سولہ برس قبل 20ستمبر1996ء کی شام جب رات میں ڈھل رہی تھی، اس وحشی ریاست نے بیالیس سالہ میر مرتضیٰ بھٹو کا بدن گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اسے پاکستانی سیاست کی سب سے معروف رہائش گاہ ، اس کے گھر 70کلفٹن کراچی کے سامنے اسکے چھ ساتھیوں کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اس پر ستم یہ ہے کہ اس وقت اس کی بہن ملک کی وزیر اعظم اور چیف ایگزیکٹیو تھی۔ اس دن سے سازش کی ان گنت تھیوریاں (Conspiracy Theories)اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن کوئی بھی مجرم پکڑا نہیں گیا اور نہ ہی کوئی قانونی کاروائی ہوئی ہے ۔ ریاستی اداروں کے جن افراد کو اس قتل میں نامزد اور گرفتار کیا گیا تھا وہ آج بھی آزاد پھر رہے ہیں۔
مرتضیٰ کی زندگی پر آشوب حالات میں مشکلات سے لڑتے ہوئے گزری۔ جب اس کے والد اور پاکستان میں بالغ حق رائے دہی کے ذریعے منتخب پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سامراج کے مکار پٹھو اور اپنی جابرانہ آمریت کو طول دینے کے لیے اسلام کو استعما ل کرنے والے جنرل ضیا الحق نے برطرف کر کے 1979ء میں تختہ دار پر قتل کر دیا تو مرتضیٰ کی زندگی بکھر کر رہ گئی۔اس ایک کربناک واقعے نے اسے سیاست کی پر انتشار دنیا میں دھکیل دیا۔اپنے باپ کی جان بچانے کی خاطر حمایت حاصل کرنے کے لیے سربراہانِ مملکت، مشہور عالمی اداروں اور سیاسی شخصیات سے اپیلیں بے سود ثابت ہوئیں اور اس کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔امریکی سامراج کا حمایت یافتہ درندہ سفت، بزدل اور پرہیز گار جرنیل انتہائی بے رحم تھا۔ اس وقت امریکہ اور ضیاء مل کر سامراجی مفادات کی محافظ اس جابرانہ آمریت کو قائم رکھنے کے لیے اسلام کو استعمال کر رہے تھے۔
اپنے باپ کے دردناک قتل کا انتقام او ر 1967ء میں قائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد میں جڑے انقلابی سوشلزم کے مشن کو آگے بڑھانے کی خاطر مرتضیٰ نے مسلح جدوجہد کا دشوار گزار راستہ چنا۔ تاہم کئی کوششوں کے باوجود اس کی تنظیم’’ الذوالفقار‘‘ اس جابر آمر اور اس کے متلق العنان اقتدار کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ اس حکومت کے مکار اور بے غیرت ماہرین نے تشدد کے ان انفرادی اقدامات کو پاکستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں پر اپنے ظالمانہ جبر میں مزید اضافے کے لیے کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔
1981ء میں پی آئی اے کے طیارے کے اغواء کے دوران، جس میں دو سو سے زائد سیاسی کارکنان کو ضیا ء کے بدنامِ زمانہ اقوبت خانوں اوراذیت گاہوں سے آزاد کروایا گیا، ایک فوجی کپتان قتل ہو گیا۔یہ وہ وقت تھا جب سماج میں جابر حکومت کے خلاف ایک عوامی بغاوت سلگ رہی تھی۔ سفاک آمریت نے اس کو بہانہ بناتے ہوئے اس ابھرتی ہوئی بغاوت کے خلاف انتہائی بے رحمانہ مظالم ڈھائے۔1983ء میں ضیاء حکومت نے ریاستی جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے محنت کشوں ، کسانوں اور نوجوانوں کا قتلِ عام کیا۔ صرف سندھ میں1063 افراد فوجی گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے قتل کئے گئے۔ لیکن انتہائی محدود کامیابیوں اور بڑھتے ہوئے ریاستی جبر کے آگے مسلح جدوجہد کرنے والی دیگر کئی گوریلا تنظیموں کی طرح الذوالفقار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ ایسے حالات میں سازشیں اور دھوکے ناگزیر ہوتے ہیں۔ لیکن مرتضیٰ کبھی متزلزل نہیں ہوا، تاہم مسلح جدوجہد کے تجربے سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کامیابی کے لیے ایک عوامی تحریک اور طبقاتی جدوجہد فیصلہ کن ہیں۔
امریکی سامراج اور ضیا الحق کے مابین تنازعے کا انجام فضائی حادثے میں ضیاء کی موت کی صورت میں ہوا۔1986ء میں بے نظیر کی آمد پر عوامی ابھار نے پہلے ہی اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال برپا کر دیا تھا۔ دلال مقامی اشرافیہ کے پالیسی سازوں کے ساتھ ساز باز کر کے سامراجیوں نے آسانی کے ساتھ ایک ظالم بورژوا فوجی آمریت کو ایک مفلوج جمہوری سیٹ اپ میں بدل دیا جو انہیں کی معاشی و سماجی بنیادوں اور سیاسی حکمت عملی پر مبنی تھی۔ بے نظیر کو بہت محتاط تیاریوں اور سٹیٹس کو ، کو قائم رکھنے کی ضمانت لینے کے بعد اقتدار میں شریک کیا گیا۔مرتضیٰ نے اس بات پر بغاوت کر دی کہ محکوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے قائم ہونے والی پارٹی اب سرمایہ دارانہ استحصال ، ا میر وں اور طاقتوروں کے اقتدار کو قائم رکھنے کا آلہِ کار بن رہی ہے۔ پی پی پی کا سامراج مخالف نکتہ نظر اپنی نفی میں بدل گیا۔ بیرونی اور مقامی سرمائے کی خوشامد نئی پی پی پی حکومت کی بنیادی پالیسی بن گئی۔مرتضیٰ نے واپس آنے اور اس انحطاتی رجحان کو پلٹنے کا عزم کیا۔ یہ ایک انتہائی جرات مندانہ اقدام تھا اور اس وحشی ریاست کا صریح دشمن ہونے کی وجہ سے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ وطن واپسی پر اسے اس کی بہن کے دور حکومت میں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا۔ میڈیا کی جانب سے اسے ڈرامائی اور ذاتی عناد کا رنگ دینے سے قطع نظر، در حقیقت ضیاء کی پرانی ریاستی مشینری کنٹرول میں تھی اور یہ سب کروا رہی تھی۔ ایلنور روز ویلٹ نے کہا تھا ’’میں معاف کر دیتی ہوں لیکن کبھی بھولتی نہیں‘‘ ، لیکن رجعتی بورژوا ریاست اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو نہ تو معاف کرتی ہے اور نہ ہی کبھی بھولتی ہے۔
واقعات کواس انداز میں ترتیب دیا گیا اور خاندانی تنازعات اور حالات کو اس طرح موڑا گیا کہ مرتضیٰ کو انتخابات میں پی پی پی کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اگرچہ اس نے سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشست آزاد حیثیت میں جیت لی، لیکن پی پی پی کے ساتھ اس کا پیدائشی رشتہ ٹوٹا نہیں تھا۔وہ ایک بے باک انقلابی پروگرام پیش کر رہا اور عوام کو متحرک کر کے پی پی پی کو محنت کشوں کی پارٹی کی حیثیت سے نئے سرے سے منظم کرنے کی کوشش میں تھا۔ جلاوطنی کے دور میں اس نے مارکس، اینجلز، لینن، ٹراٹسکی اور دوسرے انقلانی اساتذہ کا مطالعہ کیا تھا۔ کاکنان کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران اس نے اپنی بات کی وضاحت کے لیے 1918ء کے برسٹ لٹووسک کے مذاکرات سے ٹراٹسکی کا ایک طویل اقتباس پیش کیا۔ وہ کئی نظریاتی سوالات پر شدید بحثوں کے بعد بھی دلائل سننے کے لیے تیار ہوتا تھا۔ اس کا بائیں بازو کی جانب تیزی سے جھکاؤ اور پارٹی میں شامل عام عوام میں اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ریاست کے کچھ حصوں کے لیے بہت پریشان کن تھی۔ وہ اشتعال انگیزیوں کو خاطر میں نہ لاتا لیکن ملغوب بھی نہ ہوتا اور اپنے نکتہ نظر پر با وقار اور پر عزم انداز میں قائم رہا۔ لیکن اس نے ایک فیصلہ کن غلطی کر ڈالی کہ وہ خود کو بھٹو کے وفادار جتانے والے کچھ دھوکہ باز سیاسی لیڈروں کے بہکاوے میں آ گیا اور اپنی بہن بے نظیر کی زیر قیادت روائیتی سیٹ اپ سے الگ پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا ۔ ایسا کوئی کام نہیں تھا جو وہ پیپلز پارٹی میں نہیں کر سکتا تھا۔ مارکسی کیڈروں پر مبنی ایک نیٹ ورک تیار کر کے وہ پارٹی میں ایک انقلابی ونگ بنا سکتا تھا جو پارٹی کی سوشلسٹ نظریات کے حصول کی جدوجہد کی قیادت کرتے۔پارٹی چھوڑ کر وہ تنہا رہ گیا لیکن اس باوجود وہ سرمایہ دارانہ بالائی ڈھانچے اور سماجی و سیاسی نظام کے لیے وہ اب بھی ایک خطرہ تھاچناچہ ریاست کے کچھ حصوں نے انتقام کا خونریز وار کر ڈالا ۔
لینن کے بہت عرصہ قبل کہا تھا کہ ’’صرف احمق غلطیاں نہیں کرتے‘‘۔ مرتضیٰ میں خامیاں ضرور تھیں لیکن اس کی ذاتی خصوصیات اور دیانت داری شک و شبہ سے بالا تر ہیں۔ وہ دولت، اقتدار اور عہدوں کی ہوس سے بالاتر تھا۔ اس کی جرات اور عزم غیر متزلزل تھے۔ ٹراٹسکی نے کہاتھا کہ ’’کوئی بھی جدوجہد رائیگاں نہیں جاتی‘‘۔ مرتضیٰ نے پی پی پی کے بنیادی نظریات اور حقیقی عوامی روایات کے لیے لڑائی لڑی۔ اس کی جدو جہد اور اس کا خون ان نوجوانوں کے لیے ایک چیلینج ہیں جو پارٹی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور ان کے دل میں اس نظام کو بدلنے کی تڑپ موجود ہے۔ اس انقلابی تبدیلی کو مکمل کرنا اس نسل کا تاریخی فریضہ ہے، جس تبدیلی کے لیے مرتضیٰ لڑا اور مرا۔
Source: The Struggle (Pakistan)