Urdu translation of Pakistan: Doctors strike in a sick system (July 11, 2012).
[تحریر: لال خان، ترجمہ: عمران کامیانہ]
ڈاکٹروں کی حالیہ ہڑتال نے نہ صرف پنجاب میں صحت کے محکمے کو ہلا کے رکھ دیا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی عیاں کر دیا ہے کہ پاکستابن کے خسی حکمران طبقات کو عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی خیال نہیں ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے پنجاب میں ڈاکٹرز ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں معاشی طور پر بہترسمجھے جانے والے پیشوں سے وابستہ افراد کا معیارِ زندگی بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔
تیزی سے بڑھنے والی مہنگائی و افراطِ زر نے ینگ ڈاکٹرز کے لئے گزارا کرنا مشکل بنا دیا ہے۔جبکہ بورژوا میڈیا اپنا روائتی ردِ انقلابی کردار ادا کرتے ہوئے ڈاکٹروں کو مجرم بنا کے پیش کر رہا ہے۔ہڑتال پر گئے ڈاکٹروں کے خلاف زہر اگل کر عام آدمی کی رائے کو ان کے خلاف کیا گیا اور اس طرح سے شعبۂ صحت کی بربادی کے اصل وجوہات یعنی کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اسے چلانے والے حکمرانوں کو بچانے کی کوشش کی گئی۔
عدلیہ نے ریاستی ادارے کا کردار ادا کرتے ہوئے سٹیٹس کو، کو بچانے اور ہڑتال کو ختم کروانے کے لئے فیصلے صادر کئے۔شہباز شریف نے فوج کو بلانے میں دیر نہیں کی تاکہ فوج کا برباد ہوتا ہوا امیج بہتر بناتے ہوئے ایک بار پھر اسے ’’قوم کا نجات دہندہ ‘‘ بنا کر پیش کیا جائے۔فوج نے اس ملک کی تاریخ میں شائد ہی کبھی اپنے اصل فرائض ٹھیک طریقے سے انجام دیئے ہوں۔لیکن سولین معاملات میں ٹانگ اڑا کر ’’مالِ غنیمت‘‘ اکٹھا کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ایسے حالات میں جب فوج ڈرون حملوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے، انہیں نوجوان ڈاکٹروں کی ہڑتال توڑنے کے لئے بلایا گیا جو باعزت تنخواہ اور سروس سٹرکچر کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔اس استحصالی نظام کو بچانے کے لئے سر گرم پولیس سمیت ریاست کے دوسرے اداروں کا مکروہ چہرہ کھل کے سامنے آیا۔اپنے بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے ڈاکٹروں پر ہونے والا جبر و تشدد سب نے ٹیلیوژن کی سکرینوں پر دیکھا۔یہ تمام تر ظلم و تشدد، دراصل اس ریاست کے اصل کردار کو عیاں کرتا ہے جو لوٹ مار پر مبنی اس نظام پر کوئی حملہ برداشت نہیں کر سکتی۔
حکمران طبقے کے تمام تر دلال، دلیل کے طور پر یونان میں طبیبوں کی طرف سے لئے جانے والے اس حلف (Hippocratic Oath)کو پیش کر ہے تھے جو کئی صدیوں سے میڈیکل کے شعبے میں ایک رسوماتی شکل اختیار کر گیا ہے۔ایک ایسی ریاست اور معاشرے میں جہاں تمام تر حلف توڑنے کیلئے لئے جاتے ہیں یہ دلیل کسی بکواس سے کم نہیں ہے۔یہ حلف اپنی صداقت اور اعتمادیت کھو چکے ہیں۔کرپشن اور جرائم میں غرق ایک معاشرے کی سیاسی اشرافیہ اور بڑے بڑے ریاستی اداروں کے سربراہ اپنا عہد اور حلف توڑنا گناہ نہیں بلکہ روایت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ڈاکٹروں پر حلف کی خلاف ورزی کا الزام لگانے والے خود سر سے پیر تک کرپشن اور بد عنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ڈاکٹروں کو دیوار کے ساتھ لگا یا گیا اور انہوں نے ہڑتال کا راستہ تب منتخب کیا جب مطالبات منوانے کے تمام تر پر امن راستے ان پر بند کر دئے گئے تھے۔
شعبۂ صحت (Health Sector)کی بربادی کی اصل ذمہ دار یہ ریاست ہے جو عوام کو باعزت علاج معالجے کی سہولیات جیسے بنیادی حقوق دینے میں ناکام رہی ہے۔UNDPکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 82%لوگ غیر سائنسی طریقوں (Non Scientific Medication)سے علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ ہر سال زچگی کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پانچ لاکھ خواتین لقمہ اجل بن جاتی ہیں جبکہ اوسطاً 1132بچے غذائی قلت اور علاج معالجے کی سہولیا ت کی عدم دستیابی کی وجہ سے دم توڑتے ہیں۔دنیا میں صحت کی مد میں کم ترین بجٹ پاکستان میں مختص ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں حالات اور بھی زیادہ خوفناک ہیں۔
صحت کے لئے سب سے زیادہ بجٹ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں 1970ء کی دہائی میں مختص کیا گیاجو کہ 42.3% تھا۔اس کے بعد آنے والی تمام تر حکومتوں نے جو اقدامات کئے وہ صحت کی شعبے کی ابتری اور بربادی کا باعث ہی بنے۔آزاد منڈی کی معیشت اور ’’نیو لبرل‘‘ معاشی پالیسیوں کے تحت ہیلتھ سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری کا آغاز شروع ہوا۔اس وقت یہ سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور 1980ء کے بعد سے نجی ہسپتالوں اور کلینکس کی تعداد میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔صحت کے شعبے کو کمرشلائز کرنے سے آبادی کا بہت بڑا حصہ بہتر علاج کی سہولیات سے محروم ہو گیا ہے۔غریب طبقات علاج کی بہتر سہولیات کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف بوسیدہ انفراسٹرکچر کے باعث گلی محلوں اور سڑکوں پر جمع ہونے والا گندا پانی اور کوڑے کے ڈھیر مسلسل بیماریاں پھیلا رہے ہیں۔
لیکن یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹروں کے درمیان بھی طبقاتی تقسیم موجود ہے۔زیادہ تر سینئر ڈاکٹرز بھاری منافع کماتے ہوئے دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔یہ سینئر ڈاکٹرز نہ صرف مریضوں کا خون چوستے ہیں بلکہ فارما سوٹیکل کمپنیز اور لیبارٹریوں سے بھی کمیشن وصول کرتے ہیں۔غیر ضروری ادویات تجویز کرنا ایک معمول بن چکا ہے کیونکہ ادویات کی زیادہ فروخت سے دوا ساز کمپنیوں کے منافعوں میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ طبقاتی تضاد کھل کر ہڑتال کے دوران سامنے آیا جب مریضوں کو ’’گھیر‘‘ کے سرکاری ہسپتالوں سے نجی ہسپتالوں تک لے جانے والے سینئر ڈاکٹرز نے دائیں بازو کی رجعتی حکومت کے ساتھ مل کر ہڑتال کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کی۔
حقیقت یہ ہے تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات موجودہ حکمرانوں اور اشرافیہ کی تر جیحات میں شامل ہی نہیں۔تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا ڈاکٹروں کی ہڑتال کی طرف رویہ حقارت آمیز تھا۔اگر حکمران چاہیں بھی تو موجودہ معاشی نظام میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو علاج کی مناست سہولیات مفت فراہم کی جا سکیں۔بحران کا شکار سرمایہ دارانہ نظام میں منافعوں کی حوس کبھی پوری نہیں ہو سکتی اور معاشرے کا ہر شعبہ اس حوس کی بھینٹ چڑھتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹروں کویہ سیکھنا ہو گا کہ وہ بھی محنت کش طبقے (Working Class)کا حصہ ہیں۔انہیں تمام تر پیشہ وارانہ تعصبات کو مٹانا ہو گا۔اگر محنت کش طبقے کے دوسرے حصے بھی اس ہڑتال میں شامل ہوتے تو آج نتائج بالکل مختلف ہو سکتے تھے۔پورے کا پورا معاشرہ اس گلے سڑے نظام کے عذابوں میں مبتلا ہے۔صرف محنت کش طبقہ ہی متحد ہو کر اس نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے تمام تر غربت، محرومی اور استحصال کا خاتمہ کر سکتا۔
ڈیلی ٹائمز، 15جولائی 2012