مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر جنگ کے طبل بج رہے ہیں۔ امریکی سامراج بحر روم میں شام کے قریب اپنا بحری بیڑہ لنگر انداز کئے ہوئے ہے اور اس برباد ملک پر بارود کی برسات کرنے پر تلا ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سوموار کو پریس کانفرنس میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا الزام بشارالاسد کی حکومت پر عائد کیا ہے۔ دوسری جانب شام کی حکومت نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ اور رجعتی عرب بادشاہتوں کے پروردہ مذہبی جنونیوں کو اس کیمیائی حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق ابھی تک حتمی طور پر مجرم کا تعین نہیں کیا جاسکتا اور تفتیش کے لئے مزید وقت درکار ہے۔ روس، جوکہ اس تنازعے کا اہم فریق ہے، کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ کیمیائی حملہ شامی باغیوں نے کیا ہے اور اس کا مقصد شام پر براہ راست امریکی جارحیت کا جواز تراشنا تھا، اس بیان کے مطابق بہت سی ویب سائیٹس پر حملے سے قبل ہی یہ خبریں چلنا شروع ہو چکی تھیں کہ شامی فوج نے معصوم شہریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ غرضیکہ فریقین ایک دوسرے پر مسلسل الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلحہ چاہے روایتی ہو یاغیر روایتی، کیمیائی ہو یا ایٹمی، اس کا مقصد انسانیت کا قتل عام ہوتا ہے۔ خانہ جنگی ہو یا دو ممالک کے درمیان کھلی جنگ، یا پھر سامراجی جارحیت، مسلح تنازعات میں گل پاشی نہیں کی جاتی بلکہ بارود برسایا جاتا ہے۔ گولیاں، میزائل اور بم ’’بے گناہ‘‘ اور ’’گناہ گار‘‘ افراد کی تمیز نہیں کرتے۔ چنانچہ کچھ ہتھیاروں کے استعمال کو ’’جائز‘‘ سمجھنا اور کچھ کے استعمال پر ’’تشویش‘‘ کا اظہار بالکل منافقانہ اور غیر انسانی رویہ ہے۔ جنگوں کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی بربریت کے نتیجے میں ہر روز بھوک، افلاس اور قابل علاج بیماریوں سے مرنے والے لا تعداد انسانوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟
شام میں پچھلے ڈھائی سال کے دوران بشارالاسد کے افواج اور امریکہ و عرب ممالک کے کرائے کے قاتلوں نے ’’روایتی‘‘ ہتھیاروں کے ذریعے ایک لاکھ سے زائد جن معصوم عورتوں، بچوں اور شہریوں کا خون بہایا ہے کیا وہ انسان نہیں تھے؟ ایک ایسے کیمیائی حملے کے بعد، جس کے ذمہ داران کا تعین بھی نہیں ہوا ہے، امریکی سامراج کی ’’انسانیت‘‘ اچانک کیوں بے دار ہو گئی ہے؟کیا امریکہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے والا دنیا کا واحد ملک نہیں ہے؟ ہیرو شیما اور ناگا ساگی پر کئے گئے ایٹمی حملوں میں ڈھائی لاکھ انسان براہ راست طور پر لقمہ اجل بنے۔ آج کچھ لبرل دانشور انتہائی ڈھٹائی سے اس جرم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بم جنگ کو ختم کرنے کے لئے استعمال کئے گئے تھے۔ جنگ، درحقیقت پہلے ہی ختم ہوچکی تھی اور جاپان ہتھیار ڈال چکا تھا۔ ایٹم بم چلانے کا مقصد دنیا پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھانا اور مشرقی محاذ پر پیش قدمی کرتی ہوئی سوویت فوجوں کو تنبیہہ کرنا تھا۔
بوسنیا، افغانستان اور عراق میں گرائے گئے ہزاروں بموں میں کیا یورینیم استعمال نہیں کیا گیا؟ ایک اندازے کے مطابق ان بموں کے استعمال کے بعد سے عراق میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوچکا ہے اور بہت سے علاقوں میں ہوا، پانی اور مٹی میں تابکاری انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے قبل ایران عراق جنگ کے دوران امریکہ نے صدام حسین کو مسٹرڈ گیس، تابون گیس اور سیرین نرو ایجنٹ جیسے کیمیائی ہتھیار خود فراہم کئے تھے۔
ویت نام جنگ میں مہلک کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کئے تھے؟ ایک اندازے کے مطابق امریکی سامراج نے ویت نام کے جنگلوں اور انسانی آبادیوں پر ساڑھے سات کروڑ لٹر ’’ایجنٹ اورنج‘‘ کا چھڑکاؤ کیا تھا جس کے مضراثرات سے تیس لاکھ ویتنامی شہری آج بھی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ وزن کے اعتبار سے ویت نام پر دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے تمام بموں سے زیادہ بم گرائے گئے۔ ویتنام کے شہروں، دیہاتوں اور جنگلوں پر نیپام بموں کی برسات کی گئی۔ نیپام بم 1200 ڈگری سنٹی گریڈ کا درجہ حرارت پیدا کرتا ہے، آدھے گھنٹے تک جلتا رہتا ہے، کئی سو میٹر تک آکسیجن کو ختم کردیتا ہے اور اپنے دائرہ اثر میں آنے والی ہر حیات کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ جان کیری، جسے ویت نام جنگ میں ’’خدمات‘‘ کے اعتراف میں ’’تمغہ شجاعت‘‘ سے نوازا گیا تھاآج انسانیت کا سب سے بڑا علم بردار بنا بیٹھا ہے!
اس وقت دنیا میں بھر میں امریکہ کی آٹھ سو سے زائد فوجی تنصیبات موجود ہیں۔ صرف دوسری جنگ عظیم کے بعدسے امریکی سامراج چھ درجن سے زائد جنگی تنازعات میں براہ راست جارحیت کا مرتکب ہوچکا ہے۔ اگر پراکسی جنگوں اور سی آئی اے کی خفیہ کاروائیوں کو شامل کیا جائے تو اس فہرست میں سینکڑوں جنگیں اور تنازعات مزید شامل ہوجاتے ہیں جن کے ذریعے جمہوری اور بائیں بازو کی حکومتوں کے تختے الٹے گئے، منتخب سربراہان ریاست کو قتل کیا گیا، درجنوں ممالک میں عدم استحکام پھیلا کرانہیں برباد کر دیا گیااور کروڑوں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بنے۔
منافقت اور جھوٹ ہر سامراجی طاقت کے بنیادی ہتھیار ہوا کرتے ہیں، لیکن اس معاملے میں امریکی سامراج اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ افغانستان کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر تاراج کیا گیا مگر آج جنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں سے مذاکرات بھی کئے جارہے ہیں۔ افغانستان میں جنہیں امریکہ اور انسانیت کے دشمن بنا کر پیش کیا جارہا ہے، شام میں وہ امریکہ کے اتحادی ہیں۔ بیروت میں مقیم نڈر اور تجربہ کار برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ اخبار میں چھپنے والے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ ’’اوباما اگر شام پر حملہ کرتا ہے تو ثابت ہوجائے گا کہ امریکہ القاعدہ کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہے۔ ۔ ۔ یہ کیسا اتحاد ہے؟۔ ۔ ۔ امریکہ 11ستمبر کو ہزاروں امریکیوں کو قتل کرنے والے عناصر کے شانہ بشانہ (بشارالاسد کے خلاف) جنگ لڑ رہا ہوگا۔ ۔ ۔ اب شاید امریکیوں کو القاعدہ سے جاسوسی میں مدد حاصل کرنی چاہئے۔ ۔ ۔ شرط لگائی جاسکتی ہے کہ شام میں صرف ایک ہدف ایسا ہوگاجس پر امریکہ وار نہیں کرے گا: القاعدہ۔ ۔ ۔‘‘
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سامراج کو ایک کے بعد دوسری جنگ مسلط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا سامراجی آقاؤں کو خون ریزی کا شوق ہے؟ لینن نے پہلی جنگ عظیم کے دوران 1916ء میں بہت خوبصورتی سے وضاحت کی تھی کہ ’’جنگ ہولناک ہوتی ہے، لیکن یہ ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہے۔‘‘ سامراج، منافع پر مبنی جس استحصالی نظام کی نمائندگی کرتا ہے جنگیں اس کی بنیادی ضرورت ہیں۔ کوئی ریاست سامراجی کردار تب ہی اختیار کرتی ہے جب اس پر براجمان حکمران طبقہ بیرون ملک سرمایہ کاری کر کے دوسرے ممالک کے عوام کا استحصال شروع کردیتا ہے۔ سستے خام مال، کم اجرتی انسانی محنت اور وسیع تر منڈی پر کنٹرول قائم رکھنے کے لئے سامراجی جبر ناگزیر ہوجاتا ہے۔ دو عالمی جنگیں منڈیوں اور سرمائے کے گرد جنم لینے والی سامراجی طاقتوں کی آپسی کشمکش ہی کا نتیجہ تھیں۔ اس کے علاوہ جنگ اربوں ڈالر کے منافعے کمانے والی عالمی اسلحہ ساز صنعت کی ضرورت ہے۔ 2011ء میں صرف امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں نے 66 ارب ڈالر کا اسلحہ مختلف ممالک کو برآمد کیا۔ روس، چین، فرانس اور جرمنی جیسے اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک اس کے علاوہ ہیں۔ اگر جنگ اور جنگی تنازعات نہیں ہوں گے تو یہ اسلحہ نہیں بک پائے گا!دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی قوتوں کے توازن اور ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی نے اگرچہ عالمی جنگ کے امکانات کو کم دیا ہے لیکن عالمی سطح کی بڑی جنگ کی بجائے ہمیں چھوٹی جنگیں اور سامراجی جارحیتیں نظر آتی ہیں جو بحیثیت مجموعی بڑی جنگ سے زیادہ تباہ کن اور خون ریز ہیں۔
شام پر امریکی جارحیت اس جنگ میں ایران، سعودی عرب اور روس سمیت خطے کے دوسرے ممالک کو بھی براہ راست طور پر ملوث کر سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف پورا مشرق وسطیٰ بدترین بدامنی اور عدم استحکام کی لپیٹ میں آجائے گا بلکہ پہلے سے اپاہج عالمی معیشت بربادی کی گہری کھائی میں گر جائے گی۔ تیل کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں بیشتر ممالک دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے جنگ مخالف ووٹ کے بعد اوباما کے تذبذب میں اضافہ ہو گیاہے۔ امریکی سامراجیوں کو عالمی سطح پر عوام اور نوجوانوں کی جانب سے شدید رد عمل کا خوف بھی لاحق ہے۔ خود امریکی عوام جنگ کے خلاف ہیں۔ رائیٹرز کے سروے کے مطابق 60 فیصد امریکی شام پر حملے کی کھل کرمخالفت کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ سامراجی جنگ 2011ء کے بعد سے دنیا کے ہر خطے میں اٹھنے والی عوامی بغاوتوں اور تحریکوں کو مزید مشتعل کرکے انہیں واضح مقصد اور سمت کی طرف متحرک کرسکتی ہے۔ عالمی سطح پر محنت کش عوام اور نوجوانوں کی جڑت کے ذریعے سے ہی نہ صرف سامراجی جنگوں کا راستہ روکا جاسکتا ہے بلکہ جنگ، خونریزی اور دہشت گردی کو جنم دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانی خون پینے والی کالی دیوی ہے جس کی پیاس کبھی نہیں بجھ سکتی۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس کا خاتمہ ہی دنیا بھر میں امن و آشتی کا ضامن ہو سکتا ہے۔