Urdu translation of Inflation: Hitting the Poorest Hardest (May 17, 2011).
تحریر: ایڈم بوتھ ۔ ترجمہ :اسدپتافی
چنگاری ڈاٹ کام،03.06.2011
برطانیہ کے اندر2010ء کے دوران افراط زر کی شرح مسلسل بلندرہی ہے۔یہ 1991ء کے بعد سے ریٹیل پرائس انڈیکس(قیمتوں میں اضافے کی شرح) کا 4.6فیصد رہی ہے جبکہ پچھلے پندرہ ماہ سے کنزیومر پرائس انڈیکس(اشیائے صرف کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ) کی شرح بھی تین فیصد سے زائد چلی آرہی ہے ۔
یہ شرح بینک آف انگلینڈ کے مقرر کردہ ہدف 2فیصد سے ایک فیصد زیادہ ہے ۔بینک کے سربراہ مرون کنگ کو با دل نخواستہ ،Exchequerکے چیئرمین جارج اوسبورن کو چار مرتبہ خط لکھ کر تنبیہ جاری کرنی پڑ گئی کہ وہ افراط زرکے اس تسلسل کی وضاحت پیش کرے !برطانیہ میں اگلے دوسالوں تک کیلئے پبلک سیکٹر کے ورکروں کی تنخواہیں منجمد کر دی گئی ہیں اورامکان ہے کہ یہاں مجموعی اور اجتماعی طورپر آمدنیوں میں اضافے کی شرح2.1فیصد تک ہی رہے گی ۔یہ بات واضح ہے کہ ورکنگ کلاس خاندان ،افراط زر کی وجہ سے اپنی تنخواہوں کے کم ہوجانے کے باعث شدید متاثرہوں گے ۔ویلیو ایڈڈٹیکسVAT،جو کہ خریداروں پر عائدکیاجانے والا انتہائی سخت گیر ٹیکس ہے ،کی شرح 17.50فیصد سے بڑھ کر20 فیصدتک پہنچ چکی ہے ۔مزید برآں تیل کی قیمتیں بھی بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہیں ۔یہ پیشین گوئی کی جارہی ہے کر افراط زر کی شرح اگلے کچھ وقتوں میں پانچ فیصد سے تجاوزکر جائے گی۔
تنخواہوں کو منجمدکرنے کے مالکان کے فیصلے کے خلاف پرائیویٹ شعبے کے محنت کشوں کی ہڑتالیں سامنے آئی ہیں جن میں سٹیفورڈمیں انجن بنانے والی فیکٹریPerkinsاور گلوسٹرشائر میںGlaxoSmithKline Ribena شامل ہیں ۔سٹیفورڈ میں GMBٹریڈ یونین کے ایک فل ٹائمر عہدیدار نے کہا ہے کہ اس سال اور اگلے سال،میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک بڑی بے چینی کو اپنا اظہار کرتے دیکھیں گے ۔لوگ اپنی تنخواہوں ،پنشنوں او رحالات زندگی پر پڑنے والے دباؤ سے یکسر اکتا چکے ہیں ۔جبکہ لند ن کے ایک ورکر جیسن پائرزنے بی بی سی کی ویب سائٹ پر حسب ذیل لکھاہے ’’ بینکوں کی ناکامی کی وجہ سے لوگوں کا دم ان کی ناکوں تک آچکاہے،سانس لینا دشوارہوتاجارہاہے۔اب یہ لوگ ہم عام لوگوں کی جیبوں کا بھی گلا دبانے پر اتر آئے ہیں۔انہوں نے ویلیو ایڈڈٹیکس کی شرح بھی بڑھا دی ہے اور اب وہ ہم سے ہماری اوقات سے زیادہ لینے پر تل آئے ہیں۔بینک اور مالیاتی ادارے ،تیل ،خوراک اور مالیاتی منڈیوں پر سٹے بازی کے ذریعے مسلسل اور بہت زیادہ منافع خوری کرتے جا رہے ہیں۔لازم ہے کہ عام پبلک کی بجائے ان اداروں سے حساب کتاب لیا جائے ‘‘۔(BBC website 150 18th January 2011) یہ صرف محنت کش طبقہ ہی نہیں ہے کہ جو اس بحران کے شدید اثرات سے متاثر ہوگا۔کم شرح سود کے ساتھ ،افراط زر نے بچت کی قدر وقیمت کو بھی کم کرنا شروع کر دیاہے۔اس کے اثرات ان لوگوں پر بھی پڑیں گے کہ جن کا گذارہ بچتوں پر ہواکرتاہے ۔ان میں پنشنرز خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ایسی ہی ایک معذور پنشنرڈورتھی لکسفورڈ کا کہنا ہے کہ ’’ایک لگی بندھی آمدنی کی کیفیت میں اور کسی بھی اضافی مراعت کی غیر موجودگی میں ،یہ بات حتمی ہے کہ ہم جیسے لوگ اچھی گزربسر نہیں کر پارہے۔ خوراک کی قیمتیں آسمانوں کو چھورہی ہیں ۔میں سپر مارکیٹوں کے ہر نقطہ نظر کو مسترد کرتی ہوں۔اس بات کی تحقیق کیلئے کسی سائنسدان کی ضرورت نہیں کہ وہ چھان بین کرکے بتائے کہ ہمارے پاس کتنامال ومتاع ہے اور کتنا نہیں!صاف ستھری بات یہ ہے کہ ہمیں مجبور کیا جارہاہے کہ ہم بینکاروں کی پھیلائی ہوئی بدحالی و بدقماشی کی قیمت ادا کریں اور بس‘‘۔ان پنشنروں کے علاوہ بھی وہ سب لوگ کہ جو بیروزگاری الاؤنس ، انکم سپورٹ،ہاؤسنگ بینیفٹ یا پھر معذوری کی مراعات سے مستفید ہوتے آرہے تھے ،اب ان کی مراعات میں بھی کٹوتیاں کی جارہی ہیں کیونکہ حکومت ریٹیل پرائس انڈیکس کو کنزیومر پرائس انڈیکس کیلئے استعمال کر رہی ہے (جو کہ کم تر ہے )تاکہ مراعات میں سالانہ اضافے کیلئے اپنی جمع تفریق کر سکے۔اس سے پبلک سیکٹر کی پنشنیں بھی شدید متاثر ہوں گی۔
تاہم امیر طبقہ ،بہت خوش بہت مطمئن ہے اوروہ بینکوں کاشکر گذارہے ۔برطانیہ کی سو سب سے بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹرصاحبان کے مشاہروں میں،2010ء میں55فیصد اضافہ ہوا۔جبکہ بینکاروں کو بونس کی صورت میں 7بلین پونڈزکی ادائیگی کی گئی ۔اسی اثنا میں ہی برطانیہ کے امیر ترین 1000افرادکی اجتماعی دولت 336بلین پونڈز ہوگئی ہے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 30فیصد زیادہ ہے ۔اس سے بھی بڑھ کر مالکان ہمیشہ ہی افراط زر سے مستفیدہوتے آتے ہیں۔افراط زر کرنسی کی قیمت کو کم کرتاہوتاہے جس کی وجہ سے برآمدات میں مقابلہ بڑھ جایاکرتاہے ۔جس کی وجہ سے برآمدات کے کاروبار اور منافعوں میں برکت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔لیکن مقابلہ بازی کی یہ بہار محض وقتی ہواکرتی ہے ۔آخر کار درآمدات بہت مہنگی ہونی شروع ہوجاتی ہیں ۔جس کے نتیجے میں پیداوار کی لاگت بڑھنااور منافعوں کی شرح سکڑنا شروع کر دیتی ہے ۔افراط زر کا ایک اور بھی اثر پڑتاہوتاہے ۔یہ قرضوں کی حقیقی قدر کو بھی کم کرناشروع کر دیتاہے ۔
اگر افراط زر خاصا اوپر ہوتو یہ قرضے کو بہا کر لے جاتا ہے ۔دوسری عالمی جنگ کے بعد ،بلند معاشی شرح ترقی کی موجودگی میں ،افراط زرایک بڑاعنصر تھاجس نے برطانیہ کو دیوالیہ ہونے سے محفوظ رکھا اور شاید اب کی بار بھی برطانیہ کی موجودہ قرضوں کی حالت کی کیفیت میں اسے دوبارہ استعمال میں لایاجاسکتاہے ۔بلاشبہ یہ پھر برطانیہ کے محنت کش ہی ہیں کہ جو اس افراط زر کی وجہ سے اپنی اجرتوں کی قدر میں کمی کا بوجھ برداشت کررہے ہیں۔
افراط زر کے اس قسم کے طورطریقے کسی طور بھی نئے نہیں ہیں۔ قدیم سلطنت روما کے بادشاہ بھی ان طورطریقوں سے بھرپور استفادہ کیاکرتے تھے ۔وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنی اپنی کرنسیوں کو بے بنیادکردیاکرتے اور اس کیلئے وہ اپنے سکوں میں سونے یا چاندی کی مقدار کو کم کردیاکرتے تھے تاکہ دیوالیہ ہونے سے بچ سکیں۔امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک کے سربراہ برنانکے کی جانب سے’’ مقداری آسانی ‘‘ 147quantitative easing148 کے پروگرام بھی کچھ اسی نوعیت ہی کے ہیں ۔نومبر2010ء میں برنانکے نے اپنےQE2پروگرام کے تحت نئی شائع کردہ کرنسی کے ذریعے 600بلین ڈالرز کی لاگت کے امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے کا اعلان کیا ۔یوآن کی قدر کونہ بدلنے پر،چین پراپنے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے،فیڈرل بینک اپنی کرنسی کی قدر کے گرنے سے بہت ہی خوش اور مطمئن ہے ۔ لیکن اس سے کرنسیوں کے مابین ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے ۔
افراط زر میں اضافے کی بڑی وجوہات میں خوراک ، ایندھن اورتوانائی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے ہیں۔ اس پر مستزاد ،عالمی سطح پر بگڑ جانے والے موسمی تغیرات جن میں سیلاب ،جنگلوں کو لگنے والی آگ ،خشک سالی شامل ہیں اور جن کی شدت مین دن بدن اضافہ ہی ہوتا چلا جارہاہے ۔اور جن پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا الزام دھرا جارہاہے۔فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن FAOاور اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ EIUکے مطابق ،سٹے بازوں نے قیمتوں پر شرطیں لگا لگا کر صورتحال کو انتہائی خطرناک بناکے رکھ دیاہے ۔
اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ خوراک برآمد کرنے والے بڑے ممالک ،جیساکہ بھارت،نے کئی اشیا پر پابندی عائد کردی ہے تاکہ اپنے اپنے ملکوں کے اندر سپلائی کو ڈیمانڈ کے مطابق رکھا جاسکے ۔ایسے ممالک سخت خوفزدہ ہیں کہ کہیں پہلے کی طرح سے خوراک اور بنیادی اشیائے ضرورت کی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں فسادات دوبارہ نہ بھڑک اٹھیں جیسا کہ2008ء میں ہواتھا۔
ابھرتی ہوئی معیشتوں میں خوراک کی پیداوار میں سرمایہ کاری میں کمی اور خوراک کی ڈیمانڈ میں اضافے نے خوراک کی قیمتوں میں شدید اضافہ کیاہے ۔
وینزویلا کے اندر خوراک کی پرائیویٹ اجارہ دارکمپنیوں نے غذائی اشیا ء کوگم کر کے افراط زر میں شدید اضافہ کیاہواہے جس کی وجہ سے عام خاندانوں کی حالت دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے ۔سرمایہ داروں کی جانب سے اس قسم کے طور طریقے معیشت کو سبوتاژ کرنے کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں اور یوں وہ عوام میں ہوگو شاویز کی مقبولیت کو کم اور ختم کرنے کے درپے ہو چکے ہیں ۔شاویز نے اس سازش کا جواب خوراک کے اداروں کو ضبط کرنے اور خوراک کی ترسیل کے انتظام کے نظام کو حکومت کے ہاتھوں میں لے کر دیاہے ۔
تیل اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے بھی وہی عناصر وعوامل کارفرماہیں کہ جو خوراک کی قیمتوں کے پیچھے ہیں۔ چین سمیت ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ڈیمانڈ میں اضافہ؛تیل کی کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری میں کمی ؛متبادل توانائی کے ذرائع کیلئے محدود سرمایہ کاری ؛زیر آب پیداہونے والی تباہکاریاں؛اور سٹے بازی۔
مئی2010ء کے70ڈالرفی بیرل کے مقابلے میں اس وقت تیل کی قیمت100ڈالر فی بیرل کو پہنچ چکی ہے ۔تیل اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ دوسری اشیاکی قیمتوں میں اضافے کو جنم دیتاہے ۔ان میں خوراک اور لباس بھی شامل ہیں ۔پیداوار ی لاگت اور ترسیل کے اخراجات میں اضافہ ہوجاتاہے ۔جن کی وجہ سے کام کرنے والے عام انسانوں کی اذیتوں میں بھی شدید اضافہ ہوتاجاتاہے ۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اور کیونکرمعاشی کیفیت میں ابتری ،سیاسی صورتحال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اور معاملات کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں۔ تیونس میں انقلاب کو خوراک اور تیل کی قیمتوں میں اضافے نے بھڑکادیاتھا ۔جبکہ باقی عرب دنیا بھی اسی کیفیت سے گزر رہی ہے ۔مصر کے انقلاب اورپھر لیبیا میں جنم لینے والی خانہ جنگی نے تیل کی قیمتوں کو جیسے آگ لگا دی ہے ۔اور صرف تیل ہی نہیں باقی اشیاء کی قیمتوں کوبھی ۔
سعودی عرب کے سابق وزیرتیل شیخ یمانی نے انتباہ کیا ہے کہ’’ اگر سعودی عرب میں ایسا ویسا کچھ ہواتو تیل کی قیمتیں دو سوسے تین سو ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ ایسا اتنی جلدی ہو گا لیکن کون کہہ سکتا تھا کہ تیونس میں اتنا کچھ ہو جائے گا !‘‘۔ کارل مارکس نے بہت عرصہ پہلے قیمتوں ،اجرتوں اور رقم میں باہمی تعلق کو واضح کیاتھا اور اسی تعلق سے ہی اس نے افراط زر کی وضاحت بھی کر دی تھی ۔نام نہاد مقبو ل عام پراسراریت کے باوجودمارکس نے طلب و رسد کے کردار کی قیمتوں کے تعین کے ضمن میں اہمیت سے انکار نہیں کیا تھا ۔تاہم مارکس نے واضح کیاتھا کہ رسداور طلب کے درمیان ہونے والی تبدیلیاں ایک خاص حد تک ہی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ کو متاثر کرتی ہوتی ہیں۔یہ حد یہ پیمانہ جنس کی قدرہوتی ہے ۔جس کا تعین سماجی طورپر درکار محنت کا وقت کرتاہے جو کہ اپنااظہار اس جنس کی شکل میں کرتاہے ۔اس میں محنت کرنے والے کی زندہ محنت بھی شامل ہواکرتی ہے ۔اور جس میں خام مال اور آلات کی صورت میں شریک مردہ محنت بھی شامل ہوتی ہے کہ جن کی وجہ سے وہ جنس تیار ہوتی ہے ۔
اگر کسی جنس کی قیمت اس کی قدر سے زائد ہو جائے تو سرمایہ دار اسی صنعت میں ہی اپنا سرمایہ جھونکیں گے تاوقتیکہ توازن اور پیمانہ بحال نہیں ہوجاتا۔اسی طرح سے اگر قیمت قدر سے کم ہوجائے تو سرمایہ ہٹالیاجائے گا اور کسی دوسرے شعبے میں کھپادیاجائے گا۔اس طرح سے اس جنس کی رسد میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوتاجائے گا۔
قیمت اور قدر کے مابین اس تعلق کو سرمایہ داری کے ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر’’ اکانومسٹ ‘‘ اشیاء کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے ضمن میں لکھتا ہے کہ ’’کوئی فرد بھی یہ توقع کر سکتاہے کہ جنس کی قیمت کا تعین اس کی پیداواری لاگت سے کیا جاناچاہئے ۔اس سطح سے بلند ،منڈی کی قیمت،اس جنس کی سپلائی کو نئی شرح پر لے آئے گی ۔جبکہ زیادہ کم قیمت ہوجانے سے بھی صورتحال تباہ کن ہو جائے گی جس کے اثرات دوسری اشیاپر بھی مرتب ہوں گے‘‘۔ (اکانومسٹ؛13جنوری2011)
اس کے علاوہ مارکس نے ایک اور بات کی بھی نشاندہی کی تھی کہ محنت کرنے والے ایک انتہائی منفرد جنس کے مالک ہواکرتے ہیں اور وہ ان کی قوت محنت ہواکرتی ہے ۔یعنی ایک خاص وقت میں کسی جنس کو تیار کرنے کی صلاحیت ۔
چنانچہ محنت کرنے کی اس قوت کی بھی ایک قدرہواکرتی ہے ۔جس کا تعین کسی جنس کو تیار کرنے کیلئے سماجی طورپر درکارمحنت کا وقت کیاکرتاہے۔دوسرے الفاظ میں قوت محنت کی قدر کا تعین خوراک،لباس، رہائش، علاج اور تعلیم وغیرہ کی قدر سے ہوتاہے ۔اور جوکہ ان محنت کرنے والوں اور ان کے اہل خانہ کو زندہ رہنے کیلئے درکار ہواکرتے ہیں۔معاوضے کے طور پر اجرت ،قوت محنت کی قیمت ہواکرتی ہے ۔جس کا تعین،دستیاب قوت محنت کی مجموعی رسداور طلب کرتی ہوتی ہے۔تاریخ سے یہ ظاہروثابت ہوچکاہے کہ مارکس کا یہ نکتہ نظر درست تھااور ہے ۔ جب معیشت ترقی اور عروج کی طرف رواں دواں ہوتی ہے تو محنت کشوں کو اچھی اجرتیں مل رہی ہوتی ہیں ،کیونکہ محنت کی طلب بھی بڑھی ہوئی ہوتی ہے ۔تاہم اجرتوں کا تعین طبقاتی کشمکش میں متحارب قوتوں کے توازن پر بھی ہوتاہے ۔کہ جب محنت کش یونین میں منظم اور متحدہوتے ہیں تب بھی بہتر اجرتیں جیتی اور لی جاسکتی ہیں۔لیکن یہ کامیابی سرمایہ دار طبقے کے منافعوں کی قیمت پر ہی حاصل ہوتی ہے ۔
یہ ایک مقبول عام بلکہ غلط العام تصور بنادیاگیا ہے کہ یونین میں منظم و متحد محنت کش ہی افراط زر کے ذمہ دار ہواکرتے ہیں ۔کیونکہ وہ زیادہ اجرتوں کا مطالبہ کیے رکھتے اور حاصل کرتے ہوتے ہیں جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوجاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے ۔
محنت کش اپنی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ ہی اسی لئے کرتے ہیں کہ انہیں افراط زر کا سامنااور اس سے نمٹناہوتا ہے ۔ٹیڈ گرانٹ نے 1971ء میں ٹوری حکومت اور سرمایہ دارانہ میڈیا کی جانب سے اس قسم کے مغلظات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ کسی چیز کی قیمت میں اضافے کی کیا وجہ بنتی ہے ؟اگر سرمایہ دار اپنے آپ ہی قیمتیں بڑھاسکتے ہوتے تو وہ کسی طور اجرتوں میں اضافے کا انتظار نہ کرتے ہوتے ۔سرمایہ داروں کی ساری دلچسپی زیادہ سے زیادہ منافعوں کا حصول ہی ہواکرتاہے ۔ خاص طورپر موجودہ جدید حالات میں،ملکی و عالمی سطح پر، جو چیز انہیں روکتی ہے،وہ مقابلہ بازی ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے اجرتیں ،قیمتوں کے پیچھے ہی چل رہی ہوتی ہیں‘‘ ۔ ’’اگر سرمایہ دار حضرات اپنی مرضی سے ہی قیمتوں کا تعین کیاکرتے ہوتے تو انہیں کیونکر تلخ اور سخت ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑتاہوتا!جس کا نتیجہ پیداوار میں رکاوٹ اور منافعوں میں گراوٹ کی صورت میں نکلتا ہوتاہے ،اور انہیں محنت کشوں کے اجرتوں کے مطالبے کو تسلیم کرناپڑتاہے ۔اگر اجرتوں میں اضافے کا سوال اتنا آسان ہوتا تو اسے تسلیم کرکے اس سے جان چھڑائی جاسکتی تھی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقے کامنافع ،محنت کشوں کی غیر ادا شدہ اجرت ہواکرتاہے ۔چنانچہ محنت کشوں کی اجرتوں میں اضافے کا مطلب سرمایہ داروں کے منافعوں میں کمی ہوتی ہے ۔اور یہی وہ تکلیف ہے کہ جس پر سرمایہ دار میڈیا اس قدر چیخ و پکار کئے جارہاہے ‘‘۔ (Ted Grant 150 The Truth Behind Inflation, Militant no. 71)
ٹیڈگرانٹ نے واضح کیاہے کہ منافع در اصل محنت کش کو دی جانے والی اجرت ہواکرتاہے جو کہ ان کی پیداکردہ جنس کی قدر سے کم ہوتی ہے۔ منافع خوری ،محض سستا بیچنے اور پیار سے بیچنے کا نتیجہ نہیں ہواکرتی ہے ۔ہر ،بیچ کر منافع کمانے والے کیلئے لازمی طورپر ایک خریدنے والا بھی ہوتا ہے اور جس کا خون نچوڑا جاتاہے۔چنانچہ منڈیوں میں،لوگ، بیچنے والے بھی ہوتے ہیں اور خریدنے والے بھی۔ ایک سودے میں جو سود ہوتاہے اگلے میں وہ زیاں ہوتاہے ۔کارل مارکس نے اس کی وضاحت ’’سرمایہ‘‘ میں کی ہے ۔
’’آپ فرض کیجیے کہ کسی ناقابل فہم مراعت کی بدولت ، ایک بیچنے والا، کسی جنس کو اس کی قدر سے زیادہ قیمت پر بیچتا ہے ، شے سو کی ہوتی ہے جسے وہ ایک سو دس میں بیچتاہے ،ایسی حالت میں کہا جائے گا کہ شے کی قیمت میں دس فیصد اضافہ ہوا۔یوں بیچنے والااپنی جیب میں دس روپے زیادہ ڈالتاہے ۔لیکن اپنی چیز بیچنے کے بعد وہ ایک خریدار بن جاتاہے ۔جنس کا ایک اور تیسرا مالک آتاہے اور اب بیچنے والا بھی وہی ہے اور وہ بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی چیز کو اس کی قدر سے دس فیصد زیادہ قیمت پر بیچتاہے ۔ہمارے فاضل دوست نے جو دس روپے بیچ کر کمائے ،وہی دس روپے اب خریدکر لٹادے گا۔اس صورتحال کا نتیجہ یہ سبق دیتاہے کہ اجناس کے مالک سبھی اصحاب اپنی اپنی جنس ،ایک دوسرے کو،ا س جنس کی اصل قدرسے دس فیصد زائد قیمت پر بیچتے ہیں ۔سبھی بیچنے والے اس رقم کواپنے تئیں، اپنی جنس کی حقیقی قدر سمجھ کر ہی بیچتے ہیں۔ اس طرح اور اس طریقے سے قیمتوں میں عمومی اور معمول کا اضافہ ویسے ہی اثرات مرتب کرتاہوتاہے جوکسی سونے کا وزن کسی چاندی کے وزن سے برابر کرنے کی کوشش سے مرتب ہوتے ہیں۔اجناس کی معمول کی قیمتیں بڑھیں گی اور بڑھتی رہیں گی لیکن قیمتوں اور اجناس کی قدروں کے مابین حقیقی تعلق وہی اور ویسا ہی رہے گا کبھی تبدیل نہیں ہوگا‘‘۔(سرمایہ؛مارکس؛جلد اول؛باب پنجم) اس سے واضح ہوجاتاہے کہ کیونکر قیمتوں میں اضافے کے اقدامات اور کرنسیوں کی قیمتیں کم کرنے سے کچھ بھی حل نہیں ہواکرتا۔برآمدات کو بڑھانے کیلئے کرنسی کی قدر میں کمی ،لا محالہ طور پر درآمدات کی قیمتوں میں اضافے کو تقویت دے گی ۔جس سے حقیقی برآمدکنندہ کیلئے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جائے گا۔جس کی وجہ سے ان کی مسابقت کی صلاحیت بھی ماندپڑنی شروع ہو جائے گی ۔
سرمایہ ہی میں مارکس نے وضاحت کی ہے کہ سرگرم رہنے والی رقم اپنی مرضی کے مطابق حرکت نہیں کیا کرتی بلکہ اس کی سرگرمی کا تعلق قیمتوں کی رقم سے ہواکرتاہے اور جو کہ نظام میں رائج اجناس کی قدر کی رقم کے مساوی ہواکرتی ہے ۔’’ترسیل کے ذریعے کی مقدارکا تعین قیمتوں کی رقم سے ہوتاہے جن کا پتہ رکھنا ہوتاہے ۔اگر اجناس کا بھاری حصہ مستقل رہتاہے تو سرگرم رہنے والی رقم کی مقدار،ان اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ۔یہ مقدار بڑھ بھی جاتی ہے اور یہ کم بھی ہوجایاکرتی ہے ۔کیونکہ قیمتیں بھی اجناس کی قیمتوں میں کمی بیشی کی وجہ سے کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے ۔اس اثر کو پیدا کرنے کیلئے یہ لازمی شرط نہیں ہواکرتی ہے کہ اجناس کی قیمتیں خود کار طریقے سے بڑھ جائیں یا کم ہوجائیں۔کئی ایک اہم اشیاء کی قیمتوں میں کمی یااضافہ، کافی ہوتا ہے کہ وہ ایک حالت میں کم ہوجائے اور کسی دوسری حالت میں بڑھ جائے ۔اور یہ سبھی اجناس کی قیمتوں کی رقم کے ساتھ معاملہ ہوتاہے ،اور چنانچہ اسی سے ہی گردش میں رہنے والی رقم کی کمی بیشی بھی منسلک ہوتی ہے۔ ہرچند کہ کسی جنس کی قیمت میں اضافہ ،اس کی قدر میں حقیقی تبدیلی کی وجہ سے ہی ہویاپھر خواہ منڈی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا نتیجہ ہو ،ترسیل کے ذریعے کی مقدارپر اس کے اثرات ایک جیسے ہی رہیں گے ‘‘۔ (سرمایہ؛مارکس؛جلداول؛باب تین)
چنانچہ زیادہ رقم پیدا کرنا خواہ وہ کرنسی چھاپ کر ہی کی جائے کہ سکوں کی قیمت کو کم کر کے کی جائے ،اس کا سماج میں موجوداجتماعی دولت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اس کا صرف اور صرف نتیجہ افراط زر کی پیدائش اور افزائش کی صورت میں نکلتاہوتاہے ۔ ٹراٹسکی نے اسی امر کی وضاحت سٹالن کے روس کی معیشت کے حوالے سے یوں کی تھی کہ’’ حقیقت میں ،کرنسی کا افراط ناگزیر طور پر قرضوں کے افراط کو پیداکرتا ہے ۔جس کے باعث حقیقی پیمانوں کے ساتھ جعلی پیمانے بھی منسلک ہو جایاکرتے ہیں ۔اور یہ کیفیت منصوبہ بند معیشت کو اندرسے ہی کھوکھلا کردیاکرتی ہے ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ افراط زر کا مطلب پہلے سے محروم لوگوں پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ لاددیناہواکرتاہے ‘‘۔ (Leon Trotsky 150 The Revolution Betrayed, Chapter 4) موجودہ حالات میں سرمائے کے ماہرین یہ اندازہ لگائے بیٹھے ہوئے ہیں کہ بحران کی وجہ سے پیداہونے والی زائد صلاحیت کو پیداوار میں اضافے اور افراط زر میں کمی کیلئے کام میں لایا جاسکے گا۔لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو ہی نہیں رہا۔ کیوں؟مصیبت یہ درپیش ہے کہ ہم زائد پیداوارکے بحران کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ بہت ہی زیادہ اجناس وجود رکھتی ہیں بلکہ یوں ہے کہ جو اجناس موجود ہیں ان کی کوئی موثر طلب ہی موجود نہیں ہے ۔یعنی ان کی منڈی ہی نہیں ہے ۔
کیونکہ محنت کشوں کو ان کی پیداکردہ اشیا کی قدر کے مقابلے میں بہت کم اجرتیں دی جارہی ہیں ،اس لئے وہ انہی اشیا کو جنہیں وہ بناتے ،پیداکرتے ہیں ،خریدنے سے قاصر ہو چکے ہیں ۔ایک اہل خریدار کے بغیر سرمایہ دار اپنی اشیا بیچ ہی نہیں سکتے ہوتے ،نہ ہی منافع کمایاجاسکتاہوتا ہے ۔چنانچہ ،پیداوار جس کا سرمایہ داری کے تحت ایک ہی مقصدہے ،منافع خوری،بندہونی شروع ہو جاتی ہے۔سرمایہ دار نہ تو قیمتوں کو کم اور نہ ہی اجرتوں میں اضافہ کر سکتے ہوتے ہیں کہ طلب میں اضافہ ممکن کیا جاسکے ۔اس کا نتیجہ منافعوں کی کمی اور خاتمے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ نظام ایک دلدل میں دھنس چکاہے ۔
آخری تجزیے میں مسئلہ نظام خود ہے اور اس کااندرونی موروثی تضاد ،یعنی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہے ۔اگر بینکوں اورصنعتی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لے لیا جاتااور انہیں محنت کشوں ٹریڈ یونینوں اور عوام کے منتخب نمائندوں کے جمہوری کنٹرول میں لایاجاتا تو معیشت کو عام انسانوں کے مفاداور فلاح کیلئے بروئے کار لایا جاسکتا تھا ۔نہ کہ اس سے محض منافع بٹورنے کا کام لیا جاتا۔معیشت میں موجود سبھی امکانات کو بے انت و بے حساب اشیا کی پیداوار کو ممکن بنانے کیلئے کام میں لایا جاسکتا تھا ،انفرا سٹرکچر کو مزید جدید بنایاجاسکتاتھا ۔سکولوں ہسپتالوں اور گھروں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی جاسکتی تھی۔افراط زر محنت کش طبقے کیلئے طاعون کی حیثیت رکھتاہے ۔اور اس وباکا خاتمہ بینکاروں اور سرمایہ داروں جیسے چوہوں کا قلع قمع کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔ورنہ یہ وبا عام انسانوں کو نگلتی چلی جائے گی ۔علاج موجود ہو تو بیمارکا بیمار رہنا مذاق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔