آدم پال،06.02.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوات پاکستان کی چند خوبصورت
ترین وادیوں میں سے ایک ہے لیکن آج اس مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام میں
چند جنونی بنیاد پرست اس جنت کو تاراج کر رہے ہیں۔ اس وادی میں آج طالبان
کی حکمرانی ہے۔ پاکستانی فوج کے کچھ حصے ایک فوجی آپریشن کے بھیس میں
درحقیقت اس بنیاد پرست رجعت کی حمایت کر رہے ہیں۔ ”دہشت گردی کے خلاف
جنگ،، کے نام پر سامراجی جارحیت بھی ان رجعتی طاقتوں کو مزید قوت دیتی ہے۔
جوں جوں عالمی سرمایہ داری کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے مقامی طور
پر مالیاتی سرمائے کے ان دھڑوں کے درمیان تضادات بھی شدت اختیار کر رہے
ہیں۔ان خانہ جنگیوں اور دہشت گردی میں شدت اسی اقتصادی بحران کی عکاسی
کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک سوات سیاحوں کے لئے جنت تھی لیکن اب یہ دلفریب
وادی جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے جو بڑی تعداد میں آ کر
طالبان میں شامل ہو رہے ہیں۔ لوئر سوات میں خوبصورت نظاروں میں سرسبز
پہاڑاور پھلوں کے باغات موجود ہیں جہاں سے برف میں ڈھکی چوٹیاں نظر آتی
ہیں۔ جبکہ اپر سوات میں دریا بل کھاتی ہوئی ندیوں میں تقسیم ہوتا ہوا نظر
آتا ہے اور پہاڑوں میں موجود صنوبر کے درخت ڈھلوانو ں پر ایستادہ نظر آتے
ہیں۔ مچھلیاں پکڑنے یا کوہ پیمائی کے لئے اس سے بہتر جگہیں بہت کم ہیں۔
ایک تاریخ دان کے لئے بھی یہاںہزاروں ایسے آثار موجود ہیں جو اس وادی کی
5ہزار سالوں پر پھیلی تاریخ کی گواہی دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہاں کی
سترہ لاکھ آبادی جہنم کی زندگی گزار رہی ہے۔ تقریباً سات لاکھ لوگ یا
توخود ہجرت کر گئے ہیں یا پھر ہجرت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ مولانا
فضل اللہ کی قیادت میں طالبان یہاں کے مقامی لوگوں پر بربریت مسلط کر رہے
ہیں اور ان کے احکامات نہ ماننے پر انسانوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ ہر طرف خوف
کی حکمرانی ہے۔ ان مسلح لوگوں نے لڑکیوں کے سکولوں پر پابندی لگا دی
ہے،عورتوں کو گھروں میں قید کر دیا ہے اور اپنی مرضی کے اسلام کو مسلط
کرنے کے لئے قتل و غارت کر رہے ہیں۔ مینگورہ میں گرین چوک کا نام اب ذبح
خانہ چوک رکھ دیا گیا ہے جہاں ہر روز ایک دو لاشوں کو بجلی کے کھمبے کے
ساتھ لٹکا دیا جاتا ہے۔ان لاشوں کے ساتھ ایک پرچی بھی ہوتی ہے جس پر لکھا
ہوتا ہے کہ جو ان کو سورج غروب ہونے سے پہلے ہٹائے گا اس کے ساتھ بھی یہی
سلوک کیا جائے گا۔ اسلامی بنیاد پرست مسلسل لڑکیوں کے سکولوں اور سی ڈی
فروخت کرنے والی دکانوں پر حملے کر رہے ہیں۔جو بھی حجام کسی کی شیو بناتا
ہے اس کو قتل کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح کے دوسر ے وحشیانہ اقدامات آئے روز
کئے جاتے ہیں۔ روزنامہ ڈان تین فروری کی اشاعت میں لکھتا ہے،۔ ”مردان سے
اوپر کی جانب سفر ممنوعہ حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔سارا رستہ بربادی کا
منظر دکھائی دیتا ہے۔وہ جگہ جو اپنی زرخیز زمین اور جادوئی پہاڑوں کی وجہ
سے مشہور تھی آج وہاں خوف کی حکمرانی ہے۔ ایک سرسری سا دورہ بھی یہ احساس
دلانے کے لئے کافی ہے کہ مذہبی بنیاد پرست وادی پر جلد قابض ہو جائیں
گے۔خاص طور پر وہ لوگ جو شہروں میں رہتے ہیں وہ زندہ رہنے کی امنگ کھو
بیٹھے ہیں،،۔ پاکستان کی فوج نے ’راہِ حق، کے نام سے ایک آپریشن شروع کر
رکھا ہے لیکن اس کا ہدف شہری آبادی ہے اور اس آپریشن کی وجہ سے بنیاد
پرستوں کو تقویت مل رہی ہے۔اس آپریشن کی بنیاد اناتیس جولائی دو ہزار سات
کو رکھی گئی جبکہ اس کا پہلا مرحلہ نومبر دوہزار سات کے آغاز میں شروع
ہوا۔ اس آپریشن کے آغاز پر فوج کے ترجمان برگیڈئر جاوید ناصر نے کہا تھا
کہ وادی سوات میں سات سوسے آٹھ سو طالبان ہیں اور ہم ان سے آسانی سے نمٹ
لیں گے۔ اس وقت یہ آپشن اپنے تیسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور فوج کی
دو ڈویژن(17اور 37)فوج وہاں موجود ہے لیکن طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا جا
رہا ہے۔ اس وقت وادی میں پنتالیس ہزار سے زیادہ فوج موجود ہے جو ہزار سے
کم طالبان سے نپٹنے کے لئے کافی ہے ۔ فوج گن شپ ہیلی کاپٹرز،بھاری توپ
خانے اور مارٹر گنوں کا استعمال بھی کر رہی ہے لیکن طالبان کو ختم نہیں
کیا جا سکا جبکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ فضل اللہ گل پیوچار کی پہاڑی چوٹی پر
رہتا ہے اور وہیں اس کا مرکز ہے۔ طالبان کا سربراہ فضل اللہ باقاعدگی سے
ایف ایم ریڈیو پر اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہے جس کے ذریعے وہ اپنے خطبے
اور احکامات لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ پورے علاقے میں چار ایف ایم ریڈیو چل
رہے ہین جن پر فضل اللہ کے نائب احکامات جاری کرتے ہیں۔مالاکنڈ کے لئے
علیحدہ نشریات ہیں جبکہ سوات میں شموزئی،مٹہ اور خوازہ خیلہ کے لئے علیحدہ
علیحدہ نشریات ہیں۔ بڑی تعداد میں فوج کی موجودگی کے باوجود طالبان پہلے
کی طرح اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پیغام کے لئے خوف کا ذریعہ
استعمال کرتے ہیں ، درحقیقت خوف ہی اصل پیغام ہے۔مالاکنڈ میں فضل اللہ کے
نائب شاہ دوران کو ساڑھے آٹھ سے گیارہ بجے رات کے دوران ریڈیو پر سنا جا
سکتا ہے۔ اپنی نشریات میں شاہ دوران پہلے ان لوگوں کے نام لیتا ہے جو اس
کے رجعتی احکامات پر عمل نہیں کر رہے اور ان کے لئے سزاو¿ں کا اعلان کرتا
ہے۔ ان سزاو¿ں پر اگلے دن عملدرآمد کیا جاتا ہے جن میں لوگوں کو ذبح کرنا
بھی شامل ہے۔پھر وہ ان لوگوں کے نام لیتا ہے جنہوں نے معافی مانگ لی ہے
اور ’درست‘ راہ پر لوٹ آئے ہیں۔آخر میں’ خوشخبریوں‘ کا مرحلہ آتا ہے جب وہ
مختلف سکولوں اور دکانوں پر ہونے والے بم دھماکوں کی اطلاع دیتا ہے۔نشریات
کے اختتام پر جہادی ترانے سنائے جاتے ہیں۔ شاہ دوران نے اپنے موبائل نمبر
بھی دے رکھے ہیں جہاں اس سے رابطہ کر کے شکایا ت درج کروائی جا سکتی ہیں۔
ریڈیو چینل کی نشریات اور طالبان کو اسلحے اور بارود کی مسلسل فراہمی اور
ان کی سٹریٹجک حمایت اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان فوج کے
کچھ حصے اس بربریت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس وحشت کی ہر طریقے سے
حمایت کر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک دو سو سات شدت پسند ہلاک
ہو چکے ہیں جبکہ تین سو پچیس سکیورٹی کے افراد اور دو ہزار عام شہری قتل
ہوئے ہیں۔ ڈان کے مطابق،”مولانا کے پیروکار وادی سوات کے اسی فیصد حصے پر
قابض ہیں،،۔ سوات میں موجود طالبان مقامی تاجروں سے اور شہریوں سے ٹیکس
بھی وصول کر رہے ہیں اور اپنی عدالتیں چلا رہے ہیں۔ موبائل فون کمپنیاں
بھی سکیورٹی کے لئے طالبان کو فی موبائل ٹاور تیس ہزار روپے ماہانہ ادا
کرتی ہیں۔ شہریوں سے ٹیکس نقد یا پھر اسلحے کی شکل میں لیا جاتا ہے۔ یہ
طالبان دراصل مقامی جرائم پیشہ لوگ ہیں جو آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی
اے کی معاونت سے بنیاد پرستوں کا روپ دھار کر لوٹ مار کر رہے ہیں ۔ ان
رجعتی طاقتوں کا اصل مقصد پختونخواہ کے عوام کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا ہے
تا کہ وہ بنیادی مسائل کے لئے کوئی احتجاج نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ یہ
علاقہ پورے خطے کے جرائم پیشہ لوگوں کا مرکز بن چکا ہے جو اس لوٹ مار میں
اپنا حصہ ڈالنے کے لئے جمع ہوتے جا رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان میں
سے اکثر پیشہ ور مجرم ہیں جو اغوا، کار چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں
ملوث رہے ہیں اور اب طالبان کا حصہ ہیں۔ سوات میں فضل اللہ کا ایک کمانڈر
رحیم داد عرف کچ ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک بد نام زمانہ بین الصوبائی کار
چور تھا۔ اسی طرح سوات میں ایک باچا نامی طالب مالاکنڈ میں مفرور اشتہاری
تھا جو ڈکیتی کی وارداتوں میں مطلوب تھا اس نے ملاکنڈ کے چند با اثر لوگوں
کے ذریعے اپنے گھر والوں کو 12ہزار ڈالر اور زیورات بھجوائے ہیں۔ یہ جرائم
پیشہ لوگ منشیات کے کاروبار میں بھی ملوث ہیں۔ ان بنیاد پرست طاقتوں کے
طریقہ کار اور لائحہ عمل میں آئی ایس آئی اور دوسری خفیہ ایجنسیوں کا گہرا
عمل دخل ہے۔ بظاہر گھروں، سکولوں اور دکانوں کی بربادی اور رجعتی قوانین
کا مسلط کئے جانا پاگل پن اور جنون لگتا ہے لیکن اس کے باجود اس جنون میں
ایک سنجیدہ لائحہ عمل ہے۔یہ طاقتیں سماج کی پسماندہ پرتوں کی حمایت لینے
کی پوری کوشش کر رہی ہیں تا کہ اپنی طاقتوں کو بڑھاتے ہوئے شہروں کی جانب
بڑھا یا جا سکے۔ یہ کبھی کبھار جیب تراشوں، چوروں اور مخصوص چکلوں پر بھی
حملے کرتے ہیں تا کہ پسماندہ پرتوں کی حمایت حاصل کی جا سکے لیکن اس کے
باوجود عوام کی ان طاقتوں سے نفرت میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ
لوگ سوات کی ہزاروں سال پرانی تاریخ اور ثقافت کو تباہ کرنے کی بھی پوری
کوشش کر ہے ہیں تا کہ سماج کے تمام خوبصورت پہلوو¿ں کو دفن کر دیا
جائے۔ان خوبصورت پہلوو¿ں میں ایک کلاسیکی رقص ہے جو مرد اور عورتیں شادی
بیاہ اور دوسری تقریبات کے موقع پر کرتے ہیں۔مینگورہ کے بھانڈ محلہ میں
رہنے والے فنکار کئی نسلوں سے اس رقص اور موسیقی کے فن سے وابستہ ہیں۔
طالبان نے نہ صرف اس محلے کو تباہ کر دیا ہے بلکہ ایک مشہور رقاصہ شبنم کو
بھی قتل کر دیا ہے۔چار دوسری رقاصائیں بھی قتل کر دی گئیں۔اب زیا دہ تر
موسیقار اور رقاصائیں کراچی ہجرت کر چکے ہیں اور ایک تکلیف دہ زندگی گزار
رہے ہیں۔ سوات میں موجود وحشت اب مالاکنڈ تک پھیل رہی ہے ۔ مالاکنڈ ایجنسی
سٹریٹجک حوالے سے اہم ہے کیونکہ سوات، دیر، چترال اور باجوڑ کو جانے والا
آسان رستہ یہیں سے ہے۔ لوئر سوات سے نیچے واقع اس علاقے میں صنوبر اور
زیتون کے گھنے جنگلات ہیں۔ طالبان نے مالاکنڈ میں عدالتوں کو حکم نامہ
جاری کر دیا ہے کہ انہیں فوری طور پر بند کر دیا جائے۔ وکلاءکو بھی
عدالتوں میں پیش ہونے پر سخت نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ اس کے
علاوہ مین روڈ پر آہستہ آہستہ فوجی چوکیاں نمودار ہونا شروع ہو چکی ہیں جن
کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کی آمد میں اب زیادہ دیر نہیں۔ سی ڈی کی دکانوںکو
دھمکیاں اور بم دھماکے ، بے گناہ لوگوں کا قتل عورتوں کے بارے میں رجعتی
احکامات پہلے سے ہی جاری کئے جا رہے ہیں۔ سوات اور مالاکنڈ میں مدرسے پہلے
بھی بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ
مدرسے ضیاءدور میں افغان جہا د کے دوران کمائی کا بڑا ذریعہ بن گئے تھے۔جب
امریکی حکومت نے لاکھوں ڈالر دے کر جماعت اسلامی سے افغان مجاہد تیار
کروائے تھے۔ منشیات کی فروخت اور دوسری مجرمانہ کاروائیوں سے یہ ڈالر اب
بھی آ رہے ہیں۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کی خوراک اور لباس کا خرچہ نہیں
اٹھا سکتے وہ انہیں مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں جہاں سے خفیہ ایجنسیاں اور
بنیاد پرست اسلامی جماعتیں خود کش بمبار اور بنیاد پرست قوتوں کی کمک تیار
کرتی ہیں۔ اب تو ان خود کش بمباروں کو ذاتی تنازعات ختم کرنے کے لئے بھی
استعمال کیاجا رہا ہے۔حال ہی میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں قبائلی
علاقوں سے خود کش بمبار بڑی رقم کے عوض خرید کر ذاتی دشمنوں پر حملہ کیا
گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق بعض اوقات کسی بڑے گاہک کو دکھانے کے لئے خود
کش بمبار کو تجربے کے لئے کھلے میدان میں بھی اڑا دیا جاتا ہے۔ جارج بش کی
’دہشت گردی کیخلاف ،جنگ کے بعد سے دہشت گردی کی یہ ’صنعت‘ تیزی سے فروغ
حاصل کر رہی ہے۔ اسلحے اور خود کش بمبار کی جیکٹوں کی فروخت میں اضافے سے
یہ ’صنعت‘بڑے منافع حاصل کر رہی ہے اور دہشت گردی کے نئے طریقے بھی ایجاد
کئے جا رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں امریکی اور نیٹو افواج کے ڈرون حملے اس
جنگ کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں اور بموں، جنگی جہازوں اور ڈرون کی فروخت
کے سلسلے کو قائم رکھتے ہیں۔ ان حملوں کا بنیادی مقصد بھی دہشت گردی کو
ختم کرنے کی بجائے اسے جاری رکھنا ہے۔ دیر کے ایک تھانیدار نے اخبارات میں
یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر مجھے موقع دیا جائے تو میں سوات میں ایک ہفتے میں
طالبان کو ختم کر سکتا ہوں ورنہ مجھے ایک ہفتے بعد پھانسی دے دی جائے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور معیشت کے زوال میں ملٹی نیشنل کمپنیاں
اور مقامی سرمایہ دار آنے والے دنوں میں طالبان کو اپنے لئے استعمال کر
سکتے ہیں تاکہ محنت کش اپنے حقوق کے لئے آواز نہ اٹھا سکیں اور انہیں ا
پنے منافع بڑھانے کے لئے سستی ترین مزدوری میسر آجائے۔ سوات اور قریبی
علاقوں میں پہلے ہی سیاسی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں اور بائیں بازو
کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر حملے کئے جا رہے ہیں ۔ کچھ کو قتل کر دیا
گیا ہے اور اکثر ہجرت کر چکے ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کے پاس ان سے نپٹنے کے
لئے ایجنڈا نہیں اور آہستہ آہستہ وہ ان رجعتی طاقتوں کے سامنے سر نگوں ہو
رہی ہیں۔اس کی ایک اہم وجہ ان کی اس نظام کے ساتھ مصالحت اور فوجی جرنیلوں
اور امریکی آقاو¿ں کی غلامی ہے۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اس
وقت پختونخواہ میں مخلوط حکومت میں ہیں۔ وفاقی حکومت میں بھی وہ مشترکہ
طور پر اقتدار میں ہیں جبکہ ان کے ساتھ ہی فضل الرحمان کی بنیاد پرست
جماعت جمعیت علمائے اسلام بھی شریک اقتدار ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی
میں سے کوئی بھی اس مسئلے کا حل نہیں دے رہی جو دراصل انسانیت کا مسئلہ بن
چکا ہے۔اس کے مقابلے میں وہ مصالحت کے مختلف فارمولے دے رہے ہیں جو ان کی
کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ مالاکنڈ جو پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے ، سے منتخب
ہونے والے تمام اراکین اسمبلی علاقہ چھوڑ کے جا چکے ہیں۔ اس سارے بحران
میں صرف مارکسزم کی قوتیں ایک واضح حل پیش کر رہی ہیں اور جرات کے ساتھ ان
رجعتی قوتوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی مارکسسٹ مہنگائی ، بیروزگاری
اور صحت اور تعلیم جیسے دوسرے بنیادی مسائل پر بھی آواز بلند کر رہے ہیں۔
مارکسسٹ پیپلز پارٹی کے اندر بھی اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور ساتھ ہی
ٹریڈ یونین اور بیروز گار نوجوانوں کو بھی منظم کر رہے ہیں۔اس لڑائی میں
ریاست، فوج، سامراج اور طالبان سبھی ان کے خلاف ہیں اور انہیں خطرناک
نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود انقلابی سوشلزم کی طاقتیں
آگے بڑھ رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دو ہزار آٹھ میں انتخابات کے بعد مالا کنڈ
صرف مارکسسٹ ہی سیاسی سرگرمیاں اور احتجاج منظم کر سکے ہیں۔ عوام اپنے
تجربات سے تیزی سے سیکھ رہے ہیں اور سوشلزم کے نظریات سن رہے ہیں ۔طالبان
کو بھی سب سے بڑا خطرہ یہی ہے۔اسی لئے جمعے کے خطبوں میں کارل مارکس اور
لینن کے قدر زائد کے نظریات سے دور رہنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے
باوجود سوشلزم کے نظریات کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے۔ جب عوام متحرک ہوں گے
تو ان رجعتی طاقتوں کو اکھاڑ پھینکیں گے اور ریاستی جبر اور رجعتی قوتوں
کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے۔ لاکھوں غریب کسانوں اور مزدورں کی
تحریک ان خطبوں پر دھیان نہیں دے گی اور نہ ہی اسلحے کی نمائش سے خوفزدہ
ہو گی بلکہ اس نظام کو چیلنج کرنے کی طرف آگے بڑھے گی۔اس خطے میں ایسی
روایات بھی موجود ہیں ، خاص طور پر انیس سو آٹھاسٹھ اور اناہتر اور کا
انقلاب اس بات کا گواہ ہے۔ سماج کے اندر طوفانی تبدیلیاں فوج کے اندر بھی
دراڑیں پیدا کرے گی اور نچلی صفوں میں موجود نفرت بغاوت کا روپ دھارے گی۔
سوات، با جوڑ، وزیرستان اور یہاں تک کہ افغانستان کے خلفشار کا حتمی حل
پشاور، کراچی، ممبئی اور لاہور وغیرہ میں بنے گا۔ کیونکہ پرولتاریہ کی اصل
قوت ان صنعتی مراکز میں ہے جو اس نظام کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا
کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے سوشلسٹ انقلاب آغاز میں ہی ان
مصنوعی سرحدوں کو توڑ دے گا جو سامراج نے ایک تقسیم اور حاکمیت کی پا لیسی
کے تحت مسلط کی تھیں۔ سرمایہ دارانہ طاقت اور حاکمیت کے ان مراکز میں اپنے
تسلط کے ذریعے اس نظام کو چلاتی ہے۔ لیکن تاریخی طور پر ایک بحران زدہ اور
متروک نظام ہونے کے ناطے اس کی کلاسیکی شکل ہر جگہ استوار نہیں ہو سکتی
بلکہ یہ مافیا اور کالی معیشت کی کیفیت ان پسماندہ علاقوں میں ابھر جاتی
ہے جس کی سیاسی شکل مذہبی بنیاد پرستی کی کیفیت میں ابھرتی ہے جو سرمائے
کے مختلف دھڑوں میں تضادات اور تصادم کو جنم دیتی ہے اور سوات اور فاٹا کے
علاقوں میں برباد صرف عام لوگ، خواتین اور بچے مرتے ہیں اور غریبوں کے
گھروندے مسمار ہوتے ہیں۔فوج اور طالبان سامراج اور مکاری حکمران سرمائے کے
ان باہمی تضادات سے اس انسانی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ مارکسسٹ آج صبر کے
ساتھ اپنے نظریات کی وضاحت کر رہے ہیں اور تمام دھمکیوں کے باوجود وہاں
موجود ہیں۔آنے والے وقت میں وہ عوام کی سوشلسٹ تبدیلی کی جانب حرکت میں ان
کی قیادت کریں گے۔ اگر اس تحریک کو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے مزدوروں،
کسانوں اور نوجوانوں کی تحریک کے ساتھ جوڑ دیا گیا تو سوشلسٹ انقلاب کی
منزل زیادہ دور نہیں ہو گی۔
Source: Chingaree.com