Urdu translation of Israeli workers and youth join the revolutionary wave (August 1, 2011)
والٹر لیون/ڈینیل مورلے
چنگاری ڈاٹ کام،04.08.2011
اسرائیل سے جو تازہ ترین خبر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ میونسپل ورکرز نے( آج یکم اگست) ملک بھر میں ایک دن کی عام ہڑتال کا اعلان کردیا ہے ۔یہ ہڑتال اسرائیل میں ہر جگہ اور آئے روز ہورہے، احتجاج کی حمایت میں کی جارہی ہے ۔یہ ایک بہت بڑی اور شاندارپیش رفت ہے کیونکہ یہ کیفیت ایسی ہے جو اسرائیل کی طاقتور صنعتی مزدور تحریک کو نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کے سیاسی مطالبات سے جڑاور جوڑ رہی ہے ۔اوریہ وہ صورتحال ہے جو کہ کئی دہائیوں سے یہاں نہیں ہو پارہی ہے ۔
دنیا میں جو کچھ ہورہاہے اور جس قسم کے واقعات ہو رہے اور حالات بن رہے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے ہر طرف بجلیاں کوند رہی ہوں۔دنیا بھر میں جو بھی انقلابی ابھار ابھر رہے ہیں ان میں سے کسی کا بھی وار خطا نہیں جا رہا۔سرکش حالات اور انقلابی واقعات کے اس دھارے میں تازہ ترین شمولیت جس ملک نے کی ہے وہ ہمارے کئی پڑھنے والوں کو حیران کر دے گی۔یہ ہے ہمارا ملک ہے اسرائیل ۔
کئی عرصے سے ہم مسلسل لکھتے آرہے ہیں کہ اسرائیل کے عام محنت کشوں کی سماجی حالت اورمعاشی حالات روزبروز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اور ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ جلد یا بدیر یہ صورتحال ایک سماجی دھماکے کو جنم دے گی ۔اور اسرائیل کو پھاڑ کے رکھ دے گی لیکن قومی نہیں طبقاتی بنیادوں پر۔کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے کہ جو سرمایہ دارانہ نظام کے بحران سے بچ سکے اور محفوظ رہ جائے ۔اور سب سے اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ اسرائیل میں ابھرنے والی عوامی تحریک نہ صرف یہ کہ ممکنات کو جنم دے رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے فلسطین اور اسرائیل کے اندر رہ رہے عربوں اور یہودیوں کے مسائل سے نجات کیلئے درکار طبقاتی بنیاد بھی فراہم اور مستحکم کرے گی ۔ہم اسرائیل کی صیہونی ریاست کے خلاف عرب اور یہودی محنت کش طبقے اور ان کی تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔
اسرائیل میں انقلابی ابھار
اسرائیل کے نوجوانوں اور مزدوروں کی یہ تحریک بلاشبہ براہ راست عرب انقلابی تحریک سے بھی متاثر ہے اور یورپ میں چلنے والی سرکش احتجاجی تحریک سے بھی ۔یہاں جو بینرز اور نعرے نمایاں ہیں ان میں سے ایک ’’ مبارک ،اسد ،نیتن یاہومردہ باد‘‘ ہے۔دنیا بھر کے محنت کش زندگی سے ایک سبق سیکھ رہے ہیں اور سیکھتے چلے جارہے ہیں کہ ان سب کے مسائل بنیادی طورپر ایک سے ہیں ۔اسرائیل کے ہر بڑے شہر میں احتجاجی خیمے سج گئے ہیں ،خاص طورپر تل ابیت میں ۔اور یہ احتجاج نیتن یاہو کی حکومت کی اسرائیل کے عام انسانوں کی دن بدن بگڑتی صورتحال سے بالکل بے نیاز ہونے کے خلاف کیا جارہاہے ۔
تحریک انتہائی ڈرامائی انداز میں تیزی کے ساتھ پھیل پھول رہی ہے اور کوئی پتہ نہیں چل رہاکہ کون کہاں سے اورکس طرف سے اس میں شامل ہورہاہے ۔ایک ایسا ملک جس کی کل آبادی7/8ملین ہے ،اس میں اب تک ڈیڑھ لاکھ افرادشریک ہوچکے ہیں ۔تحریک کے مطالبات عمومی اور عوامی ہیں کہ جن کا تعلق عام انسانوں کی محرومیوں سے ہے اور جنہیں87فیصد عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔
اسرائیلی ویب سائٹ گلوبزGlobesکے مطابق تحریک کی شدت اور وسعت نے خود تحریک کے منظم کرنے والوں کو چونکا کے رکھ دیا ہے ’’مظاہروں کی کال صرف پانچ شہروں کیلئے دی گئی تھی لیکن مظاہرین دس شہروں میں مارچ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ۔یروشلم ،تل ابیت،ہائفہ،بیرشیوا،اشدود،اشکیلون ،کریات شمونہ،مدائن،رعنانہ اور نظارت ۔تل ابیت شہر میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے ہابیمہ سکوائر سے تل ابیت میوزیم تک مارچ کیا ۔جبکہ پچھلے ہفتے بیس سے تیس ہزار افراد نے یہاں احتجاج میں حصہ لیاتھا،مظاہرے کے شرکاء ’’سماجی برابری ‘‘’’بنیامین! گھر جاؤ‘‘’’ہمیں انصاف چاہئے خیرات نہیں‘‘کے نعرے لگا رہے تھے‘‘۔ مغر ب کے اندر اسرائیلی سماج بارے مقبول عام نقطہ نظر کے مطابق،اور شرم کی بات یہ ہے کہ اس میں بہت سے لیفٹسٹ عناصر بھی یہی قرار دیتے ہیں کہ اسرائیل کے اندر رہنے والے انتہائی اعلی ٰ و ارفع معیار زندگی سے مستفیداور لطف اندوز ہوتے چلے آرہے ہیں اور یہ سب کچھ فلسطینیوں کے خون کو نچوڑ کر کیا جا رہاہے ۔اگر اس قسم کی کوئی بھی بات ہوتی تواس عوامی ابھار کا مرکز ومحور فلسطین سے نفرت ہوتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔یہ سبھی احتجاج کرنے والے، انتہائی رجعتی دائیں بازوکے صیہونی وزیراعظم نیتن یاہوکی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ تحریک کے پیش کردہ جامع مطالبات درج ذیل ہیں؛ گھروں کی قیمتیں کم کی جائیں جو کہ آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔(کئی سالوں سے اسرائیل میں جائیدادوں کی قیمتوں میں سالانہ بیس فیصد اضافہ ہوتا چلا آرہاہے )۔
ہر عمر کے لوگوں کیلئے پبلک ایجوکیشن کو ہر سطح پر فری کیا جائے ۔(بہت سی اسرائیلی ماؤں کو جبراًکام کرناپڑتاہے لیکن انہیں اپنی آمدنی کا سب سے زیادہ حصہ بچوں کی ڈے کیر پر خرچ کرناپڑجاتاہے)۔
روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے ۔پٹرول کی قیمتیں فوری طورپر کم کی جائیں(اسرائیل میں شہری پٹرول آٹھ ڈالرفی گیلن خریدتے ہیں )۔
سماجی کارکنوں،پولیس افسروں،فائر فائٹرز،ڈاکٹرز ،نرسز سمیت پبلک سروس کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے(اس وقت ان میں اکثریت کم از کم اجرت پر کام کر رہی ہے)۔
ڈفنی لیاف ،جو کہ احتجاج کی کال دینے والوں میں سے ایک ہے ،نے گلوبز کو انٹرویودیتے ہوئے تحریک کے انقلابی امکانات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لالچ طمع اور خودپرستی ،اسرائیلی سماج کا ایک خاصہ بن چکے ہیں ،لیکن پچھلے دوہفتوں کے دوران ہمیں یہ ادارک ہواہے کہ ہمارے سماج میں اور خصوصیات بھی موجود ہیں ۔ہمارا انقلاب شعور اور آگہی کا انقلاب ہے ۔ہمیں معلوم ہوچکاہے کہ ہمیں اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑا ہوناہوگا اور ہم اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ہم صرف حکومت نہیں بلکہ کھیل کے قواعد وضوابط ہی بدل دینا چاہتے ہیں‘‘۔
انہونی کی ہونی
اسرائیل میں جو کچھ ہورہاہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے صاف شفاف آسمان پر سے بجلی کڑکنا شروع ہو گئی ہے ۔وہی دانشور اور تجزیہ نگار جو کہ عرب دنیا میں کسی بھی قسم کے انقلاب کو خارج از امکان قرار دیتے چلے آرہے تھے اب یہی خواتین و حضرات اسرائیل کی نوجوان نسل اور محنت کش طبقے کے بارے میں بھی وہی کچھ سوچ اور فرما رہے ہیں۔
ان کے نزدیک ایک مستحکم، خوشحال اور تعلیم یافتہ اسرائیل میں تو اس قسم کا کوئی امکان ہی ناممکن ہے ۔انہوں نے تو یہ طے کرلیاہواتھا کہ اسرائیل کا محنت کش طبقہ اپنی ریاست اور حکومت کاہی وفادار تھا ،ہے اور رہے گا اور یہ کہ اسرائیلی تو ہمیشہ کیلئے امریکی سامراج کے حامی ہیں۔اپنے اور اپنی حکومت کے’’ مشترکہ دشمن‘‘ عربوں کے خلاف اپنی حکومت کا ممدومعاون ہی چلا آئے گا۔ یہ تصور اور تاثر ہی محال تھاکہ اسرائیلی لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر احتجاج بھی کریں گے ۔اور یہ بھی کہ اسرائیلی کبھی اپنی حکومت کے خاتمے اور اپنے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی رخصتگی کا بھی مطالبہ کرنے پر اتر آئیں گے ۔
اب آخر یہ کیا ہورہاہے !ہم نے کہا تھا لکھاتھا کہ عرب دنیا میں انقلاب نیچے پک رہاہے اور بظاہر مستحکم حکومتوں کے عین نیچے سماجی تضادات پک کر پھٹنے کی حالت کو پہنچنے والے ہیں ۔یہی ہوا اور معاملات ایک خاص نکتے پر پہنچے تو پریشر ککر پھٹ ہی پڑا ۔اسرائیل کا قصہ اور قضیہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ایک ملک کے طور پر اس موجود کیفیت تک پہنچنے کیلئے اس نے چالیس سال لگا دیے ہیں ۔شمالی افریقہ اور خلیجی ملکوں کے انقلابات نے اسرائیل کے اندر بھی انقلاب کا زرخیز بیج بو دیاہے ۔
سرمایہ دارانہ میڈیا اسرائیل کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی جدوجہد کی خبروں کو دانستہ نظراندازاور بلیک آؤٹ کر رہاہے ۔عمومی طورپر کسی ایک فرد کو اس بات کیلئے معاف کیاجاسکتاہے جو یہ تصور ہی نہ کرتاہوکہ اسرائیل جیسے ایک چھوٹے سے ملک کے اندر تو طبقاتی جدوجہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ہے ۔لیکن یہ اس کی سوائے غلط فہمی کے کچھ نہیں ہوگا۔صرف اسی ایک سال ہی کے اندر کئی جدوجہدیں سامنے آچکی ہیں ۔برطانیہ امریکہ جیسے ملکوں کے اندر مزدورتحریک کی لڑنے والی قیادت کی غیر موجودگی نے جدوجہد کے عمل کو روکنے میں طوالت بخشی ہے لیکن کیا یہ غیر موجودگی تحریک کو روکنے میں کامیاب رہی یا رہے گی؟
جنوری کے مہینے میں اسرائیل میں ہائفہ ،اشدود اور عیلت کی بندرگاہوں میں 2500جہازیوں نے تین دن کی ہڑتال کئے رکھی ۔جس کے نتیجے میں ان کی اجرتوں میں تین فیصد اضافہ ہوا۔اس کے بعد کے مہینے میں نرسوں نے نہ صرف اجرتوں میں اضافے بلکہ ہسپتالوں کے اندر وارڈوں میں اوورکراؤڈنگ کو ختم کرنے کیلئے ہڑتال کی (اسرائیل کی مرکزی ٹریڈ یونین فیڈریشن ہارٹز کے مطابق اسرائیل کے ہسپتالوں کے اند ر گنجائش سے بڑھ کر105فیصد لوگ داخل ہیں،انٹرنل میڈیسن اور پیڈیاٹرک وارڈوں میں تو یہ 108فیصد ہیں،مریضون کی بڑی تعداد کو ہسپتالوں کے کوریڈورز میں رہنا پڑرہاہے ) اس ہڑتال کے بعد وزارت صحت کو ہسپتالوں میں مزید بستر فراہم کر دینے پڑے ۔جبکہ اسی مہینے کے دوران ہی وزارت خارجہ کے سٹاف ملازمین نے اپنی ہڑتال ختم کی جو کہ دسمبر سے اپنی کم تنخواہوں میں اضافے کیلئے احتجاج کرتے آرہے تھے ۔ریاستی ڈھانچے کے اس قدر اہم ادارے کے محنت کشوں کی ہڑتال نے اسرائیلی حکومت کیلئے کئی سنجیدہ مسائل کھڑے کر دیے تھے ،جرمنی کی چانسلر مرکل کا دورہ بھی اس کی وجہ سے خطرے میں پڑگیاتھا۔
اور اس کی وجہ سے اسرائیل کے کئی غیر ملکی کاروبار داؤ پر لگنے شروع ہو گئے تھے ۔ورکروں کے سبھی تو نہیں لیکن بہت سے مطالبات تسلیم کر لئے گئے ۔صرف جنوری تک ہی یہ واقعات محدود نہیں رہے تھے بلکہ فروری میں بھی سماجی ورکروں نے بہتر اجرتوں اور بہتر حالات کیلئے ہڑتال کی ۔اسی طرح ہستادروت نے بھی پٹرول ،روٹی اورپانی کی قیمتیں کم کرانے ،پبلک سیکٹر کے ورکروں کی کم از کم اجرتوں میں اضافے اور تعمیراتی شعبے کے اخراجات میں کمی کرنے کیلئے ایک عام ہڑتال کی دھمکی دی تھی ۔ ہستادروت کے چیرمین اوفر عینی نے دھمکی دی کہ وہ اسرائیلی معیشت کو منجمد کردیں گے ۔سنٹر فار لوکل گورنمنٹ کے شلومو بہبت نے اسرائیل کی واٹر کمپنیوں کو ری نیشنلائز کرنے کا مطالبہ کردیا۔ہستادروت نے کچھ مطالبات تسلیم کرلئے جانے کے بعد اپنی ہڑتال کی کال واپس لے لی تھی ۔ٹریڈ یونین افسرشاہی ہمیشہ سے ہی حکمران طبقے کی فرمانبرداری کیلئے تیار رہتی ہے ۔اور اس طرح طبقاتی جدوجہد کو کند کرتے ہوئے سٹیٹس کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے ۔لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اس افسر شاہی پر نیچے سے محنت کشوں کا اتنا شدید دباؤ بڑھ گیاتھا کہ اسے عام ہڑتال کی کال دینا پڑ گئی ۔
اسی سال مئی میں اسرائیل میں ریلوے ورکروں کی ایک پرجوش ہڑتال بھی سامنے آئی جو انہوں نے ایک عدالتی حکم کو ماننے سے انکار کر دیاتھا جس میں انہیں کام پر واپس جانے کا کہا گیاتھا۔
یونین لیڈر گیلا ایدری کی ریلوے کے وزیر یوری یوگیف کے دفتر میں گرفتاری نے ہڑتالوں کا سلسلہ مزید بڑھا دیا ۔ورکروں نے ریلوے کی نجکاری کے خلاف تحریک چلارہے تھے اور ہڑتال پر تھے ۔گیلا سمیت 9رہنماؤں کو رہا کردیا گیا جبکہ ریلوے کی نجکاری کے خلاف تحریک ابھی تک جاری ہے ۔ان سبھی تحریکوں نے، جن میں بیشتر کاکردار سیاسی تھا،سالوں سے طبقاتی جدوجہد پر حاوی جمود کو توڑ کے رکھ دیاہے ۔اور یہ کیفیت صرف صنعتی شعبے تک ہی محدود نہیں رہی ہے ہم نے پہلے بھی بتایا اور لکھا تھا کہ تل ابیت میں2008ء کے بلدیاتی الیکشن میں کمیونسٹ پارٹی کے ڈووہینن نے دوسری پوزیشن لی تھی اور اس نے کل ووٹوں کا34فیصد لیاتھا۔جو اسرائیل اور عرب باشندوں کیلئے برابری کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتا چلا آرہاہے ۔
ان جدوجہدوں کو سرمایہ دار طبقے کے حملوں کے خلاف کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے میں ناکامی کی ایک وجہ ان کی کوئی قومی سطح کی قیادت کا نہ ہونا ہے ۔لیکن اس کے باوجود نیچے سماج میں دباؤ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہاہے ۔اور یہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا دباؤ کسی مخصوص لمحے اور مرحلے پر پہنچ کر پھٹ جائے گا۔یہ مخصوص لمحہ اور مرحلہ زیادہ دور نہیں ہے ۔خطے میں جاری وساری انقلابی صورتحال اس کیلئے عمل انگیز کا کام کر رہی ہے۔
اسرائیلی سرمایہ داری کا بحران
اسرائیلی سرمایہ داری کا معاملہ عالمی سرمایہ داری کے بحران سے جڑا ہواہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کئی سالوں سے اسرائیلی شہریوں کا معیار زندگی بدسے بدتر ہو چکاہے ۔ عرصے سے بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے ۔حکومت کی سامراجی گماشتگی کی پالیسی کے پیچھے یہی حکمت کارفرما ہے کہ لوگوں کی توجہ ان مسائل سے ہٹائے رکھی جائے ۔حکمرانوں کا یہ خیال اور وطیرہ چلا آرہاہے کہ وہ عربوں اوریہودیوں کے تضاد کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کیفیت کو زیادہ عرصے تک قائم ودائم رکھ کے اپنا الو سیدھا کئے رکھیں گے ۔لیکن اس قسم کے ہتھکنڈوں سے عام اسرائیلیوں کو ان کو درپیش سلگتے مسائل سے الگ تھلگ اور بے نیاز نہیں رکھاجاسکتا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسائل اب اپنا اظہار کرنا شروع کر چکے ہیں ۔
اور اسرائیل کے حکمران طبقات کیلئے یہ ایک بہت بری خبر ہے۔تحریک کے مطالبات اپنے عوامی اور عمومی نوعیت کی وجہ سے ہر طرف مقبول ہورہے اور قبول کئے جارہے ہیں۔جریدے’’اسرائیل ٹوڈے‘‘ کے مطابق ’’جہاں تک امریکہ اور کئی یورپی ملکوں کے مقابلے میں اسرائیلی امریکیوں اور یورپیوں کے مقابلے میں نصف کماتے ہیں ۔بلکہ اس سے بھی کم ۔اسی نکتے پر ہی احتجاج کرنے والے سماجی برابری کا مطالبہ بلند کررہے ہیں۔اسرائیلی بچوں کا ایک تہائی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندہ ہے ۔اور ان میں سے زیادہ تر عرب اسرائیلی ہیں ۔یہ حقیقت بھی عرب اور یہودی محنت کشوں کے مابین طبقاتی اکائی اور یکجہتی کا باعث بن رہی ہے ۔’’العربیہ ‘‘ کے برنارڈ اشرویہ نے اسرائیلی سماج کے اندر موجود کئی معاشی تضادات کی نشاندہی کی ہے کہ جن کی وجہ سے تحریکیں سر ابھار رہی ہیں۔اس کے مطابق’’ حکومتی بجٹ کا چھٹا حصہ دفاع پر خرچ کیاجاتاہے جس کے نتیجے میں ہتھیاروں کے نئے نظام متعارف ہورہے ہیں ۔اور سماجی خدمات کا شعبہ سکڑتاہی چلا جارہاہے ۔
جی ڈی پی کے مقابلے میں قومی قرضہ80فیصد تک لٹک گیاہواہے ۔جب تک شرح سود کم اور شرح ترقی(4/5فیصد سالانہ) بہتررہتی ہے ،اسے سنبھالا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر اسرائیل کی شرح نمو کم ہونا شروع ہوتی ہے اور جو عالمی بحران سمیت اسرائیل کی سیاسی تنہائی کے باعث ممکن بھی ہو رہی ہے توسماجی تنازعات کو روکنا اور عرب اسرائیلی کمیونٹی کو قابومیں رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔
علاج کا شعبہ بحران کی زد میں ہے کیونکہ حکومت نے ہسپتالوں کو سبسڈائزڈ کر لیاہواہے ۔اور علاج کرنے والی تنظیمیں ڈاکٹروں کو گذارہ لائق اجرتیں دینے سے قاصر ہیں۔جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے دومہینوں تک ہڑتال بھی کی ہے ۔گھنٹوں تک طویل کام کرنے کے باوجود نوجوان ڈاکٹروں کو خاطر خواہ اجرتیں بھی نہیں دی جارہیں۔
امیرترین سولہ خاندان 500بڑی کمپنیوں کی دولت کے بیس فیصد حصے کے مالک ہیں ۔ان میں اوفر ،ڈینکر،ایریسن ،تشوا شامل ہیں ۔کئی خاندان تو بینکنگ ،ٹیلی کام ،فوڈ ریٹیلینگ اور میڈیا سمیت کئی شعبوں میں بھاری بھرکم منافعوں سے لطف اندوزہورہے ہیں ۔لیکن یہ سب حد سے تجاوزکرچکاہے اور ساری سرمایہ کاری جائیدادوں کے کاروبار میں کی جارہی ہے ۔جونہی جائیدادوں کا یہ بلبلہ پھٹے گا تو ان میں سے کئی ڈوب جائیں گے ۔اس کے اسرائیل پر ویسے ہی اثرات مرتب ہوں گے جیسے لہمن برادرز کے امریکہ پر ہوئے تھے ۔
ان سنجیدہ اور شدید ہوتے تضادات نے سرمائے کے کئی تجزیہ نگاروں کو تشویش میں مبتلا کردیاہواہے ۔وہ ان تضادات کی سنجیدگی اور اثرات کو سمجھ رہے ہیں۔رجعتی جریدے ’’یروشلم پوسٹ ‘‘نے فیس بک کے ذریعے منظم ہونے والے ایک بائیکاٹ کے حوالے سے ڈیوڈ ہارووٹز لکھتا ہے کہ ’’یہ بغاوت اسرائیلی معیشت کی ایک بھولی ہوئی سمت کو سامنے لائی ہے ۔جن شعبوں کو نظرانداز کیا گیا ہے وہ بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔اسرائیلی عوام اپنے علاج کے نظام کو جو کبھی بہت مثالی ہوتا تھا ،اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔اور انہیں سمجھ آرہی ہے کہ نجی طورپر وہ علاج کروانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔اسرائیلی لوگ پریشان ہیں کیونکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اب اعلیٰ تعلیم نہیں دلا سکتے ہیں ۔ان کے پاس پرائیویٹ ٹیوشن کیلئے درکار وسائل بھی نہیں ہیں۔دل و جان سے کام کرنے والے اسرائیلیوں کو اب ایک وقت کا کھانا بھی میسر آنا محال ہو چکاہے اور ان کیلئے بلوں کی ادائیگی بھی مشکل سے مشکل تر ہو چکی ہے ۔یہاں تک کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والا مکھن بھی اب ان کی قوت خرید سے باہر ہو چلاہے ‘‘۔اس مرحلے تک پہنچ چکی معاشی مشکلات اسرائیل کو کس حد تک غیر مستحکم کر سکتی ہیں ،اس حوالے سے ہارووٹز لکھتا ہے کہ ’’بیشتر سیاسی اور کاروباری قائدین عام اسرائیلی شہری کو درپیش ان مسائل و مشکلات کے ادارک سے ہی بے بہرہ ہیں ۔انہیں پرواہ ہی نہیں کہ کیسا اور کتنا عذاب بن چکاہواہے ۔انہیں پتہ اور پرواہ ہی نہیں کہ مکھن کے ایک ڈبے کی قیمت کتنی ہے اور کہاں تک پہنچ چکی ہے ‘‘۔یہ تشویش بجا ہے اور اسرائیلی سیاسی قیادت کو پتہ ہی نہیں ہے کہ اسرائیلی سرمایہ داری کو اس ضمن میں کیا کچھ کرنا چاہئے ۔’’لیکن پھر مسئلہ صرف مقامی مکھن کا نہیں ہے،اگرچہ ہماری ڈیری پروڈکٹس کے حوالے سے بغاوت بہت پرامن ،جمہوری اور کم معیار کے اہداف سے مزین ہے ،لیکن عرب خطے میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کے پس منظر میں اس بغاوت کو عمومی سماجی بے چینی کی علامت سمجھا جاسکتاہے اور جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ہم عمومی معاشی کیفیت کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں ۔یہ بے پرواہی تعلیم کے شعبے میں بھی نمایاں ہے اور روزگار کے مواقع کی فراہمی میں بھی۔مکھن کی قیمتوں میں اضافے نے تو اس لاپرواہی کو صرف ایکسپوز کیا ہے ۔بالا حکام کی عام انسانوں کی اذیتوں سے لاپرواہی اور بے نیازی سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت کی غمازی کرتی ہے ۔
ایٹزک ایلروف نے ڈیری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ایک عمومی بے چینی کو سرکشی میں بدل کے رکھ دیاہے اور اس نے ایک سماجی معاشی الارم بجا دیاہے ‘‘۔
عام طور پر سرمایہ دار طبقہ ایک حد تک سیاسی آزادی دے کر ،احتجاج کا موقع دے کر ان سے یوں فائدہ اٹھاتا ہے کہ ان کے ذریعے وہ سرمایہ داروں کو یہ احساس دلادیتا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے اور وقت آگیاہے کہ کوئی ایکشن لیا جائے ۔لیکن تب ایسی کیفیت میں وہ بہت کم کچھ کرسکتے ہوتے ہیں ۔اسرائیلی سرمایہ داری کا بحران بہت ہی شدید اور گہرا ہوچکاہے ،اور برطانیہ ،امریکہ ،یونان وغیرہ کی طرح ان کے اس بھی کوئی چارہ کوئی راستہ نہیں کہ یہ کٹوتیاں ،کٹوتیاں اور صرف کٹوتیاں ہی کریں۔
’لیبر صیہونیت ‘اور اسرائیلی ریاست کا ارتقاء
جہاں بحران عالمی نوعیت کا ہے وہیں تاریخی طور پر اسرائیلی ریاست کی ترقی کی وجہ سے مخصوص مقامی حالات بھی ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے وقت کا غالب نظریہ ’ لیبر صیہونیت‘ تھا جو اس بین الطبقاتی اتحاد کا مظہر تھا جو اسرائیلی ٹریڈ یونینوں، زرعئی کوآپریٹو، ریاست اور سرمایہ داروں کے مابین تھا۔ بورژوا قوم پرستی کی یہ مخصوص شکل یہودی محنت کشوں کے لیے ان کے عرب بھائیوں کی گردن پر پیر رکھ کر روزگار اور اچھے حالات فراہم کرنے لے لیے ایک معاہدہ تھا۔ اس نظریے کی مادی بنیاد عالمی جنگ کے بعد کا معاشی ابھار، اسرئیلی افرادی قوت کی اعلیٰ تعلیم اور عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کے قتل عام کے نتیجے میں پیدا ہونے والا قومی جذبہ تھا۔ ان عوامل کی بنیاد پر اسرائیل میں پیداواری قوتوں نے غیر معمولی ترقی پائی جس سے نسبتاً خوشحال یہودی افرادی قوت کا وجود ممکن ہو سکا۔
ایک لمبے عرصے تک ان حا لات کی بنا پر محنت کشوں کے لیے اچھے حالات اور بورژوازی کے لیے منافع اور سیاست کی تعمیر ممکن ہو سکی۔تاہم 1970ء کی دہائی کے معاشی زوال نے اس سب کا خاتمہ کر یا، جب اس چھوٹے سے ملک میں سرمایہ داری اسرائیل کے یہودی محنت کشوں کا بلند میعار زندگی برقرار رکھنے کی متحمل نہ رہی۔ 1977ء میں حکمران لیبر صیہونی مخلوط حکومت پہلی دفعہ انتخابات ہار گئی اور کہیں بڑھ کر کلاسیکی قدامت پرست بورژوا پروگرام کے ساتھ لیکوڈ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کر دی گئی، اجتماعی سودے بازی کے حقوق ختم کر دیے گئے اور یونینوں میں منظم محنت کشوں کی جگہ ایجنسی مزدوروں (جن میں اکژیت فلسطینیوں کی تھی) نے لے لی۔ لیبر صیہونیت کا خاتمہ ہو گیا۔
گزشتہ چالیس برسوں میں اسرائیل کے اندر میعار زندگی میں شدید گراوٹ آئی ہے۔اس دور میں اسرائیلی حکمران طبقے کے پاس قوم کو متحد رکھنے کا واحد طریقہ ’بیرونی خطرے‘ کا احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پندرہ برس میں اسرائیلی حکومت نے ان عرب حکومتوں کے ساتھ قیام امن کے بارہامواقع ضائع کر دیے ہیں جن کی عسکری تصادم میں اب کوئی دلچسپی نہیں ۔سعودی اورشامی امن پیش کشوں کو مسترد کرنا اور فلوٹیلا پر حملہ کر کے ترکی کو مشتعل کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی سماج کی موجودہ ہیت برقرار رکھنے کے لیے جنگ کا سہارا نا گزیر ہے۔ جیسا لینن نے سرمایہ داری کے متعلق کہا تھا اب صیہونیت ایک لا امتناہ ہولناکی بن گئی ہے۔
لیکن بلا شبہ اس کی بھی حد ہے۔ عرب انقلاب کے اسرائیل ہر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور عربوں کو اسرائیل کی تباہی کے خواہاں جنونی قاتل بنا کر پیش کرنے کا ریاستی پروپیگینڈا واقعات کی لہر میں بہ گیا ہے۔ ہمارے تناظر حقیقت کا جامہ پہن رہے ہیں اور اسرائیلی عوام اپنے عرب بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس نظام کے خلاف جنگ کا آغاز کر رہے ہیں جو عوام کی اکثریت کے لیے ہولناکی اذیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ فلسطینی عوام کے اٹھ کھڑے ہونے میں بھی اب زیادہ دیر نہیں۔
جدو جہد کا تناظر
ٹرٹسکی نے کہا تھا مشرق وسطیٰ میں سرمایادارانہ یہودی ریاست یہودیوں کے لیے قید خانہ ہو گی۔ اس بات کی درستگی اب واضع ہو رہی ہے۔ برطانوی، امریکی اور فرانسیسی سامراجوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی کوشش میں سارے مشرق وسطیٰ کا ٹکڑے کر ڈالے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک مصنوعی بنیادوں پر کھڑے ہیں جن کا مقصد خطے میں انقلابی سامراج مخالف تحریکوں کوکمزور اور متذبذب کرنا ہے۔ عالمی تاریخ میں عرب انقلاب کی اہمیت یہ ہے کہ عرب عوام اب اس جرم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن سامراجی طاقتیں سب سے زیادہ یہودی اور عرب محنت کشوں کے سرمایہ داری کے خلاف متحد ہو جانے سے خوف زدہ ہیں۔
طبقاطی بنیادوں پر منظم اس پیمانے کی تحریک سے اسرائیل میں رہنے والے عرب الگ نہیں رہ پائیں گے جو اسرائیل کے غریب ترین شہری ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سستی رہائش کے لیے ان مظاہروں میں ایک بڑی تعداد عربوں کی ہے یا پھر مراکش اور روس وغیرہ سے آئے ہوئے نئے تارکین وطن کی۔
ہارٹیز اخبار کے مطابق وسطیٰ نزرتھ میں عربوں اور یہودیوں نے مشترکہ مظاہرہ کیا ہے۔ یہ اہم بات ہے کہ سستی رہائش کا مطالبہ مقبوضہ علاقے میں نئی بستیاں بنانے کی بجائے شہروں میں مزید سرکاری گھروں کی تعمیر سے جڑا ہوا ہے۔ تحریک کی جانب سے ہڑتالوں کال دی جا رہی ہے اور اب اسے ہستادرت کی حمایت بھی حاصل ہے جو ’تمام تریقہ کار‘ استعمال کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ اور ساری دنیا میں چلنے والی عوامی تحریکیں محنت کش طبقے کی بڑی تنظیمیں اوپر سے نیچے تک ہلا دیں گی، اور یہ وہ ناگزیر تنظیمیں ہیں جن سے محنت کش طبقہ سماج کو بدل کر رکھ سکتا ہے۔ یہ بائیں بازو کی اس بکواس کا بھی جواب ہے جو اسرائیلی ٹریڈ یونینوں کے بائیکاٹ کی بات کرتی ہیں جو در حقیقت اسرائیلی محنت کش طبقے کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ جب اسرائیل کا محنت کش طبقہ حرکت میں آئے گا تو اس کی ٹریڈ یونینیں بھی اس سے متاثر ہوں گی اور محنت کشوں کاحقیقی انقلابی چہرہ سامنے آئے گا نہ کہ صیہونیت کا، چاہے موجودہ یا پھر اپنے حقیقی رنگ میں۔
’تہذیبوں کے تصادم‘ کے ماننے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے جب انقلابِ مصر کے دوران قطبی عیسائی شعوری طور پر اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔یہ ایک انقلابی عہد ہے اور انقلابات ہر چیز کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ سماج اوپر سے نیچے تک ہل جاتا ہے۔ ماضی کی تمام تر یقینی باتیں غائب ہو جاتی ہیں۔دھرتی کو دہلا دینے والے عرب انقلاب جیسے واقعات شعور کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کر دیتے ہیں۔اسرائیل میں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ایک اسرائیلی اخبار معارو نے نیتن یاہو کی جانب سے اسرائیلی عوام عربوں سے خوف کو ہوا دینے پر مکمل انحصار کا تمسخر اڑایا ہے۔اس خوف کے بغیر وہ اور اسرئیل کا حکمران طبقہ اپنی حکومت اور اسرائیلی عوام کے استحصال سے حاصل کردہ منافعوں کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
مسلہ یہ ہے کہ عر ب کے انقلاب نے اس تریقہ کار کو ناکام بنا دیا ہے۔اس ابھار سے نیتن یاہو کی حکومت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور وزارت خزانہ کا ڈائیریکٹر جنرل ہیم شانی اس کا شکار بن چکا ہے۔ نیتن یاہو وزارت خزانہ کے شدید دباؤ میں ہے اور ’معیشت پرغور کرنے کی کمیٹی‘ بنانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ ہازریٹ اخبار لکھتا ہے کہ ’’نیتن یاہو کے محدود اصلاحات کے وعدے کے باوجود وزیر اعظم کا دفتر اور وزارت خزانہ ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ وزارت خزانہ نیتن یاہو کے منصوبے کی مخالفت کاری رکھے ہوئے ہے جس کے مطابق ملک کے وسط میں کم ترین لاگت میں گھر تعمیر کرنے کے لیے پر کشش مراعات اور اپارٹ مینٹوں میں نبے دفتروں کو گھروں میں تبدیل کارا شامل ہیں۔ وزارت خزانہ کے مطابق ان اقدامات سے مظاہروں کو ہوا ملے گی جبکہ وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق وزارت خزانہ نے اس بات کا ٹھیک طریقے سے مطالعہ نہیں کیا۔ ‘‘
حکمرانوں میں تقسیم اور معضوری لینن کی انقلاب کی چار نشانیوں میں سے ایک ہے۔ دوسری نشانی تشکیل پا رہی ہے یعنی محنت کش طبقے کا لڑائی اور قربانی پر تیار ہونا۔ تیسری نشانی یہ کہ درمیانی طبقہ انقلاب اور ریاست کے درمیان ڈول رہا ہوتا ہے۔ بے روزگاری اورمہنگائی اسرائیل کے درمیانے طبقے کے پیشہ وروں کو بھی محنت کشوں کے ساتھ متاثر کر رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر بہت غیر مطمعین ہیں جس کا اظہار طلبہ تحریک سے واضع ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں آبادکاروں پر کیے جانے والے اخراجات بھی بہت غیر مقبول ہیں کیونکہ انہیں ایک بوجھ اور سماج سے لا تعلق انتہا پسند سمجھا جا تا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران کے ساتھ اسرائیلی سماج کی طرح صیہونیت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
لینن کی چوتھی نشانی ایک انقلابی پارٹی کا وجود ہے۔ تاریخی طور پر ہستاردست کا ریاست کے ساتھ گہرا تعلق اور اور اس کی قیادت نے تحریکوں کو سیاسی مطالبات سے ہٹا کر تنگ نظر معاشی مطالبات تک محدود کرنے کا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن انتہائی بیوروکریٹک یونینیں بھی بڑے واقعات سے ہل جاتی ہیں، جیسے واقعات اسرئیل میں ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم اسرئیل کی عوامی تنظیموں کا بائیکات کرنے کے فرقہ وارانہ مطالبے کو مسترد کرتے ہیں اورمخلص کارکنان کی جانب سے اسرائیل کے اندر ’سرخ یونینیں‘ بنانے کی نادان کوششوں کی بھی۔ محنت کش ہمیشہ کی طرح ہستادرت کو تبدیل کرنے کی لڑائی لڑیں گے۔پہلے قدم کے طور پر ہستادرت کو عام ہڑتال کی کال دینی چاہیے جس کا بنیادی مقصد نیتن یاہو کی قابل نفرت حکومت کا خاتمہ ہو۔اس سے منظم محنت کش طبقے کی قوت سرمایہ داری کے خلاف جنگ میں اتر آئے گی۔
اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے مسائل کا ایک ہی حتمی حل ہے، مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن۔
Translation: Chingaree.com