Urdu translation of The riots in Britain: a warning to the bourgeoisie (August 9, 2011)
ایلن وڈز ۔ ترجمہ :اسدپتافی
چنگاری ڈاٹ کام،19.08.2011
برطانیہ میں پھوٹ پڑنے والے فسادات ،سرمایہ دارانہ نظام کے جاری بحران کی علامت کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔ ہم مارکس وادی کسی طور بھی سرمایہ داروں اور ان کے گماشتہ تجزیہ نگاروں کے منافقانہ تبصروں اور تجزیوں کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی کریں گے جوکہ ان واقعات کی اپنی ہی تشریح و توضیح کررہے ہیں اور انہیں شرپسند فسادات قراردے رہے ہیں۔ اس کی بجائے ہم اپنایہ فریضہ سمجھتے ہیں کہ ہم نوجوان نسل کو درست راستے کی نشاندہی فراہم کرنے کی کوشش کریں ،انہیں انقلاب کی طرف متوجہ ہونے اور کرنے کی کوشش کریں کہ جس سے سماج کو سوشلسٹ بنیادوں پر ازسرنو تعمیر کیا جاسکتا ہے ۔
برطانیہ کی کنزرویٹوپارٹی کی سابقہ سربراہ مارگریٹ تھیچرنے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں سماج نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی ۔لیکن تیس سال گزرنے کے بعد برطانیہ کے سماج نے انتہائی درشت لہجے میں برطانیہ کے حکمران طبقات کواپنے ہونے کا اظہار کر کے دکھا دیاہے ۔صرف اڑتالیس گھنٹوں کے قلیل وقت میں ہی سارا برطانیہ ’’فسادات ‘‘کی زد میں آگیا۔
لندن شہر تیسرے دن آگ اور خون میں نہاگیا ۔لوٹ مار اور انتشار نے بہت کچھ بھسم کر کے رکھ دیا۔پولیس پر حملوں کے بعد سینکڑوں افراد گرفتار کر لئے گئے ہیں۔صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے خود کو ایک میدان جنگ میں موجود پایا۔
یہ سب واقعات اس وقت پھٹ پڑے جب لندن کے شمال میں ٹوٹنہام کے علاقے میں ایک سیاہ فام نوجوان مارک ڈوگن پولیس کی گولی کی بھینٹ چڑھ گیا ۔یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کے پیچھے کیا وجوہات تھیں۔یہ واقعہ برطانیہ کی پولیس کی جانب سے شروع کیے جانے والے ایک آپریشن کے دوران پیش آیا جس کے تحت وہ سیاہ فام اور کیریبین رہائشی علاقوں میں اسلحے کی تلاش کر رہی تھی ۔اس قسم کی سرگرمی نے ان علاقوں کے رہائشیوں میں تذبذب اور غم وغصے کی ایک کیفیت پیدا کررکھی ہوئی ہے ۔
بتایا جارہاہے کہ یہ نوجوان ایک ٹیکسی میں جارہاتھا جب اسے پولیس نے روکا اور پھر پولیس رپورٹ میں یہ کہاگیاکہ وہ باہمی فائرنگ کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہوگیاہے۔یہ بھی کہاگیا کہ اس کے پاس ایک گن تھی ۔اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کسی قسم کی باہمی فائرنگ نہیں ہوئی تھی اور پولیس نے جھوٹ بولاہے ۔صرف دوہی فائرہوئے اور وہ بھی پولیس نے کئے۔اس ننگے جھوٹ کے سامنے آتے ہی چنگاری آگ میں بدلتی چلی گئی ۔سنیچر کے روز ٹوٹینہام میں ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیاگیا جس کی قیادت مقتول مارک ڈوگن کے والدین کر رہے تھے اور جو پولیس سٹیشن کے باہر جمع ہوکر اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہی چاہ رہے تھے ۔ان لوگوں کو گھنٹوں تک باہر انتظار کروایاگیا ۔اسی دوران ہی دنگے شروع ہوگئے جو کہ پولیس کی جانب سے ایک سولہ سالہ لڑکی پر تشدد کے باعث شروع ہوئے۔یہ دنگے فسادقریبی علاقے وڈ گرین اور ٹوٹنہام ہیل میں بھڑک اٹھے۔
جب توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ایک نوجوان سے جس نے اپنا چہرہ ڈھانپاہواتھا ،پوچھاگیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہاہے تو اس نے جواب دیا’’پولیس کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اور وہ انہیں اندھادھند استعمال کررہی ہے اور یہ سب غلط ہورہاہے‘‘۔
تاہم قتل اور پولیس کی جانب سے معاملے کو دبانے کا مسئلہ پیچھے رہ گیا اورغریب علاقوں کی سڑکیں اور گلیاں اپنے مکینوں کے سینوں میں دبی ہوئی نفرت اور غم وغصے کی زد میں آتی چلی گئیں۔ان لڑجانے والوں میں ایک بڑی تعداد ان سیاہ فام نوجوانوں کی تھی ۔اتوار کے دن اور اس سے پہلے رات کوہونے والے دنگوں کی کیفیت اور کردار،سنیچر کو ہونے والے دنگوں سے بالکل مختلف تھی ۔ٹوٹنہام میں شروع ہونے والے دنگے ،وہاں کے نوجوانوں کی جانب سے پولیس گردی کے خلاف تھے لیکن پھر یہ واقعہ ایک بڑے آتش فشاں پر چنگاری کا باعث بنا۔اور اب یہ دنگے محض دنگے اور فساد نہیں رہے ہیں بلکہ ان کا معیار وکردار بھی بدل چکاہے۔
بی بی سی نے دکھایاہے کہ ان مظاہروں میں ویل چیرز پر ،کاروں پر،سائیکلوں پر لوگ اور نوجوان آگے کی طرف بڑھتے جا رہے تھے اور ان کے پیچھے جو کچھ بھی ہوتا، وہ سب تہس نہس ہوچکاہوتاہے۔جب ایک جگہ ان کا پیچھا کیاجاتاتو یہ لوگ دوسری جگہ پہنچ چکے ہوتے ہیں ۔پولیس ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ ان کو موقع پر گرفتار کر سکے ۔پولیس کی گاڑیاں کبھی آگے تو کبھی پیچھے جارہی ہیں ۔گاڑیوں پر لگی نیلی بتیاں جھلملا رہی ہیں اور فساد سے نمٹنے والی پولیس والے گاڑیوں سے اتر کر ادھر اُدھر آجارہے ہیں لیکن دس ہی منٹوں کے بعد سب اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جانے لگے ہیں۔ہر ممکن کو ششیں کی جارہی ہیں کہ لگی اور بھڑکی ہوئی آگ کو کسی طرح بجھا یاجائے ۔لیکن یہ آگ اور یہ فساد تھے کہ سارے لندن شہرکو ہی اپنی لپیٹ میں لیتے جارہے تھے ۔
جب جنگل کو آگ لگی
شمالی لندن کے علاقے این فیلڈ میں اس وقت جھگڑے پھوٹ پڑے کہ جب اتوار کی شام کو دکانوں کی کھڑکیاں توڑی گئیں اور ایک پولیس کار کو تباہ کردیاگیا۔اس کے بعد سوموار کے دن تو جیسے جنگل کو آگ لگتی چلتی گئی۔مشرق میں ہیکنے ،مغرب میں ایلنگ ،شمال میں والتھام سٹواور والتھام فارسٹ،جبکہ جنوب میں لندن سے کلیفم،کروئے ڈون،لیویشام اور برکسٹن۔ نوجوان بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلتے آرہے تھے اور وہ مرنے مارنے اور لوٹ مار پر اترے ہوئے تھے ۔یہاں تک کہ شہر کے مرکزی تفریحی مراکز آکسفورڈ سرکس اور وسطی لندن بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ۔کولڈ ہاربر لین میں اور ہائی سٹریٹ برکسٹن میں دوسو سے زائد نوجوانوں کا ایک گروہ دکانوں میں لوٹ مار رہاتھا ،اورپولیس پر تشددبھی کررہاتھا۔1980ء کی دہائی میں بھی یہاں ایسے ہی فسادات ہوئے تھے ۔بی بی سی لندن کے پرائک اوبرائن نے کہا ہے کہ اس نے بچشم خود برکسٹن میں وسیع پیمانے پر لوٹ مار ہوتے دیکھی ۔اس کے بقول انہوں(نوجوانوں )نے دیکھتے ہی دیکھتے ’’ولیم ہل‘‘ نامی سٹور کو لوٹااور پھر اسے آگ لگادی۔ اور اب جبکہ رات کا وقت ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ برکسٹن ہائی سٹریٹ میں ہر طرف آگ ہی آگ لگی ہوئی ہے ‘‘۔
پریس ایسوسی ایشن کے فوٹوگرافرلیوس وہیلڈنے برکسٹن میں لوٹ مار کرنے والوں کی پولیس والوں کے ساتھ لڑائی مار کٹائی کو دیکھا۔’’نوجوان پولیس والوں پر بوتلیں اور پتھر پھینک رہے تھے جبکہ اس دوران آگ بھی لگائی جارہی تھی۔
نوجوان نے آگ کے گولے پولیس والوں پر پھینک رہے تھے جس سے وہ پیچھے جارہے تھے اور یہ اپنی مطلوبہ اشیا سٹورسے نکال لے جارہے تھے ‘‘۔ایسے ہی واقعات شہر میں ہر طرف ہوتے رہے ۔
جنوبی لندن کے علاقے کروئڈن میں ایک فرنیچر فیکٹری کو آگ لگا دی گئی جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ذرائع آمدورفت بھی بہت ڈسٹرب ہوئے اور کئی ٹیوب سٹیشن بندکرنے پڑ گئے جبکہ کئی بسوں کو ان کے مقررہ روٹس پر نہیں چلنے دیاگیا۔پولیس نے کئی راستے بندکردیئے اور اس قسم کی باتیں سنائی دیں کہ یہ علاقے نو گوایریازبن چکے ہیں۔
ہر جگہ پر پولیس نے یہی تاثر دیاکہ وہ کچھ بھی کرنے میں نااہل ہیں ۔ ان تین خونریز دنوں میں پولیس انتہائی بے بس نظر آئی ،کسی کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی اور کسی سے کچھ بھی نہیں بن پارہاتھا۔اگرکسی کو پکڑنے کی کوشش کی جاتی تو معاملات اور بھی بھڑک اٹھتے تھے ۔میٹروپولیٹن پولیس کمانڈرکرسٹن جونز نے کہا کہ پولیس افسران دنگوں کی شدت اور اپنے خلاف تشدد سے انتہائی حیران وہراساں ہیں۔اس وقت تک 35سے زائد پولیس افسرزخمی ہوچکے ہیں ۔تین پولیس والوں کو اس وقت ایک گاڑی نے کچل کے زخمی کر دیا جب وہ ایک’’ لٹیرے‘‘ کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے ۔اسی طرح شہر کے کئی علاقوں میں پولیس کی گاڑیاں نذر آتش کی جارہی تھیں ۔اگست2011ء میں لندن ،آج سے تیس سال پہلے کے بیروت کی خانہ جنگی کا منظر پیش کررہاتھا۔
مجرم کون ہیں اور جرم کیا ہوتاہے !
برطانیہ کی سیاسی قیادت کو جیسے اچانک ہی کسی صدمے نے آلیا ۔یہ معززین گرمیوں کی چھٹیاں منانے گئے ہوئے تھے انہیں ایک احساس ذلت کے ساتھ اپنی چھٹیوں اور سرگرمیوں کو فوری طورپر چھوڑکر واپس آناپڑگیا تاکہ صورتحال کو سنبھالا دیں اور اسے کنٹرول کر سکیں لیکن کنٹرول ان کے بس سے باہر جا چکاتھا۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے وہی نقطہ نظر اپنا یا جس کی توقع کی جارہی تھی ۔میٹروپولیٹن پولیس اتھارٹی کے سربراہ اور لندن کے ڈپٹی مئیرکٹ مالٹ ہاؤس نے اسے اولمپک کھیلوں کے موقع کے حوالے سے ایک انتہائی غلط تاثر دینے والا عمل قرار دیا۔اس نے پچھلے دنوں کے مناظر کو ہتک آمیز اور دہلا دینے والے قرار دیا ۔ اس نے پولیس کے طرز عمل کو جائز اور بروقت قراردیا۔اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’’شہر میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے مزاج اور ارادے تشدد پر مائل ہوچکے ہیں ۔یہ لوگ اشیا چرانے اور پھر دکانوں ،عمارتوں کو آگ لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔یہ لوگ ہر طرف تباہی و بربادی پھیلانے پر اترے ہوئے ہیں ۔یہ لوگ یا تو انارکسسٹ ہیں یا پھر غنڈوں کے گینگ یا پھر سرپھرے مادرپدر آزاد نوجوانوں کے غول‘‘۔وزیرداخلہ ٹریسامے نے تو واضح کہا کہ یہ سب کے سب مجرم ہیں۔اور ان سب کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے گا اور انہیں ان کے کئے کی سزا مل کے رہے گی۔اس نے کہا کہ ’’پچھلی شب لندن کے پولیس والوں نے اپنی زندگیاں لندن کے شہریوں اور ان کی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے داؤ پر لگا دیں۔لندن کے باسیوں نے یہ واضح کر دیاہے کہ اس شہر میں تشدد کرنے اور گھیراؤ جلاؤ کرنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔میں سبھی کمیونٹیوں کے ارکان سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ آگے بڑھتے ہوئے پولیس کا ساتھ دیں تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دلائی جاسکے‘‘۔
ٹریسا مے نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ہر سرمایہ دارانہ سماج میں مجرم طبقہ ہواکرتاہے ،کمیونسٹ مینی فیسٹومیں کارل مارکس نے ایسے عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے خطرناک طبقہ قراردیاتھا ’’لمپن پرولتاریہ؛ایک سماجی مرض جو کہ قدیم سماج کی نچلی ترین پرتوں میں سے ابھرتاہوتا ہے ‘‘۔ سماج کی اس پرت میں کچھ ڈی کلاس( محروم زدہ)اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل عناصر ہوتے ہیں جوہمہ وقت جلاؤ گھیراؤکیلئے تیار رہتے ہیں۔انہی کے ساتھ ساتھ پیشہ ور مجرم بھی ہوتے ہیں۔لیکن وہ ہزاروں نوجوان کہ جو پچھلے دنوں کے ان واقعات میں شریک اور ملوث ہوئے وہ کسی طور بھی اس کیٹگری میں شمار نہیں کئے جاسکتے ،بلاشبہ ان واقعات میں چند ایک جرائم پیشہ لوگ بھی تھے ۔ان نوجوانوں کی اکثریت جو اس عمل میں ملوث ہوئے ،ان کی اپنی ہی ترجیحات ،ان کے اپنے ہی عزائم تھے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ میں ہونے والے اس جلاؤگھیراؤ اور لوٹ مار کے پیچھے ان سماجی و معاشی محرومیوں کا بھی کوئی تعلق واسطہ ہے ؟یاپھر کیا اس سب کچھ کا برطانیہ کی نوجوان نسل(خاص طورپرسیاہ فام نوجوانوں) میں وسیع پیمانے پرپھیلی بیروزگاری کا بھی عمل دخل ہے !کیا اس سب کو کٹوتیوں کے اس بے رحمانہ عمل سے جوڑا جاسکتاہے کہ جو لبرل ڈیموکریٹ حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مسلط کی جاچکی اور کی جارہی ہیں ؟اور جن کی برکت وفضیلت سے عام لوگوں کا معیار زندگی دن بدن گرتا چلا جارہاہے اور جن کے بدترین اور شدید ترین اثرات سماج کی سب سے پسماندہ اور محروم پرتوں پر مرتب ہورہے ہیں۔اور پھر اس نسل پرستانہ چھان بین اور چھاپوں کا بھی اس سے کوئی ناطہ تو نہیں ہے جو برطانیہ کی پولیس عرصے سے سیاہ فام اور ایشیائی نوجوانوں کے خلاف عرصے سے کرتی چلی آرہی ہے !؟ ہرگز نہیں ۔برطانیہ کے سیاستدان اس پر متفق ہیں کہ یہ صرف اور صرف مجرمانہ فعل ہے اور بس۔اور یہ بھی کہ ان کا ارتکاب کرنے والوں کو ہر حال ہر حالت میں کیفر کردار تک پہنچایاجانا ضروری ہے ۔یہاں ہم’’ اعلیٰ وبالا‘‘ سطح پر ’’پولیس کی ذہنیت ‘‘کو آشکارہوتا دیکھتے ہیں جو کہ رعونت و نخوت سے بھری ہوئی ہوتی ہے ۔
یہ تصور بھی انتہائی بیہودہ و احمقانہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان جرائم کی نیت اور ارادے سے سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے ۔اور یہ بھی کہ چونکہ ان سب نے جرائم کئے ہیں،اس لئے یہ لوگ پہلے بھی مجرم پیشہ ہی تھے ۔ایساہی ہے تو یہ سبھی جرائم ’’اب ‘‘کیونکرہوئے ،اور آج سے دو تین یا پانچ چھ سال پہلے مرتکب کیوں نہیں ہوئے !
آئیے ہم یہاں ٹوری پارٹی کی وزیر داخلہ کی عقل کے مطابق ،ایک انتہائی سادہ سوال سامنے لاتے ہیں،کہ شاید اسے بات سمجھ آسکے۔اگر ایک نوجوان کے پاس ایک ایسا روزگار ہو کہ جس سے اس کا خاطر خواہ گذارہ ہورہاہو تو کیا وہ پھر بھی کسی دکان کو لوٹے گا یا گھیراؤ جلاؤ کرے گا؟کیا چند ایک بینکارایسے ہیں جو کہ دکانوں میں سے چھوٹی موٹی اشیاء چوری کرنے کے مرتکب ہوئے ہوں۔ان بیچارے بینکاروں کو تو ایسا کچھ کرنے کی نہ تو فرصت ہے نہ ہی توفیق ۔ان کو تو بینکوں کی تجوریوں کو ہی خالی کرنے سے ہی فرصت ومہلت نہیں ملتی ۔انہیں بھلا کیاکہ وہ کسی دکان سے کچھ چوری کریں یا وہاں سے معمولی رقم جھپٹنے کی کوشش کریں!یہ معزز خواتین و حضرات تو قومی خزانے پر ہی اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہیں ۔جہاں سے کروڑوں پونڈز ان کی تجوریوں میں انڈیلے جا چکے اور جارہے ہیں ۔جبکہ غریب علاقوں اور کمیونٹیوں کو یہ اطلاعات فراہم کی جارہی ہیں کہ جی خزانہ تو خالی ہوچکاہے ،آپ کی تعلیم وعلاج کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ورنہ ہم ضروربہت کچھ کرتے ۔
سرمایہ دارانہ سماج ایک بیمار سماج ہوتا ہے ۔اور یہ اپنے اندر اخلاقی برائیوں اوربیہودگیوں کے بیج کو ہمہ وقت بوتا اور ان کی نشوونماکئے رکھتاہے ۔ جس کی وجہ سے سماج میں مختلف انواع واقسام کے جرائم پنپتے پھیلتے اور پھولتے رہتے ہیں۔ایسے سماج میں ہمیں وہ بڑے بڑے مجرم بھی ملتے ہیں کہ جو خوشحال ہوتے ہیں تو ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔اور ان کا یہ چل چلاؤبالآخر انہیں دارالامرا اور اسمبلیوں تک بھی لے آتاہے ۔ان کے ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسے مجرم بھی پائے جاتے ہیں جو کہ خستہ گھروں یا جھونپڑ پٹیوں میں رہتے ہیں اور جو اپنے اپنے انفرادی اعمال اور کاوشوں سے اپنے کو خوشحال کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوتے ہیں۔اور ان کی حالت ویسی ہی رہتی چلی آتی ہے جیسی کہ عظیم ملکہ برطانیہ کی کمتر علاقوں کا دورہ کرتے وقت ہواکرتی ہے ۔
ایتھنز کے عظیم فلسفی سولون نے کہا تھا کہ ’’قانون مکڑی کا ایسا جالاہوتاہے جس میں کمزورپھنس کے رہ جاتاہے لیکن طاقتور اسے چیر کر نکل جاتاہے‘‘۔میڈیا خبریں دے رہاہے کہ سماج کو ان بھوکے ننگے لالچی لٹیروں نے اپنی ہوس کا شکار کیاہے جوصرف دوڑنے والے جوتوں کے ایک نئے جوڑے کیلئے سارے سماج کو لوٹتے اور اسے آگ لگاتے جارہے ہیں۔ کیا اس قسم کی منطق میں ہمیں کوئی تضاد نظر آتاہے !اگر برکسٹن میں ایک غریب سیاہ فام نوجوان کسی دکان سے جوتے کا ایک جوڑا چرائے تو اسے جیل بھیج دیاجائے اور اگر بینکار ملک وقوم کے سرمائے کوہڑپ کر جائیں تو انہیں اربوں پونڈزکے معاوضوں سے نوازاجائے ! سیاسی کلاس کو برکسٹن اور ہیکنے کی سڑکوں اور گلیوں میں دندناتے اور لوٹ مار جلاؤ کرتے لوگ تو لالچی اور مجرم لگتے ہیں لیکن ہمارے یہ مہان سیاستدان برطانیہ اور باہر کی نوجوان نسل کوکیسے کسی قسم کی اخلاقیات بارے لیکچر دے سکتے ہیں !ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ جب یہی محترم خواتین وحضرات جھوٹ پر جھوٹ بول رہے تھے ،دھوکے پر دھوکہ دے رہے تھے ،غبن پر غبن کر رہے تھے ۔انہوں نے ہی اپنے اپنے پرتعیش فلیٹوں کیلئے عوام الناس کا بھاری سرمایہ غبن اور ہڑپ کیاتھا۔
ایسی عمارتوں کیلئے رقوم دی گئیں جن کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا اور یہاں تک بھی کہ قلعوں کے ارد گرد جھیلیں بنائی گئیں۔یہ سب کیاتھا اور کیا ہے ؟کیا یہ لالچ نہیں؟کیا یہ بھی جرم نہیں؟
اور اب پھر یہی وجودوضمیرفروش پریس واویلاکررہاہے کہ ان سبھی برطانوی نوجوانوں کے خون سے ساری وصولی کی جائے۔یہ وہی بیہودہ بدبودار پریس ہے جو کہ قتل ہوجانے والی نوجوان لڑکیوں کے موبائل فون ہیک کررہاتھا،پولیس افسروں کو بلیک میل کررہاتھا ،افسران بالا کو بلیک میل کرتا اور ان سے مال بٹورتاآرہاتھا۔
پریس کے ان غنڈوں اور مجرموں کے مقابلے میں ہیکلے اوربرکسٹن کا ایک معمولی چور ایسے ہے جیسے کسی خونخوار بھیڑیے کے مقابلے بکری کا ایک معصوم بچہ۔ کیا ہم فسادات کی حمایت کرتے ہیں ؟ کیا مارکس وادی لوٹ مار،غنڈہ گردی اور چھیناجھپٹی کی تائیدو حمایت کرتے ہیں؟ہرگز نہیں،کہیں بھی نہیں‘ کبھی بھی نہیں۔ہم لوگ کبھی بھی کینسر کی تعریف وتائید نہیں کیاکرتے ۔ لیکن پھر جیسا کہ ہر کوئی جانتا اور سمجھتا ہے کہ کینسر کی محض مذمت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ضروری اور زیادہ بہتر یہ ہوتاہے کہ اس کی وجوہات اور علامات کا تعین کیاجائے اور ان کا تدارک کیاجائے ۔
ہم اس لوٹ مار اور لڑائی جھگڑے کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔لیکن ہمارے استرداد کا سرمایہ داروں کی مسلسل و مستقل منافقت سے کوئی تال میل نہیں ہے ۔ہم اس قسم کی ہر حرکت اور سرگرمی کو رد کرتے ہیں کیونکہ یہ بے سودسرگرمی اور تباہ کن حرکت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ان سے نوجوان نسل کو درپیش ایک بھی مسئلہ نہ حل ہوتا ہے نہ ہواہے نہ ہوگا البتہ اس سے ان میں اضافہ ضرورہوتاہے۔یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے اور ہوسکے گا کہ دکانوں سے اشیاء اٹھانے یا عمارتوں کو آگ لگادینے سے نوجوانوں کو روزگارملنے میں کوئی مددملے گی ؟
ہم ان دنگوں کو اس لئے بھی مسترد کرتے ہیں کہ ان کا سب سے زیادہ شکار غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔جن میں خود ایسا کرنے والے بھی شامل ہوتے ہیں۔جن کاروباروں کو نشانہ بنایاگیاہے ،ان سے عام لوگوں کو یوں بھی کوئی سروکار نہ تھا ۔امیر لوگ ویسے بھی ہیکنے اور برکسٹن میں نہیں رہتے ۔
نظم ونسق کو متاثر کرنے کی ایسی کوشش سے سماج کے حقیقی مجرمان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں ہوا۔وہ تو اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر پولیس کی حفاظت میں رہتے ہوئے یہ سب مناظر دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔تب بھی جب غریب علاقوں میں یہ دنگے بھڑکے پولیس وہاں سے گم تھی اور ان بڑے لوگوں کی حفاظت پر مامور تھی۔اس پاگل پن کا شکار غریب خاندان ہی ہوئے جو اپنے گھروں اور اپنے مال ومتاع سے محروم ہوچکے ہیں اور یہ واقعی ایک جرم ہے۔
ہم میں سے سبھی اس طریق کار کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے حکمران طبقات کو اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے بہت سی خرافات کو مسلط کرنے کا موقع مل جایاکرتاہے ۔اس کی آڑ میں وہ ان سب لوگوں کو روندنااور رگیدنا شروع کر دیتے ہیں جو کہ دنیا کو ایک نئی اور بہتر دنیا میں بدلنے کی جستجواور جدوجہد کررہے ہوتے ہیں۔یہ حکمران طبقہ اور ان کا بھونپو میڈیابرطانیہ کی نوجوان نسل کو مردود،بداخلاق بدتہذیب وغیرہ وغیرہ قراردینے پر تل آیاہواہے ۔یہ سب ایک ہی زبان میں ایک ہی راگ میں ساری نوجوان نسل کو ہی رسوا اور ذلیل کرتے چلے آرہے ہیں ۔ہمیشہ ہی اس قسم کی سماجی اتھل پتھل کی حالت میں مٹھی بھر غنڈے اور لٹیرے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہیں ،اور لوٹ مار کے ساتھ جلاؤ گھیراؤ بھی کرتے ہیں اور ان کی اس قسم کی کرنیوں سے ساری نسل ہی موردالزام،راندہ درگاہ ٹھہرائی جاتی ہے اور یہی اس وقت ہورہاہے ۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رجعتی اور استحصالی طبقات یہ مطالبہ کرنا اور دباؤ بڑھانا شروع کر چکے ہیں کہ سخت سے سخت اقدامات کئے جائیں۔
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے لوٹتے ہی اپنی پریس کانفرنس میں باربارفرمایاہے کہ یہ سب مجرمانہ فعل ہے اور بس۔اس نے وعدہ کیا کہ ذمہ داران کے ساتھ قانون پوری شکتی اور سختی کے ساتھ نمٹے گا ۔یہ بھی اس نے کہا کہ عدالتیں بلا وقفے کے اس بارے سماعتیں کریں گی اور مرتکب افراد کو جیل پہنچا کے دم لیں گی ۔سکائی ٹیلی ویژن تو اپنی نشریات میں چیختا چلاتارہاکہ پولیس کو ربڑکی گولیاں اور آنسوگیس چلانے کی کھلی اجازت دی جائے ۔یہی نہیں بلکہ فوج کو سڑکوں پر طلب کرلیاجائے ۔
اگر برطانیہ کی لیبر موومنٹ درست خطوط پر کام کررہی ہوتی اور اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوتی،اگریہ بہت عرصہ پہلے ہی بے روزگاروں اور نوجوانوں کو منظم کرچکی یا کررہی ہوتی اوراس طرح اگر انہیں محنت کش طبقے کے قریب لاچکی ہوتی ۔ لیکن مزدور قیادت تنگ نظری کا شکارہو چکی ہے ۔اس منظم طبقے نے غیر منظم پرتوں کو منظم کرنے کی خواہش و کوشش ہی نہیں کی ۔جہاں تک لیبر پارٹی کے دائیں بازوکے رجعتی سیاستدانوں کا تعلق ہے ،وہ تو یوں بھی مزدور طبقے کی زندگیوں اور اس کے مسائل ومصائب سے ہزاروں میل دور جیتے چلے آرہے ہیں۔ لیبر پارٹی کی پارلیمانی پارٹی یوں بھی مڈل کلاس کے کیریر زدگان وکیلوں،ڈاکٹروں ،ماہرین معیشت ،اور ان جیسے اوروں پر مشتمل ہے جو یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ بیروزگاری کی حالت اور حالات میں جینا کتنا دشوار کتنا روح فرسا ہواکرتا ہے! پچھلی شب ہی جناب ڈیوڈ ملی بینڈ کی طرف سے بھی اعلان سامنے آیاہے کہ وہ بھی فوری واپس آرہے ہیں۔آپ جناب ڈیوون چھٹیاں گذارنے گئے ہوئے تھے جو کہ ایک بہت ہی خوبصورت مقام ہے۔ ابھی تک اس کا ایک بھی بیان میری نظر سے نہیں گزراہے۔ لیکن میں اچھی طرح سمجھ سکتاہوں کہ وہ کیا کہہ سکتاہے ۔کل رات برمنگھم سے(یہاں بھی فسادات ہوئے)لیبرپارٹی کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ عام مجرموں کا کیا دھرا ہے ۔اور ان کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی کی جانی چاہیے ۔وغیرہ وغیرہ۔یہ وہی اور ویسا ہی راگ ہے جو کہ ٹوری پارٹی والے الاپ رہے ہیں۔دھن بھی وہی کلام بھی ویسا۔
یوں برطانیہ کی نوجوان نسل کے حق میں ایک بھی آواز کہیں سے کوئی بھی نہیں بلند کر رہاہے ۔یوں سماج کی یہ غیر منظم پرت ،سرمایہ دارانہ سماج کے پیدا کردہ بحران کے بھیانک اثرات کا شکار ہونے اور ان کی زد میں آنے کیلئے تنہا رہ گئی ہے ۔وہ پیدا کردہ مسائل،ان کی ذلتوں‘ اذیتوں اور محرومیوں کا اپنی سطح کا تجزیہ کررہی ہے اور اس کے مطابق جیسا تیسا عمل بھی کرنے پر مجبور کر دی گئی ہے ۔ایک طرف تو اس نسل کو ذرائع ابلاغ پراور اپنے ارد گرد ایسی زندگی دکھائی اور سجھائی دے رہی ہے جو کہ پرتعیش بھی ہے آسان بھی لیکن جس سے اس نسل کی بھاری تعداد کلی طور پر محروم ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے ۔نت نئے اور خوشنما اشتہارات کی بھرمار سے انہیں ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ صارفین کی اس دنیا میں شامل ہوجائیں جو کہ ان اشیاء سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں لیکن جب وہ اس دنیا کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ دروازہ ان کے منہ پر دے مار اجاتاہے ۔
’’امیروں کے پا س سب کچھ کیونکر ہے اور ہم کیونکر سب کچھ سے محروم ہیں ‘‘۔یہ ایک معقول سوال ہے جو ابھرتا ہے ۔لیکن ایک انقلابی پارٹی کی غیر موجودگی میں ،جوکہ اس نسل کو اس سوال کا جواب بتا سکے کہ کس طرح سے مجموعی وسائل اور اجتماعی ذرائع کی بدولت اس دکھ سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور جب سارا انسانی سماج ہی غربت کی دلدل سے یکسر ویکدم باہر نکالا جائے گا ۔اور اسے ایک ان دیکھے ان سنے بلند مقام ومعیارپر لے جایا جائے گاکہ انسان انفرادی سطح پر نجات کی جستجواور تگ ودو سے ہی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کرلے گا۔اس کا مظاہرہ اس نسل نے کرکے دیکھ بھی لیا ہے ۔انہوں نے اپنی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لی مگر کیا ملا ؟
یہ سب قابل افسوس ہے لیکن یہ سب پھر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت رائج منڈی کی اخلاقیات کا ناگزیراور ناقابل فرار مرحلہ بھی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام ہر انسان کو لالچی اور خودغرض ہونے کی ترغیب و تربیت دیتا ہے ۔کیونکہ یہی لالچ و خودغرضی ہی ترقی و خوشحالی کا جذبہ محرکہ ہواکرتے ہیں ۔سرمایہ دارانہ نظام جنگل کے قانون کے تحت اپنی عملداری قائم کرتا اوررکھتا ہوتاہے ۔
اس قانون کا بنیادی تقاضا ہی یہی ہے کہ طاقتور کو ہر حال میں جیتنا اور سربلند رہنا ہوتاہے اور کمزور کو ہر حالت میں طاقتور کے پاؤں تلے رونداجاناہوتاہے ۔یہی وہ قاعدہ وضابطہ ہے جس کو آج کی کاروباری دنیا اپنائے چلی آرہی ہے ۔اب اگر قاعدہ ضابطہ قانون اخلاق سب ایساہی ہو تو شکوہ کیسا شکایت کس کی؟ فسادات درحقیقت ایک بانجھ غصے کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہواکرتے ۔
چندراتوں کی لوٹ مار سے لوٹنے والوں میں طاقت کا جو احساس پیداہواہے ،وہ انتہائی غلط ہے ۔یہ لوگ زہر سے بھر چکے تھے ۔یہ ایک تماشا تھا جو لگا اور بناہے ۔بچوں نے اسے فٹبال کے کسی میچ سے زیادہ دلچسپ کھیل بنالیا لیکن یہ کسی طور بازیچہ اطفال نہیں تھا ۔لیکن پھر جیسا کہ بہت زیادہ پی جانے کے بعد چڑھ جایاکرتی اور پھر اتربھی جایا کرتی ہے۔ رات کی گرما گرم سرگرمی کے بعد،دن کی ٹھنڈک میں سب کچھ مختلف ہوجایاکرتاہے۔ریاست کے جبر کے ادارے جو وقتی طور پر سہل پسنداور خستہ ہوچکے تھے اب دوبارہ سے مضبوطی پکڑیں گے ۔ہر گھر ہر گلی ہر علاقے ہر شہر کو قابو میں رکھنے کیلئے منصوبے سوچے جارہے ہوں گے ۔گرفتاریاں کی جائیں گی ۔تفتیشیں ہوں گی۔اور یوں کل تک وہ نوجوان جو کہ اپنی اپنی گلیوں کے شیر بنے ہوئے تھے ،ان کو بھاری قیمت چکانی پڑجائے گی ۔
نئے دھماکے ناگزیرہیں
سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے ایک کے بعد دوسرے ملک میں مظاہروں احتجاجوں ہڑتالوں اور عام ہڑتالوں کے سلسلے کو جنم دیاہے۔عرب انقلاب کے پیچھے بھی یہی حقیقی وجہ تھی جس نے دو آمروں کا تخت بھی اکھاڑپھینکااور جو ابھی تک سرکش وسرگرم بھی ہے ۔
یونان اور سپین میں اس کی بدولت لاکھوں انسانوں نے سڑکوں پر آکر تاریخی احتجاج اور مظاہرے کئے ہیں۔یہاں تک کہ اسرائیل کے اندر بھی لاکھوں کے احتجاج ہوچکے ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والے فسادات کو بھی اسی عمومی منظر نامے میں ہی دیکھا جانا ضروری ہے ۔ان نے برطانوی اسٹیبلشمنٹ کو حیران و ششدر کر کے رکھ دیا۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کا پیشگی اندازہ لگایا جاسکتاتھا ۔
سرمایہ داری کے موجودہ جان لیوا پن کی بدولت ایک ساری کی ساری نئی نسل ،بیروزگاری کی ہلاکت آفرینی کی زد میں آچکی ہے ۔کروڑوں انسان غیر انسانی ماحول پر مشتمل آبادیوں میں جینے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ۔وہ بھی ایسے حالات میں جب لاکھوں مکان خالی پڑے ہیں ۔سماجی تعمیرات کا کہیں نام ونشان تک نہیں ہے ۔صرف امیر انسان ہی ہیں جوکہ لندن کے درمیانے درجے کے گھر خریدنے یا ان میں رہنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔چپ اور نظم ونسق کے بظاہر سکون کے عین نیچے برطانوی سماج میں غم وغصہ دن بدن پروان چڑھ رہاتھا۔دہائیوں تک سماج اپنی آنکھیں بند کیے اس حقیقت سے نظریں چرائے چلا آرہاتھا کہ غریب، مسلسل غربت اور بدحالی کی اتھاہ گہرائیوں کی جانب لڑھکتا ہی چلاجارہاہے۔ ایک ایسا ماحول پنپ چکاتھا کہ جس میں منشیات اور اسلحہ زیادہ آسانی و فراوانی سے مل رہاہے لیکن جہاں علاج ،تعلیم ،گھراور دوسری درکار سہولتیں کمیاب و نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ لندن شہر میں طفیلی جونکوں کیلئے تو بے تحاشا رقم موجود ہے جہاں بینکاروں کو پبلک فنڈز میں سے دھڑادھڑ بونس دیے جاتے ہیں لیکن اسی ملک برطانیہ میں برکسٹن جیسے علاقوں کیلئے نیم مہذب حد تک کے معیار کی سہولتیں فراہم کرنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
بائبل میں ایک انتہائی دلچسپ بات درج ہے ’’وہ جو بہت رکھتا ہے ،اس سے لے کراسے دیا جائے جس کے پاس نہیں ہے ‘‘۔ اس کی روشنی میں کسی کو حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے اگر کوئی غریب کمیونٹی کے نوجوان غصے اور فرسٹریشن کی حالت میں چھینا جھپٹی پر اتر آتے ہیں ۔یہ فسادات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں کہ جب عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹیں بحران کی زد میں آئی ہوئی تھیں ۔یہ سرمایہ داری کی بوکھلاہٹ کا ایک اظہار تھا۔جسے بالآخر یہ یقین ہوچلا ہے کہ سرمایہ داری کے جاری وساری بحران کا کوئی حل اور بحالی کا کوئی رستہ نہیں نکل پا رہا ۔ امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے کم شرح ترقی کا اعلان عالمی منڈی کی ہوانکالنے کیلئے کافی ثابت ہوا ۔
منڈیاں پہلے ہی کرہ ارض میں ہر طرف طاعون کی طرح پھیل چکے قرضوں کے بحران سے بہت مضطرب و مضمحل تھیں۔اب معاشیات کے ماہرین کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں کہ ایک دومونہی بحران سامنے آسکتاہے ۔اور جسے سامنے آنے میں شاید اتنا وقت بھی نہ لگے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ کٹوتیوں اور چھانٹیوں کی پالیسیاں بحران کو بد سے بدتر کی طرف دھکیلیں گی اور دھکیل بھی رہی ہیں ۔معیار زندگی میں کمی کرنے سے قوت خرید کو کم کیا جارہاہے ۔جس کی وجہ سے زائد پیداوار کا بحران اور بھی شدید ہوتا جارہاہے ۔ کینشینسٹ اور اصلاح پسند حضرات اس حد تک تو درست کہہ رہے ہیں۔
لیکن اس کا حل اس کا متبادل کیا ہے ،اس کا ان کے پاس کوئی بھی جواب نہیں ہے ۔آخر کس طرح سے وہ ریاستی اخراجات کو بڑھا پائیں گے جبکہ مغرب کی سبھی حکومتوں کو بھاری خساروں کا سامنا ہے ۔اس کا ان کے پاس جواب یہی ہے کہ نام نہاد مقداری آسانی پیدا کی جائے یعنی پیسہ چھاپاجائے۔لیکن یہ آسانی افراط زر کو بھڑکادے گی جو کسی اگلے وقت میں بحران کو شدیددھماکہ خیز کردے گی ۔سرمایہ داروں کے آگے ایک وحشی درندہ ہے تو پیچھے ایک بپھرا سمندر۔
نظم ونسق کے محافظ اور انارکی کے دشمن کے طور پر ڈیوڈ کیمرون کو شاید کچھ عارضی او ر وقتی قوت میسر�آجائے لیکن یہ انارکی عارضی اور وقتی تھی اصل حقیقی انارکی تو سرمایہ دارانہ نظام کی انارکی ہے ، منڈی کی انارکی ہے ۔جس نے کروڑوں انسانوں کو امیدوں ،آمدنیوں اور گھروں سے محروم کررکھاہے اور کیے جارہی ہے ۔اور ان چیزوں سے محرومی ،وہ بھی مسلسل و مستقل محرومی اسی قسم کے سانحوں اور واقعوں کو بھڑکاتی اور پھیلاتی رہے گی ۔
فسادات ،آنے والے وقتوں کیلئے سنجیدہ سیاسی نتائج و عواقب کا باعث بنیں گے ۔ٹوری پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس میں اختلافات شدید اور گہرے ہوں گے ۔ٹوری پارٹی کی ’’جلاؤ اور بھونتے جاؤ‘‘ کا طریق کار جس کے ذریعے وہ بحران اور بھاری پبلک قرضوں کو برطانیہ کی سوشل سروسز کو تباہ وبرباد کرنے اور یہاں کے پبلک سیکٹر کو تہس نہس کرنے کیلئے بروئے کار لارہی ہے ۔لیکن اب سب اس کے باعث مصیبتوں میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔
برطانیہ میں ہونے والے فسادات سرمایہ دارانہ نظام کو درپیش عمومی بحران کی ایک علامت ہیں جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ‘ شدید اور وسیع بھی ہوتا چلا جارہاہے ۔اور سرمایہ داری کے پاس اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے بلکہ توازن کو متوازن کرنے کی ان کی ہر کوشش الٹا سیاسی و سماجی توازن کو بدتر کرتی چلی جارہی ہے ۔عدالتوں کی رونقیں بڑھانے اور جیلوں کا دامن بھرنے سے کچھ بھی حل نہیں ہوگا نہ کوئی بہتری آئے گی۔
سماج کی کوکھ میں نئے دھماکے پنپ رہے ہیں ۔آنے والا کل نئے ابھار لے کر ابھرے گا۔نوجوان نسل کی ایک ایسی اندھی اور ان دیکھی بلا سے لڑائی شروع ہوچکی ہے جسے سرمایہ داری نے ان کے سامنے کھلا چھوڑ دیاہے ۔اس نسل کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ فسادات بھی اسی اندھی بلا جیسی کوئی بلا ہی ہیں۔ اس نسل کو لازمی طور پر سرمائے کی غلامی سے نجات کیلئے بہتر اور مستقل حل کی طلب اور جستجو کرنی ہوگی ۔ہم مارکس وادی کسی طور کسی حالت میں سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں کی طرح نوجوان نسل کی مذمت کرنے کے منافقانہ عمل میں شریک نہیں ہوں گے ،نہ ہی ہیں ۔اس کی بجائے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ سپائنوزا کی اس بات پر توجہ سے کان دھرتے ہوئے توجہ دیں کہ ’’ہمیں نہ تو رونا ہے نہ ہنسنا بلکہ ہمیں تو سمجھنا ہے ‘‘۔ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ ہم نوجوان نسل کو کسی راست راستے کی نشاندہی کرنے میں ان کی معاونت اور دلجوئی کریں؛انقلاب کے راستے کی نشاندہی ؛سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے راستے کی نشاندہی۔
Translation: Chingaree.com