فریڈو یسٹن،03.11.2008۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان دنوں دنیا بھر کی ویب سائیٹس
اور اخبارات میں کئی آرٹیکل شائع ہو رہے ہیں جن میں کارل مارکس کی کئی
کتابوں کی خاص طورپرمشرقی جرمنی میں پچھلے ایک سال کے دوران اشاعت اور
فروخت میں تیزی کے ساتھ اضافے کی خبریں شائع ہورہی ہیں۔ یہ کتابیں زیادہ
ترنوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں۔ ذیل میں ہم چند اہم مضامین کے
اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔ کچھ کارل مارکس کی ازسرنو دریافت کے بارے میں،،
کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے ۔،، پچھلے کچھ عرصے سے
ہم سرمایہ دارانہ نظام، مالیاتی اداروں اور نےولبرل ازم کی لوٹ مارکا سنتے
چلے آرہے ہیں۔ سوال یہ سامنے آرہاہے کہ کیا کارل مارکس اوراس کے نظریات کو
نشاط ثانیہ حاصل ہو نے جا رہی ہے؟ ترائرمیں واقع کارل مارکس میوزیم اینڈ
سٹڈیز سنٹرکی ڈائریکٹر بیاٹرکس بووئرہمارے اس سوال کا جواب نہ دینے کو
ترجیح دیتی ہے۔ مگر جرمن پریس ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اس نے یہ بتایا ہے
کہ اس جرمن فلسفی اور معیشت دان بارے جاننے کے رحجان میں تیزی سے اضافہ
ہوتا جارہاہے۔ نوجوان تو بیتابی سے اس کو پڑھ رہے ہیں۔ کار ل ڈائٹزورلاگ
تو بہت ہی خوش ہے کہ مارکس کی تحریروں کی طلب میں اضافہ بڑھتا ہی جارہا
ہے۔ مئی دو ہزار سات کی نسبت اس سال کے مئی کے مہینے میں مارکس کی کتاب،،
سرمایہ،، کی فروخت میں تین گنا اضافہ ہوا۔ اس اضافے کو دو ہزار سات میں
پہلے محسوس کیاجاچکاتھا جب پچھلے سال کے مقابلے میں مارکس کی تصانیف کی
فروخت میں دوگنا اضافہ ریکا رڈکیاگیا،،۔ ایس ٹی وی ویب سائیٹ پر ہم نے درج
ذیل مضمون دیکھا جس کا عنوان ہے،، عالمی بحران نے مشرقی جرمنی والوں کو
مارکس کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کردیا،،۔ یہ مضمون لکھتاہے،، دیواربرلن
کے انہدام کی دو دہائیوں کے بعد کمیونزم کے بانی کارل مارکس کے مشرقی
جرمنی کے اندرخوب چرچے ہو رہے ہیں ، یہ سب عالمی مالیاتی بحران کی مہربانی
کے صدقے ہو رہاہے۔ مارکس کا آٹھارہ سو ساسٹھ میں سرمایہ دارانہ نظام کا
تنقیدی تجزیہ جو ،، سرمایہ،، نامی کتاب کی شکل میں سامنے آیاتھا ، اشاعت
کے مردہ خانے سے دوبارہ زندہ ہو کر سامنے آگیاہے۔ یہی نہیں بلکہ علمی و
فکری مواد شائع کرنے والے پبلشرکارل ڈائٹز ورلاگ کے لیے تو حیران کن امر
یہ ہے کہ یہ کتاب اس کی بیسٹ سیلز کتاب بن چکی ہے۔ ادارے کے مینجینگ
ڈائریکٹر جوئر ن شوٹرمف نے نیوز ایجنسی رپورٹرکو بتایاکہ ایک ایسے ماحول
میں جب ہرکوئی یہ سمجھ چکاتھا اور ہر کسی کو یہ بتایاگیاتھا کہ اب کارل
مارکس کی یہ کتاب ماضی کاایک مزار بن چکی ہے اور اس کی طلب کو سوال ہی
پےدا نہیں ہوتا۔ اس نے بتایا کہ اس سال اس کی پندرہ سو جلدیں فروخت ہوچکی
ہیں جبکہ یہ تعداد پچھلے سال سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس کے مطابق انیس سو
نوئے کے بعد سے یہ اضافہ سوگنا قراردیاجاسکتاہے۔ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے
کہ بینکوں کے مالکان اور مینیجرز بھی دلچسپی کے ساتھ اسے خرید اورپڑھ رہے
ہیں تاکہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر سکیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور یہ کہ ان
کے ساتھ کیا ہورہاہے۔ شوٹرمف کے الفاظ میں اب صرف مارکس ہی ہے جو یقینی
طورپر توجہ کا مرکز بن چکاہے،،۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ کارل مارکس کی
طرف بڑھتا ہوا یہ رحجان مشرقی جرمنی کے کئی لوگوں کی طرف سے اس بات کا
اعلان اور اظہارہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کررہے ہیں ۔ مضمون
نگار نے ایک حالیہ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیرپن فیصد مشرقی
جرمن سرمایہ داری کو ناموزوں اور نامناسب قرار دے چکے ہیں جبکہ ترتالیس
فیصد نے کہاہے کہ سوشلزم کو سرمایہ داری نظام پر فوقیت دیں گے۔ یہ
اعدادوشمار عوام سے لیے گئے انٹرویو ز کے بعد مرتب کیے گئے ہیں، یہ مضمون
مشرقی برلن کے ایک چھا لیس سالہ آئی ٹی انجینئر تھامس پیویٹ کے بیان کو
نقل کرتے ہوئے کہتاہے ،، ہم سکول میں سرمایہ داری کی ہولناکیوں کے بارے
سنا کرتے تھے آج پتہ چل رہاہے کہ وہ کتنی سچی تھیں۔ کارل مارکس سچاتھا۔
میں نے دیوار برلن کے گرنے سے پہلے کی زندگی دیکھی ہوئی ہے۔ وہ کتنی بہتر
ہواکرتی تھی کہ کسی کو بھی پیسو ں کی پرواہ ہی نہیں ہواکرتی تھی کیو نکہ
پیسہ ان دنوںاتنی اہمیت رکھتا ہی نہیں تھا۔ تب آپ کے لیے ایک روزگار موجود
ہواکرتاتھا خواہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں بھی ہوتی تھی۔ کمیو نسٹ نظریہ
اتنا برا نہیں تھا جتنا سمجھا اور سمجھا یاگیا،،۔ ایک چھہترسالہ ریٹا
ئرڈلوہارہرمن ہائبل نے کہا،، میں سمجھتا تھا کہ کمیونزم برا ہے لیکن اب
پتہ چل رہاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام تو اس سے ازاں بدتر ہے ۔ فری مارکیٹ
انتہائی وحشی ہے اور سرمایہ دار تو ،، اور، اور، اور، اور،، سے کم کچھ
کہتے ہی نہیں،،۔ یہاں برطانیہ کے اندراخبار ڈیلی میل جرمنی میں کریڈٹ کرنچ
کے بعد کارل مارکس کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ،، کے عنوان سے ایک مضمون
میں مذکورہ بالااعدادوشماربیان کئے ہیں ۔ کچھ بورژوا دانشوروں نے کہاہے کہ
پندرہ سو کتابوں کی ایک سال کے اندر فروخت اتنی بڑی تعداد نہیں ہے۔ بجا
مگرانیس سو نوئے میں یہ کتاب پندرہ سالانہ سیل کی کیفیت میں تھی۔ اور پھر
ہمیں یقین ہے کہ جرمنی کے ذرائع ابلاغ کسی طور اس کتاب کا کہیں بھی ذکر
نہیں کررہے ہیں وہ اس کی تشہیر بھی نہےں کر رہے۔ مارکس کی کتاب ،،
سرمایہ،، کی تشہیری مہم کا فریضہ عالمی مالیاتی نظام کی گراوٹ اور سرمایہ
داری کے نتیجے میں بدترین ہوچکے محنت کشوں کے حالات زندگی مل کر سرانجام
دے ر ہے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ زندگی ہی زندگی کے بارے سب سے سے زیادہ
سکھاتی ہے اور آج لوگ تیزی کے ساتھ اس زندگی سے سیکھنا شروع ہو گئے ہیں جو
وہ گزار رہے ہیں۔ اسی سے ہی وہ جستجو وہ تڑپ پیداہوتی ہے جونظام کو حقیقی
طورپر سمجھنے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ یہ کیسے کیوں اور کن کے لیے
کام کرتاہے۔ کارل مارکس سے زیادہ اور کون سی بڑی اتھارٹی ہو سکتی ہے جس نے
بہت عرصے پہلے اس میکنز م کی وضاحت کر دی تھی جو اس بحران کو پیداکرتاہے
جس کا مشاہدہ و تجربہ اس وقت ساری دنیا کررہی ہے۔ اس وقت کوئی بھی صرف آئس
لینڈ کی کیفیت کو ہی دیکھ سمجھ لے تو اسے سمجھ آجا ئے گی کہ مارکس کتنا
سچا تھا ۔یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ صرف ایک بینک یا ایک کمپنی نہیں جو
دیوالیہ ہوئی ۔یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک پورے کا پورا ملک ہی دیوالیہ
ہوچکا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے لیے آئس لینڈ سے لکھنے والے ایک صحافی گوتی
کرائسٹ مینسن نے ،، برف میں طوفان،،کے عنوان سے اپنے مضمون میں وہاں کے
حالات لکھے ہیں ،، ایک ایک کر کے حکومت نے سب بینکوں کو
بند(seize)کردیاہے۔ اور حکومت اپنے ہر بدنصیب شہری کویہ نوید سنارہی ہے کہ
گھبرائیں مت ہم میں سے ہر ایک لاکھوں ڈالروں کا مالک ہے مگر یہ ہم کون ہے
، یہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔ پہلے ہی جھٹکے میں پانچ ہزار بینک والے
اپنی ملازمتوں سے فارغ کردیے گئے ۔ جبکہ اس سے دوگنا مزید بے روزگاری کی
تیغ تلے آنے کے منتظر ہیں۔ بیزوزگارہونے والے یہ سب اپنی ملازمتوں سے ہی
نہیں اپنے ان گھروں سے بھی ہاتھ دھورہے ہیں جو کریڈٹ بازی کی مدد سے انہوں
نے بنائے یا لئے ہوئے تھے اور جن کے اداہونے والے قرضے ادائیگی کے قابل
نہیں رہے۔ بینکوںمیں فارن کرنسی کے حصول کے لیے قطاریں لگ گئیں اور
ادائیگی کے لیے حد مقرر کردی گئی کہ آپ اس سے زیادہ رقم نہیں لے سکتے۔
اوورسیزبینکوں نے گرتی ہوئی مقامی کرنسی کرونا قبول کرنے سے انکار کردیا۔
سپین میں تعلیم حاصل کرنے والی میری ایک شاگرد یہاں سے رقم نہیں منگوا سکی
اور یوں وہ اپنا رہائشی کرایہ ادا نہیں کر سکی۔ درآمداوربرآمدکرنے والے
ادارے کاروبار کے لیے رقم سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہاں کے بیرون ملک گئے
ہوئے سیاح اپنےATM بینک کارڈوں سے رقم نہیں نکلوا پارہے۔ برطانیہ نے یہاں
کے ایک بینک کے سبھی اثاثے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ضبط کر لئے ہیں۔
اور کئی بینک بھی اسی دہشت گردی ایکٹ کی زد میں آنے والے ہیں۔ آئس لینڈ
گلوبلائزیشن کی بھیانک کہانی کا سکرپٹ بننے جارہاہے۔ صدمہ اتناشدید ہے کہ
یہ پتہ ہی نہیں چل رہاہے کہ افسوس کی کیفیت میں جایاجائے یا غصے کی حالت
میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم یہ سوچتے سمجھتے چلے آرہے تھے اور مطمین تھے کہ آئس لینڈ
ایک خودمختار آزاد ملک ہے جسے کسی روس کسی آئی ایم ایف کی امدادیا سہارے
کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہم اعتماد کی بلندیوں پر تھے کہ ہماری کرنسی
مضبوط اور اس قابل ہے کہ اس کی برکتوں سے ہم دنیا کی ہر کمپنی اور بینک کو
خرید لیں گے۔ ہم نے کچھ سوچے سمجھے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کو
اپنایاہواتھا لیکن اب پتہ چل رہاہے کہ ہم تو ایک ایسے جواخانے میں موجود
ہیں جس کا کوئی بھی مالک نہیں ہے۔ اس ا ٓخری لمحے تک تو ہمارا ایمان
مستحکم ہوچکاتھا کہ ہم کچھ کئے بغیر بھی رقم کما سکتے ہیں مگر اب عقل
ٹھکانے آئی ہے اور یہ عقدہ کھلا ہے کہ ہم اپنی رقم کے لیے کچھ بھی حاصل
نہیں کر سکیں گے،،۔ اپنے مضمون کا خاتمہ اس سوال سے کرتا ہے کہ کیاکرنا
چاہئے اب ہمیں، پھر وہ خود ہی اس کا جواب یوں دیتاہے کہ اس کا نہ کسی
بینکا ر نہ کسی سیاستدان نہ ہی کسی ٹائیکو ن کے پاس ہے۔ مگر جیسا کہ جرمنی
میں کارل مارکس دوبارہ ابھرا ہے اسی طرح اس سرما میں آئس لینڈ میں،،
کمیونسٹ مینی فیسٹو،، شائع ہونے جا رہاہے۔ جرمنی میں ”سرمایہ“کی اشاعت اور
مانگ میں دن بدن ہوتااضافہ اور آئس لینڈ میں ،،کمیونسٹ مینی فیسٹو،، کے
چھپنے کی خبریں اخبارات کے لیے معمولی نوعیت کی ہیں مگر بعض اوقات یہ
معمولی خبریں رائے عامہ کے ایک ہزار جائزوں سے زیادہ اثرات کی حامل
ہوجایاکرتی ہیں۔ عالمی مالیاتی منڈیوںمیں ہونے والے واقعات نے دنیا بھر کے
لوگوں کو ہلا کر بلکہ دہلا کر رکھ دیاہے ۔ وہ ہر طرف ہر جگہ ہر کسی سے
جواب مانگنا شروع کر چکے ہیں مگر اس کا جواب انہیں دنیا پر حاوی چلے آرہے
معاشی فلسفے کی کسی کتاب سے نہ مل سکتا ہے نہ ملے گا ،جواب کے لیے لوگوںکو
اسی طرف ہی آنا ہے جہاں اس سب کی وضاحت بہت پہلے سے ہوتی آرہی ہے یعنی
مارکسزم۔ اگر کسی کو بھی اس بارے کوئی شک و شبہ ہے تو ہم ان کے لیے،،
کمیونسٹ مینی فیسٹو،، سے یہ اقتباس پیش کرتے ہیں جوآج سے ایک سو ساٹھ سال
پہلے آٹھارہ سو آٹھاون میں شائع ہواتھا،، جدید بورژوا سماج نے گویاجادو کے
زور سے پیداوار اورتبادلے کے عظیم الشان وسائل کھڑے کرلئے ہیں مگر
پیداوار، تبادلے اور ملکیت کے اپنے رشتو ں سمیت اس سماج کی حالت اس شعبدہ
گر کی سی ہے جس نے اپنے جادو کے زور سے اپنی شیطا نی طاقتوںکو جگا
تولیامگر اب ان کو قابو میں نہیں کرپارہا۔ پچھلے بیسیو ں سالوں سے صنعت
وتجارت کی تاریخ ، جدید پیداواری قوتوں کی بغاوت کی تارےخ ہے۔
جدیدپیداواری تعلقات اور ملکیت کے ان رشتوں کے خلاف بغاوت جو بورژواطبقے
اور اس کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں
ان تجارتی بحرانوں کا ذکر ہی کافی ہے جو متواتر کچھ وقفوں کے بعد لوٹ
کرآیاکرتے ہیں۔ اور جو سارے بورژوا سماج کی زندگی کوپہلے سے بھی بڑے خطرے
میں دھکیل دیاکرتے ہیں۔ ان بحرانوں میں ہر دفعہ صرف تیارشدہ مال کا ہی
نہیں بلکہ پہلے کی بنی ہوئی پیداواری قوتوں کا بڑا حصہ بھی بربادہو کے رہ
جاتاہے ۔ ان بحرانوں میں جیسے ایک وباپھوٹ پڑتی ہے، فاضل پیداوار کی وبا
جو پہلے کسی زمانے میں ہونا ناممکن تھی۔ اس کیفیت میں سماج خود کو کچھ
دنوں کے لیے کسی بربریت کی زد میں آیاہوا محسوس کرتا ہے۔ ایسے جیسے کسی
بڑے پیما نے کی جنگ یا کسی بڑے قحط کے دوران زندگی کے سبھی دروازے بندہوتے
محسوس ہوتے ہیں۔ صنعت تجارت سب تباہ وبربادہوتا نظر آتاہے ۔ ایسا کیوں؟اس
لیے کہ تہذیب وتمدن کی برکتوں،زندگی کے لیے وسائل، صنعت،تجارت سب کی افراط
ہو چکی ہوتی ہے۔ سماج میں موجود پیداواری قوتوں سے بورژواملکیت کے نظام کی
مزید ترقی محال ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس وہ اتنی طاقتور ہو گئی ہیں کہ کہ
اس نظام کے سنبھالے نہیں سنبھلتیں ،یوں یہ نظام ان قوتوں کے پاﺅں کی زنجیر
بن جاتاہے اور جب یہ ان زنجیروں پر قابو پاتی ہیں توسارے بورژوا سماج میں
خلل پڑ جاتا ہے۔ بورژوا ملکیت کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتاہے۔ بورژوا
تعلقات کادامن اتنا تنگ ہے کہ یہ اپنی ہی پیداکی ہوئی دولت کو سنبھالنے سے
قاصرہوتاہے۔ بورژوا طبقہ ان بحرانوں پر کیسے قابو پا سکتا ہے، ان پر قابو
پانے کے لیے ایک طرف پیداواری قوتوں کا بڑا حصہ زبردستی تباہ کر دیا جاتا
ہے تو دوسری طرف نئی منڈیوں پر قبضہ کر لیا جاتاہے۔ اسی طرح پرانی منڈیوں
کے استحصال کی شدت میں بھی مزید اضافہ کردیاجاتاہے۔ دوسرے الفاظ میں پہلے
سے بھی زیادہ بڑے اور گہرے بحرانوں کا رستہ ہموارکردیاجاتاہے اور ان
بحرانوں کو روکنے کے رستے اور بھی مسدود کر دیے جاتے ہیں۔ ہم چیلنج کرتے
ہیں کہ جو صورتحال اس وقت دو ہزار آٹھ میں دنیا کو درپیش ہے اس کی اس سے
بہتر کوئی وضاحت ہو سکتی ہے تو سامنے لائی جائے۔ فرائیڈمین یا کینز،کسی
بھی بڑے بورژوا معیشت دان کے فلسفے اور نظریے اٹھاکر دیک لیجئے ، مالیاتی
جرائد کے پچھلے بیس سالوں میں شائع ہونے والے سبھی دانش افروزمضامین کھنگا
ل کر دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب بھی جہاں بھی انہوں نے مارکس کا ذکر کیا
یا اس کا حوالہ دیا تو محض اسے غلط جھوٹا ظاہر کرنے کے لیے ہی کیا۔ اس وقت
بھی کئی سنجیدہ مفکر و دانشور مارکس کی طرف رجوع کر رہے ہیں مگر اس لئے
صرف کہ یہ سمجھ سکیں کہ یہ سب کیوں ہو رہاہے ، اس لئے نہیں کہ مارکس کی
سچائی اور فراست کو تسلیم کیاجائے۔ ان بورژواماہرین و مفکرین کی چنتا یہ
نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے کام کرنے کا سادہ اور کھرا تجزیہ کرتاہے
بلکہ وہ اس تشویش میں ہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ بحران کو انقلاب کے ہونے کا
پیش خیمہ بھی قراردیتاہے۔ وہ یہ بھی کہتاہے کہ ان بحرانوں سے تنگ آئے عام
محنت کش انسان بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ بغاوت اور انقلاب کا یہی نظریہ اس
وقت دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے دلوںاور دماغوں مےں سرایت کرنا
شروع ہوگیاہے۔ اگر آپ بھی خود کو انہی میں سے ایک سمجھتے ہیں تو ہم آپ کو
دوعت دیتے ہیں کہ آئیے عالمی مارکسی رحجان کے ساتھ شامل ہوکر ان قوتوں کی
تعمیر میں ہمارا ساتھ دیجئے جو اس پاگل بدحواس وحشی نظام کو اکھاڑپھینک کر
اسے ختم کر سکے۔
Source: Chingaree.com