28 مئی کو پورے ملک میں پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کا جشن منایا جارہا ہے۔ انسانی بربادی کے ان آلات کی نمائش کاہر طرف تماشا لگایا جائے گاتا کہ خلق خدا مزید مرغوب اور حکمرانوں کے جاہ وجلال کی مطیع ہوسکے۔
حکمرانوں کے ایوانوں سے لے کر میڈیا چینلوں تک، سیاست دانوں سے لے کر دانشوروں تک، سب اس ایٹمی طاقت کے نام پربدحال اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گھرے ہوئے محنت کش عوام کے ذہنوں میں حب الوطنی اور مذہبی جنون کا بارود بھر کے ان کویہ باورکروانے کی کوشش کریں گے کہ وہ ایک ایٹمی طاقت کے شہری ہیں جس پر ان کو نازاں ہونا چاہیے۔ محب الوطنی کے جذبے ابھار کر کچلے ہوئے استحصال زدہ طبقات کی بربادی، بھوک، مفلسی اورمحرومی کو وہ قربانیاں قرار دیا جائے گا جو ’’اسلامی بم‘‘ کی تیاری و ترویج کے لئے دینا ان کا قومی اور مذہبی فریضہ ہے۔ ہر طرف قومی ترانے گائے جائیں گے، محب الوطنی کی دھنیں بجائی جائیں گی۔ دوسرے ملکوں، قومو ں، مذہبوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے انہی کی طرح غریب اور لاچار انسانوں سے نفرت اور حقارت کو ہوا دی جائے گی۔ پہلے کئی نسلوں تک یہاں کے بے کس عوام کو یہ سبق دیا گیا ہے کے انکے دفاع کے لئے ایٹم بم ناگزیر ہے، آج انہی عوام کو یہ درس دیا جارہا ہے کہ اسی ایٹم بم کی حفاظت اولین قومی فریضہ اورمحب الوطنی کا تقاضاہے۔ چاغی اور اس کے گردونواح میں ایٹمی تجربات کے بعد اپاہج بچوں کی پیدائش میں کس قدر اضافہ ہوا یہ آج تک کسی ٹی وی چینل پر نہیں بتایا گیا۔ ایٹمی پروگرام سے وابستہ تمام تر معلومات عوام سے پوشیدہ اور خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ان مہلک ہتھیاروں کی تیاری پر ہونے والے لا محدود اخراجات کو بے نقاب کرنا تو گناہ اور جرم بنا دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال ہر ایٹمی طاقت میں پائی جاتی ہے۔ امریکہ سے لے کر بھارت اور اسرائیل تک، تمام ملکوں میں ایٹمی پروگرام کو اسی طرح مقدس گائے کا درجہ دیا جاتا ہے جیسا کہ پاکستان میں۔ ہر ریاست کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے: قومی جنون کو ابھار کر طبقاتی کشمکش کو کچلنا۔
اس وقت دنیا میں 9 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ممالک امریکہ،روس، چین،فرانس، برطانیہ، اسرائیل، ہندوستان، پاکستان اور کوریا ہیں۔ صرف 2011ء میں ان ممالک نے ایٹمی پروگراموں پر 105 ارب ڈالر صرف کیے جو تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالرفی گھنٹہ بنتے ہیں۔ یہ اتنی رقم ہے اقوام متحدہ کے مطابق اس کے ذریعے پوری دنیا سے غربت کا دوبار خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جنگی سازوسامان پر اخراجات بڑھ رہے ہیں اور غربت کے خاتمے پرخرچ ہونے والی رقوم سکڑرہی ہیں۔
ہندوستان میں اس وقت 86 کروڑ انسان 25 روپے یومیہ کی آمدن پرزندہ رہ رہے ہیں۔ برصغیر جنوب ایشیا کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا 22 فیصد ہے جبکہ اس خطے میں دنیا کی 41 فیصد غربت پلتی ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں اس وقت 30 ہزار سے زائد ملازمین کام کرہے ہیں، خان ریسرچ لیبارٹریز سمیت ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے دوسرے کئی ادارے اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ پاکستان میں صرف 2فیصدبجلی ایٹمی توانائی سے حاصل کی جارہی ہے۔ مختلف محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان اب تک 90 سے 110 ایٹمی ہتھیار تیار کر چکا ہے جبکہ بھارت کے پاس 80 سے 100 ایٹم بم موجود ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے ایٹمی پروگراموں کی بڑھوتری کا جائزہ لیا جائے تو 2021ء تک پاکستان کے پاس 200، جبکہ ہندوستان کے پاس 150 ایٹم بم ہوں گے۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں اور فوجی اشرافیہ کے درمیان ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے، پاکستان اور ہندوستان کی غریب عوام کے خون اور پسینے سے نچوڑی جانے والی دولت تباہ کاری کے آلات کی تیاری پر پانی کی طرح بہائی جارہی ہے۔ 1940ء کے پہلے نصف حصے میں امریکہ نے 2ارب ڈالر کی لاگت سے ایک ایٹم بم تیار کیا تھا، ڈالر کی موجودہ قیمت کے مطابق یہ لاگت تقریباً 25 ارب ڈالر (تقریباًدوہزار پانچ سو ارب روپے) بنتی ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کے لئے یورینیم کی افزودگی پر امریکہ میں بجلی کی کل پیداوار کا 10 فیصد صرف ہوا تھا۔ 15 مئی 2011ء کو جنرل مشرف نے نیوز ویک کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا پاکستان کے 18000 فوجی اہلکار صرف ایٹمی تنصیبات کی حفاظت پر معمور ہیں۔ اگر صرف حفاظتی انتظامات کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ 5 کروڑ ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔ گلوبل سیکیورٹی نیوز وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اب تک 200 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے، جبکہ سالانہ 2.5 ارب ڈالر مزید خرچ کئے جارہے ہیں۔ یہ اتنی رقم ہے کہ اس سے پاکستان کا بیرونی قرضہ چار بار اتارا جاسکتا ہے۔ ایٹم بم جدید میزائل ٹیکنالوجی کے بغیر بے کار ہے لہٰذہ دور مار بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری پر بھی کھربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ دوسری طرف ایٹمی پروگرام کی ترویج کے لئے ہندوستانی ریاست کا جنون اور وحشت بھی برابر بڑھ رہی ہے۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگیں سرمایہ دارانہ بحران کی شدت اور منڈیوں پر کنٹرول کے لئے سامراجی طاقتوں کے باہمی تنازعات کی پیداوار تھیں۔ ان جنگوں میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نسبتاً امن کے دور میں بھی 18کروڑ افراد مختلف قومی تنازعات اور خانہ جنگیوں میں مارے جا چکے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ہیرو شیما اور ناگا ساگی پر برسائے جانے والے ایٹم بموں سے لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے۔ اس وحشت کا مقصد سوویت یونین کو وارننگ دینا تھا کہ وہ مشرقی محاذ پر پیش قدمی نہ کرے اور جاپان میں سرمایہ داری کو بچایا جائے۔ 1945ء میں جاپان پر گرائے جانے والے ایٹم بم آج کے ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں پٹاخے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج اگر ایک ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اتنا گرد و غبار فضا میں ابھرے گا کہ سورج کی روشنی کئی سالوں تک زمین پر نہیں پہنچ پائے گی۔ اس مظہر کو نیوکلیئر ونٹر کہا جاتا ہے۔ اگر ایٹمی حملوں میں نسل انسانی بچ بھی گئی تو نیوکلیئر ونٹر میں اس کا خاتمہ یقینی ہے۔ ایسے آلات کی تیاری کے ذریعے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دولت کے انبار تو لگائے جاسکتے ہیں مگر نسل انسانی کو یہ مہلک ہتھیار کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن حکمرانوں کو انسانی سماج، تہذیب حتیٰ کہ نسل انسانی کی بقا سے کوئی غرض بھی تو نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران اور اس کے ساتھ کرہ ارض کے ایک ایک انچ پر قبضے کے لئے ان کی باہمی چپقلش نے انہیں پاگل کر دیا ہے۔
مئی 2013ء میں شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 2011ء میں آغا خان یونیورسٹی کے اشتراک سے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کے 44 فیصد بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما نامکمل (Stunted Growth) ہے۔ آنے والے 15 سالوں میں ان بچوں کا قد نارمل بچوں سے چھوٹا ہوگا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام عوام کو بھوک اور محرومی سے نجات نہیں دلا سکتا، نہ ہی ان کو علاج، تعلیم، روزگار، بجلی، پانی اور دوسری بنیادی ضروریات فراہم کر سکتا ہے۔ یہ پروگرام اس نظام اور ریاست کے تمام دوسرے پروگراموں اور ترقیاتی و غیر ترقیاتی پراجیکٹس کی طرح حکمرانوں کا ایک کاروبار ہے جن میں ہوشربا منافعے حاصل ہوتے ہیں اور حکمرانوں کی تجوریاں بھرتی ہیں۔ اگر لاہور میں ایٹم بم گرے گا تو امرتسر اور دہلی بھی تباہ ہونگے۔ اگر بمبئی پر گرایا جائے گا تو کراچی اور حیدرآباد بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ دونوں ملکوں میں تابکاری کے اثرات سے کئی نسلوں تک اپاہج بچے پیدا ہوں گے۔ اگر ان ایٹم بموں نے چلنا نہیں ہے تو ان کو بنانے کا مقصد کیا ہے؟ لیکن کاروبار تو آخر کاروبار ہے۔ سرمایہ داری میں آزادی، منڈی اور بیوپار کی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ انسان کی نہیں!
Source: ایٹمی طاقت کی مفلسی