معظم کاظمی،30.03.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔،، طبقاتی جد وجہد ،، یا انٹر نیشنل
مارکسی رحجان پاکستان کی سالانہ آٹھائیسویں کانگریس دو ہزار نو ، ستائیس
مارچ بروز جمعہ صبح ساڑھے نو بجے لاہور میں ایوان اقبال میں ہوئی ۔ جس میں
دو ہزار دو سو ڈیلی گیٹ کامریڈوں نے کشمیر سمیت تمام ملک بھر سے شرکت کی ۔
ایلن وڈز اور انکی اہلیہ کامریڈ انا بھی اس میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر
لندن سے آئے ہیں اس کے علاوہ چند دوسرے ممالک سے بھی انٹر نیشنل کے
کامریڈز اس پاکستانی کانگریس میں شمولیت کے لیے آئے ۔ اس با ر کانگریس میں
پاکستان کے معروف سنگر جواد احمد اور شہزاد رائے بھی شریک تھے اور جواد
احمد نے اس تاریخی گانگریس کا آغاز مشہور انقلابی گیت ،، سر فروشی کی تمنا
اب ہمارے دل میں ہے ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازو قتل میں ہے ،، کو اپنی
خوبصورت آواز میں گا کر کیا اس گیت کے آخیر میں حال میں بیٹھے تمام کامریڈ
ز نے جواد احمد کے اس انقلابی گیت کا ملکر سا تھ دیا اور یوں ا یوان اقبال
انقلابی ترانے سے گو نج اٹھا ۔ اس سالانہ گانگریس میں جو یقینا پاکستان کی
تاریخ میں کسی بھی بائیں بازو کی انقلابی پارٹی کی آج تک ہونے والی
کانگریسوں سے بڑی ترین تھی جس میں تمام عوامی طبقات کی موثر نمائندگی
موجودہ تھی۔ نوجوانوں ، عورتوں ، ٹریڈ یونینوں اور پاکستان کے تمام علاقوں
سے کامریڈ ز کی بھر پور شرکت تھی۔ تمام کامریڈ ٹولیوں کی شکل میں ھال میں
داخل ہو رہے تھے اور بلند آواز میں انقلاب ، انقلاب، سوشلسٹ انقلاب کے
نعرے لگارہے تھے ۔ جس سے یہ انقلابی گانگریس ایک خوبصورت عوامی تقریب کا
سما پیش کر رہی تھی جس کا ثقافتی معیار ، کامریڈوں کے آپسی رویے اور بلند
شعور کا اظہار کسی بھی آج کے نام نہاد ترقی یافتہ سماج کی سرمایہ دارانہ
پسماندگی سے کہیں اعلی ترین تھا۔ جن علاقوں سے کامریڈز نے شرکت کی ان میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صوبہ سندھ سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ حیدر آباد ، ٹھٹھ ، بدین ،
دادو ، شہزاد کوٹ ، خیر پور میر ، لاڑکانہ ، سکھر ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پختون خواہ
سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مالاکھنڈ ، بنوں ، دیر ، شمالی اور جنوبی وزیرستان ، ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلوچستان سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئٹہ ، خوزدار ، زیارت ، قلعہ
سیف اللہ ، سبی ، قلات ، ۔ کشمیر سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ راولا کوٹ ، باغ ، مظفر
آباد ، ہجرہ ، میر پور ، کوٹلی ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمالی پنجاب سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔ ۔ اسلام آباد ، راولپنڈی ، اٹک ، واہ کینٹ ، چکوال ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرکزی پنجاب سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاہور ، قصور ، سیالکوٹ ، گوجرانولہ ،
گجرات ، فیصل آباد ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوبی پنجاب سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ملتان ، رحیم یار خان ، بہاول پور ، لودھراں ، جڑنوالہ ، وہاڑی ، خانیوال
، ڈیری غازی خان ، جام پور ، کوٹ ادو ، مظفر گڑھ ، راجن پور ، لیہ ، وغیرہ
وغیرہ علاقوں سے ڈیلی گیٹ آئے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی اہم ترین اور
بڑی ٹریڈ یونینوں نے بھی شرکت کی ۔ جن میں کراچی سٹیل مل ، ریلوئے ورکرز
یونین ، ٹیلی کمنیکشن ، ہائی ویز ، کراچی پورٹ ٹرسٹ ، پیرا میڈیکل ، پیپلز
لیبر بیور ، ٹیکسٹائل ورکرز یونین ،، فیصل آباد سے ایک بڑے ڈیلی گیٹ نے
شرکت کی ،، واٹر اینڈ پاور ، پوسٹ آفس ، ٹرانسپورٹ ، شیپنگ ، مشین ٹول ،
سعودی گیس ، وغیرہ کے مزدوروں اور انکی ٹریڈ یونین نمائندوں نے بھی شرکت
کی ۔ بہت سی یونیورسٹیوں کے نوجوانوں بھی شامل تھے ۔ جس میں سندھ
یونیورسٹی ، کراچی یونیورسٹی ، شاہ لطیف یونیورسٹی ، مہران یونیورسٹی ،
جام پور، ۔ فیڈرل اردو یونیورسٹی ، کراچی، ۔ قائدئے عوام یونیورسٹی ، نواب
شاہ ،۔ مظفر آباد یو نیورسٹی ، کشمیر ، ۔ پنجاب یونیورسٹی ، لاہور،۔ اور
فیصل آباد یو نیورسٹی ،۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے زندگی ہائے کے شعباجات کے
متحرک کارکنوں بھی یہاں آئے ہوئے تھے ۔ پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن، پیپلز
سٹوڈنیس فیڈ ریشن، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈننس فیڈریشن ، بے روزگا نوجوان
تحریک ،، بی این ٹی ،، کے علاوہ صحافیوں کی تنظیموں کے نمائندگان بھی شریک
تھے۔ اس سال سیکورٹی کے انتظامات کو خصوصی طور پر کافی سخت بنایا گیا تھا
جس کی وجہ پاکستان میں عدم تحفظ کی بڑھتی اور عام ہوتی کیفیت اور بنیاد
پرستوں کے آئے دن خود کش حملے اور دہشت گردیاں تھیں ۔ جن کے لیے یہ ضروری
تھا۔ تنظیم کی ذمہ دارانہ کاوشوں ، کامریڈوں کا رضاکارنہ تعاون ، انقلابی
عزم اور ولولے ، سے اس سوشلسٹ نظم وضبط سے گانگریس کو کامیاب بنایا گیا ۔
پاکستان میں اس شاندار گانگریس نے مغرب سمیت تمام دنیا کے اس جھوٹے ، جعل
ساز، اور خود ساختہ، پراپیگنڈے کو مسترد کر دیا کہ پاکستان میں رد انقلابی
قوتوں کا غلبہ ہے ۔ گانگریس میں پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور
قصبوں سے مزدور یونینوں، نوجوانوں، عورتوں، طالب علموں، اقلیوں کی شمولیت
نے یہ ثابت کر دیا بنیاد پرستی کی انتہا پسندی آج جو پاکستان کے منظر عام
پر پھیلی نظر آتی ہے ۔ اس کے پیچھے ایک نہایت معمولی اقلیت میں ملاازم ہے
جو صرف چند پسماندہ علاقوں تک محدود اور محصور ہے جسکی سرپرستی ریاستی
ادارے ہی کر رہے ہیں جن میں آئی ایس آئی سر فہرست ہے ۔ پاکستان میں یہ
دہشت گردیاں ایک انقلابی خلا کو پور کر رہی ہیں ۔ سیاسی اور سماجی فضا میں
انقلابی سکوت اور عوامی مایوسی ، سے یہ بنیاد پرستی ایک دیو نظر آرہی ہے۔
اگر کوئی زراہ سی بھی پاکستان میں انقلابی ہل چل ہوتی ہے تو یہ یہ تمام
بنیاد پرستوں کی دہشت گردیاں اور یہ ملاازم خود بھی خز اں میں سوکھے پتوں
کی طرح جھڑ جائے گا ۔ جب شہید محترمہ بے نظر بھٹو اکتوبر دو ہزار آٹھ
پاکستان آئیں تھیں تو نا مساعد ترین حالات اور کم ترین وسائل کے باوجود
پجیس لاکھ سے زیادہ عوام نے ان کا استقبال کیا تھا جو پاکستان میں انقلابی
تبدیلی کے خواہاں تھے اور ہر حالت میں انقلابی جدوجہد کے لیے تیار تھے اور
یہ پچیس لاکھ سے زیادہ عوام اس دن بے نظر بھٹو کو یہی یقین کر نے آئے تھے
۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اور اس کی چیر پرسن انکی آخیری امید تھی ۔ یہی وجہ
تھی کہ جب ریاست اور اس کا رجعتی حصہ اس عوامی جمع غفیر سے خوف زدہ ہو گیا
تو اس نے بے نظر بھٹو کو بنیاد پرستوں کے ہاتھوں سر عام دن دتہاڑے قتل
کروادیا۔ عوام کی اس آخیری امید بے نظر کے بے رحمانہ قتل پر عوام نے
پاکستان میں قیامت بر پا کر دی ۔انہوں نے طاقت ریاست کے ہاتھوں چھین کر
اپنے ہاتھ میں لے لی۔ تب تمام ریاستی طاقت کا جن ہوا میں تحلیل ہو گیا اب
تمام طاقت عوام کے پاس سڑکوں ، بازاروں ، گلی محلوں اور انکے چوہراوں میں
بکھر گئی۔ لیکن ان سے پھر غداری کی گئی اور یہ غداری کسی اور نے نہیں بلکہ
انکی اپنی پارٹی اور اس کی دائیں بازو کی قیادت نے جس کی لیڈر شپ زرداری
اینڈ کمپنی کے پاس آچکی تھی جنہوں نے جدوجہد کی بجائے عوام کے دشمنوں اور
بے نظیر کے قاتلوں سے مصلحت کر لی اور اس طرح انہوں نے انقلابی جدجہد کا
راستہ روک دیا ۔ اب یہ اس بات پر حیران اور پر یشان ہوتے ہیں کہ پاکستان
میں بنیاد پر ستی پھیلتی جا رہی ہے اور کنٹرول نہیں ہو رہی ۔ جبکہ یہ کوئی
عجیب بات نہیں ہے کیونکہ جب بھی سماجی ترقی یا ارتقا روک جاتا ہے تو اس کے
خلاف انقلابی جدوجہد کر کے اسے ختم کر کے انقلاب کیا جاتا ہے ۔ یا پھر اس
کی جگہ سماج کی پسماندہ ، رجعتی، اور سماج دشمن قوتیں آگے آجاتی ہیں۔ اس
لیے بنیاد پرستوں کی دہشت گردیوں کو جلد سے جلد روکنے لے لیے ضروری ہے کہ
سوشلسٹ انقلابی قوتوں کو مضبوط کر کے آگے بڑھا یا جائے اور یہ گانگریس اس
کی طرف ایک کامیاب اور بڑی کاوش تھی۔ جس میں ایلن ورڈ نے سب سے پہلے عالمی
معیشت پر بھر پور لیڈ آف دی جس میں انہوں نے آج بین الااقومی سرمایہ داری
کا شدید ترین بحران اور اس سے جنم لینے والی عالمی سیاسی ، سماجی، معاشی
تباہی کو بڑی وضاحت سے بیان کیا کہ آج عالمی مالیاتی نظام اپنے انجام کو
پہنچ چکا ہے جس سے یہ اس کرہ ارض کی نا قابل برداشت اور نا قابل تافی
تباہی مچا رہا ہے۔ اب انسانیت کا تحفط اور عالمی دنیا کی ترقی صرف اور صرف
سو شلزم کے تحت ہی ہوسکتی ہے وگرنہ سرمایہ داری کے تحت یہ موجودہ بر بریت
مزید کسی بھیانک اژدھا کی طرح انسانیت کو نگلتی جائے گئی۔ آخیر میں ایلن
نے کامریڈ ز کے سوالوں کا جواب دیا۔ ایلن کے متر جم کے فرائض ہر بار کی
طرح اس بار بھی کامریڈ لال خان نے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کئے ۔ پہلے دن کے
آخیری سیشن میں کامریڈ آدم پال نے ریاست اور اس کے موجودہ بحران پر لیڈ آف
دی ۔ اس کانگریس کے تمام دستاویز ات آپ چنگاری ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر پڑھ
سکتے ہیں ۔ ایک بار پھر آپ کے اطلاع کے لیے آئی ایم ٹی ،، انٹر نیشنل
مارکسی رحجان ،، کو پاکستان میں ، جریدہ طبقاتی جدوجہد، بے روزگار نوجوان
تحریک ، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین ، پیپلز سٹوڈنیس فیڈ ریشن اور
پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ کارکنان، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنیش فیڈریشن ، یوتھ
فار انٹرنیشنل سوشلزم، اور چنگاری ڈاٹ کام تعمیر کرنے میں پیش پیش ہیں ۔
آئیں،، آئی ایم ٹی ،، کو تعمیر کرنے کے لیے اس میں شامل ہوں ا ور طبقاتی
اتحاد سے اپنی فتح کو ممکن بنائیں۔ جیت ہمارہ مقدر ہے ۔ انقلاب زندہ باد ۔
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد. معظم کاظمی
Open the Gallery
Source: Chingaree.com