لز ٹرس ٹوری پارٹی قیادت کی دوڑ جیت کر برطانیہ کی نئی وزیرِ اعظم بن چکی ہے۔ اسے وراثت میں دیو ہیکل بحران ملے ہیں۔۔۔بے قابو توانائی کی قیمتیں اور ”سٹیگ فلیشن“ (بے قابو افراطِ زر اور جمود کا شکار معیشت) اور محنت کش تحریک کا سیلاب۔ مستقبل انقلابی دھماکوں سے لبریز ہے۔
[Source]
بس سٹاپوں، کینٹینوں، محنت کشوں کے شراب خانوں اور کلبوں، نائیوں اور پرچون کی دکانوں۔۔۔کوئی بھی جگہ ہو۔۔۔گفتگو ایک ہی ہے۔۔۔اشیاء خوردونوش کی قیمتیں اور توانائی بل، زوال پذیر عوامی فلاحی سروسز اور بے قابو رہن سہن کے اخراجات۔
اس میں ”دو طفل دماغوں“ کے لئے شدید نفرت بھی شامل ہے جو بورس جانسن کے زوال کے بعد اقتدار کی دوڑ میں مدِ مقابل تھے۔
اب چونکہ ٹوری پارٹی کی قیادت کا مقابلہ ختم ہو چکا ہے لہٰذا پیچھے ایک ہی طفل دماغ بچی ہے۔۔۔میری الزبتھ ٹرس۔
یہ پچھلے چھ سالوں میں چوتھی ٹوری وزیر اعظم ہو گی جو پھر ورثے میں ملے شدید بحران کا اظہار ہے۔۔۔اسے زہرِ قاتل پکڑا دیا گیا ہے۔
یہ بحران مزید تیز تر اور گہرا ہو گا اور کوئی شک نہیں کہ اس عمل میں ٹرس کے بیوقوفانہ اور لاپرواہ اقدامات معیاری کردار ادا کریں گے۔
تھیچر کی کاپی
یہ حقیقت معنی خیز ہے کہ برطانیہ کی نام نہاد ”جمہوریت“ میں نئے وزیر اعظم کو 82 ہزار سے کم ٹوری جنونیوں نے ”منتخب“ کیا ہے: جلا دو لٹکا دو بریگیڈ۔
لز ٹرس بھی اس پاگل ہجوم کا حصہ ہے اور اب وہ ہر معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کرے گی کیونکہ وہ مارگریٹ تھیچر کی روح کو زندہ کرنے کے لئے بہت سارے وعدے کر کے آئی ہے۔۔۔دوبارہ سے یہ جنم ایک بھیانک خواب ہو گا۔
لیکن ٹرس حکومت کو فوری طور پر ملک کو درپیش پچھلی ایک صدی میں سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔
برطانیہ کو درپیش معاشی تباہی کے باوجود ٹوری پارٹی کو چلانے والے سارے باؤلوں کی طرح نئی وزیر اعظم نے ٹیکس میں کٹوتی، دفاعی اخراجات میں اضافے اور تھیچر کی طرز پر حکومت چلانے کا وعدہ کیا ہے جو پہلے ہی اَن گنت محنت کشوں کی زندگیوں اور کمیونٹیوں کو برباد کر چکے ہیں۔
سب سے بڑھ کر ٹرس نے دھمکی دی ہے کہ وہ فوری طور پر شمالی آئرلینڈ پروٹوکول معطل کر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یورپ کے ساتھ تباہ کن تجارتی جنگ ہو گا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب روس کے علاوہ تمام G20 (ترقی یافتہ ترین عالمی معیشتیں) ممالک میں سب سے زیادہ برطانوی معیشت کے بحران میں تیز ترین اضافے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
حکمران طبقے کا بحران
سرمائے کے حکمت کار اس ”قابلِ اعتماد“ شخصیت کو دیکھ دیکھ اپنے سروں پر جوتے مار تے ہوں گے۔
مسخرے بورس کا ہٹایا جانا ایک آگے کا قدم سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن اب لز ٹرس کے ساتھ بندھے جانے کا مطلب یہی ہے کہ پہاڑ سے گرا کھجور میں اٹکا!
سچ تو یہ ہے کہ حکمران طبقہ ٹوری پارٹی کا کنٹرول ”مخبوط الحواس جنونیوں“ کے ہاتھوں کھو چکا ہے کیونکہ ووٹ مکمل طور پر رجعتی ممبرشپ کے ہاتھوں میں دے دیا گیا تھا۔
ماضی میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد سمجھی جانے والی بورژوا پارٹی، ٹوری پارٹی، اب ایک پاگل خانہ بن چکی ہے۔ اس پاگل خانے میں آمد مبارک ہو۔
بحران زدہ حکومت
اگر ٹرس، خاص طور پر تباہ کن برطانوی توانائی بربادی پر کچھ مراعات دینے پر مجبور بھی ہوتی ہے تو بھی اسے ہنی مون دور نصیب نہیں ہو گا۔
ممکنہ تباہی کے سامنے اس حکومت کا بحران بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔ یہ جانسن حکومت سے بھی زیادہ بدنام ہو جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے ہی ٹرس کو فارغ کر دیا جائے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جانسن کے حامی، جو اس جھوٹ پر ایمان رکھتے ہیں کہ سابق ٹوری قائد کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، سمجھتے ہیں کہ وہ دوبارہ واپس اقتدار میں آ سکتا ہے۔
بورس کی خواہش ہے کہ اسے ایک مرتبہ پھر ٹوری پارٹی اور برطانیہ کی قیادت حاصل ہو جائے جیسے اس کے ہیرو ونسٹن چرچل کے ساتھ ہوا تھا یا پھر جیسے ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔
درحقیقت ایسا ہوسکنے کا امکان بھی اس بات کا اظہار ہے کہ ٹوری پارٹی شدید انحطاط کا شکار ہے۔
آگ سے کھیلنا
ٹرس نے ہڑتالوں اور صنعتی جدوجہد کے سیلاب کا سد باب کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے جس کا طریقہ کار زیادہ سخت گیر مزدور دشمن قوانین کا اطلاق ہو گا۔ نئی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ برطانیہ کو ”جنگجو ٹریڈ یونینسٹوں کے ہاتھوں یرغمال“ نہیں بننے دے گی۔
لیکن اس طرح کا کوئی بھی قدم الٹا پڑ سکتا ہے جس کے نتیجے میں منظم محنت کشوں کی دیو ہیکل تحریک برپا ہو سکتی ہے۔
ٹوری آگ سے کھیل رہے ہیں۔ محنت کشوں کا غم و غصہ اور نفرت انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔
برطانیہ کی سب سے بڑی صنعتی ٹریڈ یونین کے جنرل سیکرٹری گیری سمتھ نے اشارہ دیا ہے کہ کام کی جگہوں اور صنعتی سیکٹرز میں ہڑتالوں کی حمایت میں ووٹ محنت کشوں میں موجود وسیع پیمانے پر غم و غصے اور بغاوت کا اظہار ہے۔
سمتھ کا کہنا ہے کہ ”ووٹوں کے نتائج تاریخی ہیں۔ غصے میں ڈوبی عوام کی اکثریت کہہ رہی ہے کہ بس اب بہت ہو چکا“۔
توانائی کا بحران
دیو ہیکل بینک گولڈ مین ساکس کے مطابق برطانیہ میں اگلے سال افراطِ زر 22 فیصد تک پہنچ سکتا ہے یعنی 1970ء کی دہائی کے بعد سب سے بڑا اضافہ۔
آسمان سے باتیں کرتی توانائی کی قیمتوں کے ساتھ کروڑوں افراد کو حقیقی اجرتوں میں کٹوتیوں کا سامنا ہے اور افلاس میں دھکیلے جانا ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔
یہ سوچنا کہ عوام ان سب حالات کو خاموشی سے قبول کر لے گی خود فریبی ہے۔
اس پیمانے پر معاشی اور سماجی عدم استحکام کی موجودگی میں ٹرس پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ اس کی حکومت مداخلت کرتے ہوئے رہائشی توانائی بلوں کی قیمتوں کو منجمد کرے گی اور ریاست توانائی اجارہ داریوں کو پیسے فراہم کرے گی۔
اس کارپوریٹ فیاضی کا تخمینہ ہوشرباء ہے۔ کچھ کے مطابق یہ 100 ارب پاؤنڈ تک ہو سکتا ہے یعنی کورونا وباء کے دوران طویل چھٹی سکیم سے بھی زیادہ جس کے فوری اطلاق کے لئے حکومت نے قرضے لئے تھے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہنگے بلوں یا مستقبل میں مزید جبری سماجی کٹوتیوں کے ذریعے محنت کشوں پر یہ قیمت لادی جائے گی۔
طبقاتی جنگ
بڑھتے دباؤ کے ساتھ بے چین موسمِ گرماء زیادہ بڑے پیمانے پر بے چین موسمِ سرماء میں ڈھل جائے گا اور زیادہ سے زیادہ محنت کش متحرک ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اکثریت کے لئے سوال یہ نہیں ہو گا کہ ”کیا میں ہڑتال کا خطرہ مول لے سکتا ہوں؟“ بلکہ اصل سوال یہ ہو گا کہ ”کیا میں ہڑتال نہ کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہوں؟“
طبقاتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ڈاک، بلدیہ اور ریلوے کے محنت کش یہاں تک کہ وکلاء بھی ہڑتالیں کرنے جا رہے ہیں اور ابھی بہت سارے محنت کشوں نے تحریکوں کے لئے ووٹ دینے ہیں۔
ایسے ماحول میں ٹوری حکومت کی طرف سے کوئی بھی قدم جلتی پر تیل کا کام دے گا۔ 1972ء کی طرز پر ایک عام ہڑتال بھی ہو سکتی ہے۔
ابھی سے یونینز مشترکہ صنعتی تحریکوں کے لئے تیاریاں کر رہی ہیں۔
اگر ٹرس ٹریڈ یونینز کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے پیر اکھڑ جائیں گے۔ اس کے پیش رو ٹیڈ ہیتھ نے 1974ء میں انتخابات کا اعلان اس نعرے کے ساتھ کیا تھا کہ ”ملک کون چلاتا ہے۔۔۔ٹریڈ نینز یا حکومت؟“ انتخابات میں اس کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
انجان راستے
یہ درست ہے کہ آج 1970ء کی دہائی کے ساتھ بہت ساری مماثلتیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم انجان راستوں پر چل نکلے ہیں۔
اس وقت حکمران طبقے کا اپنے نمائندوں پر ایک مخصوص کنٹرول تھا لیکن آج ایسا نہیں ہے۔
ملک کو چلانے والے موجودہ ٹوری قائدین تاریخی طور پر سب سے زیادہ بیوقوف، تنگ نظر اور بدمعاش مسخرے ہیں۔ اپنے اشتعال انگیز خود غرض اقدامات سے وہ کھلم کھلا طبقاتی جنگ کھول سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران طبقے کے کچھ حصے اس بند گلی سے باہر نکلنے کے لئے لیبر قائد سر کیئر سٹارمر سے امیدیں لگائے بیٹھے ہوں گے۔ اور ظاہر ہے کہ سلطنت کا یہ سورماء چاپلوسی میں بوٹ چاٹنے کو تڑپ رہا ہے۔
لیکن ان بدلتے حالات میں ایک لیبر حکومت بھی بحران زدہ حکومت ہو گی کیونکہ اسے بڑے کاروباروں کے اشاروں پر ہی ناچنا ہو گا۔ اس سے طبقاتی جدوجہد اور برطانوی سرمایہ داری کے بحران میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔
انقلابی بحران
برطانیہ ایک طویل قبل از انقلاب دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں تمام تضادات شدت اختیار کرتے ہوئے اپنا کھلم کھلا اظہار کریں گے۔
اس عمل کا محنت کشوں کے شعور پر دیو ہیکل اثر ہو گا جو انقلابی نتائج اخذ کرتے جائیں گے۔
آنے والے دور میں تمام رجحانات عمل کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے، اور جن کی بنیاد سرمایہ داری ہو گی ان کا مقدر تاریخ کا کوڑا دان ہوگا۔
اس لئے آج مستقبل میں برپاء ہونے والے طوفانی دور کی بھرپور تیاری کے لئے مارکسی قوتوں کی تعمیر اولین فرض بن چکا ہے۔