Urdu translation of articles by Alan Woods on revolution in Egypt.
تحریر: ایلن وڈز ۔ ترجمہ ؛اسدپتافی
چنگاری ڈاٹ کام،31.01.2011
مصر میں ہر طرف غصہ ہی غصہ آگ کی طرح پھیل کر سارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہواہے ۔کسی میں دم خم نہیں ہے کہ اس سب کو روک سکے ،پیچھے دھکیل سکے ۔حسنی مبارک کی حکمرانی ہوا میں معلق ہو چکی ہے ۔آج قاہرہ میں انتہائی پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں اور صرف قاہرہ ہی نہیں مصر کے ہر شہر میں یہ ہواہے ۔اور یوں تحریک اپنی طاقت کی نئی کیفیتوں کی طرف بڑھ چکی ہے ۔جمعہ نماز کے بعد عوامی مظاہروں کا اعلان کیاگیاتھا اور حکومت نے اس پر خبردارکیاتھا کہ کسی بھی احتجاج کو سختی سے کچل دیاجائے گا۔اور یوں ایک لڑائی ایک مقابلے کی فضا بن گئی اور پھر بنتی چلی گئی۔
صورتحال غیر معمولی شدت اور تیزرفتاری کے ساتھ دھماکہ خیز ہوتی جارہی ہے ۔کچھ ہی دنوں میں ہزاروں اور پھر لاکھوں انسان سڑکوں پر گلیوں میں آتے چلے گئے اور آزادی کے نعرے بلند سے بلند تر ہوتے چلے گئے ۔اور پھر زمانے نے دیکھا کہ کس طرح جراتمنداور دلیرمصریوں نے فوج اور پولیس کے بوٹوں ،بندوقوں،گولیوں،آنسوگیس کے شیلوں کا مقابلہ کیا۔اور آج جمعے کے دن تو انہوں نے کمال کر دکھایاہے ۔آج تو جیسے موت اور زندگی کے مابین جنگ ٹھہری ہے ۔پہلے جواحتجاجی مظاہرے ہوئے وہ مصر کے نوجوانوں کے تھے لیکن آج تو ان مظاہروں میں عام غریب اور محروم ومقہور انسان بھی شریک ہوچلے ہیں ۔رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ ’’ایسے کئی اشارے ملے ہیں کہ قاہرہ میں موجود انتظامیہ کو یہ احساس ہوچکاہے کہ اس کے پاؤں تلے سے کچھ کھسک رہاہے ۔کئی مصریوں نے مجھے بتایاہے کہ 24جنوری کو مصری سیکورٹی فورسز والے جمال مینار پر چڑھ کر نیچے کی تصاویر اتار رہے تھے۔نیچے غریبوں کی بستیاں اور جھونپڑ پٹیاں تھیں۔اس نے نیچے والوں کو اوپر والوں کے خلاف بھڑکا دیا۔لیکن اس کے بعدہونے والی مسلسل اور لاتعدادگرفتاریوں ،سڑکوں پر عورتوں مردوں پر ہونے والے پولیس تشدد،اور پھر قریب قریب منہدم ہو چکی سٹاک مارکیٹ کی خبر نے تو صبر وتحمل کے ہر پیمانے کوتوڑ ڈالاہے۔اور لوگ ڈرنے کی بجائے لڑنے پر اتر آئے ہیں‘‘۔
کیا جبروتشددکامیاب ہوسکتاہے
مصر کے انقلاب کو اس وقت ایک سخت گیر چیلنج کا سامنا ہے ۔مصری حکمرانوں نے پندرہ لاکھ افرادپر مبنی سیکورٹی فورسزمنظم کی ہوئی ہیں۔اور اس طاقت کو حکمرانوں نے اپنی سلطنت و رعونت کا مرکزہ بنایاہواہے کہ جس کے بل بوتے پر یہ کروڑوں انسانوں پر اپنی دھونس اور دھاک قائم رکھے آرہے ہیں۔اس ضخیم و لحیم طاقت کا مقصد کسی طور یہ نہیں کہ اسے کسی غیر ملکی قوت کے خلاف استعمال کیاجاسکے ۔یہ بڑی اوربھاری فوج اسرائیل سے جنگ کیلئے نہیں بنائی گئی ہے ہاں مگر اس کا اول وآخر ہدف اپنے ہی باشندوں کو زیر نگیں رکھنا ہے اور بس۔لیکن کیا اپنے ہی لوگوں کو مفتوح رکھا جاسکتاہے ؟بظاہر دیکھاجائے تو یہ ایک بڑی قوت ہے جسے کسی طورعوام شکست نہیں دے سکتے۔اور عام طورپر یہی سوچاسمجھا جاتاہے اور سمجھا جاتا آرہاہے کہ اتنی بڑی فوجی طاقت تو عام لوگوں کو تہس نہس کر کے رکھ دے گی ۔
لیکن تاریخ کچھ اور ہی ،کچھ اور بھی بتاتی اورسمجھاتی ہے؛فرانس کے باشاہ لوئی چہاردہم،روس کے بادشاہ نکولس زار،اور ایران کے پہلوی شہنشاہ کے آگے پیچھے اوپر نیچے بھی طاقت وجبر کے ایسے ہی خونخوار ڈھانچے اور ادارے ہواکرتے تھے مگر۔۔۔حسنی مبارک کے پاس موجود ڈھانچے سے کہیں زیادہ سخت اور جابر۔اس سب کے باوجود بھی ہم جانتے ہیں کہ یہ سبھی حکمران سب بادشاہ ،اپنے سبھی ڈھانچوں سمیت ،عوام کی تحریکوں کے سامنے آتے ہی تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے چلے گئے اور عبرت کی داستانوں میں گم ہوگئے ۔
لیکن پھر اس موقع پر اس قسم کی ننگی بربریت کا مظاہرہ کسی طور بھی طاقت کے طاقتورہونیکی نہیں بلکہ اس کے کمزور ہونے ،اس کے حواس باختہ ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔حکومت کو فوج یا پولیس جوبھی بچائے؛بچاپائے بھی یا نہ بچاپائے؛یہ ثابت کرتاہے کہ حکومت کی طاقت تمام ہوئی ۔معروف جنگجو نپولین نے ایک بار قرار دیاتھا کہ آپ سنگینوں سے ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں لیکن آپ ان پر بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔آخری تجزیے میں فوج اور پولیس کسی بھی غیر مقبول حکومت کو بچاپانے کی ضمانت نہیں بنا اور دیاکرتے۔اپنی حتمی کوشش اور بے چارگی کی شدت کے عالم میں حکومتیں طاقت کے اپنے ڈھانچوں کو اپنے بچاؤ اور عوام کو کچلنے اور دبانے کیلئے استعمال میں لاتی ہیں مگر اس سے نہ احتجاج رکتے ہیں نہ عوام دبتے ہیں۔عوام کا اپنا خوددریافت کردہ شعور اور حوصلہ، ایک مرحلے پر حکومت کے جبرواستبدادکے خلاف دفاع اور حملے کا باعث بن جایاکرتاہے ۔
حکومت کا طاقت کاا ستعمال ایک کمزور ی ہے اور بعد میں اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئیں گے ۔حکومت اپنی پورا زور صرف کررہی ہے کہ انقلاب کو پوری طاقت سے کچل دیاجائے۔انٹی ٹیررازم ایلیٹ پولیس فورس کو حکم دے دیاگیاہے کہ وہ متعلقہ اور متاثرہ علاقوں میں پوزیشنیں سنبھال لیں ۔آج صبح سے ہی قاہرہ سمیت سبھی شہروں میں فورسزنے کئی مقامات کو اپنے نشانے پر رکھ لیاہے تاکہ مظاہرین سے نمٹا جاسکے ۔لیکن اب یہ سب بے کار بے نتیجہ ثابت ہوگا۔پہلے سے کہیں زیادہ لوگ سڑکوں گلیوں میں امڈ پڑے ہیں ۔پورٹ صید میں80,000،بینی سوئف میں50,000 لوگ نکلے ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جوقاہرہ سے دور ،جنوب کی جانب واقع ہیں۔سکندریہ اور سوئزکے علاقوں میں بھی بہت بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔پچھلے سال جیسا کہ ایران میں ہواتھا ،جب مظاہرے فیس بک اور ٹویٹرکے ذریعے منظم کئے جارہے ہوں ،ایسے میں مظاہروں کو منظم کرنے والوں کو گرفتارکرنا ،ممکن نہیں ہوتا۔روایتی طورپر سماج میں پھرنے والے سرکاری مخبروں کی فوج ظفر موج کی بے بسی دیدنی ہے۔
ریاست نے پہلے کوشش کی کہ فیس بک کو بلاک کر دیاجائے۔اس نے انٹرنیٹ سروس کو ہی بند کردیااور موبائل فونوں کو بھی جامد کردیا ۔لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوسکا۔لوگوں نے ایک قدیمی طریقہ استعمال شروع کردیااور ایک سے دوسرے شخص تک منہ زبانی پیغام رسانی شروع کر دی۔یہاں ہم لندن میں بیٹھے دیکھ رہے ہیں کہ لاکھوں افراداکٹھے ہیں اور وہ لڑرہے ہیں۔پولیس کی قطاریں مظاہرین کو روک سکنے میں ناکام ہورہی ہیں۔ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر نظرآرہاہے کہ عوام کو پولیس نہیں بلکہ پولیس کو عوام دھکیل رہی ہے ۔اور یوں نظم و نسق الٹ چل رہاہے۔پولیس کو بھگا چکنے کے بعدتو لوگوں کا جیسے جم غفیر سڑکوں اور گلیوں میں سے ہوتاہوا ،مشہورزمانہ تحریر چوک پر جمع ہو نا شروع ہوگیا۔جسے اب تک پولیس والوں نے اپنے محاصرے میں لے رکھاتھا۔مقابلے کے بعد چند ایک پولیس والے ہی چوک کے اردگرد دکھائی دے رہے ہیں۔ایسے ہی کچھ موقع ہوتے ہیں کہ جب ریاستی تشدد اپنے الٹ نتائج مرتب کرنا شروع کر دیتاہے اور یہ لوگوں کوہراساں کرنے کی بجائے ان میں غم وغصے اور جذبے کو مزید بھڑکادیاکرتاہے۔سوئز شہر میں تو لوگوں نے پولیس کی ایسی کی تیسی پھیر دی کیونکہ پولیس کی گولیوں سے کچھ مظاہرین ہلاک کر دئے گئے ۔وہاں مظاہرین نے پولیس کا مرکز تہس نہس کرڈالا۔اور جب اس مرحلے تک نوبت پہنچتی ہے تو ریاست کے ڈھانچوں اور اداروں کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور شکست وریخت شروع ہوجاتی ہے۔سپاہیوں اور فوجیوں کی اکثریت اپنے ہی شہریوں پر جبروتشددسے انکار کردیاکرتی ہے۔اور سوئز سمیت بیشتر شہروں میں ایسے کئی واقعات کے ہونے کی خبریں آچکی ہیں۔
نوجوان نسل کا کردار
سارے مصرمیں اس وقت لوگ ہی لوگ سڑکوں پر امڈے جارہے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر تعداد مصری نوجوان نسل سے تعلق رکھتی ہے اور جو کہ بے روزگار ہیں اور جن کے سامنے مستقبل نام کی کوئی شے نہیں ہے ۔ایک نوجوان نے بی بی سی کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم غریب لوگ ہیں،ہم کریں بھی تو کیا کریں!کیا ہم غریب لوگ خودکو آگ لگا کر بھسم کرڈالیں؟‘‘۔اس جیسی محروم نسل کیلئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ یہ سماج کو بدل ڈالنے کی امید اور جدوجہد سے خود کو جوڑ لیں ۔ان نوجوانوں نے ہر قسم کے خوف کو اپنے دلوں دماغوں سوچوں میں سے کھرچ کے پھینک دیاہے ۔اور انہوں نے اپنی زندگیاں برابری اور آزادی کے حصول کیلئے داؤپر لگا دینے کا فیصلہ اور تہیہ کرلیاہے ۔ان احتجاج کرنے والوں میں سے بڑی تعداد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طالب علموں کی ہے جنہیں کوئی کام کوئی روزگار میسر اور نظر نہیں آرہاہے ۔نہ وہ شادی کا تصور کرسکتے ہیں اور نہ ہی گھربار بسانے کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔یوں ایک انتہائی شدید کرب اورگہری ذلت کے احساس تلے دبی آرہی یہ نسل اس نظام کے خلاف شدید مزاحمت اور نفرت سے بھری ہوئی ہے کہ جو انہیں کوئی مستقبل نہیں فراہم کررہا۔یہی نہیں یہ نسل ایک ایسی حکومت اور طرز حکومت سے بھی تنگ آچکی کہ جس نے خودکو اس نسل کے مستقبل کا خون چوس چوس کر اپنی توندیں بڑھالی ہوئی ہیں۔
قاہرہ میں جریدے گارڈین کے نمائندے الاال اسوان جس نے پچھلے منگل کوہونے والے بڑے مظاہرے میں بھی شرکت کی تھی ،نے مظاہرین کی جرات بہادری کو مثالی اور حیران کن قراردیاہے ۔اور کہاہے کہ ایک بات تو طے ہے کہ اب حکومت کی رخصتگی سے کم لوگ واپس جانے والے نہیں ہیں ۔’’میں ہمیشہ ان انقلابیوں کے جوش ،ولولے اور جذبے کے سحر میں رہوں گا ۔جو کچھ بھی انہوں نے کہا ہے ،اس سے ایک نفیس اور زیرک سیاسی شعور واضح چھلکتا نظر آتاہے ۔ان کے اندر آزادی کی ایسی تڑپ پیداہوچکی ہے کہ جسے موت بھی شکست نہیں دے سکتی۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں بھی کچھ کہوں۔میں بلاشبہ سینکڑوں بار عوامی اجتماعات سے خطاب کر چکاہوں،مگریہ تو اجتماع ہی کچھ اورنوعیت کاتھا ۔مجھے تیس ہزار سے زائدلوگوں سے بات کرنے کو کہا جارہاتھا،جو کسی طور مصالحت کی چکنی چپٹی باتیں سننے کو تیار نہیں ہیں۔میں بات کررہاتھا اور وہ حسنی مبارک مردہ باد کے نعرے لگاتے جارہے تھے ،حکومت کے خاتمے کے نعرے بلندکر رہے تھے۔میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے جو کچھ کردکھایاہے وہ مثالی ہے ،تاریخی ہے اوریہ کہ انہوں نے جبروتشددپر مبنی آمریت کے عہدکو للکاراکے اکھاڑدیاہے ۔ا ب اگرہمیں مارا جاتاہے ،گرفتاربھی کیاجاتاہے تو بھی ہم نے یہ ثابت کردیاہے کہ ہم کسی طور کم ہمت نہیں ہیں۔اور یہ بھی کہ ہم جتنا آج بہادرومضبوط ہیں اتنا پہلے کبھی نہیں تھے ۔ان ظالموں کے پاس ہر قسم کے جبروتشددکے آلات ہیں کہ جس سے دنیا بھر میں ظلم ڈھایاجا سکتاہے لیکن ہمارے پاس بھی ایک طاقت ہے جو ان کے ہر ہتھیار اور ہر ہتھکنڈے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے ؛اور وہ طاقت ہمارا عزم ہمارا آزادی پر کامل یقین ہے۔ہزاروں لوگوں نے میری بات کو سنا اور فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ ہم ابتدا کر چکے ہیں اور اب اسے انجام تک بھی لے جائیں گے‘‘۔(گارڈین۔جمعرات27جنوری2011ء)
فیصلہ کن عنصرجو اس ساری کیفیت میں حاوی ہے ،وہ لوگوں کو اپنی اجتماعی طاقت کا ادراک ہوچکاہے اوروہ اپنے خوف اپنے تذبذب سے نجات پاتے جارہے ہیں۔نوجوانوں سے شروع ہونے والی تحریک سے ،جو کہ سب سے زیادہ ولولہ انگیزسب سے زیادہ پرجوش ہیں،یہ عیاں ہوچلاہے کہ اب نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر عمر کے لوگ اس مزاحمت میں شریک ہوچکے ہیں۔ان میں سماج کی کئی سنجیدہ اور بالغ نظر پرتیں بھی شامل ہیں ۔گارڈین اس ضمن میں مندرجہ ذیل دلچسپ رپورٹ لکھتاہے؛
’’ اب تو یہ حال ہوچکاہے کہ عام لوگ بھی جوق درجوق شامل ہو کر پولیس سے لڑرہے ہیں۔مجھے ایک نوعمر لڑکے نے جو کہ پولیس والوں سے لڑکر آرہاتھا، بتایاکہ جب وہ پولیس سے بچنے کیلئے صبح چار بجے ایک اپارٹمنٹ میں داخل ہوااور گھنٹی بجائی تو ایک بزرگ نے دروازہ کھولا۔پہلے تو وہ خوفزدہ ہوالیکن پھرجب میں نے اپنا شناختی کارڈدکھایااور بتایا کہ میں اس طرح پولیس سے لڑکر آیاہوں تو اس نے مجھے گھر بٹھالیا۔اس کی تین بیٹیاں فوراًہی میرے لئے کھانا تیارکر کے لے آئیں۔ہم نے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا،چائے پی اور پھر بڑی دیر تک آپس میں خوب باتیں کیں اور ایسے لگ رہاتھا کہ جیسے ہم سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ آشناہیں۔جب صبح دن میں بدلنے کو آئی توبزرگ میرے ساتھ ہولئے اورانہوں نے میرے لئے ایک ٹیکسی کار کو روکا اور ساتھ ہی مجھے کچھ رقم دینے لگے۔میں نے ان سے معذرت کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ بزرگ آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ شکریہ تو مجھے تم جیسے نوجوانوں کا اداکرناچاہئے کہ جو میرے اور میرے بچوں سمیت سبھی مصریوں کیلئے جدوجہد کر رہے ہو‘‘۔(گارڈین۔27جنوری2011ء)
اب اور آئندہ
اک بات تو طے ہے۔حسنی مبارک کیلئے آج کا دن مبارک ثابت نہیں ہوااور شکست اس کے ماتھے پر ثبت ہو چکی ہے ۔ان سطورکو لکھتے وقت ،واقعات بہت تیزی سے ہوتے جارہے ہیں۔افواہیں ہی افواہیں ہر طرف سے آرہی ہیں۔قاہرہ کے ایک روزنامے نے دعویٰ کیا ہے کہ مبارک کا ایک سینئر مشیر نوٹوں سے بھرے97 صندوق لے کے لندن کی جانب رفوچکرہوگیاہے۔ایسی رپورٹیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ صدر مملکت نے پولیس کے بالاحکام کو بلا کر سرزنش کی ہے کہ وہ مظاہرین سے نمٹنے میں نرمی برت رہے ہیں۔ اس وقت رات گئے بھی لوگ سڑکوں پر ہیں اور حکومت کی طرف سے لگائے گئے کرفیو کی دھجیاں اڑا کے رکھ دی ہیں۔مشتعل لوگوں نے سرکاری دفاتر کو نذرآتش کرڈالاہے ۔ابھی کچھ ہی دیر پہلے الجزیرہ ٹی وی پر دکھایاگیاہے کہ مظاہرین نے وزارت خارجہ کو آگ لگادی ہے ۔اسی طرح پہلی بار حکومتی پارٹی کے دفترکو بھی نذر آتش کردیاگیاہے۔فائر بریگیڈ نے آگ بجھانے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔
مصر میں ہونے والے واقعات نے امریکہ میں گھنٹیاں بجا دی ہیں ۔امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کومظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر سخت تشویش ہے ۔ہیلری نے حکومت کو طاقت اور مصری عوام کو مظاہرے کرنے سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے ۔اس نے کہا کہ مظاہروں کی شدت سے یہ اندازہ ہوجاتاہے کہ مصری سماج میں شدید اضطراب موجود ہے ۔اور مصری حکومت کو چاہئے کہ وہ اس بات کو سمجھے کہ تشدد کسی طوراس اضطراب پر قابونہیں پا سکے گا ۔ایک دیرینہ پارٹنر کے طورپر ہم چاہیں گے کہ مصر ی حکومت کو اپنے مصری عوام کے ساتھ معاملات میں ہم آہنگی پر توجہ دے۔اور سیاسی سماجی و معاشی اصلاحات کو یقینی بنائے ۔ ہیلری کلنٹن کے اس بیان کا اگر سلیس زبان میں ترجمہ کیاجائے تو وہ یوں بنتاہے کہ ’’حسنی مبارک بیوقوف مت بنو!اگر تم نے فوج کو باغیوں کو کچلنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی تو بغاوت بپھرکر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی۔تحریک میں اتنی شدت ہے کہ اسے خون میں نہیں ڈبویا جاسکتا ۔تمہیں ہشیاری سے کام لیناہوگا۔کچھ رعایتیں دواپنے لوگوں کو؛ایسا نہین کرسکتے ہو تو کم از کم کوئی اس قسم کا تاثر ہی دوکوئی وعدہ کوئی دلاسا۔لیکن مصیبت یہ پڑ چکی ہے کہ یہ سب بھی تمہیں بچانے میں معاون ثابت نہیں ہوگا ۔تم بہت بوڑھے ہوچکے ہو اور اب کسی کام جوگے نہیں رہے ہو۔مناسب ہے کہ اب ریٹائرمنٹ لواور کسی جگہ جاکر امن سکون سے باقیماندہ دن بسرکرواور ہمارے سرمایہ دارانہ نظام کو کسی خطرے میں نہ ڈالو۔ایسا نہ کیا توانوارا لسادات کی طرح تمہاری بھی لاش گر سکتی ہے ۔اور ظاہر ہے یہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہوگا۔اور اگر تم نے اپنے عوام کے غیض و غضب کو بھڑکاڈالاتو وہ انقلاب لے آئیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ ہمارے لیے بہت برا ہوگا‘‘۔لگتاایسے ہے کہ حسنی مبارک اپنے محل کی بلند وبالافصیلوں کے اندر ان آوازوں اور مشوروں پر کان نہیں دھر رہا۔اس کے ارد گرد خوشامدیوں اور چاپلوسوں کا جمگٹھااسے نہ کچھ سننے دے رہاہے نہ سمجھنے ۔وہ اپنی کئے جارہاہے ۔اس نے کرفیو مسلط کردیاہے ۔لیکن لوگ ہیں کہ کرفیو کو مسترد کرچکے ہیں ۔اس نے فوج سے کہا ہے کہ وہ سیکورٹی فورسزکا ساتھ دیں لیکن ادھر عوام فوج سے کہے جارہی ہے کہ وہ لوگوں کا ساتھ دے ۔ایسی خبریں رپورٹیں آرہی ہیں کہ پولیس اور فوج ، لوگوں کے ساتھ ملتے جا رہے ہیں۔ٹینکوں بکتر بند گاڑیوں پر سپاہ موجود ہے لیکن سپاہی اپنے عوام کے ساتھ یکجہتی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ایسی بھی غیر مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ فوج اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں۔رابرٹ فسک ،مغرب کے ان سنجیدہ صحافیوں میں سے ایک ہے جو کہ اس ساری کیفیت کا انتہائی سنجیدگی اور باریک بینی سے مشاہدہومطالعہ کررہے ہیں ۔آج کے ’’انڈیپینڈنٹ‘‘ میں اس نے لکھاہے کہ ’’ایسے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ مبارک کی بدعنوان اور آمرانہ طرز حکومت سے تنگ آچکے اور کم اجرتوں پر ملازمت کرنے والے پولیس والے اب مظاہرین میں شامل ہونے لگے ہیں ۔جب پولیس کسی جلوس کو گھیرا ڈالتی ہے تو لوگ پولیس والوں سے سوال کرتے ہیں کہ تمہیں کتنی تنخواہ دی جا رہی ہے ؟کوئی ہے جو اس پر بات کر رہاہے !کوئی نہیں ہے نا !اب ایسے میں کسی سے کیا بات کی جائے سوائے اس کے کہ مبارک حکومت کا خاتمہ کردیاجائے جو کچھ بھی کرنے سے قاصرہوچکی ہے ۔تیس سال بہت ہوتے ہیں یہ دیکھنے کیلئے کہ یہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے‘‘۔
کرفیوپرکرفیو لگایا جارہاہے ۔لیکن لوگ ہیں کہ کرفیو لگنے سے پہلے ہی وہ سڑکوں پر ہوتے ہیں ۔’’الجزیرہ‘‘کے مطابق ’’سڑکیں اور گلیاں کسی بھی پارٹی کے نظم و نسق میں نہیں ہیں ۔نہ ہی ریاست کا اس پر کوئی کنٹرول ہے ؛ان پر کسی فردکا بھی کنٹرول نہیں ہے ‘‘۔مصر میں ہونے والے واقعات پر لمحہ بہ لمحہ نظر دوڑاتے ہوئے مجھے 14جولائی 1789ء کا فرانس یادآرہاہے ۔جب بستائل Bastilleکے انہدام کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئی چہاردہم نے ڈیوک آف روشے فوکالڈلیان کورٹ سے پوچھا ’’یہ کہیں انقلاب شنقلاب تو نہیں چل رہاہے ؟جس پر ڈیوک کے منہ سے تاریخی جملہ نکلا ۔نہیں عزت مآب نہیں !یہ انقلاب ہے ،انقلاب‘‘
مصر میں جو کچھ بھی ہورہاہے وہ اپنے پورے جوبن پر آیاہواایک انقلاب ہے ۔پانچ دنوں کی دیوہیکل جدوجہدکے بعد یہ ایک زندہ حقیقت دھارتا چلا جارہاہے ۔ہر گذرتے گھنٹے کے بعد یہ مقبول عوامی بغاوت بپھرتی چلی جارہی ہے ۔دریا کی موجیں اپنے کناروں سے باہر نکلتی اور پھیلتی جارہی ہیں اور اپنے سامنے آنی والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرتے آگے بڑھتاجارہاہے ۔راتوں رات ہی پولیس دارالحکومت میں سے غائب ہو چکی ہے ۔ قاہرہ کی سڑکوں پر ٹینک اور مسلح بکتربندگاڑیاں گشت کررہی ہیں ۔کل ہونے والے ہنگاموں میں سے اٹھنے والا دھواں اب بھی اٹھ رہاہے ۔موبائل سروس بحال ہو چکی ہے مگر انٹرنیٹ تاحال بند ہے ۔28جنوری سے اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 53سے بڑھ چکی ہے ۔سوئز شہر میں جہاں بیس مظاہرین شہید ہوئے ،کی لاشوں کو لوگ سڑکوں پر اٹھائے پھرتے اور انقلابی نعرے لگاتے رہے ۔قاہرہ شہر کی ایک جیل کو وہاں مقید سیاسی قیدیوں نے اپنے قبضے اور کنٹرول میں لے لیاہے۔گیزہ میں لوگوں نے پولیس سٹیشن جلادیے ہیں اور پولیس کو بھگادیاہے ۔مصر کی سڑکوں پر پولیس کی جلی ہوئی گاڑیاں ایک عام منظر بن چکی ہیں ۔ایک موقع پر تو مظاہرین نے اشتعال دلانے پرپولیس وین کو دریائے نیل میں ڈبودینے کی بھی کوشش کی ۔پولیس کے اس طرح سے غیر موثرہوجانے کے بعد لوٹ مار کی بھی اطلاعات ملی ہیں ۔لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ لوٹ مارکا یہ کھیل حکومتی سرپرستی ونگرانی میں منظم کیا جارہاہے ۔تاکہ قیاس اور انتشار کو بروئے کار لایاجاسکے ۔یہ بھی واضح ہو چکاہے کہ جیلوں کوکھولایاتوڑاجارہاہے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کو کام میں لایاجاسکے ۔مصری ٹیلی ویژن پر قاہرہ کے تاریخی عجائب گھر میں نادر نوادرات کو تباہ کرتے ہوئے دکھایاگیاہے ۔یہ سب ایک واضح اشارہ ہے کہ انقلاب کو تباہ وبربادکرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں ۔اب پولیس کی جگہ لمپن بدمعاش عناصرکو مظاہرین سے نمٹنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔کئی ایک کو مظاہرین نے پکڑا بھی ہے اور پتہ چلا ہے کہ یہ سب پولیس کے ہی آدمی ہیں ۔اس کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے دفاعی کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں۔کئی علاقوں میں ان کمیٹیوں نے تو ٹریفک کنٹرول بھی خودہی سنبھال لیا ہے۔یہ وقت کا فوری تقاضا بھی ہے کہ ایسا کیا جائے یہی نہیں بلکہ ان کمیٹیوں کو مسلح بھی کیا جائے ۔ہمیں فرانسیسی انقلاب کے نعرے کو ہر حال میں یادرکھنا چاہئے Mort aux voluers’’چوروں کیلئے موت‘‘۔ حسنی مبارک کا خطاب
قدیم زندہ کہاوت ہے؛اقتدار آپ کوبد عنوان کر دیتاہے۔لیکن مطلق اقتدار آپ کو مطلق بد عنوان کر دیتاہے۔اس وقت اگر مصر کے صدر کی ذہنی حالت و صلاحیت کا اتہ پتہ لگایاجائے توپتہ چلے گاکہ قدیم رومن بادشاہ اور زارروس سے کم کیفیت نہیں ہے جناب کی بھی۔ابھی اپنے حالیہ خطاب میں انہوں نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کیاشاندار مظاہرہ کیاہے ۔دیکھنا سمجھنا چاہئے کہ کیونکر ایسے حکمرانوں کو اپنے ہی لوگوں کی آ وازیں سنائی نہیں دیتیں!نہ تو انہیں دکھائی پڑتاہے نہ سنائی۔حواس نام کی جیسے ان میں کوئی شے ہوتی ہی نہیں !خوشامداور چاپلوسی میں ہمہ وقت گھرے رہنے کی وجہ سے اس قسم کے انسانوں کی خارجی حقائق سے تعلق واسطہ ہی ختم ہو جاتاہے۔اسے صرف اورصرف اپنی مطلق العنانی پر ہی گھمنڈ ہواکرتاہے ۔میں ہی میں ؛بس میں ہی میں۔یوں حقیقت اور دھوکے میں واضح لکیر کھنچ جاتی ہے ۔ایسی ہی کیفیت کو اصطلاح میں پاگل پن کہا جاتاہے۔ جس کسی نے بھی حسنی مبارک کا قوم سے خطاب سنااس کی کم و بیش یہی رائے بنتی ہے ۔سب کچھ بدل کے رکھ دوں گا۔مجھ پر اعتماد کریں ۔میں حکومت میں شامل ہر ایک کو نکال باہر کر رہاہوں۔اور نئے لوگ لا رہاہوں۔میں سب کچھ بدل دوں گا لیکن میں اس کے ساتھ ہی کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کو بھی برداشت نہیں کروں گا ۔جو بھی مظاہرہ کرے گا اس کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی ۔یہ ایک ایسے فردکی گفتگوہے جسے عام طورپرعام لوگوں کا مائی باپ سمجھا جاتا ہے ۔لیکن مصر کے عام لوگ بھی بچے نہیں ہیں ۔انہیں ایسا باپ نہیں چاہئے جو انہیں کچلنے کیلئے اپنی سپاہ کو بھیجتاہے ۔ ُپرانی حکومت کو ختم کر کے ایک نئی حکومت تشکیل دی جاچکی ہے ۔اور ایک 74سالہ عمر سلیمان کو نائب صدر بھی مقررکردیاگیاہے ۔یہ سڑکوں پر نکلے ہوئے لوگوں کی تذلیل کے سواکوئی معنی نہیں رکھتا۔اس سے عیاں ہوتاہے کہ مبارک کس قدرسٹھیا چکاہے !بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک مصری نے کہا کہ ’’میں سوچ رہاتھا کہ کچھ دیر کیلئے گھر جا کر سستالوں لیکن مبارک کی تقریر سننے کے بعد میں نے آرام کا ارادہ ترک کردیااور سبھی جاننے والوں سے فوری رابطہ کرکے انہیں سڑک پر آنے اور احتجاج کرنے کا کہا اور یوں ہم پھر سڑکوں پر نکل آئے ‘‘۔ اسلام کا ہوا
مغربی دانشوراور تجزیہ نگار مسلسل ڈھول پیٹے جارہے ہیں کہ مصر کی اس عوامی سرکشی کے پیچھے اخوان المسلمون کا ہاتھ ہے ۔اور یہ بھی کہا جارہاہے کہ صرف وہی ایسی قوت ہے جو کہ حسنی مبارک کا واقعی متبادل ہے ۔یہ سراسر غلط ہے ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دوسری سبھی پارٹیوں کی طرح اخوان کو بھی اس اچانک عوامی سرکشی کا خواب وخیال تک نہ تھا ۔شروع میں تو انہوں نے اس کی تائید کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ویسے بھی عوام کو منظم کرکے متحرک کرنے کا ان کا رول اب غیر موثرہوچکاہے ۔ابھی ایک آدھ دن پہلے ہی اس نے اپنی پوزیشن کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے ڈپٹی لیڈر محمود عزت نے کہاہے کہ لوگ اپنی آزادی اور اس نکمی پارلیمنٹ کے ختم کرنے کی لڑائی لڑرہے ہیں۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ مظاہروں کو منظم کرنے میں اس جماعت کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی اس تحریک میں ہمیں کوئی نمایاں بنیادپرست نظرآیاہے ۔سرگرم مظاہرین کی اکثریت نوجوانوں پر مبنی ہے ،ان میں کئی طالب علم بھی ہیں لیکن زیادہ تر کا تعلق بے روزگاروں سے ہے اور یہ سب شرعی قوانین کے نفاذ کی نہیں بلکہ روزگاراورآزادی کیلئے جدوجہد پر اترے ہوئے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ یہ رجعتی ردانقلابی عناصر تو یہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ ایسی انقلابی تحریک سامنے آجائے ۔ یہ لوگ اس تحریک سے موت کی طرح سہمے ہوئے ہیں۔جمعے کی نماز کے بعد خطیب صاحبان اپنے مقتدی نمازیوں کو تلقین کرتے رہے کہ وہ ان مظاہروں میں شریک نہ ہوں۔ان رجعتی بنیادپرستوں کا کردار اس وقت کھل کر سامنے آیاجب ان کے نمائندہ وترجمان الاسلامیہ القدروائی نے ،الجزیرہ ٹی وی کے بقول،لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ریاستی اداروں پر حملوں سے گریزکریں۔
اخوان المسلمون ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور زوال پذیری کا شکارہے ۔حسام الحمالوے نے الجزیرہ کو بتایاکہ ’’الاقصی انتفادہ کے سامنے آنے کے بعد سے اخوان میں تقسیم اورٹوٹ کاعمل شروع ہوا۔فلسطین کیلئے یکجہتی کی تحریک میں شمولیت کے بعد سے اس کی حکمرانوں سے ٹھن گئی تھی۔ بنیادی طورپر جب بھی اس کی قیادت حکمرانوں کے ساتھ مصالحت کرتی ہے ،اور اس وقت کی موجودہ سپریم قیادت تو خاص طورپر ،تب سے اس کے سنجیدہ کارکنوں میں زوال پذیری شروع ہو چکی ہے ۔ کئی تو اسے چھوڑ کر الگ ہوچکے ہیں ۔ایسے ہی کئی اخوانوں کو میں ذاتی طورپر بھی جانتاہوں۔ کئیوں نے دوسرے سیاسی گروپ جوائن کر لئے ہیںیاپھر وہ سیاست سے ہی الگ تھلگ ہو چکے ہیں ۔اب جو تحریک چل رہی ہے ، اس میں اس کے ورکر مقامی طورپر اپنے تئیں ہی شریک ہیں ،اس سے یہ اور بھی تقسیم اورکمزور پڑ جائے گی ۔کیونکہ اس کی بالاقیادت کے پا س کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ کیونکر اس عوامی تحریک کا حصہ نہیں ہیں یا نہیں بنے !‘‘۔
عالمی اثرات
صرف مصر کی حکومت اور یہاں کی سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ یہاں مغرب کی سبھی حکومتیں بھی ششدر ہوکے رہ گئیں کہ یہ کیا ہوگیاہے اور یہ کیا ہورہاہے !ابھی دو ہفتے پہلے ہی امریکیوں نے مصر میں سب اچھاہے کااعلان کیاتھا ۔اب تو ان کے منہ کھلے اور زبانیں گنگ ہوتی چلی گئیں۔اب کہا جارہاہے کہ حسنی مبارک ایسا ویساہے اور مصر میں یہ ہونا چاہئے وہ ہونا چاہئے ۔آج تک اوبامہ تو کیا کسی بھی امریکی صدر نے کبھی ایسا کہنا گوارانہیں کیاتھا۔انہیں پتہ تھا کہ وہ ایک آمر ہے اوروہاں آمریت ہے ۔اس وقت امریکہ زور دے رہاہے کہ نیا روزگار پیداکیاجائے جبکہ یہی امریکہ ہی تھا جس نے 1991ء میں معاشی اصلاحات کے نام پر مصر میں نیو لبرل ازم مسلط کیاتھا اور یہی اصلاحات ہی تھیں اور ہیں کہ جن کی وجہ سے وسیع پیمانے پر معاشی نابرابری کو سماج میں ناسورکی طرح پھیلادیا۔دولت چندہاتھوں میں محدود ہوتی چلی گئی جبکہ غربت اور بیروزگاری اکثریت کی زندگیوں کو اپنے خونی جبڑوں میں نگلنے لگی۔امریکہ کو مصر سے اس وقت جو سروکار ہے وہ نہ تو انسانیت پر مبنی ہے نہ ہی اس کا جمہوریت سے لینا دیناہے البتہ اس کے اپنے ہی مخصوص مفادات ہیں۔مصر عرب دنیا کا سب سے اہم ترین ملک ہے ۔تیونس ،اس کے موازنے میں بہت چھوٹا ہے ۔مصر میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے سارے خطے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اور اسی بات نے ہی مغرب اور عرب کے حکمرانوں کے ماتھوں پر شکنیں ڈال دی ہیں۔اور یہ چنتا کوئی غلط بھی نہیں ۔سب سے زیادہ تشویش اسرائیل کو ہے ۔حسنی مبارک اسرائیل کی خارجہ پالیسی کا ایک مفیدکردار تھا۔ایک صلح جو لیڈر (مغربی گماشتگی کی مہذبانہ تعریف) کے طورپر اس نے اب تک ہونے والے سبھی نام نہاد امن مذاکرات کو ممکن و منظم کیا۔وہ بیک وقت فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو سنبھالنے میں مہارت رکھتاتھا ۔وہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا بھی حامی تھا۔چنانچہ مبارک امریکہ اور اسرائیل دونوں کیلئے بہت اہم اور مفید چلا آرہاتھا۔امریکہ اپنے اس وفادار کو سالانہ پانچ ارب ڈالردیتاآرہاتھا۔اس تحریک کے دوران بھی مظاہرین پر آنسو گیس کے جو گولے برسائے گئے ہیں ان پر بھی خیر سے ’’میڈ ان امریکہ‘‘کی مہر ثبت ہے ۔اس قسم کی کیفیت میں اوبامہ کی مصر کے عام لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تقریریں اور بیانات کس قدر موثرثابت ہوں گی ۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔مبارک کی رخصتی ،مشرق وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کے سب سے اہم عنصر کی رخصتی ثابت ہوگی۔ جس کی وجہ سے عرب حکمرانوں کی مصالحت کی پالیسیوں(امریکی گماشتگی )کو سخت دھچکا لگے گا۔اردن اور یمن میں ابھی سے عوامی مظاہرے شروع ہو چکے ہیں اور ملک بھی ان کی لپیٹ میں آنے والے ہیں ۔سعودی عرب بھی اتنا محفوظ نہیں ہے۔سامراجیوں کوتیز آندھی اورشدید طوفان نے گھیرلیاہے ۔ان کے سبھی منصوبے دھرے کے دھرے رہتے دکھائی دے رہے ہیں۔ایک سابق کنزرویٹو وزیرخارجہ میلکم ریفکائنڈ نے بی بی سی سے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ سب اچانک نہیں ہواہے۔اب جو بھی حکومت آئے گی وہ مغرب یافتہ نہیں ہو سکے گی اور ہم بے بس ہیں کہ اس بارے کچھ یا بہت کچھ کر سکیں‘‘۔
فوج
اس وقت فوج پر ہی نظریں گڑی ہیں کہ شاید وہی مبارک کواس عذاب سے نجات دلائے گی ۔لیکن فوج کیسے یہ سب کرے گی ؟فوج کو اب،پولیس کی جگہ سڑکوں پر اتارابھی جاچکاہے۔بظاہر عام فوجی اور عام انسان کے مابین تعلق ناخوشگوار ہواکرتاہے۔ کئی جگہوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ فوج عوام کے شانہ بشانہ ہے تو کہیں ہمیں دونوں میں تصادم بھی ہوتا دکھائی دیاہے ۔اس قسم کی عوامی سرکشی کو کچلنے کیلئے لازمی ہے کہ ہزاروں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے ۔لیکن سبھی انسانوں کو ماردینا تو سراسر ناممکن ہواکرتا ہے ۔اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ فوجی آپ کی جانب سے نہتے لوگوں پر اندھادھند فائرنگ کے حکم پر عملدرآمد بھی کریں۔فوج کے افسروں کو پتہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی کیفیت فوج کو نیچے سے توڑ پھوڑ کے رکھ دیاکرتی ہے ۔اور وہ اس قسم کا رسک لینے کو کبھی تیار نہیں ہوتے اور نہ ہوں گے۔بی بی سی نے لکھا ہے کہ ’’اگر احتجاج جاری رہتاہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتاہے تو ممکن ہے کہ فوج کی اعلی ٰ قیادت اپنے کمانڈر سے کہے کہ آپ مہربانی فرماکر اپنا بوریا بستر باندھ لیں ‘‘۔مبارک کے دن گنے گئے ۔اور یہ بات فوجی قیادت پر واضح ہو چکی کہ وہ اپنے مستقبل کی چنتا کریں اور بس۔اگر فوج آج ایک مظاہرے کو کچل بھی دیتی ہے تو کل پرسوں کے مظاہروں کا کیا کرے گی اور کب تک؟سچ تو یہ ہے کہ طاقت اس وقت سڑکوں پر آئی پڑی ہے اور انتظار میں ہے کہ کوئی آکر اسے سنبھال لے ۔ابھی تک تحریک کو طاقت کے زور پر کچلا نہیں جاسکا ہے ۔فوج کی بالاقیادت یہ حساب کتاب لگا رہی ہے کہ حسنی مبارک کو اس کے خاندان اور ہمنواؤں سمیت بچانے سے بہتر ہے کہ اپنے تاثر اپنی ساکھ اور اپنی مراعات کا دفاع کیاجائے ۔
انقلاب اور عالمی انقلاب
جو کچھ بھی یہاں مصر میں ہورہاہے اس سے ایک بات تو یقینی ہو چکی ہے کہ مصری انقلاب شروع ہوچکاہے ۔وہ سبھی بیچارے دانشوراور مفکرین جو اٹھتے بیٹھتے عام لوگوں کے ’’انتہائی پست شعور‘‘پر نوحہ خوانی کرتے آرہے تھے ،انہیں انہی عام لوگوں نے کیا خوب جواب دے دیاہے ۔مفکران مغرب اور متاثرین مفکران مغرب جو مصرکے لوگوں کو سست وکاہل، صابرو شاکر،سیاست سے بیزاراور نہ جانے کیا کیا کچھ قرار دیتے آرہے تھے ،اب ان کے ماتھوں پر بل پڑے ہوئے ہیں۔مصر ہو کہ ایران،امریکہ ہو کہ برطانیہ؛عوام ہر جگہ صرف اورصرف تجربات سے ہی سیکھا کرتے ہیں۔اور ایک انقلاب یا تحریک میں تو وہ بہت کچھ اور بہت تیزی سے سیکھتے ہوتے ہیں ۔مصر کے نوجوانوں اور محنت کشوں نے ان دوتین دنوں میں وہ وہ سیکھ لیا ہے جو وہ پچھلے تیس چالیس سالوں میں نہیں سیکھ پائے تھے ۔ ایک بجلی کی تیزی سے ہر شے اپنی الٹ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے ۔قاہرہ سمیت ہر شہر ہر قصبے ہر محفل میں ایک ہی ذکرہورہاہے ایک ہی لفظ کہا سنا جارہاہے ؛انقلاب۔سب کہہ رہے ہیں اورسمجھ رہے ہیں کہ ہم انقلاب کر رہے ہیں ۔اور یہی دراصل آج کی ناقابل تردید حقیقت ہے ۔سوال یہ ہے کہ کون مبارک کی جگہ لے گا؟لیکن شاید سڑکوں پرآئے ہوئے اور سردھڑ کی بازی لگانے والے نوجوانوں اور عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال سب سے اہم نہیں ہے ۔ انہیں یہ تو نہیں پتہ کہ کیا ہونا چاہئے ہاں مگروہ یہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ انہیں کیا نہیں چاہئے!اور اس وقت یہی ایک بات بہت ہے ۔
مبارک کی رخصتی سبھی بند دروازے کھول دے گی اوریہ انقلابی عوامل کے جوش وجذبے کو اوربھی مہمیز کرے گی۔تیونس کی مثال سامنے ہے اب کوئی ہینکی پھینکی برداشت نہیں کی جاسکے گی۔میڈیا کی جانب سے اخوان المسلمون کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے کے باوجودبنیادپرست عناصر منظر سے غائب ہیں ۔تحریک انقلابی جمہوریت کے نعرے تلے منظم ومتحرک ہو چکی ہے ۔اور اب تو عوام الناس نے اپنی طاقت کے خمار کا خودہی مزا لینا شروع کیاہے۔وہ کسی قسم کے آدھے ادھورے اقدامات سے مطمئن نہیں ہوں گے ۔انہیں بخوبی احساس وادراک ہوچکاہے کہ جو حاصل ہو رہاہے اور ہونے والاہے وہ ان کی اپنی ہی طاقت اور جرات کے بل بوتے پر ممکن ہواہے ۔اقوام متحدہ کا سابق اہلکار اور امن کیلئے نوبل پرائز جیتنے والا محمد البرادی اپوزیشن لیڈر کے طورپرقاہرہ پہنچ گیاہے مگر اس پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے سوائے امریکہ بہادرکے۔کہ وہ اس تحریک کی قیادت کر پائے گا جو اس وقت کسی بھی بورژواقیادت کے بغیر چل رہی ہے ۔وہ ایک ایسا خوفزدہ بوڑھا ہے جس یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب کہاں تھا اور کیا کررہاتھا۔
ایک مکمل اور خالص جمہوریت خالص ٹریڈیونینوں اور ورکرزپارٹیوں کی تعمیروتشکیل کا رستہ ہموارکردے گی۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ جمہوریت یہ سوال بھی سامنے لے آئے گی کہ کیا یہ معاشی جمہوریت کو بھی متعارف کرائے گی اور کیا یہ نابرابری کا قلع قمع کر ے گی؟اس کے بغیر جمہوریت ایک کھوکھلا نعرہ ثابت ہوگی ۔کیا یہ امیرترین حکمرانوں کی بے انت و بے حساب دولت کا حساب کتاب کرے گی ؟اگر جمہوریت کیلئے جدوجہدکرنی ہے تو سامراج کے اثاثوں کو ضبط کرناہوگا ۔کہ جس نے اب تک مصر کے حکمرانوں کو اپنے ہی لوگوں کولوٹ کھانے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی ۔جمہوریت کیلئے لڑائی کو ہر حال میں بینکاروں اورسرمایہ داروں کے اثاثے ضبط کرنے ہوں گے اور مزدوروں کسانوں کی حکومت قائم کرنی ہوگی۔ ’’کوئی ایک فرد جو کہ ایک مکمل اور فوری سماجی انقلاب
کے خواب دیکھتا ہے اسے کبھی بھی ایسا انقلاب دیکھنا نصیب ہوسکے گا ۔ایسا شخص سوائے زبانی جمع خرچ کے،انقلاب سے کوئی وابستگی اور دلچسپی نہیں رکھتاہوتا۔یورپ کا سوشلسٹ انقلاب اس کے سواکچھ نہیں ہوسکتا ہے کہ محروم و مضطرب پرتوں کی جانب سے ایک عوامی جدوجہد پھوٹ پڑے۔ناگزیر طورپر پیٹی بورژوازی کے کئی حصے اور پسماندہ سماجی پرتیں بھی اس میں شامل و شریک ہوں گی ۔اس شمولیت کے بغیر عوامی جدوجہد ناممکن ہواکرتی ہے ۔اس کے بغیر انقلاب ناممکن ہواکرتاہے ۔اور ایسے ہی ناگزیر طورپر جدوجہد میں لوگوں کے تعصبات بھی درآتے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے رجعتی رحجانات بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں ؛اسی طرح لوگوں کی غلطیاں اور کمزوریاں بھی۔لیکن ایک بات واضح ہے کہ وہ معروضی طورپر’’ سرمائے ‘‘پر حملہ کر رہے ہوں گے۔اور ایسے میں انقلاب کا ہراول ورہنما باشعور محنت کش طبقہ ،بلا توقف و جھجھک بلا روک ٹوک بلا خوف وخطر ،مزاحمت کرتے ہوئے عوام کو متحدکرتے ہوئے رکھتے ہوئے اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے طاقت اپنے ہاتھوں میں لے گا؛بینکوں کو اپنے تصرف میں لے گا ؛سبھی ٹرسٹوں کوجن سے سبھی نفرت کرتے ہیں، (مختلف وجوہات کی بنا پر)بے دخل کرے گا؛اور ایسے ہی کئی دوسرے سخت گیر اقدامات کرے گا کہ جن کا مجموعی و اجتماعی مقصدسرمایہ داری کا خاتمہ کرنا اور سوشلزم کو فتحیاب کرناہوگا۔اس سے پیٹی بورژوازی اپنے تئیں ہی اپنے اندر ہی دم توڑ دے گی‘‘۔ لینن نے یہ سطریں1916ء میں لکھی تھیں مگر لگتاہے کہ یہ کل ہی لکھی گئی ہیں۔ساری دنیا کی صورتحال اس وقت فیصلہ کن انداز میں تبدیل ہو چکی ہے ۔مصر میں جو ہواہے اس نے تو سب کو حیران و ششدرکر کے رکھ دیاہے ۔ہم فیصلہ کن طورپرایک عالمی انقلاب کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں ۔شمالی امریکہ مشرق وسطیٰ میں جو ہوچکاجو ہورہاہے اس کا کردار ایک عالمی انقلاب کے سوا کچھ نہیں ۔ایک ملک سے دوسرے ملک میں انقلاب ہورہاہے ہوتاجارہاہے ۔تیونس سے الجزائر،اردن سے مصر ،یمن سے لبنان۔
بلاشبہ تیونس کے واقعات چشم کشااور حوصلہ افزاتھے اور ہیں ۔لو گ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ناقابل شکست دیوہیکل حکمران یاں خس وخاشاک ثابت ہورہی ہیں۔تیونس نے ثابت کر دکھایا کہ ممکنا ت ہوتے ہیں اورکیا ہوتے ہیں !لیکن پھر یہ سوچنا سمجھنا بھی انتہائی غلط ہوگا کہ صرف تیونس ہی اس کی وجہ یا سبب ہے کہ جو ،اب اور آگے ہونے جارہاہے ۔ ان سبھی ملکوں میں انقلابی واقعات کیلئے صورتحال کب سے موجود اور تیار تھی ۔ہاں البتہ ایک چنگاری درکار تھی جو اس کیفیت کو بھڑکاسکتی۔تیونس نے یہی کر دکھایاہے ۔اب تو یمن جیسے ملکوں میں بھی انقلابی تحریک شروع ہوچکی ہے ۔مصر الجزائراردن اور یمن کے لوگ بھی آمریتوں کے زیر سایہ غربت کا شکار چلے آرہے تھے ۔اور یہ سبھی آمریتیں اپنے ہی لوگوں کو خون چو س چوس کر خودکو مالامال کرتی آرہی تھیں۔ حیران کن حد تک ان سبھی تحریکوں کی مشرقی یورپ میں چلنے والی تحریکوں سے مشابہت رکھتی ہیں جنہوں نے اپنے اپنے حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکاتھا۔یہ سبھی حکمرانیاں بھی کاغذوں کی حد تک بہت ہی دیو ہیکل اور طاقتور سمجھی جاتی تھیں۔ان کے ڈھانچے بہت سخت بہت مضبوط ہواکرتے تھے لیکن یہ سب کچھ انہیں نہیں بچاسکاتھا۔سرمایہ داری اس وقت بہت ہی خوش تھی اور شادیانے بجارہی تھی کہ اس نے کمیونزم کے خطرے سے جان چھڑالی ہے ۔لیکن عالمی بورژوازی جلدبازی کی مرتکب ہورہی تھی۔جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ سٹالنزم کا انہدام بھی اسی طرح حیران کن قدم ثابت ہوگا کہ جیسے سرمایہ داری کو انقلابی تحریک اکھاڑپھینکے گی۔امریکہ سمیت ہر ایک جگہ پر سرمایہ دارانہ نظام بحران کی حالت میں ہے اور ہر جگہ ہی حکمران طبقات کوشش کررہے ہیں کہ اس بحران کا سار بوجھ عام لوگوں پر ڈالا جائے ۔تیونس اور مصر میں نظام اپنی کمزور کڑیوں کو ٹوٹتا دیکھ رہاہے ۔ہمیں بتایا سمجھایا جائے گا کہ یہاں ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے ۔یہ کہ یہاں صورتحال مختلف ہے ۔یہ کہ یوں ہے اور یہ کہ یوں ہے ۔درست !صورتحال واقعی مختلف ہے لیکن زاویوں میں فرق ہے ۔ہر جگہ محنت کش طبقہ اور نوجوان نسل کے سامنے کوئی متبادل نہیں ہے ؛یاتو زندگی کی انہی ذلتوں اور محرومیوں پر سمجھوتہ کیا جائے یا پھر لڑا جائے ۔ ایک انقلابی تنظیم اور قیادت کی غیرموجودگی موجودہ صورتحال کو ایک تعطل میں دھکیل سکتی ہے ۔مصری فوج ایسی کیفیت میں ممکن ہے کہ خودہی مبارک کو پرے دھکیل دے اور خود آجائے ۔ان خطوں میں ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔انقلابی تحریک اتنی طاقت رکھتی ہے کہ یہ پرانی حکومت کو اکھاڑ پھینکے لیکن خود کو اقتدار میں لانے کیلئے درکار تنظیم وقیادت کے نہ ہونے سے یہ اس کی جگہ نہیں لے سکتی۔آخرکار انقلاب کا عمل لمباہوگااور یہ کئی مراحل سے نبردآزماہوگا۔کہ جب تک مزدورطبقہ آگے پیش قدمی کرتے ہوئے اقتداراپنے ہاتھوں میں نہیں لے لیتاہے۔کئی عبوری حکومتیں آجاسکتی ہیں اور سبھی پہلی سے بڑھ کرغیر مستحکم اور کمزور ثابت ہوں گی۔اورپھر یہ کھل جائے گا کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کوئی تبدیلی ممکن ہے ہی نہیں ۔
یہ فرمانا کہ ’’یہاں تو جی ایساکچھ نہیں ہوسکتا کبھی نہیں ہوسکتا‘‘ایک بے بنیاد غیر سائنسی غیر معقول دلیل ہے ۔دو مہینے پہلے ہی تیونس میں سب شانت تھا ۔اور یہ دنیا کے پر امن ترین ملکوں میں سے سمجھا جاتاتھا ۔بعد میں یہی نا معقول دلیل مصر بارے کہی گئی کہ جب بن علی بھی اکھاڑ دیا گیاتھا۔یہ چند ہفتے ہی اس بے تکی دلیل کو غلط ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ہم جس عہد میں زندہ ہیں ،اس میں واقعات کا رونماہونا اور اتنی تیزی سے ہونا،یہی اس عہد کا خاصا بھی ہے اور تقاضا بھی۔جلد یا بدیر یورپ میں،جاپان میں ،کینیڈا میں امریکہ میں یہی سوال سراٹھائے ہمارے سامنے آئے گا۔انقلابی واقعات معمول ہونے لگے ہیں ۔اپنے اپنے مقامی حالات کی مناسبت سے واقعات کی کیفیت میں تیزی یا سستی ہوسکتی ہے ۔لیکن دنیا کاکوئی ایک ملک بھی خود کو اس عمومی معمول سے بری نہیں قراردے سکتا۔ہم تیونس اور مصر میں ہونے والے واقعات کے آئینے میں اپنے مستقبل کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔
عوام الناس کو یہ ادارک ہوچکاہے کہ مبارک کا تخت اکھڑ چکاہے اوران کی جدوجہد کامیاب ہوچلی ہے ۔مصر کی سڑکوں پر گلیوں میں ایک سرشاری ایک سرخوشی کی کیفیت ہے ایک ایسی کیفیت جو کسی اعلی ٰ ترین شراب کے خمار سے بھی ممکن نہیں۔ ایک ادھیڑ عمر مصری مڈل کلاسیا جو کچھ دن پہلے ہنگاموں کی وجہ سے قاہرہ چھوڑ کر جا چکاتھا ،اس سے بی بی سی نے پوچھا کہ اگر احتجاج جاری رہااور لمباہوتا چلاگیاتو کیاہوگا۔اس نے ہانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ’’ جو ہورہاہے ہونا چاہئے؛یہ حیران کن ہے ؛میں تو شایداپنی پہلی سانس سے ہی اس دن کا انتظارکررہاتھا‘‘۔
وقت کی کوکھ سے ایسے ڈرامائی واقعات جنم لینے والے ہیں کہ جو ساری دنیاکو ہلا کر رکھ دیں گے۔
Source: Chingaree.com