یقین نہیں آتا کہ اوباما کو منتخب ہوئے چار سال گزر بھی گئے۔جب سڑکیں نعرے لگاتے ہوئے لوگوں اور ہارن بجاتی ہوئی گاڑیوں سے بھر گئی تھیں اور بے شمار لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔بش کے آٹھ سال صدر رہنے کے بعد ’’تبدیلی‘‘ آخر کار آ گئی تھی، کیا یہ واقعی تبدیلی تھی؟ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہوتی گئی کہ اوباما دراصل بش ہی کا ایک تسلسل تھانہ کہ کسی خوشحالی یا تبدیلی کا علم بردار!
ڈیموکریٹ دورِ حکومت میں عوام نے بہت تلخ اسباق سیکھے ہیں۔حالات بش کے زمانے کی نسبت زیادہ برے ہو گئے ہیں۔یہ محض لفاظی نہیں بلکہ کڑوا سچ ہے کہ امیر امیر تر ہوئے ہیں جبکہ غریب، غربت کی کھائی میں مزید گہرے دھنس گئے ہیں۔درمیانے طبقے کے امریکی 2009ء(جب’’ بحالی ‘‘ کا آغاز ہوا تھا)کے مقابلے میں 4.8فیصد مزید غربت کا شکار ہوئے ہیں۔امریکی ادارہ مردم شماری کے مطابق 120000 امریکی خاندان جو اوپر کے 1فیصدمیں شامل ہیں ان کی آمدنی میں پچھلے ایک سال کے دوران 5.5فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ نیچے کے 80فیصدامریکی خاندان جن کی تعداد 96000000 بنتی ہے، ان کی آمدنی میں 1.7فیصد کی کمی آئی ہے۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک سروے کے مطابق کل شرح نمو کا 93فیصد اوپر کے 1فیصدکے پاس گیا ہے۔2008ء میں اوباما کے جیتنے پر جب لوگوں سے پوچھا جاتا تھا کہ اس جیت سے انہیں کیا ملے گا تو ان کا جواب کچھ یوں ہوتا تھا ’’نوکری بھائی نوکری‘‘۔لیکن سرکاری طور پر بے روزگاری بش کے دورِ حکومت سے دوگنی رہی ہے۔1979ء سے 2009ء تک تقریباً 1.1 ٹریلین ڈالر اوپر کے 1فیصدلوگوں کو منتقل ہوئے ہیں، یہ رقم نیچے کے 40فیصدلوگوں کی کل جمع پونجی کے برابر ہے۔
اب 2012ء کے صدارتی انتخابات میں بھی امریکی عوام کے پاس کوئی سیاسی متبادل موجود ہے۔سکہ جس رخ بھی گرے، بات ایک ہی ہے۔جنوری 2013ء میں جو کوئی بھی صدارتی دفتر میں بیٹھے، ہارنے اور جیتنے والوں کی پیش بینی ابھی سے کی جا سکتی ہے: وال سٹریٹ جیتے گی اور امریکی محنت کش ہاریں گے! کچھ لوگوں کو شائد یہ بات عجیب سی لگے اور وہ کہیں کہ’’اوباما اور رومنی میں کچھ فرق تو ہے، کم تر برائی کو ترجیح دینی چاہیے‘‘۔لیکن جب ہم مارکسسٹ کہتے ہیں کہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس میں کوئی بنیادی فرق نہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے: ظاہری رویوں اور شکل و صورت میں فرق کے علاوہ ان میں کوئی فرق نہیں، دونوں ہی سرمایہ داری کے محافظ ہیں۔
یقیناًغلام داری میں بھی ’’اچھے آقا‘‘ ہوتے ہوں گے جو اپنے غلاموں پر کم تشدد کرتے ہوں گے اور صرف ان کی قوت محنت کا ہی استحصال کرتے ہوں گے۔ظالم آقاؤں کے مقابلے میں وہ ’’کم تر برائی‘‘ محسوس ہوتے ہوں گے، لیکن دونوں صورتوں میں یہ غلامی ہی تھی۔ سرمایہ داری کے پاس اپنے تضادات حل کرنے کے لئے 200سال سے زیادہ وقت تھا، لیکن یہ انہیں حل نہیں کر پائی کیونکہ یہ اس نظام کی بنیادوں میں موجود ہیں۔اب ایک درست موقع ہے کہ انسانیت اپنے اگلے درجے کی جانب سفر شروع کرے جوکہ سوشلزم ہے۔
سوشلسٹ ہونے کے ناطے ہم ایک مختلف قسم کے سماج کے لئے لڑ ہے ہیں جہاں محنت کش طبقہ جمہوری طریقہ کار سے سیاست اور معیشت کو معاشرے کی اکثریت کے لئے منظم کرے۔ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز وہ قوانین بناتے اور لاگو کرتے ہیں جو امرا کیلئے فائدہ مند ہیں۔مزدوروں کے لئے مفید قوانین بنانے اور لاگو کرنے کے لئے ہمیں ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جو محنت کشوں کے مفادات کی نمائندگی اور دفاع کرے اور جو ریاستی طاقت پر قابض ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ Workers’ International Leagueنے نہ تو آج تک کسی سرمایہ دارانہ پارٹی یا سیاستدان کی حمایت کی ہے، نہ کرے گی۔ہم ٹریڈ یونینز پر مشتمل ایک لیبر پارٹی کے لئے لڑ رہے ہیں جو محنت کشوں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظا م سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے سوشلزم کی لڑائی کو آگے بڑھائے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ محنت کشوں کی قیادت کا کردار کچھ ایسا ہے کہ 2012ء میں ہمارے پاس کوئی متبادل موجود نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نا گزیر طور پر سرمائے کی نمائندگی کرنے والی دونوں میں سے کوئی ایک پارٹی اس بار بھی جیت جائے گی۔یہ سب کچھ لا امتناہی طور پر نہیں چل سکتا، حالات بدلے جا سکتے ہیں اور بدلیں گے۔لوگ سوچ رہے ہیں اس کا اظہار کر رہے ہیں اور سیکھ رہے ہیں۔
اوباما کے بارے میں تمام تر خواب اور امیدیں چکنا چور ہو چکی ہیں۔لیکن امریکی بڑے پر امید اور عملیت پسند ہیں اور ہمیشہ سوچتے ہیں کہ ’’کچھ اچھا ہونے والا ہے‘‘۔لیکن اچھا ہونے کے کوئی امکانات موجود نہیں۔سرمایہ داری کا بحران پورے سیارے کو لپیٹ رہاہے۔یورپ کا حال سب کے سامنے ہے اور جرمنی، چین اور امریکہ سمیت کوئی ملک بھی اس تباہی سے نہیں بچ سکتا۔
مٹ رومنی کے صدر بننے کا خیال ہی لاکھوں یونین ممبران کے لئے خوفناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ 6نومبر کو نہ چاہتے ہوئے بھی سرد مہری سے اوباما کو ووٹ ڈالیں گے۔اس کے باوجود بھی رومنی کے صدر بننے کا واضح امکان موجود ہے۔یہ سب مزدور قیادت کی جانب سے کوئی متبادل پیش نہ کر سکنے کا نتیجہ ہے۔ جب آپ ’’کم تر برائی‘‘ کے چکر میں سیاست کرتے ہوئے سرمایہ داروں کی دو بڑی پارٹیوں سے جان نہیں چھڑواتے تو ’’بڑی برائی‘‘ کسی نہ کسی دن اقتدار میں آ ہی جاتی ہے، اور پہلے کی نسبت ریپبلکنز اس بار زیادہ دائیں بازو کی پالیسیاں بنائیں گے۔ اس حکمت عملی کا انجام شکست ہی ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ رومنی کی جیت کا مطلب محنت کشوں اور ٹریڈ یونینوں کے خلاف اعلان جنگ کا ہو گا۔لیکن ان حالات میں محنت کشوں کے پاس بھی لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔بڑے مظاہرے، واشنگٹن کی طرف مارچ، ہڑتالیں، طلبہ تحریکیں معمول بن جائیں گی۔یہ ایک مشکل معروض ہو گا لیکن مارکسسٹوں کے پاس کئی سنہرے مواقع ہوں گے کہ وہ اپنے نظریات کے ذریعے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ریڈیکلائز کر سکیں۔
اور اوباما کی جیت سے کیا ہو گا؟اوباما نے پیداوار کے شعبے میں دس لاکھ نئی نوکریاں پیدا کرنے کا وعد ہ کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ نوکریاں آئیں گی کہاں سے؟تاہم اگر وہ ایسا کر بھی لیتا ہے تو بھی یہ بالٹی میں ایک قطرے کے برابر ہو گا، اگر ہم ختم ہونے والی نوکریوں کی تعداد ذہن میں لائیں تو۔سب سے بد شگون بات یہ ہے کہ اس نے خسارے کو 4ٹریلین ڈالر کم کرنے کا وعدہ کیا ہے جس کا سیدھا سا مطلب محنت کشوں پر کٹوتیاں ہیں۔اگر وہ امیروں پر کچھ ٹیکس بڑھانے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو بھی پچھلے 30سال کانقصان پورا نہیں ہو سکتا۔ایک بات واضح ہونی چاہیے: کٹوتیاں، کٹوتیاں اور کٹوتیاں۔۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہیں لاگو کون کرے گا۔صرف یہی نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کٹوتیوں سے بحران کم ہونے کی بجائے مزید گہرا ہوگا۔
دوسری طرف، اوباما کے جیتنے کی صورت میں مزدور قیادت پوری کوشش کرے گی کہ اوباما کے خلاف محنت کشوں کو متحرک نہ ہونے دیا جائے بلکہ سرمایہ داروں کے ساتھ معاملات طے کر کے چالیں چلی جائیں۔قیادت کی جانب سے واضح حکمت عملی اور تناظر نہ دینے، اور اپنے ’’مزدوروں کے دوست صدر‘‘ کی طرف سے بارش کی طرح برستی ہوئی کٹوتیوں کی وجہ سے نچلی سطح پر مزدور وں میں بد دلی اورپراگندگی پھیلے گی۔ا ن حالات میں ہمارا کام یہ ہو گا کہ صبر و تحمل سے وضاحت کرتے ہوئے ایک ایک دودو لوگوں کو اپنے تناظر اور نظریات کے ساتھ جیتیں اور انہیں مارکسزم کے نظریات اور تھیوری میں ماہر بنائیں۔ہمیں بے صبری اور مایوسی کے خلاف بھی اپنا دفاع کرنا ہو گا جو انقلابیوں کیلئے زہرِ قاتل ہیں۔کیونکہ ہر رات کے بعد سحر ہوتی ہے، اور بظاہر پر سکون نظر آنے والے عہد کے بعد طوفان آتے ہیں۔ یہی ہمارا تناظر ہے۔
الیکشن کے نتائج کی پیش بینی کرنا فی الوقت کافی مشکل ہے۔ نظریاتی بحث و مباحثے کی عدم موجودگی میں عام آدمی کے اندر رومنی کے بارے میں پائی جانے والی نا پسندیدگی اسے ہار کی طرف لے جا سکتی ہے۔زیادہ تر ووٹروں کے لئے معاملہ سادہ ہے کہ ’’کون کم جھوٹ بول رہا ہے‘‘۔لیکن سیاست میں ایک ہفتے کا وقت بھی بہت زیادہ ہوتاہے۔عالمی واقعات اور معیشت بھی تاش کے وہ پتے ہیں جو اوباما کے ہاتھ میں نہیں اور کسی بھی وقت شاندار الیکشن مہم کا ستیاناس کر سکتے ہیں۔آخری ہفتوں میں دونوں حریفوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ چل رہا ہے۔اوباما نے جو وعدے کئے تھے ان کا ایک معمولی سا حصہ بھی پورا کر دیتا توجیتنا اس کے لئے مشکل نہ تھا۔دوسری طرف معیشت کے حالات اور اوباما سے لوگوں کی بیزاری کو مد نظر رکھا جائے تورومنی کو اب تک میدان مار لینا چاہئے تھا۔لیکن صرف 54فیصد لوگ الیکشن میں دی جانے والی چوائس سے مطمئن نظر آتے ہیں، یہ 1992ء کے بعد سے کم ترین اعشاریہ ہے۔2008ء میں 72فیصدووٹر اوباما اور میکین کی چوائس سے مطمئن تھے۔
موجودہ حالات میں باقی پارٹیوں کے لوگ اس دو پارٹی نظام میں رتی برابر بھی فرق نہیں ڈال سکتے۔حتیٰ کہ جل سٹین جو کہ گرین پارٹی کا صدارتی امیدوار ہے، ایک لیبر پارٹی کی ضرورت کو مانتا ہے۔’’ذرا فرض کریں اگر محنت کشوں نے وہ 15ارب ڈالر جو پچھلے چالیس سال میں ڈیموکریٹ پارٹی پر خرچ کیا ہیں، ایک آزاد لیبر پارٹی اور تحریک پر خرچ کئے ہوتے تو اس وقت ہر ریاست میں لیبر پارٹی کے لا تعداد منتظمین ہوتے جو کہ وسیع بنیادوں اور محنت کش اکثریت کی نمائندگی کرنے والی پارٹی کی سپورٹ کرتے‘‘۔
مزدور تحریک کے پاس ایک راستہ ہے:اسے آزادانہ طبقاتی شناخت اختیار کرنی ہو گی۔ٹریڈ یونینز کے بے شمار وسائل کو ایک لیبر پارٹی کی تعمیر پر خرچ کرنا ہو گا۔ایک دلیرانہ پروگرام اپنانا ہو گا جس میں بحران کی قیمت امیروں سے وصول کی جائے، لاکھوں نوکریاں پیدا کی جائیں، بہتر تنخواہیں، ہر شہری کے لئے مفت تعلیم، علاج اور گھرریاست فراہم کرے۔ایسے پروگرام پر مزدوروں کی ایک پارٹی لڑ اور جیت سکتی ہے۔اور کئی دہائیوں میں پہلے بار محنت کش دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ جنگ لڑیں گے۔اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مزدور قیادت میں موجود ڈیموکریٹ ہیں۔لیکن چیزیں کبھی بھی ایک جیسی نہیں رہ سکتیں۔ سطح کے نیچے لاوا پک رہا ہے۔یہ مزدور قیادت یا تو بائیں طرف جھکنے پر مجبور ہو گی یا تحریک اسے نکال باہر کرے گی۔
ان پر انتشار حالات میں الیکشن محنت کشوں کے شعور پر ضرب لگائیں گے۔سماج کی بظاہر پر سکون سطح کے نیچے لاوا پک رہا ہے۔آکوپائی تحریک اور وسکونسن، شکاگو کے اساتذہ اور وال مارٹ کے مزدوروں کی جدوجہد اگرچہ جڑی ہوئی نہیں ہیں لیکن اس سمت میں اشارہ ضرور کرتی ہیں۔ایک خاص مرحلے پر محنت کش ایک طبقے کے طور پر ابھر کر اپنی تقدیریں اپنے ہاتھوں میں لیں گے اور پوری صورت حال کو بدل کر رکھ دیں گے۔
Translation: The Struggle (Pakistan)