ایلن وڈز،24.11.2008۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان کے انیس سو آٹھاسٹھ اور
اناہتر کے انقلاب کے حوالے سے لال خان کی یہ نئی کتاب ”پاکستان کی اصل
کہانی،، عالمی مارکسز م کے نظریاتی خزانے میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ انیس
سو اٹھاسٹھ میں یورپ کی توجہ فرانس کے شاندار انقلابی واقعات پر مرکوز تھی
مگر مجھے پاکستان کی فقیدالمثال تحریک اچھی طرح یاد ہے جس نے مجھ پرگہرے
اثرات مرتب کئے تھے ، میں نے اس وقت اس تحریک کے بارے میں ایک مضمون بھی
لکھاتھاجوہمارے جریدے ،،پرسپیکٹوز،،( Perspectives) مےں،، پاکستان،غداری
کی زد میں آیاہواانقلاب،، کے عنوان سے شائع ہواتھا۔ میرا یہ تعارف بھی اسی
مضمون کے زیادہ تر مواد پر مبنی ہے۔ انیس سو اٹھاسٹھ کے آغاز میں ایوب خان
کی فوجی آمریت ایشیا ئی حکومتوں میں ایک نمایاںمستحکم حکومت کے طورپر
ابھرکر سامنے آئی تھی۔ وہ دس سالوں تک ایک، مرد آہن ، کے طورپر پاکستان پر
حکمرانی کرتا رہاجس نے اپنے تئیں پاکستانی سماج کو انتشار سے بچایاتھا۔
ایک کلاسیکل بوناپارٹسٹ انداز میں اس نے مغرب و مشرق کی بڑی عالمی متحارب
طاقتوں کے مابین تعلقات میں توازن پیداکیے رکھا۔ ابھی وہ برطانیہ و امریکہ
سے امداد لے رہاہے تو ابھی روس و چین اس کی مدد کررہے ہیں۔ مگر خاص طورپر
چین کے ساتھ تعلقات نے اسے بہت فوائد مہیا کئے نہ صرف بھاری امداد اور
تجارت کی شکل میں معاشی بلکہ سیاسی طورپر بھی کہ اس تعلق کی برکتوںسے ایوب
آمریت کو، ترقی پسند،حکومت کا تخلص میسر آگیا۔ چینی افسرشاہی نے ایوب
آمریت کی بھرپور حمایت کی تھی۔ چواین لائی نے انیس سو پنسٹھ کے دھاندلی
زدہ الیکشن میں کامیابی پر ایوب خان کو مبارکباد پیش کی تھی۔ جب اسی سال
پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو چین نے پاکستان کی یہ کہہ کر مدد کی تھی کہ یہ
اےک ، عوامی جنگ ،ہے۔ یہ سب کچھ نامعقول جذباتی وجوہات کی
بنیادپرکیاجارہاتھا۔ کیونکہ دوسری طرف روس بھارت کا ساتھ دے رہاتھا۔ یہ
امداد پرانے اصول، میرے دشمن کا دشمن میر ا دوست ہے، کے تحت فراہم کی گئی۔
عالمی سطح پر ایوب حکومت کی کامیابی اپنی گہری تہوں میں معاشی و سماجی
بحران لئے ہوئے تھی۔ کوئی شک نہیں کہ معیشت مثالی ترقی کر رہی تھی اور اس
کی شرح پانچ فیصد سالانہ کو پہنچی ہوئی تھی مگر یہ ترقی صرف مغربی پاکستان
کی حدود میں ہی ہو رہی تھی ، جبکہ اس کا مشرقی حصہ جو اب بنگلہ دیش بن
چکاہے، اس سے محروم تھا اور وہاںناامیدی اور نیم جاگیردارانہ پسماندگی کا
راج تھا۔ یہ صوبہ دوفصلوں پر انحصار کئے ہوئے تھا جن میں ایک چاول (جس کا
دارومدار سیلاب پر ہوتاتھا)اور دوسری جیوٹَ جس کی عالمی منڈی میں بہت
زیادہ مانگ تھی کیونکہ اسے پلاسٹک سمیت دوسری سنتھیٹک اشیا کی تیاری کےلئے
کام لایاجاتاتھا۔ مغربی صوبے میں جو زیادہ انڈسٹریلائزڈہو چکاتھا، دولت کا
اجتماع خطرناک حدوںکو پہنچ چکاتھا۔ ایک طرف بدنام زمانہ بائیس خاندان ملک
کی صنعتی دولت کے چھیاسٹھ فیصد انشورنس کے اناسی فیصد اور بینکنگ کے اسی
فیصدکے مالک بن چکے تھے تو دوسری طرف اسی مغربی پاکستان میں ہی اوسط فی کس
آمدنی پنتیس پونڈ سالانہ تھی جبکہ مشرقی پاکستان کے اندرتو یہ اس سے بھی
بدتر پندرہ پونڈ سالانہ تھی۔ آبادی کی اکثریت کی اس قدر محرومی اور غربت
نے ایک دھماکہ خیز کیفیت پیدا کر دی تھی جسے محض ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔
انیس سو ستاسٹھ کے آخرتک مختلف علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جوکہ جنوری
میں پھر سے شروع ہوگئے۔ ان میں بنیادی ایشو جعلی الیکشن تھاجوایوب نے
بنیادی جمہوریت کے نام سے متعارف اور مسلط کئے تھے۔ یہ ایک ایسی دھوکہ دہی
تھی جس کے تحت الیکشن کا حلقہ انتخاب اسی ہزار ایسے خود ساختہ بیسک
ڈیموکریٹس افراد کو بنانا مقصود تھا۔ یہ، بنیادی جمہورتیں( بی ڈی
ممبر)دراصل حکومت کی کٹھ پتلیاں تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انقلاب ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ انیس سو اٹھاسٹھ کے ابتدائی مہینو ں میں
پاکستان بڑی عوامی تحریکوں کی زد میں آچکاتھا جن میں عوام کی سبھی پرتیں
شریک تھیں۔ بورژوا پریس اسے، مخلوق راج ، قرار دے رہاتھا۔ صحیح تو کہاجا
رہاتھا ان طفیلی حکمرانوں کی جانب سے جو عوام پر حکمرانی کر رہے تھے، بے
چارے عوام ، مزدور اور کسان جوسماج کی ساری دولت پیداکیاکرتے ہیں انہیں
مخلوق ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ انقلاب اچانک سامنے
نہیں آیا،اس کی تیاری کب سے سماج میں ہو رہی تھی۔ بظاہر استحکام کے عین
نیچے بے چینی و اضطراب آہستہ آہستہ مگر یقین کے ساتھ پنپتے جارہے تھے۔
سترہ جنوری کو پولیس نے ڈھاکہ میں مظاہرین پر فائر کھول دیے جس سے درجنوں
افراد ہلاک ہوگئے۔ چو بیس جنوری کو شہر ایک عام ہڑتال کے باعث مفلوج ہو
کررہ گیا،طلبہ کو سنبھالنے کےلئے فوج طلب کر لی گئی۔ پھر صحافیوں کی طرف
سے چو بیس گھنٹوں کی ہڑتال کا اعلان کردیاگیا جو حکومت کی طرف سے ،،
ایمرجنسی لا،، مسلط کئے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔(یہ قانون جنگ کے
دوران نافذ کیاگیا تھا مگر اب اسے ،، اندرونی دشمنوں،،
کے خلاف بروئے کارلایاجارہاتھا)۔ عوام کے بپھرتے غم وغصے سے گھبرا کر ایوب
حکومت نے مراعات کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ خاص کر طلبہ کے ساتھ اس کی
ہمدردیاں اچانک ابھرنے لگیں ۔ اس نے یونیورسٹیوں میںطلبہ تنظیمو ں پرلگی
پابندی اٹھالی ۔ مگر ایوب نے مراعات اور اصلاحات میں بہت دیر کر دی تھی ۔
یہ لوگوں کو مطمئن اور پرسکون کرنے کی بجائے ان کو مزید بھڑکا تی چلی
گئیں۔ اس کیفیت کو بھارت میں ہونے والے مڈٹرم الیکشن میں مغربی بنگال میں
یونائٹڈ فرنٹ کی کامیابی نے اور بھڑکادیا۔ اس کے اثرات پاکستان کی مشرقی
سرحدوں کے اندر تک سرایت کر آئے۔ جس سے نئی سرکشی کے امکانات کا خدشہ
بڑھنے لگا۔ ایو ب نے بادل نخواستہ مشرقی پاکستان میں سے گرفتار اپوزیشن
لیڈر شیخ مجیب الرحمان کو رہا کردیا۔ بحران سے بچنے کی حتمی کوشش کے طورپر
ایوب ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ملنے کو راضی ہوگیا۔ جسے اس نے انیس
سو پنسٹھ میں ،، پانچ بلیاںقرار دیاتھا جو اپنی اپنی دم اپنے اپنے منہ میں
دبائے پھرتی تھیں،،۔مگر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں بائیں بازو کی
پارٹیوں کو باہر ہی رکھاگیا۔ تمام تر بحران میں بورژوااپوزیشنDACنے خود کو
انتہائی بے بس اورلاچار ثابت کیا۔ کراچی کی کاک ٹیل پارٹیوں میں پیش کئے
جانے والے،آئینی اصلاحات، کے مطالبات کو سڑکوں پر نکلے ہوئے عوام گھاس
نہیں ڈال رہے تھے۔ طلبہ جو اس تحریک کے روح رواں بنے ہوئے تھے، انہوں نے
محنت کش طبقے کی طاقت کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ مغرب کے سنجیدہ سرمایہ
دارجریدے بے بسی سے یہ سب دیکھ رہے تھے ۔ مغربی بنگال میں یونائٹڈ فرنٹ کی
کامیابی اور پاکستان میں عوام کی سرکشی نے ،اکانومسٹ، کو یہ لکھنے پر
مجبورکردیا،، اگر ایشیا کے کسی شہری حصے میں انقلاب کی تڑپ واضح دکھائی دے
رہی ہے تو وہ کلکتہ ہے مگر مشرقی پاکستان کے شہر بھی اس سے کم پیچھے نہیں
ہیں،،۔ فروری اور مارچ میں سارے ملک کو ہڑتالوں کی ایک بہت بڑی لہر نے
اپنی لپیٹ میںلے لیا۔ تیرہ فروری کو دس سالوں میں پہلی بارلاہور میں سرخ
پرچم لہراتے نظر آئے پچیس ہزار سے زائدریلوے ورکرسڑکوں پر مارچ کرتے اور
نعرے لگاتے نکل پڑے تھے،، ہم چین کے عوام کے ساتھ ہیںسرمایہ داری مردہ
باد،،۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان کے مزدور اورکسان سماج کو بدلنے پر
تیارہوچکے تھے۔ بدقسمتی سے کوئی مارکسی پارٹی موجود نہیں تھی جو اس
انقلابی دھارے کو اس کے منطقی انجام تک لے جاتی۔ پیکنگ کی حمایتی نیشنل
عوامی پارٹی،نیپ کی مزدوروں اورکسانوں کی وسیع پرتوں میں حمایت اور اثرات
موجود تھے۔ مگر وہ انقلابی پروگرام سے عاری تھی چنانچہ عوام کو انقلاب
کےلئے منظم و متحرک کرنے کی بجائے اس چین نواز سٹالنسٹ پارٹی نے رائٹ ونگ
مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے ساتھ بلاک تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔
ماﺅسٹ کسان لیڈر مولانا بھاشانی نے جلسوں میں پرجوش تقریریں کیں اور
حکمرانوںکو خانہ جنگی سے خبردار کرتے ہوئے دھمکی دے دی کہ،، الیکشن میں
حصہ لینے والوں کے گھروں کو نذر آتش کردیاجائے گا،،۔ لیکن یہ تقریریں اور
اس کے سبھی الفاظ محض الفاظ ہی رہے ،عملاًکچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اس دوران
مشرقی پاکستان میں کسانوں نے زمینوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیاتھا اور
انہوں نے جرائم پیشہ افراد، دیہی سربراہوںاور ایوب حکومت کی بنیادی
جمہوریت کےلئے مرکزی کردار ادا کرنے والے کلکٹروں کو سزائیں دینی شروع کر
دیں۔ عوام کے موڈکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ بورژوالیڈر مجیب
کو بھی ڈھاکہ کے طالبعلموں کے مطالبات کے تیارکردہ پروگرام کی حمایت کرنی
پڑگئی کہ صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے گا، اور سینٹو ،سینٹو جیسے
سامراج حمایتی معاہدوں سے تعلق ختم کردیاجائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ایک شاندار تحریک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بورژوازی کو اس
بات کا یقین ہو چلا تھا کہ پاکستان انقلاب کی دہلیز پر پہنچ چکاہے۔ وہ کچھ
غلط بھی نہیں سوچ رہی تھی۔ پاکستان کے تاجروں نے اپنی رقم بیرون ملک منتقل
کرنے پر بھاری رقوم خرچ کرنی شروع کردیں۔ دوہفتوں کے دوران ہی سٹرلنگ کی
بلیک مارکیٹ میں قیمت اکیس روپے سے تیس روپے پر پہنچ گئی۔ جبکہ سونے کی
قیمت میںچالیس اضافہ ہوگیا۔ برطانوی سرمایہ دارپرےس نے بھی پاکستان کی
تشویشنا ک صورتحال کی نشاندہی کی اور کہا کہ حکومت کی خود کو سنبھالنے میں
ناکامی واضح ہو چکی ہے۔ ریاستی عملداری ریت کے ذروں کی طرح بکھر چکی تھی۔
ساری قوت مزدوروں اورکسانوں کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکی تھی اورجس طرح
انیس سو چھتیس میں سپین میں ہواتھا جہاں مزدوروں کسانوں کو جلدہی ، الیکشن
پروگرام، کی حامل جمہوریت سمیت سبھی حکمرانہ چالبازیاں سمجھ آگئی تھیں
،یہاں بھی یہی ہو امزدوروں کسانوں نوجوانوں کو سب سمجھ آگئی تھی۔ دس سالوں
تک نکمے نکھٹو سیاستدان اپنا سارازورلگا کر جو نہیں کر سکے تھے، اسے عوام
کے انتھک انقلابی عمل نے ممکن بناناشروع کردیاتھا۔ پھر ان بورژوا
سیاستدانوں کا رول کیارہ گیاتھا؟ یہی نا کہ پرولتاریہ اور کسان اقتدار کسی
،، لیڈر،، کے حوالے کر دیتے۔ چو بیس فروری کو ،فنانشل ٹائمز،نے بتایا کہ
کراچی میں جوسینئر افسروں کا کورٹ مارشل کیا جا رہاتھا کیونکہ انہوں نے
حکم عدولی کی تھی اور حکم یہ تھا کہ مظاہرین پر گولی چلا دی جائے۔،دی
ٹائمز،نے صورتحال کے بارے میں لکھا کہ،، ہر پیشے میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں
،تجارت ہو یا کوئی ادارہ، ڈاکٹروں سے لے کر ریلوے اور ریاستی انجےنئروں
تک، ہر سڑک ہر گلی میں عوام کے مارچ ہو رہے ہیں۔ پچھلے پندردنوں سے ڈھاکہ
میں پولیس کی وردی تک نظر نہیں آئی ہے،،۔ سرمایہ دارانہ نکتہ نظر سے
پاکستان کی صورتحال قابو سے باہر ہو چکی تھی۔ حکومت کے اعصاب جواب دے چکے
تھے۔ حکومت چلانے والے ہوا میں معلق ہو چکے تھے۔ پولیس فورس شل ہو چکی تھی
جبکہ فوج متذبذب تھی۔ تحریک نے ہر شعبے ہرایک ادارے کو اپنے اثرات میں لے
لیاتھااور سماج کو تبدیل کر کے رکھ دیاتھا۔ ایک کلاسیکل انقلاب کے سبھی
عوامل موجود تھے سوائے ایک انقلابی قیادت کے۔ ایسی صورتحال کے ہوتے ہوئے
اگر اسے قیادت میسر آجاتی تو سماج کی تبدیلی کا عمل آسانی سے تکمیل پا
سکتاتھا۔ لیکن یہ صرف پاکستان کے مزدوروں اورکسانوں کی ہی بد قسمتی نہیں
تھی فرانس اور اٹلی میں بھی ان کے مزدور اورکسان بھائیوںکو بھی قیادت کی
تنگ نظری،بے بصیرتی اور بزدلی نے ناکامی کی دلدل میں دھکیل دیاتھا۔
پاکستان کے سٹالنسٹوں کی طرف سے عوام کی شاندارکامیاب جدوجہدکے باوجود
اقتدارکو قبضے میں نہ لے کر ردانقلاب کو کھلا موقع فراہم کیا گیا۔ پاکستان
کے مزدوروں اورکسانوں کی اس قدر شاندار اور حقیقی جدوجہد کو جتنا خراج
تحسین پیش کیا جائے کم ہے اور یہ کسی طوربھی فرانس اور اٹلی میں ان کے
طبقاتی بھائیوںکی طرف سے چلائی جانے والی عظیم تحریکوں سے کم اہمیت کی
حامل نہیں تھی۔ درست قیادت کی فراہمی اسے اقتدار سے ہمکنارکرسکتی تھی۔
لیکن پھر اٹلی فرانس کی طرح ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خرابی، کمزوری قیادت میں
تھی نہ کہ تحریک چلانے والوں میں۔ نہ تو بھٹو نہ ہی نیپ کوئی اقتدار
سنبھالنے کو تیارنہیں تھا۔ اسی کمزوری نے ہی یحی خان کی فوجی بغاوت کو
موقع فراہم کردیا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان پےپلز پارٹی ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان پیپلز پارٹی یکم دسمبر انیس سو ستاسٹھ کو
قائم ہوئی تھی ۔ اس کا پروگرام سوشلسٹ تھا اور اسکی بنیادی دستاویزات میں
کہاگیا کہ تمام پیداواری ذرائع کو قومی ملکیت میں لے کر ایک عوامی ملیشیا
تشکیل دی جائے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو جو بے نظیر بھٹو کا والدتھا، نے ایوب
خان کی مخالفت شروع کی ہوئی تھی جبکہ ماسکو اور پیکنگ کے چاہنے والے ،
ترقی پسند، ایوب خان کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ چنانچہ بھٹو مزاحمت کی
علامت بن کر سامنے آتاگیا۔ ہر چند کہ وہ سندھ کا ایک وڈیرہ ہی تھا اور
ایوب کابینہ میں وزیرخارجہ بھی رہ چکاتھا۔ اس کے باوجود بھی اس نے سوشلزم
کا نعرہ بلند کیااور بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی۔ انیس سو آٹھاسٹھ ،
اناسٹھ کی تحریک کی موجوں پر سوار ہو کر پیپلز پارٹی معتبر و مقبول ہو چکی
تھی۔ بھٹو نے سوشلزم کے نفاذکےلئے نعرہ بلند کیا ،اسے کچھ لوگوں نے ایک،
خطرناک انقلابی ، قراردے دیا ۔ لیکن سب
سے سنجیدہ بورژوا جریدوں کے نزدیک ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ دی ٹائمز، نے
اپنے قارئین کو سنسنی خیز مواد فراہم کرنے کے ارادے سے ایک رپورٹر کو بھٹو
سے انٹرویو کرنے کےلئے بھےجا ۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا،، کراچی میں
اپنے گھر میں سگار پیتے ہوئے مسٹر بھٹو نے کہا کہ اس کا سوشلزم کا تصور
چین کے سوشلزم کا نہیں بلکہ سکینڈے نیویا کا سا ہے۔ پاکستان کے چین کے
ساتھ جو قریبی تعلقات قائم ہیں وہی بہت ہیں،،۔(دی ٹائمز۔ 26 فروری
1968ء)’اکانومسٹ ، نے اس کے بارے لکھا ،، بھٹو کے بارے میں وہی بات ذہن
میں رکھی جائے جو بہت پہلے نہرو کے بارے میں کہی گئی تھی(یعنی یہ روسیوں
کے نزدیک چینی ہے)۔ انیس سو آٹھاسٹھ کی تحریک کے کئی لیڈر پیپلز پارٹی میں
شامل ہو گئے ۔ انیس سو ستر کے الیکشن میں عوام نے بھاری تعداد میں
پیپلزپارٹی کو ووٹ ڈال کر کامیابی سے ہمکنار کردیا کیونکہ وہ سماج میں
تبدیلی کے آرزومند تھے اور پارٹی کے سوشلسٹ پرگرام سے متاثرتھے۔ ان کے پاس
دو ہی متبادل تھے یاتو وہ سرمائے کی ذلت کا طوق اپنی گلے میں ڈال لیں
یاپھر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا رستہ اپنالیں مگر بھٹو اور اس کے رائٹ ونگ
ساتھی ایسا نہیں کر سکے۔ کچھ ریڈیکل قسم کی اصلاحات ضرورکی گئیں مگر وہ
سماج کو بدلنے میں ناکام رہے ۔ جاگیرداروں اورسرمایہ داروں سے سمجھوتے
کرلئے گئے اور یوں فوج کو اقتدارپر قبضے کا موقع فراہم کردیاگیا ۔ ہر
انقلاب کے دوران ایسے مواقع آیاکرتے ہیں جب عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان
سے دھوکہ کیاجارہاہے جس پر وہ خودہی قدم اٹھانا شروع کردیاکرتے ہیں۔ روس
میں جولائی انیس سو سترہ میں یہی ہواتھا یا پھر جنوری انیس سو انیس میں
جرمنی میں سپارٹکسٹ موومنٹ کے دوران بھی ایسا ہواتھا۔ مئی ستمبر انیس سو
باہتر کے دنوں میں بھی یہی ہوا جب پرولتاریہ اپنے مطالبات منوانے کےلئے
سڑکوں پر نکل آیا۔ یہ تحریک پاکستانی پرولتاریہ کے پےیڑوگراڈ، کراچی میں
پورے جوبن سے ابھری۔ حکومت نے تحریک کو کچلنے کا تہیہ کرلیا ۔ لانڈھی میں
مزدوروں کے ایک مظاہرے پر گولی چلا دی گئی جس سے درجنوںمزدور ہلاک ہو گئے۔
اس واقعے سے مزدور مایوس ہوگئے یوں ردانقلاب کےلئے رستہ ہموارہوتا
چلاگیا۔لیفٹ کے خلاف پوزیشن لے کر پیپلز پارٹی حکومت نے پنڈولم کو دائیں
بازو کی طرف دھکیل دیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بحران کے عروج کے وقت پارٹی
تقسیم ہوگئی۔ ہمیشہ کی طرح سے، یہاں بھی مسئلہ مشرقی پاکستان کی آزادی کا
تھابھٹو کی طرف سے اس سوال پر کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کا مطلب یہ تھا
کہ وہ پاکستانی بورژوازی اور فوج کی خواہشات اور ان کے مفادات کے تابع ہو
چکا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک ہولناک تباہی کی شکل میں نکلا ۔ پہلے پاکستان
تقسیم ہوگیا اور بعد میں بھارت کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی۔ اور پھر اس کے
بعد بھٹو ناگزیز طورپر فوجی اور رجعتی طاقتوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے
اسے بحرانوں کے بھنور میں پھنساتے ہوئے پہلے اقتدار سے الگ کیا اور بالآخر
اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ پاکستان کی رجعتی ردانقلابی اشرافیہ نے اسے
شکارکرلیاتھا۔ لیکن وہ اس کے ساتھ ہی اپنی مصالحانہ پالیسیو ں کا بھی
شکارہوا کہ اس نے رجعتی قوتوں کے ساتھ تعلق استوارکرنے کی کوشش کی تھی۔ اس
کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے عوام ایک بارپھر فوجی آمریت کی سیاہ طویل
رات کی تاریکیو ں میں ڈبودیے گئے۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انیس سو
آٹھاسٹھ کا ورثہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضیاءالحق کی آمریت ایوب
اور یحیی کی آمرتیوں سے بدرجہا بدترین تھی۔ امریکی سامراج کی مکمل
آشیربادکے ساتھ اس وحشی حکومت نے ظلم اور جبر کی سب حدیں توڑ دیں۔ بدترین
آمریت کی بدتریں شکلیں ، ذلت آمیزبدعنوانی کے ساتھ کراہت انگیز مذہبی
منافرت اور بربریت ،یہ اس ضیائی دور کا چہرہ تھا جس نے لاہور کی عظیم
روایتی ثقافت کو بربادکرڈالا، جبکہ مذہبی انتہاپسندی نے دانش و حکمت کو
پاتال میں دھکیل دیا۔ یہی وہ دورتھا جس مےں امریکہ مکمل طورپر پاکستان کا
آقا بننے میں کامیاب ہوگیا جس نے اس کی فوج کو افغانستان میں بیدردی سے
استعمال کیا۔ تب سے اب تک پاکستان و افغانستان کے عوام اس عہد ظلمت کی
سزائیں بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ طیارے کی تباہی جس میں ضیامرا تھا ،شاید سی
آئی اے اور آئی ایس آئی کے کچھ عناصر کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ تھا۔ انیس
سو آٹھاسی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی دوسری بار بے نظیر بھٹو کی قیادت
میں برسراقتدار آئی مگراس نے فوج اور حکمران طبقات کے ساتھ مصالحت کی
پالیسی اختیار کی جس نے محنت کش طبقے کی مایوسی کو اور بھی گہرا کردیا اور
انہیں مزید شکستوں سے دوچارکردیا۔ پارٹی قیادت کی طرف سے ، فری مارکیٹ، کی
پالیسیو ں اور ڈاﺅن سائزنگ ،نجکاریوں ، بے روزگاری اور غربت کی شرح مےں
اضافے نے عوام کی بد قسمتی کو مزید گہرا کرڈالا۔ جمہوریت کے تجربے ایک
بارپھر مشرف آمریت کے تسلط کو سامنے لے آئے ۔ پاکستان ایک اتھاہ مایوسی کی
دلدل میں دھکیلا جا چکاہے۔ بے پناہ ذرائع وسائل کے باوجود اس کی معیشت
تباہ وبرباد کر دی گئی ہے۔ مالیاتی حوالے سے یہ کنگال ہو کردیوالیہ پن کی
زد میں آچکا ہے۔ غربت اور بے روزگاری انتہاﺅں کو پہنچی ہوئی ہے۔ امریکی
سامراج کی رجعتی پالیسیوں اورزوال پذیز پاکستانی حکمرانوں کی لوٹ مار کی
وجہ سے بنیاد پرستی اورتاریکی کی قوتوں کو ابھرنے کے موقع دے دیئے گئے
ہیں۔ بربریت اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے جس نے سماج کو نگلنا شروع کردیا ہے۔
پاکستانی عوام کو درپیش خطرات کا ایک بدترین مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب
ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کووحشیانہ طریقے سے قتل کر
دیاگیا۔ یہ سب اس خطرے سے نمٹنے کےلئے کیاگیا جو پیپلز پارٹی کی لیڈر کے
آنے سے ایک عوامی ابھار کی شکل میں سامنے آ چکاتھا۔ عوام اپنے مسائل کے حل
کےلئے پیپلز پارٹی کا رستہ دیکھ رہے تھے کہ شاید ان کی زندگی کی تلخیاں
اور ذلتیں کم ہو جائیں شاید ان کے بھی دن بدلے جائیں۔ وہ ،، روٹی کپڑا اور
مکان،، کےلئے ترس رہے تھے تڑپ رہے تھے۔ رجعتی اور سامراجی طاقتیں مزدورں
کسانوںکی تحریک کو تہس نہس کرنے کےلئے سب کچھ کر جایاکرتی ہیں۔ پاکستان
پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ مزدوروں کسانوںکی
انیس سو آٹھاسٹھ اور اناہتر کی انقلابی روایت کو سر ے سے بھلا دیا جائے ۔
اگرچہ یہ انہی مزدوروں کسانوں کی روایت ہی تھی جس کی بدولت پیپلز پارٹی کو
طاقت بھی ملی اور حکومت بھی۔ یہ لوگ سب کچھ بھول چکے ہیں اور کچھ بھی نہیں
سیکھ سکے۔ یہ پیپلز پارٹی کی سوشلسٹ روایات سے منہ پھیر چکے ہیں، یہ ایسا
تاثر دیتے ہیں جیسے پارٹی کی کوئی بنیادی دستاویز ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک
ایسے وقت اور ماحول میں سرمایہ داری کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جہاں
سرمایہ داری کا عالمگیر بحران اسے ناممکن بنا چکاہے۔ یہ کیفیت پیپلز پارٹی
کو ایک نئی شکست سے دوچارکردے گی جس سے رجعت لامحالہ پھر سے مسلط ہوجائے
گی۔ ان حالات میں آنے والے دنوں میں عوام ایک نیا دھماکہ کر کے دکھا سکتے
ہیں، ایک نیا انیس سو آٹھاسٹھ یقینی طورپر سامنے آسکتاہے۔ امریلی فلسفی
جارج سنتیانا نے کہاتھا کہ ، جوتاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ، بالآخر اسے
دہرانے پر مجبورہوجاتا ہے ۔ میراستاد اور کامریڈ ٹیڈگرانٹ اس مقولے کو بہت
اہمیت دیا کرتا تھا۔ جتنا تاریخ کو جاننا آج اس وقت ضروری ہوچکا ہے اتنا
پہلے کبھی نہیں تھا۔ خاص طورپر انقلابات کی تاریخ۔ پاکستان کا انیس سو
آٹھاسٹھ اور اناہتر کا انقلاب بھی بیسویں صدی کے عظیم واقعات میں سے ایک
تھا۔ یہ تاریخ کئی قیمتی اور اہم اسباق سے بھری ہوئی ہے اور لال خان کی یہ
کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ، انہی اہم قیمتی اسباق کو ہمارے سامنے لاتی
ہے۔ ہر انقلابی کےلئے لازمی ہے کہ وہ انتہائی غور کے ساتھ اس کتاب کا
مطالعہ کرے۔ ا ٓج1968/69ءکی روایات کو مارکسی رحجان ،، طبقاتی جدوجہد،،
بھرپور قوت وتوانائی کے ساتھ سامنے لا رہا ہے۔ انیس سو اسی میں ہالینڈ میں
ہجرت کئے ہوئے ایک گروپ نے اس کی بنیاد رکھی تھی،اب ،، طبقاتی جدوجہد،،
خاص طورپر پچھلے دس سالوںمیں خاطر خواہ قوت اور اثرات کا حامل ہو چکا ہے۔
یہ پاکستان میں واحد حقیقی انقلابی رحجان ہے جس نے وسیع عوامی بنیادیں
تعمیر کر لی ہیں۔ لال خان کی قیادت میں، اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ
میرا دوست میرا کامریڈ ہے، اس رحجان نے مستقل مزاجی کے ساتھ اصولوں پر
کاربندرہتے ہوئے الٹرا لیفٹ فرقہ پرستی اور بے اصول موقع پرستی کا ڈٹ کر
مقابلہ کیا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کے سامنے دو راستے ہیں سوشلزم یا پھر
بربریت ۔،، طبقاتی جدوجہد ،، اورعالمی مارکسی رحجان،، آئی ایم ٹی ،، ایک
ساتھ مل کر پاکستان ،برصغیر اور ساری دنیا میں سوشلزم کےلئے جدوجہد کر رہے
ہیں ۔ انیس سو آٹھاسٹھ اناہتر کے عظیم انقلاب کو برپا کرنے والے بہادر
مزدوروں کسانوں اور نوجوانوں کو سب سے بہترین خراج تحسین صرف یہی ہے کہ ہم
اس جدوجہد کو جاری رکھیں اور اسے ایک سوشلسٹ فتح تک لے کر جائیں ۔ ہم وعدہ
کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایسا کر کے رہیں گے۔۔
Source: Chingaree.com