سوویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں بازو کے لیڈروں، نظریہ دانوں اور سیاسی کارکنان کی ایک پوری نسل نظریاتی تنزلی اور مایوسی کا شکار ہوگئی تھی۔ دو دہائیاں گزر گئیں۔ تذبذب اور بیگانگی بڑھتی رہی۔ سٹالن ازم کے پاش پاش ہونے پر سامراجیوں نے مارکسزم کی ناکامی اور موت کا اعلان کردیا۔ مارکسسٹوں کو کتنی دہائیاں سٹالن ازم کو بے نقاب کرنے میں لگ گئیں لیکن جب سٹالن ازم کا بت ٹوٹا تو پھر ہر الزام، ہر جرم اور ہر ناکامی کے لئے مارکسزم کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا۔ ایک زمانے میں ماسکو اور بیجنگ کی پوجا کرنے والے حکمرانوں کی اس یلغار کا حصہ بن گئے۔
یورپ میں سوشل ڈیموکریسی نے اصلاحات کی پالیسیاں ترک کر کے جارحانہ سرمایہ داری کا نیو لبرل ماڈل اپنا لیا۔ حکمرانوں نے محنت کش طبقے کی پسپائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استحصال اور معاشی حملے تیز تر کردئیے۔ سرمایہ داروں کی دولت کے انباروں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ شرح منافع آسمان کو چھونے لگی۔ امارت اور غربت کی تفریق ترقی یافتہ ممالک میں بھی انتہاؤں کو پہنچ گئی۔ عالمی آبادی کی اکثریت خط غربت سے نیچے گر گئی یا اس کے آس پاس منڈلانے لگی۔ کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں انسان کی ذلت اور محرومی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ راحت کا احساس قصہ ماضی ہوگیا۔ محنت کشوں کی زندگیوں میں ہر طرف دکھوں اور غموں کا عذاب تھا۔ افریقہ میں معاشی ترقی نے زندگی کو تلخ تر کردیا۔ ہندوستان میں مغربی سرمایہ کاری سے اگر کروڑوں لوگ غربت سے نکل کر درمیانے طبقے کا حصہ بنے تو اس سے کہیں گنا زیادہ انسان معاشی چکر سے ہی باہر ہوگئے اور محرومیوں کی پستیوں میں جا گرے۔
بورژوازی کا یہ نشہ ابھی اترا نہیں تھا کہ جنگوں، خانہ جنگیوں اور دہشت گردی نے انسانی سماج کو بھیانک بربادیوں کا شکار بنانا شروع کردیا۔ وینزویلا میں ہوگو شاویز کی انتخابی فتح اور ’’21ویں صدی کے سوشلزم‘‘ کے نعرے نے سٹالن ازم کے خاتمے کے بعد سامراج کی معاشی اور نظریاتی یلغار کا پہلی بار منہ توڑ جواب دیا۔ نہ صرف وینزویلا بلکہ لاطینی امریکہ کے بہت سے دوسرے ممالک میں بائیں بازو کا ابھار گزشتہ صدی کے آخری سالوں میں شروع ہوا۔ دوسری طرف عالمی سرمایہ داری بحرانات کو سٹہ بازی، قرضوں اور سابقہ سٹالن اسٹ ممالک میں سرمایہ کاری کے ذریعے ٹالتی رہی۔ لیکن جس نظام کے خمیر میں تضادات اور بحران پوشیدہ ہوں وہ ہمیشہ کے لیے زوال سے بچ نہیں سکتا۔ 2008ء میں سٹہ بازی اور مالیاتی سرمائے کے ہیر پھیر کا یہ کھیل اپنے منطقی انجام تک پہنچا۔ سماجوں میں ہل چل بڑھنے لگی۔ برداشت جب اپنی انتہا کو پہنچی تو یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے تقریباً ہر خطے میں بغاوتوں کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ماضی کے ’’انقلابی‘‘ ایک بار پھر سامراج کی مدد کو آئے۔ ان انقلابی تحریکوں کو ’’جمہوریت کی جدوجہد‘‘قرار دے کر ان کا کردار مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ انقلابات کو مختلف رنگوں، موسموں اور پھولوں کے نام دئیے جانے لگے۔ محرومیوں، ذلت، مہنگائی، بے روزگاری اور کٹوتیوں کے خلاف ابھرنے والے عوام کی لڑائی کو سرمایہ دارانہ اقتدار کے ڈھانچوں تک محدود کرنے کی ہر چال چلی گئی۔ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ تحریکیں تھک ہار کر مستقبل میں پھر سے ابھرنے کے لئے وقتی طور پر پسپا ہوگئیں لیکن اب کی بار ان انقلابات کو دوبارہ ابھرنے میں دہائیاں نہیں لگیں گی!
پاکستان میں سابقہ بایاں بازو آج جمہوریت کا متوالا ہے۔ ماضی میں سٹالن اسٹ مرحلہ وار انقلاب کے فرسودہ نظریئے پر یقین رکھتے تھے۔ آج ان کا نظریہ صرف سرمایہ داری کے مرحلے تک محدود ہوگیا ہے۔ ماحولیات سے لے کر انسانی حقوق اور عدلیہ کی بحالی کی تحریکیں چلانے والی سول سوسائٹی نے سرمایہ دارانہ نظام کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ سیاست نظریات سے خالی ہوگئی ہے۔ ریاست کا عدم استحکام اور داخلی انتشار بڑھتا ہی جارہا ہے۔ طبقاتی کشمکش کو کارپوریٹ میڈیا نے متروک قرار دے دیا ہے۔ لیکن سرمائے کی اس جمہوریت نے جو معاشی و سماجی عذاب دئیے ہیں اس کے مقابلے میں آمریتیں بھلی معلوم ہونے لگی ہیں۔
ماضی کی دو دہائیاں ایک مشکل اور کٹھن وقت تھا۔ اس عہد میں جہاں نظریاتی ابہام اور تذبذب کا غلبہ تھا وہاں عام آدمی کی روح غریب ہوگئی تھی۔ حوصلے پست تھے۔ اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی جرات ہی دم توڑ گئی تھی۔ کہیں اسلامی بنیاد پرستی کی وحشت، کہیں تنگ نظر قومی شاونزم کی رجعت اور کہیں لبرل ازم اور سیکولرازم کے فیشن کی شکل میں۔ ۔ ۔ ہر طرف سرمایہ دارانہ نظام کا ہی پرچار تھا۔ اس نظام کے خلاف ہر سوچ، ہر نظرئیے کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انقلابی سوشلزم، مارکسزم اور کیمونزم کو تضحیک آمیر رویوں، جعلی قہقہوں اور پراپیگنڈہ کے ذریعے ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ رد انقلاب کے ان طاقتور تھپیڑوں کے سامنے صرف ایک قوت سینہ سپر ہوکر کھڑی رہی۔ یہ عالمی مارکسی رجحان (IMT) تھا۔ ہم اگر بہت تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکے تو پسپاہونے سے بھی انکار کر دیا۔ ہر مصلحت، ہر موقع پرستی، ہر مفاہمت کو جھٹک کر مارکسزم لینن ازم کے بنیادی اور ناقابل تسخیر نظریات پر قائم رہے اور محنت کش طبقے کے سامنے صبر و تحمل سے وضاحت کرتے رہے۔
آج یوکرائن سے لے کر شام اور افریقہ سے لے کر امریکہ تک ہر طرف انسانی سماج عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ہر بڑا واقعہ، ہر تحریک اور ہر معاشی تناظر مثبت یا منفی طریقے سے مارکسزم کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔ ایک نئے عہد کا ظہور ہورہا ہے۔ وکٹر ہیوگو نے ایک بار کہا تھا کہ ’’دنیا کی بڑی سے بڑی فوج بھی اس نظرئیے سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتی جس کا وقت آگیا ہو۔ ‘‘مارکسزم کا وقت مارکس کی اپنی زندگی میں نہیں آیا۔ پھر 1917ء کے عظیم بالشویک انقلاب کے ذریعے مارکس کی وفات کے 34 سال بعد اس کا نام ایک روشن ستارے کی طرح افق پر نمودار ہوا۔ سوویت یونین کی سٹالن اسٹ زوال پزیری اور بالآخر انہدام کے بعد چھا جانے والے رجعت کے گھپ اندھیرے میں عالمی مارکسی رجحان کا چراغ مدہم ضرور تھا لیکن نشانِ راہ کا پتہ ضروردیتا رہا۔ روس، مشرقی یورپ اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد ایک نئی نسل جوان ہوچکی ہے جسے ایک انقلابی متبادل کی تلاش ہے۔ مارکس وادیوں کو ان نوجوان تک پہنچنے کے لئے ہر رکاوٹ، ہر بندھن، ہر جبر اور ہر تضحیک کو رد کرنے کا تاریخی چیلنج درپیش ہے۔ آج انسانیت چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ ’کوئی چراغ جلاؤ بڑا اندھیرا ہے‘۔ پاکستان میں 33 سال کی انتھک جدوجہد کے بعد کمیونسٹوں کی سب سے بڑی ’’کانگریس 2014ء‘‘ وہ چراغ ہے جس کی روشنی دنیا بھر میں انقلابیوں کو ایک نئی شکتی عطا کرے گی۔ اس روشنی کودنیا کا کوئی اندھیرا مٹا نہیں سکتا۔ ہمارا وقت بہت قریب ہے!