہت بڑے اور تباہ کن غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن اب ہم سستے قرضے کے اس دلدل میں دھنس چکے ہیں؛ کمی جس چیز کی ہے وہ روزگارپیدا کرنے کے لیے اشیاء اور خدمات کی طلب ہے۔ اور چین ایک مصنوعی تجارتی نفع پیدا کر کے اس مسئلے کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ آخر میں وہ لکھتا ہے اب آگے کیا ہو گا؟ چینی حکومت واضح طور پر ہم سب کو اپنے ساتھ گھسیٹنے کی کوشش کر رہی ہے، اور حقیقی اقدامات کو کسی بڑے واقعے تک ٹال رہی ہے۔ یہ نا قابل قبول ہے۔ چین کو یہ کھیل ختم کرنا ہو گا اور حقیقی اقدامات لینے ہوں گے۔ اور اگر چین انکار کرتا ہے تو پھر تجارتی پابندیوں پر بھی غور ہونا چاہیے۔ تجارتی پابندیاں جوابی کاروائی کو جنم دیتی ہیں اور ایک ایسا چکر شروع ہو جاتا ہے جس میں ہر کوئی اپنی منڈیوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور نتیجتاً عالمی منڈی گھٹن کا شکار ہو جاتی ہے۔ چناچہ کینشین کرگ مین جو کہ عالمی معیشت کو گراوٹ سے بچانے کے لیے بے چین ہے، تحفظاتی اقدامات کی وکالت کر رہا ہے جو انیس سو اناتیس کے بعد کے دو ر میں بحران کے مزید گہرے ہونے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک تھے۔ شروع میں اوباما نے دیگر بڑی طاقتوں کے لیڈروں کی طرح عوامی پیسے کی بہت بڑی رقم بینکوں کو بچانے اور صارفین کی خرید کو بڑھانے کے لیے استعمال کی۔جس کے نتیجے میں حکومتی قرضے میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بجٹ ڈائریکٹر پیٹر اورسزاگ نے جون کے اوائل میں تمام سرکاری محکموں کو اخراجات میں پانچ فیصد کمی کا حکم دیا۔مقصد دس سال میں اخراجات میں دو سو پچاس ارب ڈالر کی کمی کرنا ہے۔ پہلے ہی بہت سی امریکی ریاستیں دیوالیہ پن کے دہانے پر ہیں اور تنخواہیں منجمد کرنے اور نوکریاں ختم کرنے پر مجبور ہیں۔بحالی پیکیج تو اب ماضی کا قصہ ہے۔ برطانیہ میں کنزرویٹیو اور لبرل ڈیموکریٹ مخلوط حکومت بھی اوباما کی بات نہیں سن رہی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی کٹوتیاں کر رہی ہے۔گارڈین اخبار کے مطابق حکومت دو ہزار پندرہ تک سرکاری شعبے میں پانچ سے چھ لاکھ اور نجی شعبے میں چھ سے سات لاکھ نوکریاں ختم ہونے کی توقع کر رہی ہے آنے والے دنوں میں ہر ملک میں ایسے ہی اثرات نظر آئیں گے۔ عوامی اخراجات میں کمی کا مطلب سرکاری نوکریوں کا خاتمہ ہوتا ہے جس کے اثرات نجی شعبے پر بھی پڑتے ہیں کیونکہ نجی کمپنیوں کو کام نہیں ملتا۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ سرمایہ داری کی حدیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ یہ سب خود اخراجات میں کٹوتیاں کر رہے ہیں اور دوسروں کو اس سے منع کر رہے ہیں۔ ہر کوئی دوسروں سے اپنے مسائل حل کروانے کا کہہ رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے بحران کا سرمایہ داری کے اندر کوئی حقیقی حل موجود نہیں ہے۔اگر قرضے کو بڑھ کر آسمان تک جانے دیا جائے تو جلد یا بدیر انجام عالمی پیمانے پریونان جیسے بحران کی صورت میں ہو گا۔ اگر حکومتی اخراجات کو کم بہت کم کر دیا جائے تو ساری معیشت بیٹھ جائے گی۔یہ جو بھی پالیسی اپنا لیں، بحران سے نہیں بچ سکتے۔یہ صرف اس بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈالیں گے اور محنت کشوں میں سے مزید قدر زائد نچوڑیں گے جس سے مسلہ اور شدید ہو جائے گا۔ آخری تجزیے میں سرمایہ دارانہ نظام کی دو بنیادی حدیں سامنے آتی ہیں، قومی ریاست اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت۔ یورپی یونین جیسی بڑی منڈیوں کے قیام کے با وجود، عالمی معیشت کی قومی، علاقائی بلاکوں میں تقسیم پیداواری قوتوں کی مزید ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اس بات کا اظہار ہمیں جی بیس کے اجلاس میں ابھرنے والے اختلافات کی صورت میں نظر آیا۔ہر سرمایہ دار ملک اپنی داخلی فنڈ کی کھپت سے زیادہ پیداوار کرتا ہے اور اس لیے اسے زائد مال کو برامد کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔لیکن اس کا مطلب دوسرے سرمایہ داروں کی منڈی میں گھسنا ہے۔ اور ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت کا مطلب ہے کہ پیداوار منافع کے لیے کی جاتی ہے، جس کے لیے سرمایہ دار پیداوار کے سستے ترین طریقے ڈھونڈتا ہے جیسے مزدوروں کی تعداد میں کمی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ، یا بہت کم اجرتوں پر مزدوروں سے کام یا ان دونوں طریقوں کا امتزاج۔اس لیے ہر ملک کا سرمایہ دار طبقہ اپنے محنت کشوں کو زیادہ سے زیادہ نچوڑنے کی کوشش کرتا ہے، اور دوسرے ممالک کے سرمایہ داروں کو منڈی کو وسعت دینے کا کہتا ہے۔اور کیونکہ کوئی بھی قومی سرمایہ دار طبقہ اپنے منافعوں کو قربان نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ سب کے سب ایک ساتھ گرتے ہیں۔ جی۔ بیس اجلاس میں اوباما جو بات کر رہا تھا وہ نا ممکن ہے۔یہ دائرے کو چو کور بنانے کی کوشش جیسا ہے۔موجودہ بحران کا واحد حقیقی حل دو بنیادی تضادات کا خاتمہ ہے۔یہ صرف سرمایہ داروں سے مال چھین کر اور منافع کی لالچ کا خاتمہ کر کے اور سوشلسٹ ریاستوں کی عالمی فیڈریشن بنا کر کیا جا سکتا ہے جو قومی ریاست کی بندشیں گرا کر پیداواری قوتوں کی ہم آہنگ ترقی کو ممکن بنائے گی جو کہ ساری دنیا کے محنت کشوں کی ضروریات پر مبنی ہو گی۔ یہی حتمی حل ہے۔ .
Source: Chingaree