یوم نکبہ: فلسطین پر قبضے کے 75 سال، آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی!

اس ہفتے نکبہ کے 75 سال پورنے ہونے کے موقع پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے، جو کہ اسرائیل کی تخلیق کی صورت میں فلسطینی عوام کیلئے تباہی تھی اور ہے ۔ ہم کہتے ہیں: مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کے لیے لڑو!

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

15 مئی فلسطینیوں کے لیے نکبہ کا دن ہے، جس کا عربی میں مطلب ’تباہی‘ ہے۔ ہر سال، یہ 1948ء میں اسرائیل کے اعلان کے طور پر صیہونی نیم فوجی دستوں کی قیادت میں دہشت گردی کی مہم کے خلاف یاد اور احتجاج کا دن ہے۔

اس کے نتیجے میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا گیا۔ اس نے ایسے انتشار کی راہ ہموار کی جس نے تب سے اسرائیل-فلسطین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

اسرائیل کی تخلیق سامراجی طاقتوں کے شرمناک معاملات کا نتیجہ تھی۔ اس نے تشدد اور رسوائی کا ایک پنڈورا بکس کھول دیا جو آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

75 سال بعد بھی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ جدھر دیکھیں، صہیونی افواج کی طرف سے اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے استعمال کیے گئے وحشیانہ طریقوں کی واضح بازگشت نظر آتی ہے: شیخ جراح میں جبری بے دخلی کے خلاف جدوجہد سے لے کر حوارہ میں قتل عام تک۔

آج کے فلسطینیوں کو بھی اپنے آباؤ اجداد کے تکلیف دہ تجربات سے ہی گزرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں لاکھوں پناہ گزینوں کو واپسی کے حق سے محروم رکھا گیا ہے، وہیں مقبوضہ علاقوں اور اسرائیلی ’گرین لائن‘ کے اندر فلسطینیوں کو سامراجی اسرائیلی ریاست کے جابرانہ کنٹرول میں کسی بھی امید سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

تاہم، ان ہولناک حالات نے فلسطینی عوام کو خوفزدہ نہیں کیا۔ اسرائیلی حکمران طبقہ جس بھی وحشیانہ جبر پر انحصار کرتا ہے اس نے فلسطینی عوام کے عزم کو پختہ ہی کیا ہے۔

سالوں سے فلسطینی عوام میں جمع غصہ بار بار سطح پر اپنا اظہار کررہا ہے۔ اور ایک عوامی تحریک نے جنم لیا ہے۔ اگرچہ یہ ابھی کے لیے تھم گئی ہے، لیکن سطح کے نیچے آتش گیر مواد کی تعمیر جاری ہے۔

ایک بہت بڑا آتش فشاں تیار ہو رہا ہے، جو بلاشبہ جنگل کی آگ کی طرح پورے خطے میں پھیل جائے گا۔

ایک نئی انتفادہ (بغاوت) اسرائیلی حکمران طبقے کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اور بجا طور پر۔ عوامی انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی اسرائیلی ریاست کا تختہ الٹا جا سکتا ہے اور صیہونیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔

اس طرح کی تحریک کا مقصد مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے سرمایہ داری اور سامراج کو ختم کرنے کی انقلابی اپیل کی بنیاد پراسرائیل کو طبقاتی بنیادوں پر توڑنا ہے۔

سرمایہ داری کی بنیاد پر امن کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی، یہ بوسیدہ نظام ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔

صرف ایک انقلابی پروگرام ہی استحصال زدہ اور مظلوم اور ان کے مشترکہ دشمن صہیونی ریاست کے درمیان فرق واضح کرکے قومی جبر کے زہر کا حقیقی تریاق فراہم کر سکتا ہے۔

خطے کی پوری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ انقلابی جدوجہد حکومتوں کو گرا سکتی ہے، معاشرے کے منظر نامے کو تبدیل کر سکتی ہے، اور ان بنیادوں کو ہلا سکتی ہے جن پر سامراج کھڑا ہے۔

رجعت کے بھنور جو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہا ہے، کا خاتمہ صرف انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔

تو آئیے ہم اپنے بینر پر یہ الفاظ شامل کریں: فلسطین کی آزادی! فتح تک انتفادہ! مشرق وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے لیے جدوجہد!


نکبہ کے 75 سال: اسرائیل کو ایک غیر معمولی بحران کا سامنا ہے

14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی ریاست کا اعلان کیا گیا ۔ اس نے صہیونی فوج کی طرف سے شہری فلسطینی آبادی کے خلاف ایک طویل دہشت گردی کی مہم کا آغاز کیا جس کے بعد ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور 7 لاکھ 50 ہزار افراد اپنے دیہاتوں اور گھروں سے بے دخل ہو گئے۔

یہ دن فلسطینیوں کے لیے نکبہ (تباہی) کا دن ہے۔

اس کے بعد سے اسرائیل نے اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے فلسطینیوں کی مزاحمت کو مسلسل دبایا اور کئی جنگیں بھی لڑی ہیں۔

نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات

اسرائیل اب 75 سال کا ہو گیا ہے اور ایک غیر معمولی بحران کا شکار ہے۔

پچھلے کچھ مہینوں میں ، اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو کی نیتن یاہو کی حکومت نے کئی دہائیوں کی سب سے بڑی، مسلسل اور پولارائزڈ مظاہروں کی لہر کا آغاز دیکھا ہے۔ کئی ہفتوں سے لاکھوں یہودی اسرائیلی حکومت کی عدالتی اصلاحات کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔

اس تحریک کو حکمران طبقے، فوج، عدلیہ اور کاروباری اداروں کے فیصلہ کن حصوں نے حمایت اور فروغ دیا ہے۔ یہ بحران کی گہرائی ہے۔ حتیٰ کہ طاقتور صیہونی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن، ہسٹادرٹ بھی مظاہروں میں شامل ہو گئی ہے۔

27 مارچ کو عام ہڑتال نے، جس کی حمایت باسز نے لاک آؤٹ کے ذریعے کی، نیتن یاہو کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے عدالتی اصلاحات کو ’معطل‘ کرنے کا اعلان کیا، اور وزیر دفاع یواو گیلنٹ کی برطرفی کے فیصلے کو واپس لینے کا ذلت آمیز قدم اٹھانے پر بھی مجبور ہوا۔

ایک انٹرویو میں، گیلنٹ نے اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے خوف کا اظہار کیا:

’’ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی دراڑ آئی ڈی ایف اور سیکورٹی ایجنسیوں تک پہنچ رہی ہے ۔ یہ ریاست کی سلامتی کے لیے ایک واضح، فوری اور ٹھوس خطرہ ہے ۔ میں اس میں حصہ نہیں ڈالوں گا۔ ‘‘

اس کی برطرفی نے صیہونی ریاست کے مرکز اور امریکہ اور عالمی سطح پر اسرائیل کے صیہونی حمایتیوں میں ہنگامہ برپا کر دیا۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک فرد، نیتن یاہو، ایک غیر مستحکم توازن کو خراب کرنے اور بحران کو ایک خاص موڑ دینے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

جو ہم اسرائیل میں دیکھ رہے ہیں اس کی امریکہ میں ٹرمپ ازم کے رجحان سے کچھ مماثلتیں ہیں ۔ یہ بالآخر جنوری 2021ء کے امریکی کیپٹل ہل فسادات کی طرح کی صورت حال کو اسرائیل میں بھی پیدا کر سکتا ہے۔

بن یامین نیتن یاہو اسرائیلی سیاست میں کوئی نئی شخصیت نہیں ہے ۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے وہ سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہا ہے۔

کئی دہائیوں سے وہ مشکل حالات اور متعدد سکینڈلز سے نمٹ رہا ہے، لیکن اب تک ہمیشہ اپنے دشمنوں کو ہرانے میں کامیاب رہا ہے ۔ تاہم اب وہ کرپشن کے متعدد سکینڈلز میں الجھا ہوا ہے ۔ لیکن وہ بچنے یا پھر اپنے دشمنوں کو اپنے ساتھ ڈبونے کے لیے پرعزم ہے۔

اسرائیلی حکمران طبقے کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ دائیں بازو کی صیہونیت کی روایتی جماعت، نیتن یاہو کی قیادت میں لیکود، پر اپنا کنٹرول کھو چکے ہیں۔

یہ نظام کے مرکز میں موجود ٹائم بم کے برابر ہے ۔ ان وجوہات کی بنا پر، عدالتی اصلاحات سے پیدا ہونے والے تنازعہ کے پیچیدہ اثرات ہیں ، اور اسے آسانی سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

انتہائی دائیں بازو کے یہودی نسل پرست

اسرائیلی سیاست کے مرکزی دھارے میں التمار بن گویر اور بیزالیل سموٹریچ کا اچانک اُبہار بہت اہمیت رکھتا ہے۔

بین گویر، جس نے 2021ء میں کنیسٹ میں سیٹ جیتی تھی، جیوش نیشنل فرنٹ کا رہنما ہے، جو یہودی نسل پرست کیچ پارٹی کا جانشین ہے۔

کیچ کو 1994ء میں ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر کالعدم قرار دیا گیا تھا جب ایک امریکی اسرائیلی کیچ کارکن، باروچ گولڈسٹین نے نماز ادا کرنے والے 800 فلسطینی مسلمانوں پر فائرنگ کی تھی، جس میں 29 ہلاک اور 125 زخمی ہو گئے تھے۔

اسے زندہ بچ جانے والوں نے ماردیا تھا، لیکن وہ بین گویر کا ذاتی ہیرو ہے۔ بین گویر کو اس کے انتہائی نسل پرستانہ خیالات کی وجہ سے آئی ڈی ایف فوجی سروس سے ہٹا دیا گیا تھا، اور وہ مشرقی یروشلم میں مسلح آباد کاروں کی ریلیوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔

اس کا حریف بیزالیل سموٹریچ مذہبی صیہونی پارٹی (تکومہ) کی قیادت کر رہا ہے ۔ سموٹریچ ایک آباد کار ہے اور اس نے ہمیشہ اپنے نسل پرستانہ خیالات کا کھلے عام اظہار کیا ہے، کراس میرج کی مخالفت کی ہے، اور زچگی وارڈوں میں عرب اور یہودی خواتین کی علیحدگی کے لیے بحث کی ہے۔

اکتوبر 2021ء میں اس نے عرب قانون سازوں سے کہا: ’’آپ غلطی سے یہاں آئے ہیں ، یہ ایک غلطی ہے کہ بین گوریون نے کام پورا نہیں کیا اور 1948ء میں آپ کو باہر نہیں نکالا۔ ‘‘

یہ درحقیقت یہودی نسل پرستوں کا اصل پروگرام ہے: ایک نئے نکبہ کا آغاز اور فلسطینیوں کو پورے تاریخی فلسطین سے نکال باہر کرنا۔

ایک خطرناک پوزیشن

اکتوبر سے پہلے نیتن یاہو (تمام صیہونیوں کی طرح) بین گویر یا سموٹریچ جیسی شخصیات کے قریب تک نہیں گیا اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی پلیٹ فارم شیئر کیا۔

اب وہ نیتن یاہو کے کنگ میکر ہیں ۔ بین گویر قومی سلامتی کا وزیر ہے، اور سموٹریچ وزیر خزانہ ہے، جنہیں اسرائیلی مقبوضہ مغربی پٹی کی انتظامی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

تو پھر حکومت میں یہودی نسل پرستوں کا نمایاں کردار اور آباد کاروں میں ان کی جڑیں اسرائیل کی سلامتی اور حکمران طبقے کے لیے اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہیں؟;

ہو سکتا ہے کہ صیہونیت کے مختلف برانڈز انتہائی دائیں بازو کے طریقوں سے متفق نہ ہوں، لیکن وہ ایک عظیم تر اسرائیل کے مقصد پر متفق ہیں ۔ فلسطینیوں پر جبر ہمیشہ سے صیہونی تحریک کا مرکز رہا ہے۔

تاہم اسرائیلی سرمایہ دار اسرائیل کی سٹریٹیجک کمزوری سے باخبر ہیں۔

ان کی طاقت اور سلامتی کا انحصار امریکی سامراج کی حمایت پر ہے ۔ یہ یہودی اسرائیلی آبادی اور صیہونی عالمی نیٹ ورک کی مضبوط حمایت پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ آباد کاروں کی تحریک کے ہنگاموں اور انتہائی دائیں بازو کی اشتعال انگیزیوں سے یہ سب کمزور ہو رہے ہیں۔

واضح وجوہات کی بنا پر نیتن یاہو انتہائی دائیں بازو کو الگ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، جو عدالتی اصلاحات کے یو ٹرن پر دھوکہ دہی کا رونا رو رہے ہیں۔

اپنے معمول کے ڈرامائی طریقے سے، اس نے اپنی ٹوپی سے نیشنل گارڈ (قائم کی) نامی ایک خرگوش نکالا، جو کہ انتہائی دائیں بازو کا ایک دیرینہ خواب تھا۔

نیشنل گارڈ کو گرین لائن (1948ء کی سرحد) کے اندرفلسطینیوں پر ضوابط کے نفاذ کا کام سونپا جائے گا۔ بین گویر مطالبہ کر رہا ہے کہ انہیں اس کی ذاتی کمان میں رکھا جائے۔

اشتعال انگیزی

نیتن یاہو کا ایک بحران سے نکلنے کا طریقہ اس سے بھی بڑے بحران کے لیے زمین تیار کرنا ہے۔

پولیس کے سربراہ، کوبی شبتائی نے ریکارڈ پر کہا ہے کہ ’’پولیس سے الگ نیشنل گارڈ کا قیام کا نتیجہ سے نکلے گا کہ پھر ایک فورس دوسری پر گولیاں برسا رہی ہوگی۔ ‘‘

نیشنل گارڈ انتہائی دائیں بازو کی طرف سے تشدد کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس کے بہت سنگین نتاءج برآمد ہو سکتے ہیں جیسے ایک نئی فلسطینی بغاوت کا آغاز۔

اپریل کے اوائل میں اس کے امکانات کافی بڑھ گئے تھے جب رمضان، ایسٹر، اور یہودی پاس اوور ایک وقت میں آ گئے تھے، اور انتہائی دائیں بازو، بین گویر اور متعدد جنونی ٹیمپل ماؤنٹ گروپوں کی اشتعال انگیزی نے شدت اختیار کرلی تھی۔

لگاتار دو راتوں تک آدھی رات کو، اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر سٹن گرنیڈ پھینکے، لاٹھیاں چلائیں ، اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کو گرفتار کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ مسجد کے دروازوں کے پیچھے ’رکاوٹ‘ ڈال کر چھپے ہوئے تھے۔

ہمیشہ کی طرح، عالمی میڈیا نے ’دونوں فریقوں ‘ کو بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کی دعوت دیتے ہوئے کورس (Chorus) میں شمولیت اختیار کی ۔ ویڈیوز ایک مختلف کہانی دکھاتی ہیں۔

ایک بات بالکل واضح ہے ۔ اسرائیلی حکمران طبقہ گہری تقسیم کا شکار ہے ۔ واقعات ایسی رفتار سے ہو رہے ہیں کہ سرمایہ داروں کے لیے ماضی کی طرح مسائل کو چھپانا مشکل بن گیا ہے۔

یہ تقسیم عالمی سطح پر گونج رہی ہے اور صیہونی حمایت کے عالمی نیٹ ورک کے اتحاد کو سنجیدگی سے نقصان پہنچا رہی ہے ۔ امریکی مرکزی دھارے کے متعدد صیہونیوں نے حکومت پر شدید تنقید کی ہے، حتیٰ کہ سموٹریچ کے دورہ امریکہ کا بائیکاٹ بھی کیا ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر یہودی نوجوان بھی اسرائیل کے اقدامات سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کو ایک جابرحکومت کے طور پرسمجھنے کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔

ایک قابل توجہ مسئلہ جسے ’لبرل‘ صیہونیت تسلیم کرنے سے گریزاں ہے

اینگلز نے 1874ء میں لکھا تھا کہ ’’جو لوگ دوسرے پر ظلم کرتے ہیں وہ خود کو بھی آزاد نہیں کر سکتے ۔ وہ طاقت جسے وہ دوسرے کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں آخر کار ہمیشہ اپنے ہی خلاف ہو جاتی ہے۔ ‘‘

یہ متاثر کن الفاظ ڈیڑھ سو سال پہلے پولینڈ کے لوگوں پر روسی جبر کے متعلق درست تھے ۔ اور آج اسرائیل کے حوالے سے اور بھی درست ہیں۔

لبرل صیہونیت کے لیے قابل توجہ مسئلہ یقیناً فلسطین پر قبضہ اور فلسطینیوں پر ظلم ہے ۔ عدالتی اصلاحات کے خلاف ایک اہم عوامی تحریک میں بھی اس کا واضح اثر دیکھا گیا۔

اسرائیلی فلسطینیوں کی ایسی ’’جمہوریت‘‘ کا دفاع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہو۔ اپنے مطالبات کے ساتھ مظاہروں میں شامل ہونے کی کوشش کرنے والی چھوٹی تعداد کو صہیونی منتظمین نے سختی سے ایک طرف دھکیل دیا۔

اسرائیلی ریاست کا نسل پرستانہ اور جابرانہ کردار نیتن یاہو کی جانب سے جولائی 2018ء میں منظور کیے گئے یہودی قومی ریاست کے قانون کے ذریعے سرکاری طور پراختیار کیا گیا ہے، جس نے اسرائیل کے سیکولر ہونے کے دکھاوے کو ترک کر دیا۔

فلسطینیوں کو دبانے کے لیے قانون کے آگے برابری کے بورژوا جمہوری اصول کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جس سے یہودی نسل پرستی سے کوئی تعلق نہ رکھنے کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اسرائیلی ریاست کا دفاع کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

دوسرا قابل توجہ مسئلہ جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے یہ ہے کہ قبضے سے نہ صرف فلسطینی بلکہ اسرائیلی محنت کش طبقے کے حالات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ پچھلے 30 سالوں میں اسرائیل میں عدم مساوات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

1992ء میں ، قومی آمدنی کا 27 فیصد حصہ امیر ترین 10 فیصدافراد کے پاس تھا، جبکہ غریب ترین 10 فیصد کے پاس 2;46;8 فیصد حصہ تھا ۔ تب سے عدم مساوات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

2022ء میں، نچلی 50 فیصد آبادی نے کل قومی آمدنی کا 13 فیصد کمایا، جبکہ اوپر کی 10 فیصد نے حیران کن طور پر 49 فیصد حاصل کیا۔

فلسطینیوں کے جبر نے سرمایہ داروں کو تقسیم شدہ محنت کش طبقے کے استحصال کے انتہائی سازگار حالات فراہم کیے ہیں۔

اوسلو معاہدے کے 30 سال

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سال فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ یاسرعرفات اور اسرائیلی وزیراعظم یتزاک رابن کے درمیان 1993ء کے اوسلو معاہدے کی 30 ویں سالگرہ بھی ہے۔

واءٹ ہاؤس میں کیمروں کے لیے ان کا مصافحہ، اور امن کا نوبل انعام جو انہوں نے شیئر کیا، ’امن‘ اور ’خوشحالی‘ کے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے سونے پر سہاگہ تھے جو کہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکی سامراج نے شروع کیا تھا۔

اگر کوئی اوسلو معاہدے کے تیس سال کا جشن منانا چاہتا ہے تو وہ زیادہ خوش نہیں ہو گا۔

ان معاہدوں نے فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کو جنم دیا۔ بدلے میں ، پی ایل او نے مزاحمت کے خاتمے کی ضمانت دی اور ایک ایسی حکومت نافذ کرنے کا عہد کیا جو اسرائیل کی جانب سے اپنے لوگوں کو قابو کر سکے۔

جیسا کہ اس وقت مارکسسٹوں نے خبردار کیا تھا، اوسلو معاہدہ ایک شیطانی جال تھا جس میں فلسطینی قیادت اپنی مرضی سے گئی۔

پی اے کا کوئی علاقائی تسلسل نہیں ہے۔ اسے 165 فلسطینی ’جزیروں‘ میں تقسیم کیا گیا ہے جو پی اے کی کل یا جزوی سول انتظامیہ کے تحت ہیں ، اور ایک متصل علاقہ (جو 60 فیصد علاقے کی نمائندگی کرتا ہے) جو براہ راست اسرائیلی قبضے میں ہے۔

اسرائیل یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کتنی بجلی، پانی اور طبی سامان مہیا کیے جائیں گے، اور کسی بھی ممکنہ ترقی کا مسلسل گلا گھونٹتا ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل پی اے کی جگہ کسٹم محصولات بھی اکٹھی کررہا ہے، لیکن ان رقوم کی منتقلی سے انکار کر رہا ہے۔

محصور غزہ کی صورتحال اس سے بھی بدتر ہے ۔ جو اسرائیل اور مصر کے زیر کنٹرول ایک بہت بڑی کھلی جیل ہے، 53 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ وقفے وقفے سے اسرائیلی چھاپے اور بمباری بنیادی ڈھانچوں اور عمارتوں کو تباہ کررہے ہیں اور مرمتی کام کو روکتے ہیں۔

پی اے دیوالیہ ہے ۔ غیر ادا شدہ تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے والے ہڑتالی ورکرز، جن میں 20 ہزار اساتذہ بھی شامل ہیں ، پہلے سے ہی تباہ حال عوامی خدمات کو مفلوج کر رہے ہیں ، جب کہ قلت نے وسائل کی تقسیم میں کرپشن کو بڑھا دیا ہے۔

آبادکاروں کی توسیع زوروں پر

مغربی پٹی اور مشرقی یروشلم میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع کی وجہ سے آج فلسطینی اتھارٹی اپنی اختتامی حالت میں ہے۔

اوسلو معاہدے کے وقت، آباد کاروں کی تعداد بشمول مشرقی یروشلم تقریباً 2 لاکھ 50 ہزارتھی ۔ فروری 2023ء تک، مغربی پٹی میں آباد کاروں کی کل تعداد 5 لاکھ سے زیادہ ہے اور مشرقی یروشلم میں 2 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ ہے۔

ہر نئی چوکی کے ساتھ مزید اسرائیلی فوجییوں کی آباد کاروں کی حفاظت کے لیے تعیناتی ہوتی ہے، جبکہ سینکڑوں چوکیاں فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنا رہی ہیں۔

آباد کاروں کی مدد کے لیے انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے، جس سے انہیں کم قیمت پر بیس گنا زیادہ پانی مل رہا ہے، جبکہ فلسطینیوں کے پاس کچھ نہیں ہے ۔ ان بستیوں کے ’دفاع‘ کے لیے دیواریں کھڑی کی گئی ہیں ۔ علاقے میں موجود فلسطینی املاک کو ’سیکورٹی وجوہات‘ کی بنا پر زمین بوس کر دیا گیا ہے ۔ اور آباد کار حکومت کی پشت پناہی میں اپنے حملوں کو تیز کر رہے ہیں۔

آباد کاروں کی تحریک اسرائیل کی بنیادوں میں بارود بنتے ہوئے اب ایک زندہ عفریت بن چکا ہے۔

26 فروری کو، سینکڑوں آباد کاروں نے مغربی پٹی کے فلسطینی گاؤں حوارا پر رات گئے دھاوا بول دیا، جس سے ایک شخص ہلاک اور 100 زخمی ہوئے، اور قصبے کو نذر آتش کر دیا گیا ۔ مغربی پٹی کے حقیقی ’گورنر‘ سموٹریچ نے اس حملے کی تعریف کی۔

آئی ڈی ایف قبضے کے خلاف لڑنے والے فلسطینی نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کی مہم کو بھی تیز کر رہا ہے۔ اس میں چھاپے، سنائپنگ (دور سے نشانہ بنا کر گولیاں چلانا)، سادہ لباس اسرائیلی کمانڈوز کے ذریعے قتل، اور یہاں تک کہ گاڑیوں پر دھماکہ خیز مواد نصب کرنا شامل ہے۔

مئی 2022ء میں امریکی-فلسطینی الجزیرہ کی ایک ممتاز رپورٹر، شیریں ابو اکلیح کو اسرائیلی سنائپرز نے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ جینین پناہ گزین کیمپ میں کوریج کر رہی تھیں۔

جنازے میں ، جس میں ہزاروں فلسطینیوں نے شرکت کی، اسرائیلی پولیس اہلکاروں نے مشرقی یروشلم کے ہسپتال سے اس کا تابوت لے جانے والوں پر حملہ کیا ۔ پولیس نے مریضوں کو روندتے ہوئے ہسپتال پر ہی دھاوا بول دیا اور سٹن گرنیڈ پھینکے جس سے طبی عملہ زخمی ہوا۔

یہ بہت بڑے پیمانے پر اسرائیلی افواج کے وحشیانہ منظم جبر کی چند چھوٹی سی مثالیں ہیں۔

اس سے روزمرہ کی عوامی تذلیل مثلاً چیک پوائنٹس پر شناختی کارڈ ضبط کرنا، روک کر تلاشی لینا، فلسطینی جنگجوؤں کے دوستوں اور اہل خانہ کو قتل کرنا، اور غیر معینہ نظر بندی جو بغیر کسی مقدمے کے سالوں تک چل سکتی ہے؛ شامل ہیں۔

لیکن اس سب سے اسرائیل صرف نوجوانوں میں کبھی نہ ختم ہونے والے قبضے کے خلاف لڑنے کے عزم کو بڑھا رہا ہے۔

فلسطینی مزاحمت کا اُبھار

جنونی آبادکار ایک ایک انچ فتح کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جسے وہ اپنی زمین کے طور پر دیکھتے ہیں جو انہیں خدا نے عطا کی ہے۔ وہ انتہائی صیہونی دائیں بازو کے فوجی بن چکے ہیں۔

دوسری جانب فلسطینی نوجوانوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا اور وہ پرعزم ہیں ۔ کچھ اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار ہیں، اور اکثر ایسا کرتے بھی ہیں۔ افسوس کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا، کیونکہ پی اے کی قیادت قابضین کا ساتھ دے رہی ہے۔

درحقیقت پی اے نے مزاحمت کے خلاف جبر کو دوگنا کر دیا ہے ۔ پی اے حکام اسرائیل کے ساتھ نگرانی کے تعاون کو بڑھا رہے ہیں اور اردن میں پی اے کے 5 ہزار سیکورٹی افسران کو تربیت دی جا رہی ہے۔

پی اے کے خلاف نفرت اس قدر پھیل چکی ہے کہ ایک حالیہ سروے میں 52 فیصد فلسطینیوں نے اعلان کیا کہ پی اے کا خاتمہ یا تحلیل ان کے مفاد میں ہوگی۔

پی ایل او اور الفتح کی قیادتوں کی ناکامی 2021ء میں غزہ پر بمباری کے خلاف زبردست تحریک سے عیاں ہوئی، جس کی وجہ سے 18 مئی کو فلسطینیوں کی عام ہڑتال ہوئی۔

’اتحاد بغاوت‘ نے غزہ، مغربی پٹی، مشرقی یروشلم بشمول اسرائیلی فلسطینیوں میں ایک متحد فلسطینی جدوجہد کو دیکھا۔

اس کے بعد سے اسرائیل نے نوجوانوں کے خلاف جبر کی نئی لہر شروع کر دی ہے، جس میں صرف 2022ء میں 7 ہزار گرفتاریاں کی گئیں ۔ جنین میں گزشتہ ایک دہائی میں ہلاک ہونے والے 136 فلسطینیوں میں سے 106 گزشتہ 27 مہینوں میں مارے گئے ہیں۔

پناہ گزین کیمپوں سے شروع ہو کر، نوجوانوں کی جانب سے سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، قبضے کے خلاف مزاحمت اور پناہ گزین کیمپوں کے دفاع کے لیے متحد مسلح دفاعی گروپ قائم کیے گئے ہیں۔

پی ایل او نے اس سب میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔ اس کی قیادت نوجوانوں نے کی ہے۔

انقلاب کی جدوجہد

یہ ایک بہت بڑے بحران، جس کا اسرائیل کو دہائیوں سے سامنا ہے، کی صرف ابتدا ہے۔

صیہونی حکمران طبقے میں شدید تقسیم پھیل رہی ہے اور ان کی عالمی حمایت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یوکرین جنگ اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعہ کی وجہ سے امریکی سامراج کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔

قدیم دشمنوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ کرانے میں چین کا ثالثی کردار بھی خطے میں موجود طاقتوں کے توازن کو متاثر کرے گا اور اسرائیل کو کچھ کرنے پر مجبور کرے گا۔

بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور مہنگائی اسرائیلی محنت کشوں کے معیار زندگی کو تیزی سے گرا رہی ہے، جس سے ان کے اور سرمایہ داروں کے درمیان فرق آشکار ہو رہا ہے۔

پورے مشرق وسطیٰ میں بحران اور انقلابی تحریکیں جنم لے رہی ہیں، جبکہ ایک نیا انتفادہ قبضے کی بنیادوں کو بے نقاب اور ہلا کر رکھ دے گا۔

آج، اسرائیلی ریاست امریکہ کی ایک قابل اعتماد اتحادی ہے اور مشرق وسطیٰ میں سامراجی رجعت کا ایک اہم ستون ہے۔ لیکن نیتن یاہو کی آگ بھڑکانے والی پالیسیاں اس کی پوزیشن کو کمزور کر رہی ہیں۔

اسرائیل ایک طاقتور سرمایہ دارانہ ریاست ہے، جہاں صیہونی سرمایہ داروں کی حکمرانی فلسطینیوں پر ظلم و ستم پر مبنی ہے، جسے تباہ حال فلسطینی اتھارٹی کی پیٹی بورژوا انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔

ظلم کی اس زنجیر کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ خطے میں سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کی ایک وسیع تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

صرف مشرق وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام، عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کی طرف ایک پہلا قدم، ہی فلسطینیوں پر ظلم کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت خطے کے تمام لوگوں کی بہتر زندگی کے وسائل فراہم کر سکتی ہے، اور سامراجی ڈراؤنے خواب کا خاتمہ کرتے ہوئے فلسطینیوں، یہودیوں اور مشرق وسطیٰ کے تمام لوگوں کی حقیقی آزادی کی مادی بنیاد رکھ سکتی ہے۔