Urdu translation of Pakistan: Theatre of the absurd (May 16, 2012)
تحریر: لال خان :-
(ترجمہ : فرہاد کیانی)
یوں تو پینسٹھ برس قبل اپنے قیام کے وقت سے ہی پاکستان عدم استحکام اوربحرانات کا شکار رہا ہے لیکن اب یہ انتشار اور آگ اس شدت کو جا پہنچی ہے جو پاکستان جیسے ملک میں بھی ان دیکھی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں تشدد، بے حسی، بے پناہ مہنگائی، بے قابو غربت اور سفاکی غیر معمولی حدوں تک پہنچ گئی ہیں۔فریب، جھوٹ، منافقت، خودغرضی، کرپشن، سازشیں اور بے رحمی سماج کی اقدار بن چکی ہیں۔ فن، ثقافت، موسیقی اور سماجی رویے پژ مردہ ہو چکے ہیں۔سیاست نظریے سے عاری ہے، فوج اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کھو چکی ہے، ریاست اپنی حاکمیت سے محروم ہو چکی ہے، عدلیہ نے اپنا کا بھرم خود ہی پامال کر دیا ہے، سماج سے تعلقات مٹ چکے ہیں اور عوام کی معمولی خوشیاں بھی لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ ہوائی جہاز کے کریش سے لے کر گلیشیئر تلے دفن سپاہیوں تک، کراچی کی قتل گاہوں سے لیکر بلوچستان میں جاری سفاک ٹارگٹ کلنگ تک اور گلگت اور کوئٹہ میں شیعوں کی فرقہ وارانہ خون ریزی سے لے کر اسلامی بنیادپرستوں کے بہیمانہ دہشت گرد حملوں تک جن کے ساتھ ساتھ آگ اگلتے سامراجی ڈرون پشتون علاقوں میں بے گناہوں کو قتل اور برباد کیے جا رہے ہیں، اس دھرتی کو غارت کرتی ہولناکیوں کا کائی انت دکھائی نہیں دیتا۔اس بد بخت ملک میں بسنے والے کروڑوں افراد یاس اور کرب کا شکار ہیں۔آج کا پاکستان تکالیف اور مصائب کا دل خراش سلسلہِ حوادث بن چکا ہے۔
ملک میں جاری اس لرزہ خیز استبداد میں حکمران اشرافیہ استحصال،بدمعاشی اور لوٹ مار کے ننگے ناچ میں مشغول ہیں۔ان کے تنازعات لوٹ مار میں حصہ بٹورنے کے لیے ہیں اور ریاستی اقتدار کے لیے ان کے شدید تگ و دو کے پیچھے مزید مال کمانے کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہوس ہے۔ موقع پرستی انتہائی بیہودہ شکلیں اختیار کر چکی ہے۔ حکمران طبقات کے مختلف حصو ں کے نمائندہ منظر عام پر موجود تقریباً سیاسی تمام لیڈر مختلف صورتوں میں ریاستی اقتدار میں حصے دار ہیں اور اس کے باوجود وہ اقتدار کے غلط استعمال کے خلاف شور مچانے سے نہیں تھکتے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے وہ حزب اختلاف کاڈھونگ رچاتے ہیں۔بھتہ خوری، خونریزی اور دیگر جرائم میں ملوث ہوتے ہوئے یہ خود کو ان برائیوں کے خلاف جہاد کا علمبردار جتاتے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر مارکس کا انیسویں صدی کی فرانسیسی اشرافیہ کی سیاست کا تجزیہ یاد آتا ہے۔ ان میں حیران کن حد تک مماثلت ہے۔ اپنی عظیم کتاب ’لوئی بوناپارٹ کے اٹھارویں بر ومیئر ‘ میں مارکس لکھتا ہے کہ:
’’ انتظامیہ کی طاقت جو کمزوری کو اپنی قوت اور کمائی ہوئی نفرت وحقارت کو اپنی شان سمجھتی ہے۔۔۔ایسے اتحاد ہیں جن کی تہہ میں اختلاف کا بھراؤ ہے ۔ایک جدو جہد ہے جس کا اصل اصول یہ ہے کہ معرکے کو انجام تک نہ پہنچایا جائے ۔بے ہنگم اور بے معنی ایجی ٹیشن ہے جو امن وامان کے نا م پر کی جا رہی ہے۔بڑی دھوم دھام سے امن و امان کی تبلیغ کی جارہی ہے اور وہ بھی انقلاب کے نام پر ۔ جو ش بہت ہے لیکن اصلیت ناپید ۔ اصلیت ہے مگر اس میں جوش کا پتہ نہیں ۔ ہیرو ہیں جن کے کارنامے نہیں ؛ تاریخ ہے جس میں واقعے نہیں؛ تبدیلی کی رفتار ہے جسے اگر کوئی طاقت حرکت میں رکھنے والی ہے تو محض کیلنڈر۔تنازعات جو بار بار انتہا کو پہنچنے لگتے ہیں، گویا ان کے زور پکڑنے کی غرض ہی یہ ہے کہ ان کی کاٹ کند ہو جائے اور پھر کچھ نہ ہو، کبھی معاملات سلجھنے نہ پائیں ۔ بڑے دعووں کے ساتھ، طاقت کے، زورزبردستی کے اور کم ظرفانہ دہشت کے دکھاوے کئے جاتے ہیں کہ گویا قیامت ٹوٹ پڑے گی لیکن اتنے میں دنیا کو تباہی سے بچانے کے دعویدار نہایت گھٹیا محلاتی سازشوں اور درباری تماشوں میں محو ہو جاتے ہیں‘‘
عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان موجودہ کشمکش جتنی مضحکہ خیز ہے اتنی ہی قابل رحم بھی ہے۔ اخباری بیانات اور ٹاک شوز میں نام نہاد سیاسی مخالفین کا غیظ و غضب کا خصی اظہار تیزی سے گہرے ہوتے بحران کی غمازی کرتا ہے۔ ایک لایعنی ایشو پر 32سیکنڈ کی مضحکہ خیز سزا اور اس کے ساتھ جمہوری آزادی اور عدلیہ کی خودمختاری کے متعلق لفاظی حکمرانوں کے واہیات تماشے ہیں۔ عوام کے اندر اس سب کے خلاف نفرت اور غصہ پک رہا ہے جو کبھی تو سرمایہ داری کی فوجی حکومتوں میں برباد ہوتے رہے ہیں اور کبھی اس نظام کے جمہوری ناٹک میں وحشیانہ معاشی اور سماجی حملوں کو سہتے آ رہے ہیں۔ مقننہ ایک بیہودا تماشا ہے جہاں وفاداریوں کا بیوپار ہوتا ہے اور محکوموں کی ازیتوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ یوم مئی پر گیلانی نے کم از کم اجرت آٹھ ہزار کرنے کا اعلان کیا اور شہباز شریف نے نو ہزار کا۔ یہ ا نتہائی مضحکہ خیز ہوتا اگر انتا دردناک نہ ہوتا۔ عوام کی وسیع اکثریت کو گھائل کرتی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی میں کیا کوئی خاندان اتنے میں گزارہ کر سکتا ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ عام محنت کشوں کی ایک قلیل اقلیت کو ہی یہ کم از کم اجرت ملتی ہے۔خواتین اور نجی شعبے کے محنت کش تو اس سے بھی محروم ہیں۔ازیت ناک لوڈ شیڈنگ، بے پناہ بے روزگاری اوربیگار جیسی مشقت سے عوام کی زندگیاں عذاب بن چکی ہیں۔ فوج کے افسرانِ بالا براہ راست اقتدار میں آنے سے خوفزدہ ہیں۔ برباد معیشت ، لڑکھڑاتی شرح نمو، بڑہتے ہوئے خساروں اور جہنم بنے سماج میں وہ ایوب یا مشرف دور جیسی شرح نمو کے ساتھ اقتدار کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ مسلح افواج نے اندر طبقاتی عداوت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن انتہائی خطرناک صورتحال اور نظام کو خطرے میں ڈالنے والی سماجی افرا تفری کے عالم میں چھوٹے افسران کی جانب سے ایک فوجی بغاوت کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔موجودہ ہولناک سماجی و معاشی بحران میں ایسی حکومت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے سرمایہ دارانہ مفادات پر حملہ کر سکتی ہے۔لیکن ایسے شدید اقدامات سے بھی بحران حل نہیں ہو گا۔ محنت کشوں کے انقلاب کا کوئی متبادل نہیں ۔
اس بحران کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دائیں بازو کی کمزوری بے نقاب ہو چکی ہے۔ سرکاری اپوزیشن ن لیگ بڑے پیمانے پر تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اس لیے وہ ہر نازک موڑ پر آکر مفاہمت کر لیتے ہیں۔اسلامی بنیاد پرست بری طرح رسوا ہو چکے ہیں جس کی بنیادی ان کی جانب سے دہشت گردی کی خامو ش حمایت ہے۔ عمران خان کی شکل میں دائیں بازو کا نیا پاپولزم اپنے وقت سے پہلے ہی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ اگلی حکومت میں ایک شراکت دار ہو سکتا ہے، بشرطیہ کہ یہ سماجی و معاشی نظام قائم رہے۔اگر سیاسی دغابازی اپنی ساکھ کھو چکی ہے تو ریاستی ادارے بھی گل سڑ گئے ہیں۔سرمایہ دارانہ بحران کا سرطان اپنی تباہ کن کرپشن کے ہمراہ ریاست کے مختلف اعضاء میں پھیل چکا ہے۔جراہی کی مدد سے ان کو نئی شکل میں ڈھالنا ہو گا ، ان کی اصلاح نہیں کی جا سکتی۔ عام ادور میں انتخابات کے بھی عام ہوتے ہیں۔ غیر معمولی تنائج والے غیر معمولی انتخابات صرف 1970ء ایک عوامی ابھار کے دوران ہوئے تھے۔ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی فتح یاب ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے 1970ء کے پروگرام سے تمام ناطے توڑ لیے ہیں۔لیکن ایک انقلابی عوامی ابھار سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دے گا۔پیپلز پارٹی اس لڑائی کو صرف اپنے بنیادی انقلابی سوشلزم کی بنا پر جیت سکتی ہے۔ سامراج کی خوشامدانہ اور سرمایہ داری کی پالیسیوں کے ساتھ موجودہ قیادت عوامی طوفان میں بہ جائے گی۔اور ناگزیر طور پر ایک نئی انقلابی روایت کا ظہور ہو گا جسے اس لڑائی کے انت تک لڑنا ہو گا۔
Translation: The Struggle (Pakistan)