Urdu translation of The role played by the state in the development of capitalism in Japan (July 21, 2011)
فریڈ ویسٹن ۔ ترجمہ؛اسد پتافی
چنگاری ڈات کام،04.08.2011
عمومی طور پریہی نقطہ نظر معلوم اور معروف ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جب کبھی اور کہیں ابھرتاہے تو وہ کچھ یوں کہ جاگیردارانہ سماج میں سے ،تاجروں ،بیکاروں اور ابتدائی صنعتکاروں کی صورت میں ایک طبقہ سامنے آتاہے ،جسے بورژوازی کہا جاتاہے اور اس نئے طبقے کیلئے لازم ہوتاہے کہ وہ پرانے زمینی زرعی اشرافیائی سماج سے اپنا سار زور لگاتے ہوئے ،ناطہ توڑ لے اور یو ں ایک بورژوا انقلاب ہوجاتاہے ۔انگلینڈ اور فرانس جیسے ملکوں میں ایسا ہی کچھ ہواتھا لیکن جاپان کے معاملے میں ایسا اور اس طرح کاکچھ نہیں ہوا۔سادہ الفاظ میں سرمایہ دار انہ نظام جس طرح سے چند جدید ملکوں میں ابھر کر سامنے آیا تھا ،دنیا کے دوسرے جدید ملکوں کے اندر وہی طریق کار نہیں دہرایا گیا ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا کے کئی ملکوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاملات اس طریقے سے انجام نہیں پائے ۔اس کی ایک معقول وجہ بھی ہے ۔جب ایک بار دنیا کے نقشے پر جدید صنعتی سرمایہ دار ممالک نمودار ہوئے توانہوں نے باقی دنیا کو اپنے تسلط میں لینا شروع کر دیا۔اور یہی وہ مظہر ہے جسے ہم سب سامراج کہتے ہیں۔
جدید ترین تکنیکی طریق کار اورپیداواری صلاحیت کی بلند وبرتر شرح کے ساتھ ،طاقتور صنعتی ممالک کا وجود،اس بات کا اعلان تھا کہ باقی ملکوں کے اندر مقامی سرمایہ داری کے بتدریج ظہوراور ابھارکا راستہ روک دیاگیاہے ۔یہی وہ مرکزی نکتہ تھا کہ جسے ٹراٹسکی نے اپنے نظریہ مسلسل انقلاب میں وضع اورواضح کیا تھا۔1917ء میں روس میں ہونے والے واقعات نے اس نظریے کی درستگی کی تصدیق کر دی ۔روس کی بورژوازی اپنے ہی انقلاب کی قیادت کرنے سے قاصر تھی ۔سترہویں صدی میں برطانوی اور اٹھارویں صدی میں فرانسیسی بورژوازی کی طرح آزادانہ کردار اداکرنے کی بجائے روس کی بورژوازی نے اپنے ہاتھ اور پاؤں طاقتور سامراجی ملکوں کی جکڑ بندیوں میں بندھوائے ہوئے تھے ۔اسی وجہ سے روس میں بورژوا انقلاب کا فریضہ وہاں کی نوجوان پرولتاریہ کے کاندھوں پر آن پڑا۔اور یہی نوجوان پرولتاریہ اس وقت روس کے اندر واحد حقیقی انقلابی طبقے کے طورپر موجود تھا۔بلاشبہ ،یہ حقیقت کہ اس وقت روس میں ایک جدید پرولتاریہ کی موجودگی کا یہ مطلب تھا کہ بورژوا انقلاب کی ابتدا کرتے ہوئے ،مزدوروں نے ایک مستقل عمل کے طور پر سوشلسٹ فرائض بھی سرانجام دینا تھے ۔لیکن یہ اس وقت ہمارے مضمون کا موضوع نہیں ہے ۔
یہاں ہم ایک ایسے مظہر کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں ،کہ جب کوئی ایک طبقہ کہ جسے ایک عمل یا مرحلے کی قیادت کرنی ہوتی ہواور وہ مرحلہ یا عمل سرمایہ داری کی ترقی کا ہو، لیکن وہ کمزور ہوتو ایسے میں ایک دوسرا طبقہ اس عمل یا مرحلے کی انجام دہی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیاکرتاہے ۔جب بورژوا انقلاب کی قیادت کرنے کا ذمہ دار طبقہ ،انتہائی کمزور حالت میں ہو یا پھر اپنے سے کہیں طاقتور بورژواقوتوں کی محتاجی میں پھنسااور دھنساہواہوتو ایسے میں ایک دوسرا طبقہ صورتحال میں اپنے پاؤں رکھ سکتاہے ۔ جاپان بھی ایسے ہی ایک مظہر کی واضح مثال ہے ۔
تاریخ کی مثالیں
جاپان کی سابقہ تاریخ سے ایسی کئی مثالیں سامنے ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ حکمران طبقہ یا پرت کسی بھی دوسرے ملک سے کسی بھی معاشی نظام کواس وقت شعوری طورپر اپنا لیتی ہے،جب وہ سمجھے کہ یہ اس کے موجودہ نظام سے برتروبہتر ہے ۔اور جسے اپنا کر یہ طبقہ یا پرت اپنے مفادات کو زیادہ موثر طریقے سے بڑھوتری دے سکتا ہے ۔چھٹی صدی میں یماتا کی ریاست نے بدھ ازم کو اپنا لیا،جسے اس نے چین سے ’’برآمد ‘‘کیا۔اسی کے ساتھ ساتھ ہی چین کے اند رمروج معاشی طرز کو بھی اپنانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔جو کہ ایشیائی طرز پیداوار(Asiatic Mode of Production)کی حامل تھی۔ اس وقت چین کی تہذیب اور ترقی کی سطح جاپان سے کہیں بلند و جدید تھی۔جاپان کے حکمران طبقات ،بیرونی جارحیت اور اس کے نتیجے میں نوآبادیاتی بنالئے جانے کے خوف میں مبتلا تھے ۔ اس لئے انہں نے اپنے قانونی اور معاشی نظام کو بدلنے کی تگ ود وشروع کر دی۔دولتمند افراد نے اپنے بیٹوں کو چین پڑھنے کیلئے بھیجا تاکہ وہ وہاں جاکر وہاں قانونی اورمعاشی نظام کو پڑھ لکھ اور سمجھ سکیں ،اس کے نتیجے میں645ء میں وہاں جاپان میں زرعی اصلاحات کی گئیں۔
یہ جاپان کے اندر اس نظام کو رائج کرنے کی ایک کوشش تھی کہ جو چین کے اندر مروج تھا۔اس کاوش نے جاپان کو بدلنے اور کسی حدتک سماج کو آگے لے چلنے میں معاونت کی۔لیکن جاپان میں وہ جغرافیائی حالات نہیں تھے جو کہ چین کے اندرموجود تھے ۔چنانچہ ریاست کی طرف سے زمینوں کو اپنی ملکیت میں لیے جانے کے عمل نے ٹوٹنا شروع کر دیاچنانچہ آٹھویں صدی تک جاپان میں زمین کی نجی ملکیت کا عمل دوبارہ شروع ہوچکا تھا اور جو آگے چل کر جاگیردارانہ شکل میں ڈھل گیا۔دسویں صدی تک جاپان کی نصف سے زیادہ زمین نجی مالکوں کی دسترس میں آچکی تھی۔
اس کیفیت میں طاقتور طاقتور جاگیردار طبقہ ابھر کر سامنے آیا اور جن کے مابین باہمی جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔کئی صدیوں کی باہمی سر پھٹول کے بعد جاپان میں ایک مشترکہ بادشاہت کی مرتکز حکومت قائم ہوئی ۔اس ہدف کے بعد جاپان کی حکمران اشرافیہ نے بھرپور کوشش کی کہ وہ جاپان کو ارد گرد کی ہمہ قسم اثرات سے الگ تھلگ اور محفوظ رکھ سکے ۔
تقریباًسولہویں صدی اور اس کے بعد دو صدیوں تک جاپان مکمل طور پر ایک بند سماج رہا۔جاگیردار اشرافیہ نے اس دوران ملک اور اقتدارپر اپنی گرفت قائم رکھی ۔اس دوران نے ایسی ہر کوشش کو سختی سے کچلا کہ جس کی وجہ سے ان کے طبقاتی مفادات کو خطرات درپیش آسکتے تھے ۔انہوں نے اپنی جاگیردارانہ ملکیت کو تقویت دیے رکھی اور مزارعت کو ترویج دی ۔مورخوں نے اس عرصے کے دوران جاپان کی سیاحت کرنے والے کچھ افراد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس دوران وہاں کسی قسم کی کوئی بھی تبدیلی نہیں دیکھی گئی ۔اس کی بجائے وہاں جاپان میں سرمایہ دارانہ طرز کی طرزترقی چلائی جارہی تھی۔خاص طورپر انیسویں صدی کے پہلے عشروں کے دوران لیکن ترقی کی یہ طرز جاگیردارانہ جکڑ بندیوں کی زد میں تھی ۔
تاہم دنیا کے دوسرے حصوں امریکہ ،یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام پنپ رہاتھا اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ جاپان اس کے اثرات سے بچ رہتا۔جاپان کی حکمران اشرافیہ اپنے پڑوسی چین کے اندر چل رہی افیونی جنگوں کو بغور دیکھ رہاتھا جو کہ مغرب کی پشت پناہی سے لڑی جارہی تھیں۔چین کو نوآبادیاتی بنایا جارہاتھا اور اس کیفیت نے جاپان کی اشرافیہ کو ڈرایاہواتھا۔چنانچہ پہلے پہل تو جاپانی اشرافیہ نے اپنی حدود کو اور بھی سخت کرنے کی کوشش شروع کر دی تاکہ کسی قسم کی بیرونی مداخلت سے محفوظ رہا جاسکے ۔
لیکن پانی اس وقت سر تک آپہنچا جب جولائی 1853ء میں امریکی کموڈورمیتھیو پیری کی قیادت میں چار جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ ایڈوکے ساحل پر لنگر اندازہوگیا۔اس نے جاپانیوں کے سامنے کچھ واضح مطالبات رکھے جن میں ؛جاپان میں آنے والے سبھی غیر ملکیوں کے ساتھ بہتر انسانی برتاؤ؛جاپان کے ساحلوں پر لنگر اندازہونے والے بدیسی جہازوں کو خوراک اور ایندھن کی بآسانی فراہمی ؛اور سب سے اہم جاپانی بندرگاہوں کو غیر ملکی تجارت کیلئے اوپن کیا اور رکھا جائے ۔پیری نے اپنے ان مطالبات پر غور وخوض کیلئے ایک سال کا وقت دیا اور ساتھ ہی سفید جھنڈے بھی دیے کہ جب میں ایک سال بعد آؤں گا تو آپ انہیں لہرا کر میرے مطالبات کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیں گے۔پیری اس کے بعد فروری1854ء میں جاپان آیا تو اس کے سبھی مطالبات جاپانیوں نے تسلیم کرلیے ،یہی نہیں بلکہ انہوں نے جاپان میں امریکی قونصل خانے کے قیام کا بھی اعلان کر دیا۔باہر کے اس دباؤ نے جاپانی اشرافیہ کو اندر سے منتشر کر کے رکھ دیا۔1868ء میں بادشاہت بحال کر دی گئی جبکہ اس دوران حقیقی طاقت اشرافیہ کی اس پرت کے ہاتھوں میں منتقل اور مرکوز ہوتی چلی گئی جو مغرب کی یلغار کی مزاحمت کرنے کے نام پر ویسٹرنائزیشن کو ترویج دینے پر تلاہواتھا۔ویسٹرنائزیشن کے اس عمل کا مقصد اور کچھ بھی نہیں تھا سوائے صنعت کو فروغ دینے کے ۔چنانچہ اس طرح جاپان میں صنعت سازی کی ابتدا ہوئی۔
اس عمل کا ہی حصہ سرمایہ دارانہ انفراسٹرکچر کی تنصیب تھی۔ترجیحی طور پر جس کام پر توجہ دی گئی وہ ریلوے نیٹ ورک کا قیام تھا۔1870سے1874تک حکومت کی ایک تہائی سرمایہ کاری سی شعبے پر کی گئی ۔لیکن خود جاپانی بورژوازی بہت کمزور تھی اور اس سارے عمل کی نگرانی ونگہبانی نہیں کر پا رہی تھی ۔
کمزور بورژوازی
جیسا کہ کینتھ ہین شال نے اپنی کتاب ’’جاپان ؛پتھر کے دور سے سپرپاورتک‘‘(1999ء)میں لکھا ہے کہ ’’تاکو گاوا کے عہد کے تاجر ادارے کسی طور بھی جدید صنعتوں کو قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے ۔یہ سب اس سے سہمے ڈرے ہوئے تھے ۔صرف متسوئی اور سومی موٹو ہی دو ادارے تھے ،کہ جو اس عمل میں دلچسپی لے رہے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس عمل میں زیادہ تر دلچسپی یا تو ریاست لے رہی تھی یا پھر کمتر سطح کی سیمورائے کلاس جو کہ کسان تنظیموں پر مبنی ہوا کرتی تھی ۔اور جنہوں نے حکومت تشکیل دی ہوئی تھی ‘‘۔
اور اگرچہ چند ایک سابق سیمورائے بھی ایسے تھے کہ جنہوں نے صنعتکاری کے عمل میں کردار اداکیا ۔خاص طورپر ابتدائی عہد میں تو حکومت بہت پریشان تھی کہ نجی شعبہ کسی طور بھی اس عمل میں شریک نہیں ہورہاتھا۔چنانچہ اس کیفیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود حکومت کو ہی ادارے قائم کرنے پڑگئے۔وہ بھی اس امید پر کہ نجی شعبہ اس ماڈل کی کامیابی سے متاثر ہوکر آگے آئے گا اوروہ پرائیویٹ صنعتکاری کے عمل میں شریک ہوگا۔
ہین شال نے اپنی کتاب میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’1870ء کی دہائی میں حکومت نے برکس،سیمنٹ،شیشہ سازی سمیت کئی شعبوں میں صنعتکاری کی ۔اسی کے ساتھ ساتھ ہی اس نے کان کنی اور جہاز سازی کے شعبے کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ‘‘۔لیکن اس وقت تک بھی جاپان کی حاوی معیشت زراعت ہی تھی ۔زرعی شعبے کا جاپان کی جی ڈی پی میں حصہ42فیصد تھا۔اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ صنعتی شعبے میں سستی اجرت پرکام کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق زرعی شعبے سے تھا ۔اس صنعت کاری کا زیادہ تر تعلق برآمدات سے تھا۔1870ء کی دہائی میں برآمدات مجموعی قومی آمدنی کا 6/7فیصد تھیں ۔
لیکن میجی کے عہد تک یہ حصہ20فیصد تک پہنچ گیاتھا۔ایڈوانس مغربی صنعتی تکنیک کے حصول کیلئے مقامی اداروں نے آپس میں مشترکہ کام اختیار کرنے کا طریقہ اپنا لیا ۔آج کل کی مشہور ومعروف کمنیوں جیسا کہ NECنیپون الیکٹرک کمپنی ،اورتوشیبا نے امریکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ کام شروع کیاتھا۔اور جیسا کہ ہین شال نے لکھا ہے کہ ’’میجی کے عہد میں ریاست ہی تھی جس نے معیشت کی نگرانی ونگہبانی میں بہت اہم کردار ادا کئے رکھا۔اسی نے ہی تجارتی دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور انہیں مضبوط و مستحکم کرتی رہی ۔وہ کمپنیوں کو ان کی ضرورت کے مطابق سہولتیں فراہم کرتی اور اپنی ضرورت کے مطابق لیتی رہی ‘‘۔یہ بات لکھنے کے بعد کہ حکومت کو ہمیشہ ہی اس کی من چاہی صورتحال نہیں ملتی رہی ،ہین شال مزید لکھتاہے کہ ’’تاہم ایک بات یقینی تھی کہ جاپان کی حکومت ،معاشی ترقی کے سارے عمل کومنڈی کی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے سخت گریزاں تھی اور یہ کیفیت ابھی تک بھی ہے ‘‘۔
معیشت میں ریاست کا کردار
آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے ای سڈنی کراؤکر نے اپنی کتاب’’انڈسٹریلائزیشن اور ٹیکنالوجیکل چینج1885/1920‘‘کے دوسرے باب میں لکھا ہے کہ جاپان میں صنعت کاری اور تکنیکی مہارت کے ضمن میں کوئی بات بھی ممکن نہیں ہوسکتی اگر اس میں سے ریاست کے کردار کا ذکر نہ کیا جائے ‘‘۔ آج کے عہد اوراس وقت کی’’ نیو لبرل‘‘سوچ کا جہاں تک تعلق ہے کہ ہر سوال کا جواب صرف ’’منڈی‘‘ ہی ہے ،کراؤکر حسب ذیل لکھتا ہے ’’کئی معاشی ماہرین اور تجزیہ کار یہ نقطہ نظر اپنائے ہوئے ہیں کہ ریاست کسی طور بھی مقابلہ کار منڈیوں کے آپریشن کے معاملے میں اس طرح کی کارگذاری نہیں دکھا سکتی ہے ،لیکن آزادانہ مقابلے میں شریک کمپنیاں بھی کسی طور جاندار وشاندار ترقی برقرار رکھنے کی حکمت عملی قرار نہیں دی جا سکتیں۔خاص طورپر منڈی کی قوتیں ،زیادہ طویل المیعاد ترقی کی رفتارکو یقینی نہیں بنا سکتیں کہ جب سرمایہ کاری کرنے والے کے اختیار سے باہر کی کوئی قوت اپنا کام دکھا تی ہوتی ہیں ۔ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ 1890ء کی دہائی میں نہ تو کوئی لوہے کا کوئی کام اورنہ ہی کوئی سٹیل مل،تنہا اپنے طورپر منافع بخش تھے ۔اسی طرح کوئلے کی ایک کان ریلوے کے بغیر کسی کام کی نہیں تھی ۔کہ یہ اس کی پیداوار کو منڈی تک لے جانے کا وسیلہ ہوتی تھی۔لیکن اسی طرح ہی ریلوے بھی کان کنی سمیت دیگر شعبوں کی ترقی کے بغیر کوئی اہمیت کی حامل نہیں ہو سکتی تھی ۔جو اس کے روٹ کے رستے میں آتے ہوتے ہیں ۔یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست کی مدد سے ہونے و الی ترقی کے ضمن میں ہونے والی سرمایہ کاری بہت زیادہ نتیجہ خیز ہو سکتی ہے ‘‘۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بھی،ریاست کی ترقی میں شرکت و مداخلت کتنی بارآورثابت ہوسکتی ہے ۔یہی مصنف اس قسم کے طریقوں کو’’تاخیر کا شکار معیشتوں‘‘کی ترقی وبہتری کیلئے لازمی قرار دیتاہے ۔اس ساری ترقی کے عمل کے پیچھے کون سی قوت محرکہ موجود تھی ؟کیا یہ کرامویل کے دور میں انگلینڈ میں ابھرنے والی بورژوازی تھی !یا کہ یہ 1789ء کا فرانسیسی انقلاب تھا؟نہیں ایسا کچھ بھی یہاں نہیں تھا ۔اس کی قوت محرکہ کہیں باہر سے آئی تھی ۔یہ جدید ترقی یافتہ ملکوں کا دباؤ تھا کہ جس نے جاپان کی جاگیردار اشرافیہ کو خوف میں مبتلا کردیاتھا۔اور اس شدید دباؤ نے ہی جاگیردار اشرافیہ کو جدیدیت کی طرف مائل ہونے پر مجبور کردیاتھا؛یعنی صنعت سازی ؛یعنی سرمایہ داری۔اور چونکہ جاپانی بورژوازی تاریخی طورپراپنا کرداراداکرنے میں بہت کمزور واقع ہو چکی تھی ،اس لئے یہ فریضہ کسی اور فریق کے سر آن پڑا۔جاپان میں یہ فریضہ سیمورائے کلاس نے یہ کام سرانجام دیاکیونکہ وہی اقتدار پر براجمان تھی۔
ہین شال اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’نوجوان سیمورائے جس نے 1868ء کی بغاوت کی قیادت کی ،نے اپنے نام(نوجوان بادشاہ)کی طرح اس قابل تھا کہ وہ اپنی حکومت میں سب کچھ بخوبی کنٹرول کرسکے۔اور اس نے سبھی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کو مستحکم کئے رکھا۔اس کا ہدف یہ تھا کہ مغرب کی طرزسے بھی کہیں بڑھ کر ایک مضبوط قوم تشکیل دی جائے‘‘۔
توپھرکس نے اور کیسے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا؟یہ کسی طور بورژوازی نہیں تھی ،یہ تو بہت ہی کمزور تھی۔یہ تو جاگیرداری نظام کے اپنے ہی اندرونی عناصروعوامل تھے کہ جنہوں نے یہ سب کیا۔ہین شال اس کی وضاحت کچھ اس طرح کرتاہے کہ ’’راستے کا پتھر بننے والا جاگیرداری نظام ٹوٹ کر بکھر چکاتھا۔یہاں تک کہ خود سیمورائے کلاس بھی کہ جو حکمرانی کی بھی قیادت خود کررہے تھے ‘‘۔ کم مدت میں ہی جاپان ایک بڑی معاشی طاقت کے طورپر ابھر کے سامنے آگیااور یہی نہیں بلکہ اس نے اپنی سرحدوں کو مشرق کی جانب وسعت دیتے ہوئے اپنی سلطنت ہی قائم کرلی۔اگرچہ جاپانیوں نے مغرب کی نقل کرتے ہوئے معاشی اصلاحات کیں لیکن اس نے کسی طور بھی مغرب کی طرز کے سیاسی ادارے قائم نہیں کئے ۔ہین شال لکھتا ہے کہ ’’اشرافیائی طبقے نے خود کو قائم ودائم رکھا ؛وہ سب کچھ خود ہی تھے ؛وہی قانون کا مرکز و محور بھی تھے اور آزادیاں بہت ہی کم اور محدود تھیں‘‘۔
یہاں ہم آج کے چین کا ایک دلچسپ موازنہ سامنے رکھ سکتے ہیں ۔جو کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداتک جاپان پر برتری رکھتا تھا۔ جاپان کی بورژوازی انتہائی کمزور تھی کہ براہ راست ریاست کا کنٹرول سنبھال سکتی۔لیکن جاپان کی ریاست ایک جدیدبورژوا سرمایہ دار ریاست کی تعمیر وتشکیل کر رہی تھی ۔
کیا1870ء میں جاپانی ریاست بورژوا ریاست تھی ؟اس کا جواب کوئی بھی ہاں اور نہ دونوں دے سکتاہے ۔اگر کسی سے یہ انصاف کرنے کیلئے کہا جائے کہ کون لوگ تھے کہ جو ریاست کی قیادت کررہے تھے ،ماضی کی جاگیرداراشرافیہ !تو ایسا کہنے والا ایک ’’غلطی ‘‘کر رہاہوگا کہ یہ جاگیردار تھے ۔یہاں ہم نکتہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ یہ ماضی کی وہ پرت تھی کہ جو ایسی ریاست کی حکمرانی کر رہی تھی کہ جوایک جدید طاقتور سرمایہ دار معیشت تعمیر کررہی تھی۔ہر چند یہ لوگ ابھی ترقی کی ابتدائی حالت میں تھے ،لیکن ان کی سمت بالکل واضح اور متعین تھی۔یہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔اس اعتبار سے یہ ایک بورژوا ریاست تھی۔اگر کوئی صحیح سوال پوچھے تو وہ یہ بنتا ہے کہ یہ ریاست کس طرف جارہی تھی!تو اس کا سیدھا سادہ فوری جواب ایک ہی ہوگا ؛کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرف جارہی تھی۔اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جو ریاست کی بنیادی فطرت کی غمازی کرتا ہے ۔
اس سوال پر ایک انتہائی بر محل اور دلچسپ تبصرہ ہمیں ٹراٹسکی کی تحریر(مطبوعہ 25نومبر1937ء)’’نہ تو ورکرز نہ ہی سرمایہ دارانہ ریاست‘‘ میں ملتا ہے ۔’’ یہ مفروضہ کہ ایک ورکرز ریاست کی افسر شاہی کا کردار بورژوا ہوتاہے ،اور اسے بہر طورنہ صرف کند ذہن ہونا چاہئے بلکہ اسے لوگوں کے ساتھ انتہائی بدحواسی کے ساتھ برتاؤ رکھنا چاہئے ۔لیکن کیمیائی طور پر مکمل ریاست کبھی بھی وجود نہیں رکھتی ہوتی ۔اور نہ ہی یہ اب وجود رکھتی ہے ۔نیم جاگیردارپروشین بادشاہت نے ہی بورژوازی کے کئی اہم ترین فرائض سرانجام دیے ۔لیکن یہ فرائض اس نے اپنے ہی رنگ ڈھنگ میں سرانجام دیے ۔
یعنی جاگیردارانہ انداز میں نہ کہ جیکوبن سٹائل میں ۔آج بھی ہم جاپان کے اندر،ریاست کے بورژوا کردار اور حکمران طبقے کے نیم جاگیردارانہ کردار کا تال میل ہوتا دیکھ سکتے ہیں ۔لیکن پھر یہ سارا کچھ ہمیں اس فرق سے الگ نہیں کر سکتا کہ جو ایک بورژواسماج اور ایک جاگیردارانہ سماج میں ہواکرتاہے ‘‘۔
امریکی سامراج کا رول اس حقیقت نے کہ جاپان کے اندر کوئی بورژوا انقلاب نہیں ہوسکا،قدیم جاگیردارانہ سماج کی باقیات کو برقراررکھا جس میں بادشاہت بھی شامل ہے ۔(یہ حقیقت برطانیہ میں بھی موجود ہے کہ جہاں اب تک بادشاہت اور ہاؤس آف لارڈز(دارالامرا)موجود ہیں ) ۔ان میں سے اکثریت کا خاتمہ تبھی ممکن ہو سکتاتھا اگر امریکی فوج جنرل ڈگلس میکارتھر کی سربراہی میں ان پر قبضہ کرلیتی۔اپنی یاد داشتوں میں جنرل میکارتھر لکھتا ہے کہ ’’اس دوران کہ جب میں جاپان کی عسکری قوت کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے متحرک تھا،اسی دوران ہی میں جاپان کو ماڈرنائزیشن کی جانب دھکیلنے کی بھی کوشش کر رہاتھا ‘‘۔میکارتھر کے الفاظ میں ،جس بات کی ضرورت تھی وہ یہ کہ نمائندہ حکومت کا ڈھانچہ استوار کیا جائے ؛آئین کو جدید بنایاجائے ؛فری الیکشن کروائے جائیں؛عورتوں کو کام کے مواقع دیے جائیں؛سیاسی قیدیوں کو رہا کیاجائے ؛کسانوں کو آزادکیا جائے؛ایک فری لیبر موومنٹ قائم کی جائے ؛ایک آزاد معیشت کی حوصلہ افزائی کی جائے ؛پولیس تشددکا خاتمہ کیا جائے ؛ایک آزاد اور ذمہ دار پریس کو ممکن بنایاجائے؛تعلیم کو آزاد کیا جائے؛سیاسی طاقت کو غیر مرتکز کیاجائے؛
ریاست میں سے کلیسا کی مداخلت ختم کی جائے ۔۔۔۔‘‘۔ بلاشبہ کمیکارتھر کے ان فرمودات میں سے بہت کچھ مبالغہ آرائی اور بڑھک بازی بھی شامل ہے تاہم اس کے باوجود انہوں نے 1946ء میں کچھ بنیادی زرعی اصلاحات کرنے کی کوششیں کیں۔اور کسانوں کو اس بات کی اجازت دے دی گئی کہ وہ خود جس قدر بھی زمین کاشت کر سکتے ہوں ،کاشت کر لیا کریں۔حکومت یہاں تک بھی چلی گئی کہ غیر حاضر جاگیرداروں کی زمینیں خریدنے کی بھی پیشکش کردیاورانہیں کسانوں میں تقسیم کردیا۔یہ اقدام واضح طور پر کمیونزم(سٹالنزم) کے انقلاب کے خطرے اور اندیشے کے پیش نظر اٹھایاگیاتھا۔
جوکہ دنیا کے بڑے حصے میں پھیل رہاتھا۔یہاں تک کہ پڑوسی چین میں بھی۔ امریکی سامراج کیلئے اصلاحات کو زیادہ آگے لے جانے کی یوں بھی چنتا تھی کہ جاپان کے اندر ایک انتہائی طاقتور ٹریڈ یونین موومنٹ زور پکڑ چکی تھی۔
جس کے ساتھ ہی ایک طاقتور کمیونسٹ پارٹی بھی قائم ہو چکی تھی۔اس قسم کے امکانات کا رستہ بند کرنے کیلئے امریکہ نے ہر وہ پیش قدمی کی کہ جس سے جاپان کے اندر بورژواانقلاب کا مرحلہ مکمل ہوجائے ۔یوں جاپان عالمی جنگ کے بعد ،ایک طاقتور اور کامیاب بورژوا ملک کے طورپر ابھر کر سامنے آگیا۔جس نے کئی سالوں تک اپنی شرح ترقی کو دس فیصد یا اس سے زیادہ تک بھی قائم و برقراررکھے رکھا۔تاہم جاپان سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کی زد میں آتاچلا گیا اور1980ء کی دہائی کے آخرسے ایک طویل بحران اور جمود کی زدمیں آچکاہواہے ۔یہ طے ہے کہ جاپان کی موجودہ جدید ترین کیفیت میں پہنچنے کا سار ا سلسلہ قدیم جاگیرداراشرافیہ کے ہاتھوں شروع ہواتھا۔
جاپان کے اندر پیداہونے والی اس کیفیت کا تعین اس وقت کی عالمی صورتحال کر رہی تھی۔جاپان کی حکمران اشرافیہ کا ایک حصہ جو کہ اٹھارویں صدی کی ابتدا تک جاگیردارتھا، جو کہ یہ دیکھ اور محسوس کر رہاتھا کہ اس کی طاقت وسطوت اور مراعات کو جدید صنعتی ملکوں سے شدید خطرات لا حق ہوچلے ہیں ،چنانچہ لازمی ہے کہ وہ خود کو انہی جدید خطوط پر استوارکرناشروع کر دیاجائے ۔یہاں کسی قسم کا اس طرح کا بورژوا انقلاب نہیں ہوابلکہ ایسے بتدریج اقدامات کئے گئے جن کی وجہ سے ایک جدید سرمایہ دار جاپان سامنے آتا گیا۔
ہم جرمنی کی بھی مثال سامنے رکھ سکتے ہیں جو ایسے ہی تاریخی عمل سے گزرایعنی صنعت کاری اور پھر سرمایہ داری۔اس عمل کی ابتدا جنکرز سے ہوئی تھی جن کا تعلق قدیم زرعی جاگیردار اشرافیہ سے تھا ۔بسمارک کو اس سلسلے میں بہترین مثال قراردیاجاسکتاہے لیکن اس کیلئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے ۔اصل نکتہ یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی صنعتی طاقتیں جاپان اور جرمنی قدیمی جاگیردار اشرافیہ کے ذریعے منصہ شہود پر آئیں نہ کہ کسی کلاسیکل بورژوا انقلاب کے نتیجے میں ۔کسی فرانسیسی طریقے سے نہیں بلکہ ایک ایسے عمل کے ذریعے کہ جو ایک حکمران طبقے کی ضرورت کے پیش نظر ممکن ہوا۔
کیونکہ یہ حکمران طبقہ اگر اپنے قدیم جاگیردارانہ طورطریقوں پر ڈٹارہتا تو اس کیلئے اپنی مراعات اور مفادات کو بچائے رکھنا ہی ناممکن ہو جاتا۔
Translation: Chingaree.com