Urdu version of Pakistan’s Elusive Nationhood by Lal Khan (June 16, 2011).
تحریر : لال خان ۔ ترجمہ: فرہاد کیانی
چنگاری ڈاٹ کام،26.06.2011
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر سا مراج کے سخت گیر رویے اور ان کی حفاظت اور انتہا پسندوں کے قبضے میں جانے کے متعلق امریکی تھینک ٹینکوں کے خدشات نے موجودو سیاست میں کہرام مچا دیا ہے۔
ایٹمی پالیسی پر امریکی موقف منافقت، فریب اور دوہرے میعار پر مبنی ہے۔ اسرائیل کے خفیہ اور بہت بڑے اور خفیہ ایٹمی پروگرام اور حتیٰ کے ضیاء حکومت کے 1980ء کی دہائی کے پر آشوب دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جانب آنکھیں بند کیے رکھنا سامراجی پالیسی سازوں کی موقع پرستی اور سنگ دلی کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کو ایٹمی اسلحے سے پاک کرنے کی اوباما کی گفتگو محظ لفاظی ثابت ہوئی ہے۔ اوباما، سرکوزی، مارکل، میڈوڈیو اور کیمرون کی جانب سے مختصر سے وقت میں ہندوستان کے دوروں کا مقصد ایٹمی ٹیکنالوجی اور اثاثوں کی فروخت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی منڈی میں توسیع ہے۔ ہندوستان کی جانب سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو ٹھکرا دینے کے با وجود اس کے ساتھ سودے کرنے کی جستجو کی جا ری ہے۔ اس حقیقت سے اس معاملے پر سامراج کی حقیقی پالیسی واضح ہو جاتی ہے جو صرف منافع کا حصول ہے نہ کہ دنیا کو محفوظ بنانے کا دعویٰ۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف حالیہ مہم پاکستانی ریاست کے نام نہاد ’بدمعاش‘ حصوں پر سامراجی مطالبات کے آگے جھکنے کے لیے دباؤ بڑھانا ہے۔ میڈیا میں نظر آنے والی پریشانی کسی سنجیدہ پالیسی کی بجائے سفارتی اور سیاسی چال ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی کی طرح اسے بھی اپنے دیگر مفادات کے حصول کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ احمدی نژاد کی جانب سے ان ایٹمی اثاثوں کو ’تباہ‘ کرنے کے امریکی منصوبے کا ’انکشاف‘ اسی شعبدہ بازی کی ایک اور مثال ہے۔
پاکستانی سیاسی اشرافیہ کا رد عمل بھی کوئی کم ڈرامائی اور بے ہودہ نہیں ہے۔ دائیں بازو اور مذہبی جماعتیں قومی شاونزم اور مذہبی منافرت اگلنا شروع ہو گئیں جو کہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ملا پاکستان کی سا لمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی کا رونارو رہے ہیں، جیسے واقعی میں ایسی کسی چیز کا وجود ہو!۔ لبرل اور سیکولر سیاسی اور دانشور اشرافیہ نے بھی اس مہم میں شامل ہونے میں دیر نہیں کی۔تاہم ، سیاست دانوں اور میڈیا کے اس قومی شاونزم کو عمومی طور پرسماج میں کوئی اہمیت یا قبولیت نہیں مل سکی۔ عوام اس قوم پرستانہ لفاظی سے تنگ آچکے ہیں۔ ان کی خاموشی اور لا تعلقی ان کی اذیت کا اظہار ہے۔ اس ملک کے پاس ایٹم بم ہے پر یہاں بچے بھوک سے مرتے ہیں۔ چند لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں لیکن اکثریت کے کے پاس جوتے نہیں۔ تکنیکی طور پر ہزاروں سال پیچھے کچے گھروندوں کے درمیان سے جدید ترین موٹر وے گزرتی ہے۔
جھونپڑ پٹیوں اور دیہات میں ٹیلی وژن کیبل توہے لیکن پینے کے صاف پانی کے پائپ نہیں۔ کچی آبادیوں میں ’بیوٹی پارلر‘ تو ہیں لیکن ڈسپینسریاں اورصحت کی دیگر سائینسی سہولیات نہیں ہیں۔ غریبوں میں چند کے پاس گھٹیا قسم کے الیکٹرونک آلات تو ہیں لیکن ان کو چلانے کے لیے بجلی کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ محنت کش طبقات کا بے رحمی سے استحصال کیا جا رہا ہے۔ بر طرفیاں، ڈاؤن سائزنگ اور ری سٹرکچرنگ سے پہلے سے موجود کروڑوں بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ محکوم قومیتوں کو مزید محرومی اور جبر کا سامنا ہے۔ ہر سو غربت، بھوک ، محرومی اور اذیت کا راج ہے۔ اس بربادی کی کیفیت میں پاکستان کی سیاسی، فوجی اور بیورو کریٹ اشرافیہ اس قوم پرستی کو ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے پاکستان کا حکمران طبقہ ابھی تک پیدا ہی نہیں کر سکا۔ الیکٹرونک میڈیا پر ’ہمارے‘ ایٹمی اثاثوں، ’ہماری‘ سا لمیت اور ’ہمارے‘ قومی مفاد کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں یہ کس کے قومی مفادات ہیں؟ یہ مفادات ان کے ہیں جو اس ملک کے مالک ہیں، اس اشرافیہ کے جو اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں اس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے منافع کمانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اور ’ہم‘ کون ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو ایٹمی اثاثوں کی اصل تعداد اور جگہوں سے واقف ہیں۔
پاکستانی پارلیمینٹ اور بالائی سیاسی پوزیشنوں پر موجود اپنے کاسہ لیسوں کی نسبت امریکی پالیسی ساز ان اثاثوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ لاہور اور دہلی کے درمیان بیلسٹک مزائل کے صرف نو منٹ کے فاصلے کے ہوتے ہوئے کیا یہ ہتھیار کبھی استعمال بھی ہو سکتے ہیں؟ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ایٹمی طاقت ’ قوم ‘کے دفاع کے لیے ہے۔لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ساری قوم ایٹمی ہتھیاروں کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔
لیکن سب سے بڑا راز اس ایٹمی پروگرام پر آنے والی لاگت کا ہے۔ کیا کبھی کسی نے بھی اور کہیں پر بھی اس کے متعلق کوئی گفتگو یا اس کے بارے میں کسی کو آگاہ کیا ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ پوچھا ہے کہ اس کی قیمت کیا ہے؟ نہیں، کیونکہ یہ اس مذہبی ریاست کا ایسا مقدس اثاثہ ہے جس کے بارے میں سوال کرنا گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے کم نہیں۔ دو ہندوستانی ماہرین عمرانیات آچن وینائیک اور پرافل بدوائی کی تحقیق کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے ایٹمی پروگرم پر خرچ ہونے والی رقوم اتنی زیادہ ہیں کہ اگر انہیں سماجی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا تو اس بر صغیر سے غربت اور نا خواندگی کی بیماریوں کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے بر عکس قومی غیرت اورہندوستان اور پاکستان میں ایٹمی دھماکوں کی یادگاروں کو بار بار شاونزم کو ابھارنے کے لیے استعال کیا جاتا ہے جو طبقاتی جدوجہد کو ماند کرتا ہے اور ہماری زندگیوں پر حکمران طبقے اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ کے شکنجے کو مضبوط کرتا ہے۔ سامراجیوں نے سیاسی اورر یاستی ڈھانچہ اس طرح سے بنا یا ہے کہ یہ سامراجیوں کی دولت سے منسلک ہے اور اس کا مقصد دولت کو عوام میں سے نچوڑ لینا ہے۔ حکمران طبقات اور ان کے سامراجی آقا ایٹم کے اس ’’کاروبار‘‘ سے بہت بڑے منافع کمارہے ہیں۔
درمیانے طبقے کی بالائی پرتیں اس جنونی شاونزم کی بنیاد بنتی ہیں جبکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں محکوم عوام برباد ہو رہے ہیں۔ان کے خون، پسینے اور آنسوؤں کو نچوڑ کر یہ ریاستیں ایٹمی اسلحے اور روایتی ہتھیاروں کی صورت میں کباڑ کے لوہے پر بے پناہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر چہ ان کا شمار دنیا کی غریب ترین اور کرپٹ ترین ریاستوں میں ہوتا ہے یہ دنیا میں اسلحے کے دس بڑے خریداروں میں سے ہیں۔
ایٹمی کھلونے اور روائتی ہتھیار آبادی کی بڑی اکثریت کو بھوک، غربت، ناخواندگی اور بیماری سے نہیں بچا سکتے۔ اور نہ ہی انہیں روٹی، کپڑا اور مکان دے سکتے ہیں۔ذلت میں رہنے پر مجبور عوام کے لیے یہ کس کام کے ہیں؟ گزشتہ 64برس میں اس ’قومیت‘ نے محکوموں کو کیا دیا ہے؟ امیروں کی قوم نے اربوں روپے بنائے ہیں اور اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی ہوس میں مسلسل کماتے جا رہے ہیں۔ غریبوں کی قوم کو ظلم اور محرومی کا سامنا رہا ہے۔ اور اب بحران کی شدت معاشرے کے سماجی تانے بانے کو توڑ رہی ہے، معاشی ڈھانچے منہدم ہو رہے ہیں اور ریاستی ادارے افرا تفری کا شکار ہیں۔ جب تک یہ نظام موجود ہے، قومی شاونزم، مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے تعصبات مزید گہرے اور بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔ سامراج لوٹ مار، حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ اور فوجی اخراجات محکوموں کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیں گے۔تاہم، اس خطے کا مقدر بربریت نہیں۔ایک قوت ہے جو ظلم کے اس طوفان کو چیرسکتی ہے اور وہ قوت نوجوان اور پرولتاریہ ہے۔انہوں نے پہلے بھی اس سماج کو بدلنے کی لڑائی لڑی تھی۔اس دفعہ یہ لڑائی انجام تک لڑنا ہو گی۔