ریل، میری ٹائم اور ٹرانسپورٹ یونین (RMT) نے ریلوے کا پہیہ جام کر دیا ہے، ٹوری پارٹی اور مالکان یونینوں کو تباہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس ساری صورتحال میں برطانیہ میں طبقاتی کشمکش تیز ہو رہی ہے۔ غلیظ پریس ”طبقاتی جنگ“ کا شور مچا رہا ہے۔ وہ پہلی مرتبہ سچ بول رہا ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کل RMT یونین نے اس ہفتے میں تین منصوبہ بند ہڑتالوں میں سے پہلی ہڑتال منظم کی۔ پورے ملک میں سٹیشن بند اور ٹرینیں رُک گئیں۔
لندن میں ہڑتالی ریلوے محنت کشوں کے ساتھ ٹیوب (زیر زمین ریل) کے RMT ممبران نے بھی شمولیت کی جس کے بعد ٹیوب اور دارلحکومت دونوں منجمد ہو کر رہ گئے۔
دہائیوں بعد یہ ریلوے کی سب سے بڑی ہڑتال ہے اور پورے محنت کش طبقے کی جانب سے طبل جنگ ہے کیونکہ RMT ممبران اپنی نوکریوں، اجرتوں اور حالات کام کے تحفظ کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اگلے چند مہینوں میں تاریخی ہڑتالیں منظم ہو رہی ہیں۔ محنت کش طبقے کی بے قابو افراط زر اور اجرتوں میں کٹوتیوں کے خلاف جدوجہد میں یہ ہڑتال پہلا قدم ہے۔
اس ریل ہڑتال میں فتح سے پورا محنت کش طبقہ حوصلہ مند ہو گا جس میں اساتذہ سے لے کر ڈاکیے، ڈاکٹروں سے لے کر صفائی والے سب شامل ہیں۔
میڈیا کا پاگل پن
ظاہر ہے اس ایک دن کی ہڑتال سے بھی حکمران طبقے کے اوسان خطا ہو گئے ہیں اور وہ یونین پر غلیظ حملوں اور الزام تراشی میں باؤلے کتے بن گئے ہیں۔
RMT کے خلاف مالکان کے دلال میڈیا کی جانب سے ایک انتہائی گھٹیا مہم شروع کر دی گئی ہے جس میں یونین کو ”انتہاء پسند“ کہا جا رہا ہے؛ جنرل سیکرٹی مِک لِنچ کو ”مارکس وادی“ کہا جا رہا ہے؛ اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ریل مزدور ضرورت سے زیادہ تنخواہیں لیتے ہیں اور اپنے یونین لیڈروں کی جانب سے بلیک میل ہو کر پورے ملک کو ’اپاہج‘ کر رہے ہیں وغیرہ۔
یہ جھوٹ اور پاگل پن متوقع تھاکیونکہ منظم محنت کش طبقہ مسلسل تحرک اور اپنے مفادات کے دفاع کی جانب بڑھ رہا ہے۔
لیکن پہلی مرتبہ غلیظ پریس نے سچ بولا ہے، جب آج صبح مرڈوک (دنیا کے بڑے میڈیا مالکان میں سے ایک) کے پروپیگنڈہ دم چھلے دی سن اخبار کی سرخی میں ”یہ طبقاتی جنگ ہے!“ کا اعلان کیا گیا اور موسم سرماء میں دیگر محنت کشوں کی ہڑتالوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا۔
مِک لِنچ یقیناً قابل تعریف ہے کہ اس نے مختلف میڈیا پر آ کر گھٹیا ٹی وی اینکروں، ٹوری ممبران پارلیمنٹ اور صنعتی مالکان، سب کی بکواس کو زبردست انداز میں رد کرتے ہوئے ہڑتال کی حقیقی وجوہات بیان کر کے انہیں لاجواب کر دیا ہے۔
مسلسل غلیظ اور رجعتی پروپیگنڈے کے باوجود ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق عام عوام کی اکثریت (58 فیصد) ریل ہڑتالوں کو درست سمجھتی ہے۔ اس دوران مالکان کی طرف سے RMT کو بدنام کرنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود اسی رائے شماری کے مطابق عوام یونین کے بجائے ٹوری حکومت کو ہڑتال کا موجب سمجھتی ہے۔
RMT کے مطالبات میں نوکریوں کا تحفظ اور حقیقی اجرتوں میں اضافہ شامل ہیں۔ یہ مطالبات واضح طور پر برطانیہ کی عوام اور محنت کشوں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں کیونکہ افراط زر پچھلی چار دہائیوں میں بلند ترین 9.1 فیصد شرح تک پہنچ چکا ہے اور روزمرہ زندگی کے اخراجات مسلسل زندگی اجیرن کر رہے ہیں۔
”لیبر“ پارٹی
شرمناک طور پر اپنے آپ کو بڑے کاروباریوں کا پر اعتماد دلال ثابت کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے سورماء ”سر“ کیئر سٹارمر نے لیبر ممبران پارلیمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ RMT کے دھرنوں میں شرکت نہیں کریں گے۔
اس شرمناک دلالی سے بہرحال سرمایہ داروں کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ قیادت کی ہڑتالوں سے دور رہنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ٹوری حکومت اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا غلیظ میڈیا مسلسل دونوں کو آپس میں جوڑنے کی کوششیں کر رہے ہیں حالانکہ RMT کا لیبر پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے!
اس دوران سٹارمر کی غداری نے لیبر تحریک میں محنت کشوں اور سرگرم کارکنوں کو شدیدمتنفر کر دیا ہے۔
لیکن کچھ لیبر ممبران پارلیمنٹ نے اپنے قائد کی نافرمانی کرتے ہوئے دھرنوں میں پہنچ کر اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
یہ سرکشی خوش آئند ہے۔ محنت کشوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے کسی بھی ”لیبر“ نمائندے کو کم از کم حمایت ضرور کرنی چاہیے۔
دھرنے
سوشلسٹ اپیل (عالمی مارکسی رجحان کا برطانوی سیکشن) کے حامیوں نے کل RMT محنت کشوں کی ہڑتال کی مکمل حمایت کرتے ہوئے پورے ملک میں ان کے دھرنوں کا دورہ کیا۔
ہڑتالیوں نے ہمیں اعلیٰ حکام کی جانب سے جبر کے ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے بارے میں بتایا جو انہوں نے اِن پر استعمال کیے ہیں، جن کے باعث کئی محنت کش نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔
کمیونیکیشن ورکرز یونین (CWU)، یونیسون (Unison)، نیشنل ایجوکیشن یونین (NEU) اور یونائٹ (Unite) سمیت دیگر یونینوں نے بھی آ کر یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
ہمارے کامریڈز نے مقامی RMT ممبران سے بات چیت کی، جنہوں نے درست طور پر نشاندہی کی کہ ٹوری حکومت اس معاملے کا بتنگڑ بنانا چاہتی ہے تاکہ پوری محنت کش تحریک پر حملہ کیا جا سکے۔ لیکن اس کے الٹ اثرات پڑ رہے ہیں کیونکہ دیگر محنت کشوں کو بھی حقیقی اجرتوں اور حالات کام کے حوالے سے حملوں کا سامنا ہے اور وہ اس ہڑتال کی حمایت کر رہے ہیں۔
ایک ہڑتالی نے جرات مندی سے بات کی کہ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پورا محنت کش طبقہ متحرک ہو، جس کا ہدف ایک عام ہڑتال کے ذریعے ٹوری حکومت کا خاتمہ ہو۔ یہی وہ حقیقی تناظر ہے جس کے ذریعے محنت کش تحریک کو مسلح ہونا چاہیے۔
لیورپول سٹریٹ دھرنے میں شمولیت کرنے والے کامریڈز نے ایسٹ لندن ریل برانچ کے جنرل سیکرٹری والے اگون بیادے کا انٹرویو کیا جس میں اس نے عوامی حمایت اور بڑھتی عدم مساوات کا ذکر کیا۔ ”آج عوام نے ہماری دیو ہیکل حمایت کی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کے پروپیگنڈے پر کوئی یقین نہیں کرتا“۔
سوشلسٹ اپیل کے حامیوں نے لندن میں کنگز کراس سٹیشن دھرنے میں بھی شمولیت کی جہاں RMT کے لیفلیٹ بانٹنے اور عوام کو ہڑتال سے آگاہ کرنے میں مدد بھی کی گئی۔
کامریڈوں نے دھرنوں میں حوصلہ افزاء موڈ کا ذکر کیا ہے۔ ایسٹ کوسٹ مین لائن کی صرف 30 فیصد سروس فعال تھی جبکہ اعلیٰ حکام کو امید تھی کہ یہ شرح 80 فیصد ہو گی۔ کئی گاڑیاں گزرتے ہوئے ہارن بجا کر اور راہگیر ہاتھ ہلا کر اظہار یکجہتی کرتے رہے۔
ایک ہڑتالی ریل ورکر ڈیرن نے سوشلسٹ اپیل کو بتایا کہ ”جب آپ کی نوکریاں، معاہدے، حالات کام اور پینشنیں داؤ پر لگی ہوں تو آپ بے حس نہیں رہ سکتے۔ جب آپ کے پاس دفاع کرنے کے لئے نوکری ہی نہیں ہو گی تو آپ کے لئے کوئی ہمدردی بھی نہیں ہو گی“۔
ہمارے کامریڈوں نے نیو کاسل دھرنے کا بھی دورہ کیا۔ یہاں عوامی حمایت بے پناہ تھی اور ایک راہگیر نے کہا کہ ”اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان مالکان کے خلاف کھڑے ہوں جو سمجھتے ہیں کہ وہ ملازموں سے اس طرح کا سلوک کر سکتے ہیں!“
ایک ہڑتالی نے ہمیں بتایا کہ ”عوامی حمایت شاندار رہی ہے۔ عوام کو پتہ ہے کہ ہم 41 ہزار پاؤنڈ سالانہ نہیں کماتے۔ انہوں نے ٹوری حکومت کے حملوں اور جھوٹوں پر اعتبار نہیں کیا“۔
اس ہڑتالی کے ایک ساتھی نے کہا کہ ”اگر ہم سالانہ 40 ہزار پاؤنڈ کما رہے ہوں تو ہم ہڑتال کیوں کریں؟ یہ کس قسم کی غلاظت پھیلا رہے ہیں“۔
لیڈز میں بھی شاندار دھرنا تھا۔ محنت کشوں نے اجرتوں سے بھی پہلے حفاظتی اقدامات پر بہت زور دیا کیونکہ ممکنہ کٹوتیوں کے نتیجے میں خطرات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے اور اموات بھی ہو سکتی ہیں۔
RMT ممبران کو اچھی طرح ادراک ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی جانب سے شروع ہونے والی ہڑتالی سونامی کی پہلی لہر ہیں۔ کئی محنت کشوں نے ذکر کیا کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ پورے محنت کش طبقے کے لئے ہڑتال کر رہے ہیں۔
ہمارے کامریڈز نے شیفیلڈ، ناروچ، اِپسوئچ، کارڈیف، کلیکٹن آن سی، کیمبرج، مورپیتھ اور ایکٹون سمیت پورے ملک میں دھرنوں میں شمولیت کر کے اظہار یکجہتی کیا۔
فیصلہ کن لمحہ
برطانیہ میں طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے یہ ہڑتال ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتی ہے۔ تمام نظریں RMT پر جمی ہوئی ہیں۔
اس لڑائی میں فتح پوری محنت کش تحریک کو دیو ہیکل حوصلہ فراہم کر سکتی ہے جو پچھلے ایک سال سے صنعتوں اور علاقوں میں ہڑتالوں اور تنازعات کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔
یقینا ٹوری حکومت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے اور ڈپٹی وزیر اعظم ڈومینک راب نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ”ہم (یعنی حکمران طبقہ) اس بحث میں یونینوں کو جیتنے نہیں دے سکتے“۔
اس لئے یہ لازم ہے کہ پوری محنت کش تحریک RMT کی حمایت کرے۔
ابھی سے اساتذہ کی ایک ملک گیر ہڑتال کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ نیشنل ایجوکیشن یونین (جس کے 5 لاکھ 10 ہزار ممبران ہیں) نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کا حقیقی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ نہ مانا گیا تو یونین اپنے ممبران میں ہڑتال کیلئے ووٹنگ کروائے گی۔
رائل میل کے 1 لاکھ 15 ہزار محنت کش کمیونی کیشن ورکرز یونین (CWU) میں منظم ہیں اور وہ پہلے ہی اجرتوں کے حوالے سے ممکنہ ہڑتال پر ووٹنگ میں جا رہے ہیں۔
اسی طرح سول سروس، کورٹس اور ٹیلی کام انڈسٹری بھی متحرک ہو رہی ہے۔ اگر یہ محنت کش فاتح ہوتے ہیں تو پھر نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کا سٹاف اور مقامی حکومتی ملازمین بھی متحرک ہوں گے۔
ٹریڈ یونین قیادت پر لازم ہو چکا ہے کہ وہ ایک لڑاکا لائحہ عمل تشکیل دیں۔ پوری محنت کش تحریک میں ہم آہنگ تحریک منظم کی جائے جس کے ذریعے نہ صرف یہ جدوجہدیں مضبوط ہوں اور اپنے ممبران کے لئے مراعات جیتیں بلکہ ارب پتیوں اور مالکان کی اس غلیظ حکومت کا خاتمہ بھی کریں۔
جیسے کہ ایک RMT ممبر اور سوشلسٹ اپیل کے سرگرم کارکن نِک اونگ نے کہا ”جتنی بڑی ہڑتال ہو گی اتنی بڑی فتح ہو گی!“