سوات ایسی جگہ ہے جو لوگوں کے لئے طالبان اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے جانی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پہلے طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں کی آماجگاہ رہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کہ ایک لمبے عرصے تک یہ خطہ پاکستانی فوج اور اس کے اپنے ہی پیدا کردہ خونی درندوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ہے۔ لیکن اس لڑائی کے دوران بھی وہاں پر موجود کامریڈز نے اس عمل کی حقیقت کو ہر ایک موقع پر لوگوں کے سامنے ایکسپوز کیا اور وہاں کے غریب عوام کے ساتھ کھڑے رہے اور جبر کا نشانہ بھی بنتے رہے۔ مگر اب وہی خطہ مارکسی نظریات اور قوتوں سے لیس ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں 13، 14 اور 15جولائی کو تین روزہ نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد سوات میں کیا گیا۔جس میں پورے پاکستان سے 225کامریڈز شامل ہوئے۔
سکول کا آغاز کا مریڈ غفران احد نے کیا۔ جس کے بعد سکول کے پہلے سیشن کا آغاز ہوا جس کا ایجنڈا ’’عالمی تناظر‘‘ تھا۔ جس پر لیڈآف کا مریڈ آصف رشید نے دی اور سیشن کو چئیر کامریڈ ساجد عالم نے کیا۔کامریڈ نے اپنی لیڈ آف کا آغاز پچھلے دو سالوں میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے ذکر سے کیا اور عالمی سرمایہ داری کے بحرانات کا تجزیہ کیا۔کامریڈ نے کہا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کو امر واقعی قرار دینے والے بورژوا معیشت دان آج کے بحران میں ایک اندھی گلی میں پھنس چکے ہیں۔مصنوعی طریقوں سے نظام کو چلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں مگر ریاستی اور مالیاتی بحران شدت پکڑتا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں انقلابات کی فضا چل رہی ہے اور تحریکیں پھوٹ رہی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مصر اور میکسیکو میں ہونے والے انتخابات کا تجزیہ کیا اور پھر امریکی بحران اور اس میں میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کے کردار پر بات رکھی۔یورپ میں ریاستوں کے دیوالیہ پن کے حوالے سے بحث کی گئی اور اس کے چین پر معاشی اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔ چین میں بڑے پیمانے پر ہڑتالیں اور بغاوتیں رونما ہو رہی ہیں۔افغانستان میں سامرجی مداخلت اور اس کے اثرات پر بات کی گئی۔ اس وقت پوری دنیا تحریکوں، بغاوتوں اور انقلابات کی زد میں ہے اور اس میں سب سے اہم عنصر ایک بالشویک پارٹی کی کمی پر بحث کی گئی۔اس کے بعدسوالات اور کنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس میں پورے پاکستان سے آئے ہوئے کامریڈز نے حصہ لیا۔ فیصل آباد سے کامریڈ رضوان، دادو سے کامریڈ سہیل، اٹک سے کامریڈ شیرجان، سنٹر سے کامریڈراشد خالد اورکراچی سے کامریڈ طلحہ نے بحث میں حصہ لیا اور سوالات کے جوابات کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک ہونے والے اہم واقعات کا تجزیہ وتناظرتخلیق کیا۔ اس کے بعد کا مریڈ آصف رشید نے اس سیشن کا سم اپ کیااور کامریڈ نے باقی کے سوالات کے اوپر بحث کی اور ایک انقلابی پارٹی کے فقدان اور سٹالنسٹ تنگ نظری پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ درست نظریات کے بغیر کسی انقلاب کوپایا تکمیل تک پہنچانا ناممکن ہے۔
کھانے کے وقفہ کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز کیا گیا جس کا ایجنڈا’’انقلابِ چین کی تاریخ‘‘ تھا۔ اس پر لیڈ آف کا مریڈ راشد خالد نے دی جبکہ اس سیشن کو چئیر کا مریڈ ارتقاء نے کیا۔کامریڈ راشد نے لیڈ آف کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پوری انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے اور پوری انسانی تاریخ میں بالشویک انقلاب کے بعد چین کا انقلاب دوسرا بڑا واقعہ تھااور اس انقلاب کا مارکسی تجزیہ کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ چین کے آج سے ہر انسان آگاہ ہے مگر چین میں تحریکوں کی قدیم اور لمبی تاریخ موجود ہے۔ چین میں ہسپانوی، انگریز اور دیگر سامراجی ممالک کے تاجروں کی مداخلت کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہوااور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قدم جمائے۔مگر اندرونِ چین مداخلت کرنے کے لئے افیون اور منشیات کا سہارا لیا گیا۔1880ء کی دہائی میں چین میں چھوٹی صنعت کا آغاز ہواجس سے محنت کش طبقہ ظہور پذیر ہوا۔اس عرصہ میں چین کو باقی ممالک کے ساتھ بیشتر جنگیں بھی لڑنا پڑیں اور پھر شاہی خاندان کے پاس لگان بڑھانے اور ٹیکس لگانے کے علاوہ کوئی حل نہ تھا۔اس دوران چین میں سماجی و سیاسی شعور کے پنپنے کا آغاز ہوا اور نئے نظریات کا ظہور بھی، جس میں دائیں اور بائیں بازو کا فرق وا ضح ہوتا گیا۔اور پھر طبقاتی کشمکش بڑھنے کے سبب بغاوتیں ہونا شروع ہوئیں جن میں کسانوں نے بڑے پیمانے پر شرکت کی۔اور ایک نئی حکومت کی تشکیل ہوئی۔مگر پھر سامراجی مداخلت کے ذریعے ایک رجعتی حکومت قائم کی گئی۔مگر اس وقت پورے یورپ میں مارکسزم کی فضا تھی اور چین کے جو نوجوان یورپ پڑھ رہے تھے بہت متاثر ہوئے اور 1921ء میں چین میں کیمونسٹ پارٹی کا قیام ہوا۔CCPکو بہت پذیرائی ملی مگر یہ ماسکو کی سٹالنسٹ افسر شاہی کے مرہونِ منت رہی جس کی غلط پالیسیوں کے زیرِ اثر چین کے محنت کشوں کا سوشلسٹ انقلاب مرحلہ وار انقلاب کی بھینٹ چڑھ گیا اور مزدوروں کا قتلِ عام کیا گیا۔اب بھی چین کے اندر طبقاتی کشمکش عروج پر ہے اور چین کا عظیم محنت کش طبقہ اب کی بار جب میدانِ عمل میں آئے گا تو نہ صرف چین کے بلکہ پوری دنیا کے اندر کیمونسٹ انقلاب کی بنیاد رکھے گا۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کی روشنی میں مختلف کامریڈز نے کنٹری بیوشنز کئے۔ جن میں فیصل آباد سے کامریڈ مجاہدپاشا، لاہور سے کامریڈ ولید زاہد، کشمیر سے کامریڈ ابرار لطیف، سنٹر سے کامریڈ آدم پال، شمالی پنجاب سے کامریڈ حنا، پشاور سے کامریڈ رزاق شامل تھے۔ اس سیشن کا سم اپ کامریڈ راشد خالد نے کیا۔
دوسرے دن 14 جولائی کو سکول کا پہلا سیشن اور مجموعی طور پر تیسرا سیشن پاکستان تناظر پر تھا جس پر لیڈ آف کامریڈ ونود کمار کی تھی اور اس سیشن کو چیئر کامریڈ شہریار ذوق نے کیا۔ کامریڈ ونود نے لیڈ آف دیتے ہوئے پاکستانی ریاست کے معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانات کا تجزیہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت یہ ریاست تاریخ کے بدترین عہد سے گزر رہی ہے۔ جہاں اس کے پاس قرضوں کے علاوہ ملک کو چلانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ پاکستانی حکمران ان قرضوں کے حصول کے لئے سامراجی آقاؤں کے تمام تر احکامات کے آگے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور سامراجی اداروں کی پالیسیوں کو پاکستان کے محنت کش طبقے پر مسلط کئے جا رہے ہیں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، ری سٹرکچرنگ اور ایسے ہی دیگر پہاڑ روزانہ محنت کش طبقے پر توڑے جا رہے ہیں۔ توانائی کے بحران اور اسی طرح کے دیگر مسائل کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور حتیٰ کے ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ بیرون ملک بھیجتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں یہاں کے سیاست دانوں کے پاس عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے نان ایشوز کے علاوہ اور کوئی طریقہ نظر نہیں آ رہا اور یہ حکمران ہر روز ایک نیا شوشہ چھوڑ کر عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ زیادہ لمبے وقت تک محنت کش طبقے کو ان ہتھکنڈوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکے۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا مرحلہ آیا اور اس کے بعد ان سوالات کی روشنی میں کشمیر سے کامریڈ ریحانہ، شمالی پنجاب سے کامریڈ زبیر، سوات سے ملالہ یوسف زئی، ملتان سے کامریڈ ماہ بلوص، پشاور سے کامریڈ رزاق، سنٹر سے کامریڈ راشد خالد، راجن پور سے کامریڈ عاطف جاوید، کشمیر سے کامریڈ خلیل، فیصل آباد سے کامریڈ صفدر، دادو سے کامریڈ ہوشو اور کامریڈ آدم پال نے کنٹری بیوشنز کئے۔ اس سیشن کا سم اپ کامریڈ ونود نے کیا اور کامریڈز کے سوالات کے جوابات دئے۔
دن کے کھانے کے وقفے کے بعد اس دن کادوسرا سیشن اور مجموعی طور پر چوتھا سیشن ’’قدر، قیمت اور منافع‘‘ پر ہوا۔ اس ایجنڈے پر لیڈ آف کامریڈ عمران کامیانہ نے دی اور اس سیشن کو چیئر کامریڈ سعید خاضخیلی نے کیا۔ کامریڈ عمران نے لیڈ آف دیتے ہوئے پہلی انٹرنیشنل میں موجود مختلف رجحانات اور ان کی پوزیشنز سے بات کا آغاز کیا اور بتایا کے کس طرح کامریڈ کارل مارکس اور کامریڈ اینگلز نے اس عہد میں نظریاتی لڑائی کو جاری رکھا۔ اس کے ساتھ ہی کامریڈ نے یہ بھی بتایا کہ مارکس کی اس بحث کے پیچھے کیا محرکات تھے۔ اور کس طرح کارل مارکس نے اپنے مخالفین کے سوالات اور غلط نظریات کا تجزیہ کیا اور ان کا جواب دیا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح جان ویسٹن کے دلائل کا جواب مارکس نے اس کے دلائل کو رد کرتے ہوئے دیا اور پھر یہ واضح کیا کہ قیمتوں کا تعین مزدوروں کو ملنے والی اجرتیں نہیں کرتیں بلکہ قیمتوں کا تعین کسی بھی جنس کی قدر سے کیا جاتا ہے۔ اس کہ بعد کامریڈ نے قدر، قیمت، قوت محنت، اس کی قدر اور اس کی قیمت کے تعین کے طریقہ کار، منافعوں کے حصول کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور محنت کش طبقے اور سرمایہ داروں کے مابین طبقاتی لڑائی کی ہیئت اور مزدوروں کی اجرتوں کو بڑھانے کی جدوجہد اور اس کے ثمرات پر روشنی ڈالی۔ کامریڈ نے بحث کا اختتام مارکس کے ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ سرمائے کے محنت کے استحصال کا خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ اجرتوں کے اس نظام کا خاتمہ کر دیا جائے۔
لیڈ آف کے بعد کامریڈز نے ایجنڈے کے متعلق اپنے سوالات نوٹ کروائے جس کے بعد مختلف کامریڈز نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کنٹری بیوشنز کئے۔ جن میں کشمیر سے کامریڈ نوید شاہین، وسطی پنجاب سے کامریڈ صبغت اور کامریڈ ناصرہ، لاہور سے کامریڈ وسیم اقبال، ملتان سے کامریڈ علی، کراچی سے کامریڈ فارس، گوجرانوالہ سے کامریڈ علی بیگ اور دیگر شامل تھے۔ اس سیشن کا سم اپ کامریڈ عمران کامیانہ نے کیا۔
تیسرے اور آخری دن سکول کا واحد سیشن ’’نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار اور لائحہ عمل‘‘ کے ایجنڈے پر ہوا۔ جس پر لیڈ آف کامریڈ امجد شاہسوار نے دی اور اس سیشن کو چیئر کامریڈ راشد شیخ نے کیا۔ لیڈ آف کے بعد ریجنل رپورٹس اور ٹارگٹس لئے گئے اور اس کے بعد کامریڈ چنگیزملک، کامریڈ افتخار اور کامریڈ غفران احد نے سکول اور نوجوانوں کے کام کے حوالے سے اس بحث کو مزید آگے بڑھایا۔ سکول کو کامریڈ آدم پال نے سم اپ کیا۔ سکول کا اختتام انٹرنیشنل گا کر کیا گیا۔
- ویڈیو: عالمی تناظر
- ویڈیو: انقلابِ چین
- ویڈیو: پاکستان تناظر
- قدر، قیمت اور منافع
- نیشنل مارکسی سکول 2012ء: اختتامی الفاظ
Source: The Struggle (Pakistan)