26 نومبر کو ہندوستان کے شہری اور دیہی علاقوں کے پچیس کروڑ لوگوں نے عام ہڑتال میں حصہ لیا۔ دس مرکزی ٹریڈ نونینوں کی کال پر ہونے والی یہ ہڑتال، مودی کے چھ سالوں کے حکومتی دورانیے میں پانچویں بار ہوئی ہے۔
[Source]
اس ہڑتال میں انڈیا کی زیادہ تر ریاستوں کے لوگ بہت بھاری تعداد میں شریک ہوئے۔ دہلی اور اسکے اطراف کے شہروں اور قصبہ جات میں بہت زیادہ تعداد میں لوگوں کی شرکت نظر آئی اور کیرالہ، مغربی بنگال اور تری پورہ جیسی ریاستیں حالت جمود میں آگئیں جن میں ٹرانسپورٹ، بینکاری اور عوامی خدمات کے شعبہ جات کو عام ہڑتال نے متاثر کیا۔ ہڑتالیوں نے آسام کو مکمل طور پر بند کر کے رکھ دیا۔
ہڑتال کی تیاریوں میں ملک بھر میں ریلیاں، احتجاج اور عوامی سطح پر مہم چلائی گئی جس میں محنت کشوں نے ریاستی تشدد سے لڑتے ہوئے پولیس مورچوں کو بھی توڑ ڈالا۔ جسکے نتیجے میں ہریانہ اور آندھرا پردیش کی ریاستوں میں سرگرم کارکنان کی بڑی تعداد کو زیرحراست رکھا گیا۔ اڑیسہ کی سرکار نے ESMA (بنیادی ضروریات زندگی کے شعبوں میں کام جاری رکھے جانے کا قانون) کو نافذ کیا تاکہ محنت کشوں اور کارکنان کو باز رکھا جاسکے مگر یہ ریاستی تشدد محنت کشوں کو احتجاجوں اور ریلیوں سے روکنے میں ناکام رہا۔ آندھرا پردیش اور بہار میں عام ہڑتال بہت ہی زیادہ کامیاب رہی اور جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کے کسانوں، حکومتی ملازمین اور روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز میں بھی ایسی ہی ہڑتال نظر آئی۔ تامل ناڈو کے 13 اضلاع سمندی طوفان نیوار (Cyclone Nivar) کے سبب بند تھے جس نے ہڑتال میں لوگوں کی شمولیت کو متاثر کیا مگر تامل ناڈو کی ریاست کے دیگر اضلاع میں ہزاروں محنت کشوں نے پولیس کے تشدد کا مقابلہ کرتے ہوئے ہڑتال کی۔
سرکاری و نجی شعبوں کے ملازمین
ہڑتال میں بینکاری، انشورنس، ٹیلی کمیونیکیشن، کوئلہ، جنگلات، دفاع اور حفظان صحت جیسے کئی شعبوں اور صنعتوں کے محنت کشوں نے شرکت کی اور اسکے ساتھ ساتھ نجی شعبہ کے محنت کشوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ ہڑتال میں انڈیا کی کوئلے کی صنعت مکمل طور پر جام ہوگئی اور 80 فی صد پیداوار متاثر ہوئی۔ بجلی کے شعبہ سے بھی قابل تعریف تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اسکے علاوہ ASHA (سماجی اور صحت کی بہبود کی ایسوسی ایشن) اور آنگن وادی (دیہی علاقوں میں بچوں کی حفاظت کی تنظیم) جیسی تنظیموں نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا۔ گرفتاریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 20 ہزار آنگن وادی ملازمین نے ہڑتال میں حصہ لیا۔ پورے انڈیا سے شجرکاری، بان کے فارموں، تعمیرات اور کورئیر سے منسلک ورکرز، دیہاڑی دار مزدوروں اور دکانوں پر کام کرنے والے ورکرز نے ہڑتال میں حصہ لیا۔ رپورٹس کے مطابق پورے ملک کے 650 اضلاع کے شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور پاور پلانٹس کی 12500 کام کی جگہوں میں ہڑتال ہوئی۔ مرکزی اور ریاستی گورنمنٹ ملازمین کی بھی بڑی تعداد نے ہڑتال میں شرکت کی جس میں طویل مدتی سرکاری ملازمین نے عوامی شعبوں کی یونین کے احتجاجوں میں شرکت کی۔ ہڑتال نے Public Sector Undertakings کے نام سے جانی جانے والی ریاست کی تمام تنظیموں کو مکمل طور پر منجمد کر کے رکھ دیا، جس میں پنشن والے محنت کشوں کی تنظیمیں بھی شامل ہوئیں۔ کنٹریکٹ ملازمین نے بھی عام ہڑتال میں شمولیت اختیار کی جن میں پورے ملک کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے 3 کروڑ 50 لاکھ ملازمین بھی شامل تھے۔ دھمکیوں کے باوجود کیرالہ، بنگال اور تری پورہ کے روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز نے ریلوے ملازمین کی دیوہیکل تعداد کے ساتھ ملکر ہڑتال میں حصہ لیا۔ سلیم سٹیل پلانٹ، وزاگ سٹیل پلانٹ، مدراس ربڑ فیکٹری، تری پورہ کے ٹیکسٹائل پلانٹس، اشوک لی لینڈ کے آٹو موبائل پلانٹس اور دیگر فیکٹریوں کے محنت کشوں کی بہت بڑی تعداد، انتظامیہ کی دھمکیوں کے باوجود ہڑتالوں میں شرکت کرتی آرہی ہے۔
ٹریڈ یونینوں کے مطالبات اور ہڑتال کی تیاری
دس ٹریڈ یونینوں کے مشترکہ فورم سے، لیبر قوانین میں ترمیم، کام کی جگہوں پر لیبر حقوق میں کمی، اوقات کار کو 8 گھنٹوں سے بڑھا کر 12 گھنٹے کئے جانا اور معینہ مدت کے ملازمتی کنٹریکٹ کے ذریعے ملازمین کو غیر مستقل کردینا سمیت متعارف ہونے والے نئے قوانین کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسکے علاوہ، حکومت ملک گیر سطح پر (ملکی صنعتوں کے مختلف شعبوں کے لئے مختلف اجرتوں کی بجائے) مخصوص کم سے کم اجرت متعارف کروانا چاہتی ہے اور ریلوے، دفاع، بینکاری، انشورنس، آئل ریفائنری اور بجلی سمیت بہت سارے شعبوں کی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔
عام ہڑتال کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں ان تمام خاندانوں کو جن پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، 7500 روپیہ ماہانہ رقم دینے اور تمام ضرورت مندوں کو ماہانہ 10 کلو راشن مہیا کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ یونینوں نے دیہی علاقوں میں اجرتوں میں اضافے کے ساتھ سالانہ 200 دن کے اوقات کار مہیا کرنے کے لیے MGNREGA (دیہی روزگار ضمانتی سکیم) میں توسیع کرنے اور شہری علاقوں میں ملازمت کی ضمانت کو بھی بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
حتیٰ کہ عام ہڑتال سے پہلے بھی، وباء کے دنوں میں ایسے ہی احتجاج ہوتے رہے ہیں جن میں دو کروڑ سے زائد لوگ شریک رہے۔ 26 نومبر کی ہڑتال کے لیے مرکزی ٹریڈ یونین قیادتوں کی طرف سے تمام ریاستوں میں ایک مہینے پر مشتمل مہم اور ریلیاں جاری رہیں۔ محنت کشوں میں لڑاکا رویہ پیدا ہوگیا اور انڈیا میں کورونا وباء کے بحران کی بڑھتی ہوئی شدت بھی محنت کش طبقے کے دیوہیکل تحرک کو نہیں روک سکی۔ ان احتجاجوں کی اکثریت طلبہ اور محنت کشوں پر مشتمل تھی جو مودی حکومت کی خلاف پمفلٹ شائع کرکے انہیں تقسیم کرتے تھے۔ عالمی مارکسی رجحان کے ساتھیوں نے ان مظاہروں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ چھاپے جن میں محنت کش طبقے کو سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر سیاسی طاقت حاصل کرنے اور غیر معینہ مدت ہڑتال کا پروگرام دیا گیا اور یہی محنت کشوں کی جدوجہد کیلئے واحد کارآمد عملی قدم ہے۔
دیہی علاقوں میں، انڈیا کی کمیونسٹ پارٹیوں کے کسان ونگز اور زرعی مزدور تنظیموں جیسا کہ آل کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی (AIKSCC) نے بھی 26 نومبر کے احتجاجوں میں حصہ لیا۔ جنتر منتر میں، ان میں سے کئی طلبہ اور ٹریڈ یونین کارکنان کو احتجاج کرنے سے روکا گیا اور بعد میں دہلی پولیس نے انہیں زیر حراست لے لیا۔
کسان احتجاج
کسانوں کی نومبر میں آنے والے سرمایہ داروں کے حامی حکومتی ”فارم بلز“ کے خلاف ہڑتال بھی محنت کشوں کی ہڑتال کے ساتھ ہی ہوئی۔ دہلی اس وقت ہر طرف سے کسان احتجاجوں سے گھرا ہوا ہے۔ ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور اتر پردیش کی ریاستوں کے تقریباً ایک کروڑ کسانوں نے دہلی کے بارڈر پر کیمپ لگا کر شہر کی ناکہ بندی کررکھی ہے۔ انہیں تیز یخ بستہ ہواؤں، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے مورچوں، واٹر کینن اور آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر ابھی تک وہ ریاست کی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے جارہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے احتجاجوں کو براری (سنٹرل دہلی کا ایک علاقہ) منتقل کرنے کی پیشکش کو ’ایک کھلی جیل‘ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا ہے اور داخلی راستوں پر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مودی حکومت اور کسان یونینوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں مگر ایک ہفتے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور احتجاج ابھی بھی جاری ہیں۔ کسان یونینیں ابھی تک اپنے زرعی قوانین کو واپس لیے جانے کے مطالبات پر قائم ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ بلکہ انہوں نے 8 دسمبر کو ’بھارت بندھ‘ (پورے ملک کو بند کر دینے) کا اعلان کیا ہے۔ ٹریڈ یونینوں کے مشترکہ پلیٹ فارم نے بھی کسان یونینوں کے ’بند‘ کی ہمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان احتجاجوں کے ملکی سیکیورٹی کے لیے مسئلہ بن جانے کے ڈر کے پیش نظر، امریندر سنگھ جیسے پارلیمانی وزیروں نے مودی حکومت کو جلد از جلد مسئلہ حل کرنے کا کہا ہے۔ کسانوں اور محنت کشوں کو انکی ہڑتال کو کمزور کرنے والی ان کوششوں کی مذمت کرنی چاہیے۔
ہم ایک دیوہیکل جثہ رکھنے والی تحریک کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ مودی کے دور حکومت میں معیار زندگی پر ہونے والے بے شمار حملوں کا جواب ہے۔کورونا وائرس کی وباء کے زیر اثر حالات مزید زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ پہلی اور دوسری سہ ماہی میں ملکی معیشت بالترتیب 24 فی صد اور 7 فی صد تک سکڑ چکی ہے۔ بیروزگاری کو پر لگ گئے ہیں جبکہ قوت خرید تیزی سے زمین بوس ہوگئی ہے۔ محنت کشوں کے حقوق پر حملے بڑھتے گئے ہیں۔ تعلیم، صحت، زراعت، جنگلات، دفاع، انشورنس، بینکنگ، ریلوے اور بہت سارے دوسرے معیشت کے شعبے نجکاری اور کارپوریٹ لوٹ مار کے لیے کھول دئیے گئے ہیں۔ لیبر قوانین میں ترامیم، سرمایہ داروں کے منافعے بڑھانے کے لئے محنت کش طبقے کے استحصال میں اضافہ کریں گی۔ اڈانی اور امبانی جیسی بڑی کارپوریشنز کی جیبیں بھری جائیں گی۔ محنت کش طبقہ مخالف قومی تعلیمی پالیسی، قانون برائے ماحولیاتی اثرات کی جانچ (EIA)، لیبر کوڈ اور زرعی قوانین، اور اسکے علاوہ شہریت میں ترمیم کا قانون (CAA) نے ناقابل اندازہ حد تک غصے کو بڑھا دیا ہے۔
مودی سرکار عوام کے انقلابی غصے کو فرقہ وارانہ، قومیتی، ذات پات اور مسلکی لڑائیوں کے ذریعے منحرف کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہے۔ یہ محنت کش طبقے کو ان بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کرے گی۔ کورونا وباء کے بحران نے ملکی اور عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران کو بڑھا دیا ہے مگر حکمران طبقے کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کو حل کرنے کا واحد حل محنت کش طبقے پر مزید حملے کرنا ہی ہے۔ محنت کشوں کی ایک دن کی عام ہڑتال اور اسکے بعد کسانوں کی غیر معینہ مدت عام ہڑتال اور احتجاجوں نے مودی کی دائیں بازو حکومت کو شدید بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ اس نے کورونا وباء کے بعد پورے انڈیا کے محنت کشوں کو نئے ولولے سے لبریز کردیا ہے۔ 26 نومبر کے بعد کسانوں اور مزدوروں کے مطالبات کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے پورے انڈیا میں احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ اس موڑ پر، ایک غیرمعینہ مدت تک عام ہڑتال کی کال ایک انقلابی عمل ہوگااور یہ کسانوں کی جدوجہد کو مزید تقویت بخشے گی۔ ہمیں مضبوط دلائل کے ساتھ محنت کشوں اور کسانوں کے مطالبات کے حصول کے لئے غیر معینہ عام ہرتال کا موقف لوگوں میں اتارنا چاہیے۔ احتجاجوں میں ورکر مخالف اور کسان مخالف مودی حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ انڈیا میں، سوشلسٹ بنیادوں پر، کسانوں کی حمایت کے ساتھ محنت کش طبقے کا اقتدار پر قبضہ ہی سرمایہ دارانہ استحصال اور مودی سرکار کے مصائب و تکالیف سے نجات دلا سکتا ہے۔