مالی سال2012-13ء کا غیر معمولی حد تک سرمایہ دارنواز بجٹ جس میں امیروں کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیکس میں چھوٹ اور مراعات شامل ہیں، محنت کش طبقات کے لیے ایک دھوکہ اور پھندا ہے۔ جن کے خون، پسینے اور آنسوؤں کو پاکستانی سرمایہ داری کے اس بڑھتے ہوئے بحران میں مزید نچوڑا جائے گا۔ اب تو عوام کی بجٹ میں دلچسپی اور تجسس بھی ختم ہو گیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران حکمران سیاست دانوں اور بیوروکریٹوں کے دعووں کے خلاف عوام کی نفرت اور غصہ بے سبب نہیں ہیں۔سالانہ بجٹ بھونڈے تماشے بن کر رہ گئے ہیں۔شائد ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرتا ہو جب مہنگائی اور دیگر معاشی حملے عوام کے زخموں پر نمک نہ چھڑکتے ہوں۔ اعداد و شمار میں توڑ مروڑ اور جعلسازی کی مدد سے اشرافیہ اپنے خونخوار استحصال اور لوٹ مار میں اضافہ کیے جاتے ہیں۔سابقہ بیوروکریٹ اور مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ ’’جھوٹ تین طرح کا ہوتا ہے۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور سرکاری اعداد و شمار‘‘۔ حقائق کو ایسے دغاباز انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ جس سے سماج کے سلگتے ہوئے حقائق کو مسخ، عوام کو گمراہ اور بدحال کیفیت کو ’’بہترین‘‘ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
بے معنی اور مسلسل جاری ٹی وی مباحثوں کو چھوڑ کر بجٹ کی حقیقت اور اس کے اثرات کو اس بجٹ کو بنانے والوں کے سماجی و معاشی نظریات اور پالیسیوں کا جائزہ لے کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔آخری تجزیے میں ہر پالیسی حکمران طبقات کے مفادات کا دفاع اور ان کو آگے بڑھانے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ پاکستان کی پر آشوب تاریخ میں صرف 68-69ء کے انقلابی ابھار کے بعدذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی حکومت میں انتہائی ریڈیکل اصلاحات کی گئی تھیں۔ڈاکٹر مبشر حسن کے پیش کردہ1972-73ء کے بجٹ میں صحت اور تعلیم کو نیشلائیز کر کے ان کے لیے بجٹ کے اخراجات کا 42.3فیصد مختص کیا گیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔تاہم سرمایہ داری کا خاتمہ کیے بغیر معیشت میں اتنی ریڈیکل اصلاحات کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس کے بعدسے ان شعبوں پر اخراجات کبھی پانچ فیصد سے اوپر نہیں گئے۔ گزشتہ چند برسوں میں تو ان شعبوں میں پاکستان کے اخراجات دنیا بھر میں کم ترین ہو چکے ہیں۔موجودہ بجٹ ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے اور پیپلز پارٹی کی سوشلسٹ شروعات کے بالکل منافی ہے۔
اخراجات کا سب سے بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوتا ہے۔ اگرچہ ان سامراجی قرضوں کی اصلی رقم کئی مرتبہ ادا کی جا چکی ہے لیکن سامراج کی بدمعاشی کا عالم یہ ہے کہ بلند شرح سود کی وجہ سے اس قرضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد بڑا حصہ فوج کے اخراجات پر صرف ہوتا ہے۔اس رقم کا بڑا حصہ بھی سامراج کی فوجی صنعت کو چلا جاتا ہے جو انتہائی بلند قیمتوں پر غریب ترین ممالک کو انسانوں کے قتل کے آلات فروخت کرتے ہیں جن سے حکمران اشرافیہ یہ سودے کروانے کے عوض بڑے بڑے کمیشن اور کک بیک پاتے ہیں۔قرضو ں اور دفاع کے بعد باقی ہر چیز کے لیے ریوی نیو کا 10فیصد بچتا ہے جس سے کسی طرح کی حقیقی سماجی ترقی ممکن ہی نہیں۔ریاستی وسائل کی لوٹ مار کی وجہ سے سماجی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے سامراجی اداروں کے رحم و کرم پر ہے۔جس سے بیرونی قرضوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے جن کو ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔یہ شیطانی چکر بڑہتا ہی چلا جاتا ہے۔
سرمایہ داری کے عالمی بحران کے تباہ کن اثرات منفی سرمایہ کاری، منڈیوں کے سمٹنے اور بڑھتی ہوئی کساد بازاری کی صورت میں مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں کمی آتی جا رہی ہے جس سے تجارتی خسارہ غیر معمولی حد تک جا پہنچا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ، مالیاتی اور بجٹ کا خسارہ تیزی سے بڑھا ہے۔ زر مبادلہ کے زخائر انتہائی تیزی سے کریش کر سکتے ہیں۔امیروں پر ٹیکس لگانے کی چیخ و پکارمحض فریبی لفاظی ہے۔لبرلائیزیشن، ری سٹرکچرنگ اور ٹیکس میں چھوٹ کی پالیسیوں کا مقصد شرح منافع میں اضافہ ہے جو سرمایہ کاروں کا واحد مقصد ہوتا ہے۔ لبرلائیزیشن کی پالیسی سے سرمایہ دار بے پناہ منافعے کما کر انہیں کہیں بھی لے جانے میں آزاد ہیں۔ری سٹرکچرنگ بنیادی طور پر مستقل ملازمت کو ٹھیکیداری لیبر میں تبدیل کرنے اور پرولتاریہ کو صحت ، تعلیم، یونین سازی اور دیگر حقوق سے محروم کرنے کی پالیسی ہے۔ کچھ عرصے سے سامراجی کارپوریشنیں اپنے منافعوں میں اضافے کے لیے ایک دہائی قبل کی لیبر پر مبنی سرمایہ کاری کی بجائے مالیاتی سرمایہ کاری کی جانب راغب ہو چکے ہیں۔اس کا مطلب نجی اداروں سے محنت کشوں کی چھانٹیاں اور اگرکسی حد تک نئی سرمایہ کاری کی صورت میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ المیہ یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اور معاشی ماہرین ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کا رٹا رٹایا سبق دہرائے جا رہے ہیں۔یعنی سرمایہ درانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے سول یا فوجی ہر حکومت کو یہی پالیسیاں اپنانا پڑیں گی۔ نام نہاد قومی بورژوازی تاریخی طور پر تاخیر زدہ، تکینی طور سامراج پر منحصر، اپنے کردار میں دلال اور مالیاتی طور پر دیوالیہ ہے۔یہ اتنی ضعیف ہو چکی ہے اسے منافعوں کی شرح کو قائم رکھنے کے لیے بجلی، گیس اور بینکوں کے قرضوں کی چوری کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل کی لوٹ مار اور ٹیکس چوری کرنا پڑتی ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا نجی کاروباری ادارہ فوجی فاؤنڈیشن فوج کا ماتحت ہے۔کسی بھی سرمایہ دار حکومت میں زیادہ تر سیاست دانوں، جرنیلوں اور ارباب اقتدار کا تعلق انہی حکمران طبقات سے ہوتا ہے یا وہ ان کے زرخرید ہوتے ہیں۔ حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے قائم ریاست اور نظام ان کی لوٹ مار اور استحصال میں کسی طرح بھی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔
چنانچہ اس معاشی بربادی کا سارا بوجھ محنت کش عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کٹوتیاں اس بربادی کی شدت میں اضافہ کریں گی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقات کا مقدر بلواسطہ ٹیکس، بے پناہ مہنگائی، ملازمتوں سے برطرفیاں، غربت اور اذیت ہی ہے۔ اجرتوں میں علامتی اضافہ بے پناہ افراطِ زر کے سامنے کچھ نہیں۔ روپے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے اور یہ گزشتہ چار سالوں میں نصف ہو چکی ہے۔ گزرنے والا ہر دن عوام کے حالات زندگی کو بد تر کیے جا رہا ہے اور ہر آنے والا کل اس ملک کے باسیوں کے لیے اس بھی زیادی دہشت ناک ہوتا ہے۔ لیکن محکوم عوام کو ظالم اور سفاک حکمران اقلیت کی جانب سے مسلط کردہ یہ المناک مقدر قبول نہیں۔ ان کی نجات کے لیے منڈی کی خونخوار معیشت کا خاتمہ اور اس کی جگہ ایک منصوبہ بند معیشت کا قیام ضروری ہے جس کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل ہو ۔پاکستانی پرولتاریہ عظیم انقلابی روایات کا مالک ہے۔سطع کے نیچے کھولتے ہوئے لاوے کی طرح ایک بغاوت سلگ رہی ہے۔ وہ ایک مرتبہ پھر انقلاب پربا کرکے اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔
Source: The Struggle (Pakistan)