’’محنت کشوں کو اپنی نجات اور فلاح کے لیے مزدور ریاست کی ضرورت ہے‘‘
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپئین (PTUDC) کراچی ڈویژن کا ایک ہنگامی اجلاس مورخہ 13 ستمبر بروز جمعرات ملیر آفس میں منعقد ہوا جس کی صدارت مرکزی صدر ریاض حسین بلوچ نے کی۔اجلاس میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں سینکڑوں محنت کشوں کے جانی ضیاع پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور ذمہ داران کو فوری طور پر گرفتار کر کے قرار واقعی سزادینے کا مطالبہ کیا گیا۔اجلاس میں مرکزی صدر کے علاوہ سندھ کے صوبائی جنرل سیکرٹری زبیر رحمان نے بھی شرکت کی۔پاکستان سٹیل سے CBA یونین کے جوائنٹ سیکرٹری اکبر میمن اور KESC لیبر یونین کے رہنما کرامت حسین بھی اس موقع پر موجود تھے۔مقررین نے کہا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن نے سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس نظام پر براجمان مٹھی بھر اقلیتی حکمران طبقہ،سرمایہ دار اورمالکان اپنی لوٹ مار کی ہوس میں بنیادی انسانی حسیات سے محروم ہو کر درندگی پر اتر آئے ہیں اور وہ انسانی بقا کے لیے زہرِ قاتل بن چکے ہیں۔ جلنے والی فیکٹری کے تمام دروازے بند رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مالکان اپنے خون پسینے سے فیکٹری چلانے والے محنت کشوں کو چور سمجھتے ہیں اور انہیں ان مزدوروں کی زندگیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔اس نظام میں فیکٹریاں محنت کشوں کے لیے کام کی جگہیں نہیں بلکہ قتل گاہیں بن چکی ہیں۔زبیر رحمان نے کہا کہ ان 300 کے لگ بھگ محنت کشوں کے قتل کا مقدمہ صرف فیکٹری مالکان پر ہی نہیں درج ہونا چاہیے بلکہ اس میں پرویز مشرف اور اس کی ساری کابینہ کو بھی مجرم قرار دیا جانا چاہیے جنہوں نے 2003ء سے الیکٹرک انسپیکشن پر پابندی لگا دی تھی بلکہ اس کے بعد بننے والی حکومت اور اس کی ساری کابینہ پر بھی قتل کے مقدمات درج کیے جائیں جو گزشتہ پانچ سالوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر پانی سے لے کر بجلی تک عوام کا کوئی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکے۔انہوں نے اپنی حکومت میں سرمایہ داروں کی لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لیے تو بے شمار اقدامات کیے مگر محنت کشوں کی حا لتِ زار سے یکسر صرفِ نظر کیے رکھا۔وہ تمام بیوروکریٹ بھی سزا کے حقدار ہیں جو محنت کشوں کے نام پر بننے والے اداروں میں لاکھوں روپے کی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور ان اداروں کو سرمایہ داروں کی کٹھ پتلیاں بنا دیا گیا ہے اور محنت کش جانوروں سے بھی بدتر زندگیاں گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔متاثرہ فیکٹری میں زندہ بچ جانے والے مزدوروں کے بیانات سے یہ واضح ہو گیا کہ کم سے کم تنخواہ 8000 کر دینے کے حکومتی دعوے بے بنیاد ہیں اور ان پر کہیں بھی عمل نہیں کیا جا رہا بلکہ محنت کش 3000 تک کی حقیر ترین اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔اجلاس کے شرکا نے مزید مطالبہ کیا کہ تمام غیر قانونی فیکٹریوں کے لائسنس منسوخ کیے جائیں،ان فیکٹریوں کو قومیا کر ان کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے تاکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوسکیں۔اس سانحہ میں ملوث تمام ذمہ داران کو تختہ دار پر لٹکایا جائے اور پرائیویٹ سیکٹر میں تمام محنت کشوں کو سوشل سکیورٹی میں رجسٹر کیا جائے اور انہیں علاج اور بچوں کی تعلیم سمیت دیگر تمام ضروریات اور قانونی مراعات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔اس کے علاوہ تمام فیکٹریوں میں محنت کشوں کی ٹریڈ یونینز کو رجسٹرڈ کروا کر CBA کے انتخابات کروائے جائیں تاکہ محنت کشوں کے منتخب نمائندے لیبر ڈیپارٹمنٹ اور دیگر اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھ سکیں۔ریاض حسین بلوچ نے کہا کہ شہدا کے لواحقین کو 3 کی جگہ 15 لاکھ ادا کیے جائیں اور زخمیوں کے تمام تر علاج کی ذمہ داری سندھ حکومت کو لینی چاہیے۔مزید یہ کہ لاکھوں روپے کے معاوضے بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کر سکتے بلکہ محنت کشوں کو اب اپنی نسلوں کی بقا کے لیے خیرات،بھیک یا صدقات کی نہیں بلکہ وسائل کی ملکیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود اپنے محنت سے تخلیق کردہ پیداواری قوت کو ذاتی ملکیت سے نکال کر منافع خوری کی بجائے اجتماعی ترقی و فلاح کے لیے استعمال کر سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سانحے میں بھتہ خوروں کے ملوث ہونے کی بھی اطلاعات ہیں اور اگر یہ خبر درست ہے تب بھی اس پر پردہ ڈال دیا جائے گا اور انہیں کبھی بھی سزا نہیں مل سکتی کیونکہ بھتہ خوروں کے سرغنہ خود اس مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ٹریڈ یونین لیڈرشپ کو چاہیئے کہ وہ اس نظام پر لوگوں کی توقعات بنانے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کو منظم کریں تاکہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے محنت کشوں کی نسلوں کی بقا کو ممکن بنایا جا سکے۔
مزید برآں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کے مرکزی وائس چئر مین کامریڈ چنگیز ملک نے راولپنڈی سے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ کراچی گارمنٹ فیکٹری کے اندوہناک واقعے نے حکمرانوں اور اُن کے پرودہ سرمایہ داروں کے چہروں کو مزید بے نقاب کردیا ہے۔ اپنے منافع کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے فیکٹری مالکان نے کبھی بھی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ فیکٹری میں کسی بڑے یا چھوٹے حادثات کی صورت میں رونما ہونے والے واقعہ سے نمٹنے کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات موجود نہیں تھے۔ مزدور کبھی بھی اپنے حق کے لئے آواز بلندنہ کر سکیں مزدور یونین ہی ختم کرواڈالی گئی واقعہ کے بعد حکومت کی نااہلی کا ثبوت یہ ہے۔ کہ متعدد فائربریگیڈ گاڑیوں میں پانی ہی نہیں تھا۔ اس تمام تر واقعے کی ذمہ داری فیکٹری مالکان اور حکومتِ وقت پر عائد ہوتی ہے۔ بروقت انتظامات کئے جاتے تو بہت سی قیمتی جانوں کو بیچایا جاسکتا تھا۔ انہوں نیمطالبہ کیا کہ جاں بحق ہونے والے مزدوں کو کم سے کم 15لاکھ اور زخمی ہونے والے مزدوروں کو 10لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کیا جائے۔ اور فیکٹری مالکان اور نااہل حکومتی اہل کاروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے۔
Source: The Struggle (Pakistan)