امریکہ کے اندر نئی یونینز کا قیام اور اس میں محنت کشوں کی شمولیت دنیا بھر کے محنت کشوں کو متاثر کر کے ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے۔ حال ہی میں نیویارک کے اندر سٹیٹن آئی لینڈ کے مقام پر واقع ایمازون کے پہلے گودام میں آزادانہ ایمازون مزدور یونین (اے ایل یو) قائم کی گئی ہے۔ ہر ہفتے سٹاربکس کی درجنوں کافی کی دکانیں بھی سٹاربکس ورکرز یونائیٹڈ میں شامل ہو رہی ہیں۔ پہلی مرتبہ ایپل سٹور کے محنت کشوں کے ایک گروہ نے بھی کمیونیکیشن ورکرز آف امریکہ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ نیشنل لیبر ریلیشنز بورڈ کو 2022ء میں ابھی تک 589 یونینز کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جو 2021ء کے پہلے چار مہینوں کے مقابلے میں دگنی تعداد ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
منظم ہونے کی یہ جدوجہدیں درحقیقت ایک ہی عمل کا حصہ ہیں۔ سرمایہ داری کا بحران محنت کشوں کو کچل رہا ہے، اور انہوں نے واپس لڑنے کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھتے جا رہے ہیں کہ وہ محض اپنے زور بازو پر ہی انحصار کر سکتے ہیں۔
امریکہ دنیا کا طاقتور ترین سرمایہ دارانہ ملک ہے۔ سوشلزم کے عالمی سطح پر فتحیاب ہونے کے لیے امریکی محنت کش طبقے کی کامیابی لازمی شرط ہے۔ جدوجہد کا یہ حالیہ سلسلہ محض اس دیو کے جاگنے کا اظہار ہے جو مستقبل میں تاریخ کا دھارا بدل کے رکھ دے گا۔ اس موقع پر 1847ء میں لکھے گئے مارکس کے الفاظ یاد آتے ہیں:
”معاشی حالات نے پہلے ملکی آبادی کی اکثریت کو محنت کشوں میں تبدیل کر دیا۔ سرمائے کے ساتھ منسلک ہونے کے باعث ان افراد کے حالات اور مفادات ایک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ ان افراد سے سرمائے کے مخالف طبقے کا جنم تو ہوا ہے، مگر انہیں ابھی اس کا احساس نہیں ہے۔ جدوجہد کے عمل کے دوران۔۔۔یہ افراد متحد ہوتے ہیں، اور انہیں اپنی طبقاتی حیثیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے مفادات طبقاتی مفادات بن جاتے ہیں۔ مگر ایک طبقے کی دوسرے طبقے کے خلاف جدوجہد (محض معاشی مطالبات تک محدود نہیں بلکہ) ایک سیاسی جدوجہد ہوتی ہے۔“ (فلسفے کی غربت)
یہ سب اچانک سے ہی ہونا شروع نہیں ہوا
امریکی محنت کشوں نے دہائیوں تک مسلسل دھچکوں کا سامنا کیا ہے۔ امریکہ میں اگرچہ 1979ء اور 2019ء کے بیچ پیداوار 70 فیصد تک بڑھی ہے، مگر اس عرصے کے دوران اجرتوں میں محض 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ یہ یونینز کے زوال کا بھی عرصہ تھا۔ یونین کی ممبرشپ 1983ء میں 20.1 فیصد تھی جبکہ 2018ء میں یہ 10.5 فیصد تک گر چکی تھی۔ محنت کشوں کے استحصال میں شدید اضافہ ہوتا رہا، جبکہ ان کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں زوال کا شکار ہوتی رہیں۔
نوجوانوں کے اوپر بحران کے بدترین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ”میلینیلز“ (1981ء کے بعد جنم لینے والے) اور ”جنریشن زی“ (1997ء کے بعد جنم لینے والے) سرمایہ داری کے سنہرے دور سے بالکل بھی آشنا نہیں ہیں۔ غیر مستقل نوکریاں معمول بن چکی ہیں۔ گھروں کو خریدنا نا ممکن ہے اور کرائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یونین میں شمولیت کی شرح نوجوانوں کے بیچ کم ترین سطح پر ہے: 25 سے 34 سال کی عمر والوں میں 9.4 فیصد، اور 16 سے 24 سال کی عمر والوں میں فقط 4.2 فیصد۔
کرونا وباء ایک ایسے وقت میں آئی جب محنت کش طبقہ پہلے ہی لیموں کی طرح نچوڑا جا چکا تھا۔ وباء کے دوران آن لائن خریداری میں بے تحاشا اضافہ ہوا، جس نے ایمازون کے محنت کشوں پر دیوہیکل دباؤ ڈالا، حتیٰ کہ ملازمین کے پاس کام کے اوقات میں باتھ روم جانے کا وقت بھی نہیں ہوتا تھا اور وہ بوتل میں پیشاب کرنے پر مجبور تھے۔ خدمات کے شعبے سے وابستہ محنت کشوں کو حکومت نے اچانک ”ہیرو“ اور ”ضروری نوعیت کے محنت کش“ قرار دیا، مگر وہ اسی طرح حقیر اجرتوں اور بد تر ہوتے حالات کے ساتھ کام کرتے رہے۔ دنیا بھر میں امریکی محنت کشوں کے اوپر سب سے زیادہ دباؤ ڈالا جاتا ہے: ایک رپورٹ کے مطابق 57 فیصد روزانہ کی بنیاد پر ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ عالمی شرح 43 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ میں افراطِ زر کی شرح بھی 8.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو دہائیوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔ چنانچہ جن کی اجرتوں میں 8.5 فیصد اضافہ نہیں کیا گیا، درحقیقت ان کی اجرتوں میں کٹوتی کی گئی ہے۔ اس سب کے دوران 2021ء میں سی ای اوز کو 1 کروڑ 42 لاکھ کے تاریخی بونس سے نوازا گیا!
کم ہوتی اجرتوں، بد تر ہوتے حالات، مہنگائی اور بڑھتی ہوئی نابرابری کے اس ماحول میں جلد یا بدیر سماجی دھماکہ ہونا ناگزیر تھا۔
محنت کشوں کے شعور میں تبدیلی
امریکہ کے اندر محنت کشوں اور نوجوانوں کی شعوری تبدیلی پچھلے کچھ عرصے سے نظر آنے لگی ہے۔ ہم نے حالیہ سالوں میں متعدد رائے شماریوں پر تجزیے کیے ہیں، جن سے امریکہ کے اندر سوشلزم اور کمیونزم میں بڑھتی ہوئی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔
مگر اس سے جڑا ہوا ایک عمل یونینز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ یونین ممبرشپ کی شرح کم ہونے کے باوجود، ایک رپورٹ کے مطابق 68 فیصد آبادی یونینز کے حق میں ہے، جو 1960ء کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح ہے۔ 18 سے 34 سالہ افراد میں یہ تعداد 77 فیصد ہے۔
پھر اس میں حیرت کی بات نہیں کہ یونین میں شمولیت کے سلسلوں میں کافی دلچسپی دکھائی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر اے ایل یو کے حوالے سے 75 فیصد امریکیوں کی دیوہیکل تعداد اس بات پر متفق ہے کہ ایمازون کے محنت کشوں کو یونین کی ضرورت ہے۔ 18 سے 34 سالہ افراد میں یہ تعداد بڑھ کر 83 فیصد ہے، حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں میں 71 فیصد! سیاسی پارٹیوں کی عمومی تقسیم سے بالاتر ہو کر یہ جوش و خروش محنت کش طبقے کی تمام پرتوں میں پایا جا رہا ہے۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ ٹرمپ کے کئی حامیوں کو طبقاتی پالیسیوں کی جانب مائل کرنا ممکن ہوتا اگر امریکہ میں اس قسم کی پالیسیوں کا دفاع کرنے والی کوئی حقیقی مزدور پارٹی ہوتی۔
منظم ہونے کے حالیہ سلسلے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں جو مارکس وادی لمبے عرصے سے کہتے چلے آئے ہیں۔ ہم نے بارہا یہ بات سنی ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر سیاست کرنے کا دور گزر چکا ہے کیونکہ ”محنت کش طبقہ تبدیل ہو چکا ہے“، یا اس سے بھی گھٹیا بات یہ کہ محنت کش طبقے کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔ کہ ہاں مارکس کے دور میں کارخانوں کے مزدور اور کان کن ہوا کرتے تھے مگر آج صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ بلاشبہ، بادی النظر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ محنت کش طبقہ 150 سالوں کے دوران بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ خاص کر خدمات کے شعبے، پرچون اور انٹرٹینمنٹ کا حجم پچھلی کچھ دہائیوں میں کافی بڑھ چکا ہے۔
مگر طبقاتی جدوجہد کا وہی پرانا عمل ان شعبہ جات کے اندر بھی جاری رہا ہے۔ ریستوران کے محنت کش، پرچون کی دکانوں کے محنت کش، گوداموں کے محنت کش، تکنیکی کاموں سے وابستہ محنت کش، سب کے سب اجرت کی خاطر اپنی محنت بیچتے ہیں، انہی کے بلبوتے پر قدرِ زائد بنائی جاتی ہے، اور اب انہیں مالکان کی لالچ سے اپنا دفاع کرنے کی ضرورت کا احساس ہونے لگا ہے۔ آج ہمیں یہی کچھ نظر آ رہا ہے۔ جیسا کہ کارل مارکس نے کہا تھا، اسی طرح سے محنت کشوں کو محض بطورِ طبقہ برقرار رہنے کی بجائے اپنی طبقاتی حیثیت کا احساس ہوتا ہے۔
امریکہ میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات ان تمام خود غرضوں کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں جنہوں نے محنت کش طبقے کے وجد سے انکار کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر، بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ فاسٹ فوڈ کی صنعت میں کام کرنے والوں کی یونین میں شمولیت ناممکن ہے۔ اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو قنوطیت پسند درست ثابت ہوتے نظر آتے ہیں، کیونکہ فوڈ سروسز میں یونین ممبرشپ کی شرح محض 1.2 فیصد ہے۔ بڑی یونین فیڈریشنز بھی ان محنت کشوں کو ترک کرتی نظر آتی ہیں، جو یونین فنڈ میں بڑے اضافے کی خاطر محض بڑے شعبوں کے اندر ممبرشپ کروانے کی کوشش کرتی ہیں۔
مگر اس کے باوجود سٹاربکس ورکرز یونائیٹڈ کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ نیویارک کے شہر بفیلو میں پہلی فتح کے بعد 200 سے زائد مقامات پر یونین کے حوالے سے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔ اس سلسلے کی شروعات کے لیے محض ایک جگہ پر کامیابی کی ضرورت تھی!
ایمازون کی جدوجہد خاص کر 21 ویں صدی کے طبقاتی معرکے کا نمونہ ہے۔ یہاں کا مالک انسانی تاریخ کا دوسرا امیر ترین شخص جیف بیزوس ہے، جسے ایک عام محنت کش کرس سمالز کی قیادت میں جاری یونین کی جدوجہد کا سامنا ہے۔ کرس سمالز ایمازون کا ایک سابقہ ملازم ہے جسے 2020ء میں کرونا کے مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے خلاف احتجاج کرنے کے باعث برطرف کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ایمازون کے ایگزیکٹیوز کرس سمالز کو ہی یونین کی اس تحریک کا قائد بنتا دیکھنا چاہ رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ ”ذہین یا فصیح نہیں ہے“۔ اور بالآخر،ان کی حقارت آمیزی کا بالکل الٹ نتیجہ نکلا ہے۔
ایمازون کے حوالے سے بھی ہمیں یہ کہا جا رہا تھا کہ یہاں مزدوروں کو یونین میں متحد نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے سال بسمر کے مقام پر ایمازون میں مزدوروں کو یونین کا حصہ بنانے کی مہم کی ناکامی کے بعد مشہور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا:
”آج اکثر محنت کشوں کو ایک گھنٹے کا سفر طے کر کے کام پر آنا ہوتا ہے اور ان سے تعلقات بنا کر رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ایمازون کے کام کے حجم کو دیکھتے ہوئے منظم ہونے کی خواہش ضرور جنم لیتی ہے، مگر اسی حجم کے باعث محنت کشوں کے پاس وقفہ کر کے اپنے ساتھیوں سے دوستی کرنے اور یونین کے لیے درکار سماجی رابطے بنانے کا وقت نہیں بچتا۔
یونین کی مہم کو انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا چاہے کہیں پر بھی ایمازون کو نشانہ بنایا جائے۔ چنانچہ مستقبل میں شاید قصبے کا نام مختلف ہو مگر منظم ہونے کے نتائج زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔“
ایمازون لیبر یو نین کی کامیابی نے تمام قنوطیت پسندوں اور شک کرنے والوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ سٹیٹن آئی لینڈ کی فتح کے نتیجے میں 50 سے زائد مقامات کے محنت کشوں نے اے ایل یو سے رابطہ کیا ہے!
ان عظیم واقعات کے جھٹکے امریکی سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ کینیڈا کے شہر کیلگری میں واقع سٹاربکس کے محنت کش یونائیٹڈ سٹیل ورکرز میں شمولیت کی کوشش کر رہے ہیں۔ یونیفور یونین کے اراکین نے برٹش کولمبیا، اونٹاریو اور کیوبیک کے اندر ایمازون کے گوداموں میں لیفلیٹ تقسیم کیے ہیں، جن میں سٹیٹن آئی لینڈ کی فتح کا خصوصی طور پر ذکر درج ہے۔ امریکی محنت کش طبقے کی نسبت کینیڈا میں ابھی بائیں بازو کی جانب جھکاؤ کم پیمانے پر ہے۔ مگر ہمیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے؛ مہنگائی میں اضافہ اور اجرتوں میں کمی، بڑھتے ہوئے کرایے اور نابرابری میں اضافہ یہاں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اور جلد یا بدیر محنت کش طبقہ یہاں بھی متحرک ہوگا۔
اسباق
حقیقی انقلابیوں کے نزدیک محض یہ ہی خوش آئند امر نہیں کہ ایمازون اور سٹاربکس وغیرہ کے محنت کش یونین کا حصہ بن رہے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل وہ انداز ہے جس سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ مزدور تحریک کے سرگرم کارکنان کو اس سے قیمتی اسباق اخذ کرنے چاہئیں۔
ایمازون کے محنت کش پچھلے سال الاباما ریاست کے اندر بسمر میں شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ تب منظم ہونے کی مہم میں کوئی ٹھوس مطالبات شامل نہیں کیے گئے تھے۔ ان حالات کے پیشِ نظر یہ حیرت کی بات نہیں کہ سینکڑوں محنت کش شکوک و شبہات کا شکار تھے۔
کینیڈا کے صوبے البرٹا میں ٹیمسٹرز لوکل 362 یونین کے معاملے میں بھی پچھلے سال یہی کچھ دیکھنے کو ملا تھا۔ محنت کشوں کے مطابق یونین کے منتظمین ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں دے پا رہے تھے، حتیٰ کہ یونین کے نائب صدر کا کہنا تھا، ”ہم یہاں آپ کے 30 ڈالر دلانے نہیں آئے ہیں۔ ہم کام کی جگہ کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اجرتوں کے اضافے کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا۔۔۔ہم اس کی ضمانت نہیں دے سکتے۔“ یہ محنت کشوں کو متاثر کرنے کے لیے کافی نہیں تھا!
سٹیٹن آئی لینڈ کی مہم اس کے مکمل برعکس تھی۔ اے ایل یو نے کھلے عام بیباک مطالبات سامنے رکھے: فی گھنٹے کی پوری 30 ڈالر اجرت، اور اجرتوں میں کٹوتی کیے بغیر دو 30 منٹ کے وقفے اور ایک گھنٹہ کھانے کا وقفہ۔ چنانچہ محض یونین کا حق حاصل کرنے کی بجائے اس مہم میں محنت کشوں کو ٹھوس نتائج کی پیشکش کی گئی۔ عام مغالطے کے برعکس چھوٹی اور ”عقلی“ تبدیلیوں کا مطالبہ مزید حقیقت پسند نہیں رہا ہے۔ اس کے برعکس محنت کش چھوٹی اور بے معنی تبدیلیوں کے لیے لڑنے کا خطرہ مول لے کر اپنا وقت اور کوشش ضائع نہیں کریں گے۔ مگر وہ ان بیباک مطالبات کے لیے ضرور لڑیں گے جو واقعی میں ان کے لیے کچھ معنی رکھتے ہوں۔
اے ایل یو کی مہم کی ایک اور منفرد خصوصیت ذیلی سطح پر اس کی حمایت کا ہونا ہے۔ یونین کے صدر کرس سمالز، منظم ہونے کی کوشش میں برطرف کیے جانے والے سابقہ محنت کش، نے سٹیٹن آئی لینڈ میں واقع ’جے ایف کے 8‘ گودام کے باہر 10 ماہ تک خیمہ لگا کر وقت گزارا۔ وہ اور گودام کے ایک ملازم ڈیرک پالمر نے اپنا پورا وقت محنت کشوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے وقف کیا، ان کو اپنے ساتھ ملایا اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ مہم کے لیے چندے کا اہتمام ’گو فنڈ می‘ ویب سائٹ کے ذریعے کیا گیا، جس کی مدد سے 1 لاکھ 20 ہزار ڈالر جمع کیے گئے، جبکہ ایمازون کی جانب سے اے ایل یو کے خلاف 40 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے۔ دی سٹی میں شائع ہونے والا ایک مضمون بخوبی وضاحت کرتا ہے کہ دو قائدین نے کس طرح تحریک کو تعمیر کیا:
”سمالز اپنا زیادہ تر وقت جے ایف کے 8 کے باہر یا بس سٹاپ پر گزارتا ہے، جبکہ پالمر نے چار منزلہ عمارت کے اندر کام جاری رکھا ہوا ہے، جو اپنے خالی وقت میں بریک روم کے اندر محنت کشوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور اپنی حمایت میں اضافے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔
ان دونوں آدمیوں، اور کچھ دیگر منتظمین نے حالیہ ہفتوں کے دوران فون کال کا استعمال کرتے ہوئے جے ایف کے 8 کے ہر اس محنت کش سے بات چیت کی ہے جو آنے والے یونین انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے، جن کی کل تعداد تقریباً 8 ہزار 300 ہے۔
فون کے ذریعے جن محنت کشوں سے بات کی گئی ہے، ان میں سے بعض نے یونین کے حق کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے منتظمین سے براہِ راست ملنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سمالز کا کہنا تھا کہ عموماً ہم سے سوالات کرنے والے مزدور یہ جاننا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ یونین کے چندے کا حساب کتاب کیسے ہوتا ہے۔ اور جب ہم انہیں اطمینان بخش جواب دے دیتے ہیں تو پھر وہ یونین کا حصہ بن جاتے ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ایمازون انہیں غلط اطلاعات فراہم کر رہا ہے۔“
مزدوروں نے ایمازون کی یونین مخالف چالوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یونین کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے کمپنی کی جانب سے بلائے گئے اجلاسوں کے دوران ہی مزدور کنسلٹنٹ (کمپنی کی طرف سے بات کرنے والے شخص) کو ٹوک کر اس کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیتے۔ اسی طرح مزدور اس کنسلٹنٹ کے متعلق تفصیلات اکٹھی کرتے اور پھر ایسے اشتہار چھاپ کر مزدوروں میں بانٹتے جن پر اس شخص کی تصویر بھی چسپاں ہوتی۔ ان اشتہاروں میں وہ باقی مزدوروں کو خبردار کرتے کہ وہ اس شخص سے نہ ملیں۔ اس طرح مزدوروں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے کمپنی کے مالک اور اس کے پالتو ایجنٹوں کا زبردست مقابلہ کیا اور انہیں ناکوں چنے چبوائے۔
سمالز کا کہنا ہے کہ ان کی مہم باقی یونینوں کی مہمات سے بالکل مختلف ہے: ”وہ (روایتی یونینیں) مزدوروں کو مختلف طریقے سے منظم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہم مزدوروں کء اندر موجود ہوتے ہیں۔ آپ کو کوئی دوسرا ایسا یونین صدر نہیں ملے گا 10 ماہ تک کیمپ لگا کر بیٹھا رہا ہو۔
اکثر اوقات یونین کی مہم کو افسر شاہانہ طریقے سے چلایا جاتا ہے، عام محنت کشوں کو شامل کیے اور مالک کے غلیظ حربوں کا جواب دیے بغیر۔ اس سے ایسا نظر آنے لگتا کہ جیسے یونین قائدین کو محنت کشوں کے اوپر اعتماد نہ ہو۔ اور جیسا کہ ہم نے دیکھا، وہ محنت کشوں کو متاثر کرنے والے مطالبات اپنائے بغیر محض یونین کا حق حاصل کرنے یا اس کی ممبرشپ بڑھانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
اے ایل یو کی مہم اس بات کا اظہار ہے کہ مزدور تحریک کو مزدور جمہوریت کا طریقہ کار بحال کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ مزدور تحریک میں ہڑتالوں، دھرنوں اور مہم کے دوران محنت کشوں کو پوری طرح سے اپنی مرضی کا مالک ہونا چاہیے۔ اے ایل یو سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب عام محنت کشوں کو شامل کرتے ہوئے انہیں اپنی تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع دیا جائے، اور بیباک مطالبات سامنے رکھنے سے نہ ڈرا جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
”انقلاب کا وقت آ چکا ہے“
اے ایل یو کی فتح کے بعد کرس سمالز کا کہنا تھا کہ ”انقلاب کا وقت آ چکا ہے“۔ ہم ان کارکنان کے جوش و خروش میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے وہ کر دکھایا ہے جو کئی افراد کے نزدیک ناممکن تھا۔ بڑی یونینز کے قائدین کو ایمازون کی پہلی فتح میں استعمال کیے جانے والے طریقوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
2018ء اور 2019ء میں اساتذہ کی ہڑتالوں، مئی اور جون 2020ء میں امریکی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی تحریک، اور پچھلے سال اکتوبر میں ”سٹرائیکتوبر“ کے نام سے ہونے والی ہڑتالوں کے بعد یونینز کی حالیہ متاثر کن لہر امریکی محنت کش طبقے کے عملی میدان میں واپس قدم رکھنے کا اظہار ہے۔ کیوبیک اور کینیڈا کے دیگر علاقوں میں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوں گے۔
یہ عمل ایک سیدھی لکیر میں رونما نہیں ہوگا، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے تلخ تجربات ہی محنت کشوں کو جدوجہد پر مجبور کریں گے۔ مہنگائی، جس کے ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آ رہے، لاکھوں محنت کشوں کے لیے اپنے خرچے برداشت کرنا مزید مشکل بناتی جائے گی۔
ظاہر ہے کہ مالکان مزاحمت کیے بغیر محنت کشوں کو منظم ہو کر نہیں لڑنے دیں گے۔ دیوہیکل پیمانے کی طبقاتی جدوجہد پنپتی جا رہی ہے۔ ہم ابھی اس عمل کے محض آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو مستقبل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرے گا کہ بنیادی مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، اور اب ایک ایسا سوشلسٹ سماج قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں اختیارات اقلیتی امیروں کی بجائے اکثریتی محنت کشوں کے پاس ہوں۔
ہم آخر میں امریکی رسالے نیوز ویک کے الفاظ نقل کرنا چاہیں گے، جس میں وہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے جو کمیونسٹ کرتے ہیں:
”اجرتیں، گھر خریدنے کی قیمت یا کرایہ، اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں اور مالکان کے بیچ منافعوں کی لڑائی اور اجارہ داریوں کے خلاف چھوٹے کاروباروں کی بقا کی جدوجہد آنے والے عرصے کے اہم مسائل ہوں گے۔ یورپ میں لمبے عرصے تک حاوی رہنے والی طبقاتی سیاست اب انتقام لینے یہاں بھی پہنچ چکی ہے، اور جب تک مسائل پوری طرح حل نہیں کیے جاتے وہ سر اٹھاتے رہیں گے۔
آج ہیمپسٹیڈ ہیتھ میں مشہور انقلابی اور مزدور رہنما کارل مارکس اپنی قبر کے اندر پڑا مسکرا رہا ہوگا۔“