ایک کہاوت ہے کہ عوام کو وہی حکومت ملتی ہے جس کی وہ حق دار ہے۔ ٹراٹسکی نے اپنے شاہکار مضمون ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں نشاندہی کی تھی کہ یہ کہاوت غلط ہے۔ ایک ہی عوام کو قلیل عرصے میں مختلف قسم کی حکومتیں مل سکتی ہیں اور ملتی بھی ہیں۔
[Source]
لیکن یہ درست ہے کہ اس وقت ہر ملک کے حکمران طبقے کو وہی قیادت میسر ہے جس کے وہ حق دار ہیں۔ یہ قائدین پورے منظر نامے کو ایک خوفناک اور گہری کھائی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
اس حوالے سے برطانیہ کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ عرصہ دراز پہلے ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ برطانوی حکمران طبقہ سالوں نہیں بلکہ صدیوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ یہ بات کرتے ہوئے اس نے اعتراف کیا تھا کہ برطانوی قائدین کی اکثریت (سب نہیں) دور اندیش ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہوتا کہ یورپ کے ساحل کے پاس ایک ننھا جزیرہ پوری دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر قابض ہونے میں کامیاب ہو جائے؟
اس کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ کنزرویٹو پارٹی کے قائدین کا چناؤ احتیاط سے بورژوازی کے برعکس۔۔۔لندن شہر (برطانوی سرمایہ داری کا دل) کے سرمایہ کار جن کی تمام منصوبہ بندی ہمیشہ فوری فائدے کے لئے ہوتی ہے۔۔۔جاگیردار اشرافیہ سے چنی جاتی تھی۔
آہنی شکنجے میں مرکزی حکمران پارٹی کو چلانے والے ٹوری اکابرین شائد غیر معمولی سیاست دان نہ ہوں لیکن اصولی طور پر ان میں ایک مخصوص ثقافتی معیار اور تاریخ کی آگاہی موجود ہوتی تھی۔ جاگیردار ہونے کے سبب ان کی دولت وراثتی ہوتی تھی جس کا فیکٹری محنت کشوں کے براہِ راست استحصال اور منڈی کے ہیجان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ اس وجہ سے کچھ حد تک وہ عالمی سیاست کے حوالے سے ایک وسیع نکتہ نظر اور برطانوی سامراجی قوت کی طوالت کے لئے لازمی طویل حکمت عملی بنانے میں کامیاب رہے تھے۔
لیکن نصف صدی پہلے ٹوری پارٹی کی قیادت چننے میں جمہوریت متعارف کرانے کے جان لیوا فیصلے کے بعد سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ فاش غلطی! پرانے جاگیردار اکابرین کی جگہ متوسط طبقے کے جاہلوں کا اُبھار ہوا جن کی سوچ پرچون دکاندار کی طرح تنگ نظر تھی۔ اس طرح کی شخصیت کا سب سے معیاری اظہار مارگریٹ تھیچر تھی۔
اس وقت لِز ٹرس نام نہاد ”آہنی خاتون“ کی بہترین وارث ہے۔ وہ اس لئے پارٹی قائد منتخب ہوئی ہے کیونکہ وہ عاقل ہونے کے برعکس انتہاء درجے کی بیوقوف ہے۔ وہ آج کے دور میں ٹوری پارٹی کی قائد بننے کی دو بنیادی شرائط پر پورا اترتی ہے۔ پہلی یہ کہ وہ عام ممبران اور قائدین کی اکثریت کا زندہ اور ہو بہو اظہار ہے۔
دوسری یہ کہ اس کی ذہنی قابلیت اور شخصیت ایک جوف صوتی کے ماہر کی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں اس لئے اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ وہ طوطے کی طرح اپنے کان میں جوف صوتی ماہر چیف جیکب ریس موگ کی ہر کہی بات دہرائے گی۔۔۔جیکب ریس موگ پارلیمنٹ میں حاوی سخت گیر بریگزٹ اور باؤلے دائیں بازو کے دھڑے کا نمائدہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر ریس موگ خود ماسٹر مائنڈ بننے کا اہل نہیں ہے۔ لیکن اگر اس میں دماغ نام کی کوئی چیز نہیں تو کیا ہوا، وہ پاگل خانے میں فوری داخلے کا تو اہل ہے!
ریاست کی کشتی محفوظ ہاتھوں میں ہے، بالکل ویسے ہی جیسے جہاز کے برف کے تودے سے ٹکرانے سے کچھ ہی منٹ پہلے جب وہ تیز رفتاری کے ساتھ برف کے تودے کی جانب بڑھ رہا تھا تو ایک شخص نے جہاز کے کپتان کو کہا تھا۔
”ٹرس نامکس“
نام نہاد ٹرس نامکس کی پالیسیاں نئی ہیں نہ اصلی۔ یہ نصف صدی پہلے رونلڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کی بدنامِ زمانہ مالیاتی پالیسیوں (مانیٹرسٹ پالیسیاں۔۔۔منڈی میں پیسوں کی سپلائی کو ریاست کنٹرول کر کے معاشی استحکام کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے) کی پرانی شراب نئی بوتل میں بیچنے کی کوشش ہے۔ ان کی پالیسیاں بھی نام نہاد سے کے قانون (Say’s law) کا مکروہ چربہ تھیں جسے فصاحت و بلاغت کے ساتھ مارکس نے تہس نہس کر دیا تھا۔
اس وقت بھی یہ خیال نیا نہیں تھا کیونکہ اس کا سب سے پہلا پرچارک 1803ء میں جان باپ تیست سے تھا۔ اس نام نہاد قانون کے مطابق اشیاء کی پیداوار اپنی مانگ خود پیدا کرتی ہے۔ اس لئے تھیوری میں زائد پیداوار کا بحران ناممکن ہے۔ انیسویں صدی میں جنم لینے والے سلسلہ وار تجارتی بحرانوں نے اس مفروضے کو جھوٹا ثابت کر دیا تھا۔
لیکن یہ بکواس آج کچھ مخصوص بورژوا معیشت دان (مانیٹرسٹ۔۔۔مانیٹری پالیسی کے پیروکار) طوطے کی طرح دہرا رہے ہیں جن کا اندھا یقین ہے کہ آزاد منڈی تمام مسائل حل کر سکتی ہے اگرچہ پے در پے تجربات نے یہ مفروضہ جھوٹا ثابت کیا ہے۔ حالیہ تجربہ 2008ء تھا۔۔۔سرکاری معاشی تھیوری کے مطابق ایسی صورتحال ناممکن تھی۔ لیکن پھر یہ صورتحال بن گئی۔
یہاں ایک اور تضاد ہے۔ اس بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے حکومتوں نے کیا حکمت عملی اپنائی؟ مالیاتی تھیوری کے مطابق انہیں منڈی کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے تنہاء چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ اس منطق کے مطابق معیشت میں ریاست اور حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
کیا ایسا ہوا؟ ہر گز نہیں۔ ہر جگہ حکومتوں نے فوراً اربوں ڈالر، پاؤنڈ اور یورو نجی بینکوں کو بچانے اور پورے سرمایہ دارانہ نظام کو منہدم ہونے سے روکنے کے لئے جھونک دیے۔ یہ مالیاتی اور آزاد منڈی کی ہر پالیسی کے خلاف اقدامات ہیں۔
کورونا وباء کے دوران یہی پالیسی جاری رکھی گئی جس کے نتیجے میں دیو ہیکل ناقابل واپسی قرضوں کے پہاڑ بن گئے۔ اب بوارژوازی ایک مرتبہ پھر عالمی معاشی بحران اور خاص طور پر گرتے معیارِ زندگی کے بحران سے نمٹنے کے لئے یہی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ پالیسیاں صرف معاشی وجوہات کے لئے نہیں بلکہ ایک عمومی معاشی انہدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی اور سیاسی انتشار سے بچنے کے لئے مجبوراً جاری رکھی جا رہی ہیں۔
حقیقت میں سرمایہ دارانہ نظام کو ریاست اور حکومت اسی طرح قائم رکھے ہوئے ہے جیسے ایک معذور کو بیساکھیاں اٹھائے رکھتی ہیں۔ لیکن ان اقدامات کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام کے لئے نئے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ قرضوں کے ایسے دیو ہیکل پہاڑ بن چکے ہیں جن کابوجھ عالمی معیشت نہیں اٹھا سکتی۔ جلد یا بدیر ان پہاڑوں میں زلزلے آئیں گے۔
طویل مدت میں یہ صورتحال لامتناہی جاری نہیں رہ سکتی کیونکہ آج نہیں تو کل قرضوں کی ادائیگی ناگزیر ہے۔ ایک چھ سال کا عامیانہ عقل والا بچہ یہ بات سمجھ سکتا ہے لیکن ویسٹ منسٹر کے خواتین و حضرات کی کھوپڑیوں میں یہ حقیقت نہیں گھستی۔
مس ٹرس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ٹیکسوں میں اس لئے کٹوتیاں کر رہی ہے کیونکہ اس جادو کی چھڑی کے ذریعے برطانوی معیشت کو کساد بازاری سے نکالا جائے گا (بینک آف انگلینڈ کے مطابق کساد بازاری شروع ہو چکی ہے) اور معاشی نمو حاصل ہو سکے گا۔ بس کرنا یہ ہے کہ بینکاروں اور سرمایہ داروں کی جیبیں اربوں پاؤنڈ سے بھرنی ہیں۔
خوش فہمی یہ ہے کہ اس طرح ان تمام رحم دل خواتین و حضرات کی برطانیہ میں سرمایہ کاری کے لئے حوصلہ افزائی ہو گی جس کے بعد معاشی خوشحالی کا ایسا سنہرا دور شروع ہو گا کہ ہر مرد، عورت اور بچہ اس ملک میں چین کی بانسری بجائے گا۔ یہ تھیوری اتنی جاہلانہ، اتنی غیر منطقی اور اتنی کمزور ہے کہ ایک مخبوط الہواس انسان ہی اس پر یقین کر سکتا ہے۔ لیکن خیر اب ایسے ہی افراد عظیم برطانیہ کی قسمت کے فیصلے کرنے پر معمور ہیں۔
امراء نے یہ دیو ہیکل سبسڈی مانگی ہے نہ وہ اس کے حق دار ہیں لیکن حکومت اس کو یقینی بنانے کے لئے وہ پیسے اُدھا ر لے رہی ہے جو اس کے پاس نہیں ہیں اور نتیجتاً قومی قرضے میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ نام نہاد حل، جو اتنا سادہ اور واضح تھا، اعلان کے فوری بعد برطانوی تاریخ کے سب سے دیو ہیکل اور خوفناک بحران کو جنم دے چکا ہے۔ کشتی چٹان سے ٹکرا کر تیزی سے غرق ہو رہی ہے۔
پاؤنڈ کی گراوٹ
یہ جان لیوا حادثہ پچھلے جمعے کو ہوا اور ٹکراؤ پہلے سے کہیں زیادہ شدید تھا۔ نئے چانسلر کواسی کوارتینگ نے حکومت کے منی بجٹ کا اعلان کیا اور اس کے فوری بعد بحران پیدا ہو گیا۔ اس بجٹ میں رابن ہڈ کی قبر پر لات ماری گئی ہے یعنی غریبوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈال کر امراء کو اور زیادہ امیر کیا جا رہا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سرمایہ کار تو خوشی سے پاگل ہو گئے ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا!
منڈیوں میں سراسیمگی پھیل گئی اور تیزی کے ساتھ منڈی میں پاؤنڈ بکنا شروع ہو گیا جس کے بعد کرنسی فری فال میں چلی گئی۔ پیر کے دن تک ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدر کم ترین تاریخی سطح پر پہنچ چکی تھی اور برطانوی بانڈ بخارات بن کر ہوا ہونا شروع ہو گئے جس پر لندن میں کہرام مچ گیا۔
اس مالیاتی نفسیاتی ہیجان کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے اس کی وجہ چانسلر کی فیاضی تو نہیں ہو سکتی جس نے برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے بے مثال منافعوں کا اعلان کیا تھا۔ نہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کار بچے نہیں ہیں اور عرصہ دراز پہلے انہوں نے پریوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا تھا۔
سرمائے کے مالک سنگ دلوں نے رچرڈ وٹنگ ٹن (قرونِ وسطیٰ میں لندن کا میئر جس کے حوالے سے کئی داستانیں مشہور ہیں خاص طور پر انتہائی غربت سے امارت تک ناقابل یقین سفر اگرچہ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے) کی کہانیاں پڑھی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ لندن کی سڑکیں سونے سے نہیں کسی اور ہی چیز سے بنی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک ایسے شعبدہ باز پر یقین کرنے کو تیار نہیں جس نے اچانک ہی ٹوپی سے خرگوش نکال کر پیش کر دیا ہے۔ ان وجوہات پر انہیں ایک ایسے چانسلر پر اعتبار نہیں ہے جو ہوا میں سے اربوں پاؤنڈ پیدا کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
انہیں پتا ہے پیسے درختوں پر نہیں اُگتے۔ اس لئے بے پناہ اخراجات اور ٹیکس کٹوتیوں کے اعلان پر منڈی نے ’چھو منتر‘ کہنے سے پہلے ہی پاؤنڈ سے جان چھڑانا شروع کر دی۔ پیر کے دن کرنسی کا انہدام جاری رہا کیونکہ ایشیاء کی منڈیوں نے کھلتے ہی کچھ دیر تک تو پاؤنڈ اپنے پاس رکھا لیکن جلد ہی وہ بھی عالمی منڈیوں کے ہیجان میں شامل ہو کر پاؤنڈ سے جان چھڑانے لگیں۔
بینک آف انگلینڈ کے تمام بہادرانہ (اور بے مثال) اعلانات رائیگاں گئے جن میں کسی بھی حد تک شرح سود کو بڑھا کر کرنسی کی قدر کو مستحکم کرنا شامل تھا۔ شرح سود میں اضافے کا اعلان بھی طاقتور ڈالر کا مقابلہ نہ کر سکا۔ یہ حیران کن نہیں کیونکہ بینک نے کوئی اعلان نہیں کیا کہ یہ اضافہ کتنا ہو گا اور کب ہو گا۔اس لئے منڈیوں نے اس کو بالکل نظر انداز کر دیا اور فروخت جاری رہی۔
منڈیوں کا ردِ عمل حیران کن نہیں ہے۔ اس ساری دھمال چوکڑی سے پہلے ہی برطانیہ کا ریاستی قرضہ ناقابل واپسی ہو چکا ہے۔ اگست میں 11.8 ارب پاؤنڈ قرضہ لیا گیا جو لندن سٹی کی 8.8 ارب پاؤنڈ کی پیش گوئی سے کہیں زیادہ تھا اور اس سال کے آغاز میں آفس فار بجٹ رسپانسی بیلیٹی کے اندازوں سے دُگنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ قرضے کا حجم 6 ارب پاؤنڈ ہو گا۔
اس وقت صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے۔ معاشی ریسرچ کمپنی کیپٹل اکنامکس کے مطابق توانائی پیکج سمیت (قرضوں سے پیکج چلایا جائے گا اور اس کا دو سال میں خرچہ 150 ارب پاؤنڈ ہے) اس سال خسارہ 165 ارب پاؤنڈ یعنی کل قومی آمدن کا 6.5 فیصد ہو گا۔
بینک آف انگلینڈ کے مطابق اس وقت برطانوی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو چکی ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں سب سے زیادہ بے قابو افرطِ زر کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود بڑھائی جا رہی ہے۔ اگر حکومت امیر ترین ایک فیصدی کے لئے ٹیکس کٹوتیوں کا پروگرام جاری رکھتے ہوئے قرضوں کا حصول بڑھاتی ہے تو صورتحال اور بھی زیادہ گمبھیر ہو جائے گی۔
پچھلے پچاس سالوں میں سب سے بڑی ٹیکس کٹوتیوں میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والوں کے لئے 45 فیصد اضافی ٹیکس کا خاتمہ اور منافعوں پر محصولات میں بڑی کٹوتیاں شامل ہیں۔ لیکن ٹیکس کٹوتیوں کو پورا کرنے اور اربوں پاؤنڈ کی توانائی سبسڈی کے لئے قرضوں کے حصول کی ضرورت سے قرضوں کی شرح سود تیزی سے بڑھی ہے جبکہ پاؤنڈ کی قدر پچھلے 37 سالوں کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔
سابق امریکی سیکرٹری خزانہ لیری سمرز نے بلومبرگ چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”برطانیہ کا رویہ کچھ ایسا ہے جیسے ایک اُبھرتی معیشت اپنے آپ کو ڈوبتی معیشت بنا رہی ہے۔ برطانیہ کو طویل عرصے تک کسی بھی بڑی معیشت میں بدترین معاشی پالیسیوں کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا“۔
تاریخی بربادی
جب سے ریکارڈ شروع ہوئے ہیں اس وقت سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدر کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک پاؤنڈ کے چار ڈالر ملا کرتے تھے۔ اس وقت ان کی قدر تقریباً برابر ہو چکی ہے۔ پاؤنڈ کی قدر میں مزید گراوٹ آ سکتی ہے۔ اس کے انتہائی سنجیدہ نتائج ہوں گے۔
پاؤنڈ کی گرتی قدر کا مطلب ہے کہ اشیائے خوردونوش اور توانائی سمیت کئی درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ تیز تر ہو گا۔ پیٹرول کی قیمت نئی بلندیوں پر پہنچے گی اور اس کا اثر ہر جنس (Commodity) کی قیمت پر ہو گا۔ افراط زر کو قابو کرنے کی کوشش میں بینک آف انگلینڈ شرح سود موجودہ شرح سے کم از کم دگنی کرے گا جس سے بہت سارے گھرانے متاثر ہوں گے اور قرضوں میں اضافہ ہو گا۔
ایک ایسے وقت میں جب گھرانوں کو موسمِ سرماء کی آمد پر یہ فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے کہ گھروں کو گرم کریں یا میز پر روٹی رکھیں، افراط زر کا نیا گھن چکر برطانیہ میں حالات کو شائد 1930ء کی دہائی میں ”عظیم کساد بازاری“ سے زیادہ برباد کر دے گا۔
ٹر س نامکس کی پالیسیوں نے بینک آف انگلینڈ کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ بینک کی نو ممبر مالیاتی پالیسی کمیٹی (MPC) کی اکثریت نے شرح سود میں 0.5 فیصد اضافے کے لئے ووٹ دیا ہے جس کے بعد شرح سود 2008ء کے بعد بلند ترین سطح یعنی موجودہ 1.75 فیصد سے 2.25 فیصد ہو جائے گی۔
لیکن اس سے پاؤنڈ کی قیمت میں گراوٹ نہیں رُکے گی۔ منڈیوں میں عام تاثر موجود ہے کہ شرح سود اگلے موسمِ گرماء تک 4 فیصد یہاں تک کہ 6 فیصد بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کافی نہیں ہو گا۔ لیکن اس کے کئی انجانے اور یقینا ناپسندیدہ اثرات ہوں گے۔ بڑھتی شرح سود کے ساتھ مارٹ گیج (رہن) میں بھی متوازی اضافہ ہو گا۔
کئی اثناء میں گھروں کے لئے یہ رقم دُگنی ہو جائے گی یعنی ایک متوسط پراپرٹی کے لئے ادائیگی 660 پاؤنڈ سے بڑھ کر 1150 پاؤنڈ ہو جائے گی۔ پہلے ہی بڑھتے توانائی بلوں میں پستے کئی خاندانوں کے لئے اس کا مطلب سالانہ 6 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی ہے۔ ٹیکس کٹوتیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والا کوئی بھی فائدہ فوری طور پر ختم ہو جائے گا یعنی عوام کی اکثریت کو چند سو پاؤنڈ ہی ملیں گے۔
اب امکانات پیدا ہو رہے ہیں کہ گھروں کے مالکان اپنا مورٹ گیج ادا نہیں کر پائیں گے اور نتیجتاً بے گھر ہو کر سڑکوں پر آ جائیں گے۔ مارگریٹ تھیچر کے زمانے سے ٹوری پارٹی شیخی بگھارتی رہی ہے کہ ہم ایک ”پراپرٹی ملکیتی جمہوریت“ بنا رہے ہیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو اگلے انتخابات میں ان کے جیتنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔
قرضوں کا حصول بھی بہت مہنگا ہو جائے گا، صرف عام عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ حکومت کے لئے بھی جسے مس ٹرس اور اس کے چانسلر کے نئے فیصلوں کے نتیجے میں اب اُدھار پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ ان پیسوں سے زندگی کی جنگ لڑتی لاکھوں کروڑوں عوام کی مدد نہیں ہو گی بلکہ ملک کی امیر ترین ایک فیصدی اشرافیہ عیاشی کرے گی۔
اس لئے اس وقت امراء کی حکومت امراء کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ پاگلوں کی حکومت بیوقوفوں اور آزاد منڈی کے داعی معیشت دانوں کے لئے ہے جو کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ لیکن جن کی آنکھیں ابھی تک کھلی ہیں انہیں یہ ساری صورتحال ایک ڈراؤنی فلم معلوم ہو رہی ہے۔
حکومت پر اس وقت شدید دباؤ پڑ رہا ہے کہ اپنی پاگل پن پر مبنی پالیسیوں کو ختم کرے۔ سب سے سخت تنقید بادشاہ سلامت کی وفادار حزبِ اختلاف کیئر سٹارمر اور لیبر پارٹی کے برعکس بڑے کاروباریوں اور بینک آف انگلینڈ کے سابق صدر کی طرف سے ہو رہی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ نقصان دہ تنقید آئی ایم ایف نے کی ہے یعنی عالمی مالیاتی نظام کا قبلہ و کعبہ۔ اس کی تنقید سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہدف برطانیہ نہیں بلکہ تیسری دنیا کا کوئی برباد ملک ہے۔ منگل کو آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے کہا کہ:
”اس وقت برطانیہ سمیت کئی ممالک میں افراط زر کا دباؤ زیادہ ہے اس لئے ہم بڑے عمومی مالیاتی پیکجوں کا مشورہ نہیں دیتے کیونکہ یہ اہم ہے کہ مالیاتی پالیسی مانیٹری پالیسی سے متصادم نہیں ہو سکتی۔۔۔پھر برطانیہ میں لئے گئے اقدامات کے نتیجے میں عدم مساوات بڑھ سکتی ہے“۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا کہ کوارتینگ کو نومبر میں ایک پلان دینا چاہیے تاکہ ”ٹیکس اقدامات کا جائزہ لیا جائے، خاص طور پر جن سے دولت مند افراد کو فائدہ ہو رہا ہے“۔
واقعی ایک وقت میں دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک تصور کی جانے والی معیشت کے لئے یہ الفاظ بے مثال ہیں۔ لیکن یہ تمام انتباہ اور تنقید بہرے کانوں پر ضائع ہو رہی ہے۔ لندن میں خواتین و حضرات سننے کو تیار نہیں۔ مس ٹرس ڈٹی ہوئی ہے اور کشتی مسلسل ڈوب رہی ہے۔
شاونزم کی قیمت
کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت منطق سننے کو تیار نہیں ہے؟ خود کو ایذا رسائی اور قومی خودکشی کا مرض ایک ہی طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اس سارے مسئلے کا سرچشمہ عظمت کا خنس ہے جس نے ٹوری پارٹی قیادت کی ایک قابل ذکر پرت کو یورپی یونین سے برطانوی اخراج پر اُکسایا ہے۔ اس وقت (آج بھی) یورپی یونین برطانیہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ اس پُرہیجان اور غیر منطقی فیصلے نے برطانوی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
لیکن اس فیصلے کے ذمہ دار آج بھی اس سراب سے چمٹے ہوئے ہیں کہ یہ فیصلہ اس وقت درست تھا بلکہ قومی خوشحالی اور عالمی شان و شوکت حاصل کرنے کا واحد راستہ تھا۔ یہ خواتین و حضرات خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وقت کا دھارا پلٹا جائے اور سمندری لہروں پر حکمرانی کرنے والا برطانیہ دوبارہ واپس آ جائے، پرانی سلطنت یا اس جیسی کوئی چیز از سرِ نو تعمیر کی جائے اور یورپ سمیت پوری دنیا میں برطانیہ کا بطور سب سے بڑی طاقت وقار بحال کیا جائے۔
اس خام خیالی کا مرکزی نمائندہ جیکب ریس موگ ہے جسے پارلیمانی حلقوں میں طنزاً اٹھارویں صدی کا اعزازی ممبر کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ تنگ نظر شاونزم اس وقت پارلیمانی ٹوری پارٹی پر حاوی ہر انتہائی دائیں بازو، آزاد منڈی اور بریگزیٹ کے حامی پاگل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
غیر ملکیوں کے لئے یہ روایتی شاونسٹ نفرت صرف سیاہ فام، ایشیاء نژاد اور انگریزی نہ بولنے والے لہسن کی بو میں معطر یورپیوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ نفرت ہمارے امریکی دوستوں سے بھی ہے (اگرچہ اس کا کبھی اظہار نہیں کیا جاتا) جن کا پچھلے کچھ عرصے میں عالمی قیادت کا دکھاوا حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔
ان خواتین و حضرات کے قومی غرور کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ کیا ہماری تاریخ نہیں بتاتی کہ ہم پوری دنیا کی عوام اور نسلوں سے زیادہ معتبر ہیں؟ ان غیر ملکیوں کی ہمیں حکم دینے کی ہمت کیسے ہوئی؟ کیا ہم نے دو عالمی جنگیں نہیں جیتیں؟ اور کیا ہمارے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں؟
اس وقت ویست منسٹر پر جو ٹولہ قابض ہے اس کے دماغ سے منطق نامی کسی بھی چیز کا بیتے شاہانہ دنوں کی ستائش نے صفایا کر دیا ہے۔ لز ٹرس کی شخصیت میں انہیں کامل قائد مل گیا ہے۔ اپنے گینگ کے دیگر افراد کی طرح دنیا میں برطانیہ کی پوزیشن کے حوالے سے اس کے خیالات بھی انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔
10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں پہلا قدم رکھتے ہی یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی۔ یہاں ایک لمحے کے لئے ہم وزیر اعظم بننے کے بعد فتح کی پہلی خوشی (غرور بھی کہہ سکتے ہیں) میں لز ٹرس کے ابتدائی اقدامات کو یاد کر لیتے ہیں۔
”خاص تعلق“
دفتر میں براجمان ہوتے ہی مس لز نے پہلا کیا کام کیا؟ ملکہ کی تدفین کے فوری بعد وہ اسی طرح نیو یارک دوڑی جیسے پرانے دنوں میں ایک نیا نوآبادیاتی وائسرائے ملکہ وکٹوریا کی تعظیم میں لندن دوڑا آتا تھا۔
آج فرق یہ ہے کہ سلطنت کا مرکز لندن کے بجائے واشنگٹن ہے اور برطانوی وزیر اعظم کا پہلا کام وائٹ ہاوس میں براجمان عظیم سفید فام چیف کے سامنے ناک رگڑنا ہے۔ بحر اوقیانوس کے اوپر پرواز اسے اقوام متحدہ میں تاریخی مشن پر بھی لے کر گئی اور اب اس کا دماغ اس کی اپنی اہمیت کے ہیجانی خیالات سے اُبل رہا تھا۔
جیسے ہی وہ اپنے پہلے بیرونِ ملک دورے کے لئے نیو یارک وارد ہوئی تو اس نے پوری دنیا کو واقعی حیران پریشان کر دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بریگزٹ کے بعد امریکی-برطانوی تجارتی معاہدے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا کہ یہ بریگزٹ کی سب سے بڑی حاصلات میں سے ایک ہے۔ اب اس نے اعلان کر دیا کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جی آپ نے درست سنا۔ آج، کل، پرسوں ہی نہیں بلکہ ”اگر سالوں نہیں تو کم از کم مہینوں“ مستقبل میں دور دور تک فی الحال اس معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ ہوشرباء اعلان اس نے ایک لمحہ شرمائے یا توقف کیے بغیر ایسے کر دیا جیسے کوئی لاپرواہی میں دو چار فقرے بول کر گزر جاتا ہے۔
خالصتاً معاشی زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈوبتی کشتی کے بدقسمت مسافروں کو بتایا جائے کہ کسی وجہ سے کشتی کی آخری لائف بوٹس بندرگاہ پر ہی رہ گئیں اور افسوس وہ کچھ عرصہ کے لئے دستیاب نہیں ہوں گی۔۔۔”اگر سالوں نہیں تو کم از کم مہینوں“۔
لیکن پھر لائف بوٹس کی پرواہ کیوں کی جائے؟ اس کے ایک پراعتماد قدردان نے فوری طور پر حیران پریشان عوام کو بتایا کہ ”امریکہ کے ساتھ ہمارا تعلق تجارتی معاہدوں سے زیادہ مضبوط ہے“۔ اچھا! وہ شاندار خاص تعلق جس کا لندن کے علاوہ اور کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟
یہ درست ہے کہ جو بائیڈن برطانیہ کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے کے برعکس دیگر معاملات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ درحقیقت اس کی ترجیحات میں یہ معاہدہ اس کم تر درجے پر ہے کہ ہماری اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ میں ہونے والی بات چیت میں اس کا ذکر تک نہیں ہوا۔ اس گفتگو کا محور یوکرین جنگ اور ”وسیع سیکورٹی تعاون“ تھا۔
ٹرس نے کہا کہ ”اولین ترجیح عالمی سیکورٹی اور یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم متحد ہو کر روسی جارحیت کا مقابلہ کریں اور یوکرین کو فتح یاب کرائیں“۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یورپ اور G7 ممالک کا تعاون بہت اہم ہے ”تاکہ یقینی بنایا جائے کہ ہم آمرانہ حکومتوں پر تزویراتی طور پر منحصر نہ ہوں“۔
یقینا مس ٹرس کی پوری کوشش ہو گی کہ اس کے الفاظ صدر صاحب کے کانوں میں رس گھولیں۔ ایسا ایک حد تک درست تھا۔ لندن سے آئی عورت کا اپنے آپ اور برطانیہ کو آزاد دنیا کا حقیقی قائد بنا کر پیش کرنے کی کوشش سے انکل جو کا موڈ ضرور خراب ہوا ہو گا۔ کیا اسے کسی نے بتایا نہیں کہ یہ صرف امریکہ کا کردار ہے؟
یہ بات مسلم ہے کہ کسی اچھی چیز کی زیادتی مضرِ صحت ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص زیادہ آئس کریم کھا لے تو اس کا پیٹ خراب ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنے تو کبھی کبھی شاہ کو غصہ بھی چڑھ جاتا ہے۔ اس لئے آزاد دنیا کے تمام میڈیا کے سامنے دانت نکالتے ہوئے گرمجوشی سے ہاتھ ملائے گئے لیکن بند دروازوں کے پیچھے ناپسندیدگی کا اظہار ضرور ہوا ہو گا کہ یہ اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہے؟
شمالی آئرلینڈ اور بدنام زمانہ پروٹوکول کے دشوار معاملے پر صدر کا موڈ اور بھی خراب ہوا ہو گا۔ مس ٹرس نے امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ ایجنڈے پر نہ ہونے کا اعلان کیوں کیا؟
یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ پیشگی حملہ تھا۔ ٹرس کو شمالی آئرلینڈ پر جو بائیڈن کے خیالات کا پتا ہے۔ اسے پتا تھا کہ وہ یونینسٹ لابی کو خوش کرنے کی کوشش میں پروٹوکول کو ختم کرنے یا شدید محدود کرنے کی کسی بھی کوشش پر سختی سے تنبیہ کرے گا۔ اس پروٹوکول پر یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ کے بعد معاہدہ ہوا ہے جس میں یورپی یونین میں رہنے والے جنوبی آئرلینڈ اور برطانیہ کے ساتھ یورپی یونین چھوڑنے والے شمالی آئرلینڈ کے درمیان تجارتی معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بائیڈن اور پیلوسی نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی کام کیا گیا تو امریکہ کے ساتھ معاہدہ ناممکن ہے۔ ایسا معاہدہ پیشگی ختم کرنے پر برطانوی وزیراعظم یہ ہتھیار اس کے ہاتھ سے چھین رہی تھی۔ لیکن یہ ”چالاک“ چال نقصان دہ اور بیوقوفی ہے۔
یاد کریں کہ یورپی یونین سے برطانوی اخراج کے بعد بورس جانسن، ریس موگ اور دیگر بریگزٹ بدمعاشوں نے اصرار کیا تھا کہ برطانیہ ”پوری دنیا کے ساتھ تجارت کرے گا“۔ لیکن آج اس شیخی کا کیا بنا ہے؟ برطانیہ اس وقت روس کے ساتھ جنگ میں ہے، چین کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں اور اب اسے امریکہ کے ساتھ کسی قسم کا تجارتی معاہدہ خارج از امکان کرنا پڑ رہا ہے۔
قلم کی ایک جنبش نے برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر تین اہم ترین عالمی منڈیوں سے محروم کر دیا ہے۔ شمالی پروٹوکول ختم یا شدید محدود کرنے پر یورپی یونین کے ردِ عمل میں یورپ کے ساتھ تجارت پر بہت برے اثرات پڑیں گے۔
عالمی معیشت کی طرح برطانوی معیشت بھی ایک مضبوط ڈالر کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ یہاں کوئی ”خاص تعلق“ نہیں ہے! ٹرس ایک وقت تک چالبازیاں اور دھواں دھار باتیں کرتی رہے گی۔ لیکن یہ زیادہ عرصہ جاری نہیں رہے گا۔
ایک وقت پر منڈیاں فیصلہ کریں گی کہ برطانیہ پر ادائیگیوں کے حوالے سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور یہ ایک اور برباد ملک ہے جہاں بڑی رقم نہیں بھیجی جا سکتی۔ اس وقت آئی ایم ایف اصلی منڈی کی معیشت کا لازمی لیکن شدید دردناک سبق سکھانے کے لئے مداخلت کرے گا۔ پھر وہ ملک جسے ایک زمانے میں عظیم برطانیہ کہا جاتا تھا دنیا میں اپنا حقیقی مقام حاصل کر لے گا۔۔۔ایک بانجھ جمہوریہ۔
یہ حقیقت ہے۔ یورپی یونین سے اخراج کے بعد آج برطانیہ ایک عظیم طاقت کے برعکس یورپ کے ساحل پر ایک کمزور، دیوالیہ اور تنہا برہنہ جزیرے کے طور پر موجود ہے۔ جتنا مرضی پرچم لہرا لو یا شاونسٹ شعلہ بیانی کر لو یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔
طبقاتی جدوجہد
اس مضمون کا اختتام لکھتے وقت پچھلے 24 گھنٹوں میں بینک آف انگلینڈ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ 65 ارب پاؤنڈ کی ہوشرباء رقم سے حکومتی بانڈ خرید کر منڈی کو اعتماد دیا جائے گا۔ لیکن اس ہیجانی قدم کا بھی وقتی اثر ہو گا، جیسے ایک جان لیوا زخم پر بس پٹی باندھ دی جائے۔
ایک پاگل گھوڑے کی مانند برطانیہ میں انتشار بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔۔۔سماجی، سیاسی، مالیاتی، معاشی۔ برطانیہ کی عوام کے لئے (اور دیگر اقوام کے لئے) یہ موسم سرماء بہت شدید ہو گا لیکن اس میں شدید حدت بھی چھپی ہوئی ہے۔ ہر کسی کو نظر آ رہا ہے کہ صورتحال بے قابو ہو رہی ہے۔ موجودہ ہڑتالوں کی لہر واضح کر رہی ہے کہ محنت کش طبقہ متحرک ہونے کے لئے کمر بستہ ہے۔
ابھی سے اشارے موجود ہیں کہ ایک بہت جنگجو اور غصیلا موڈ موجود ہے۔ یہ موڈ صرف روایتی جنگجو پرتوں جیسے ریلوے اور بندرگاہ کے محنت کشوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وکلاء، نرسز اور ڈاکڑوں میں بھی یہی کیفیت ہے۔
یہ آغاز ہے۔ لاکھوں کروڑوں عوام کے لئے حالاتِ زندگی ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ جب خاندان بچوں کو روٹی فراہم نہیں کر سکتے یا ٹھٹرتی سردیوں میں گھر گرم نہیں رکھ سکتے، جب متوسط طبقہ بھی خوفزدہ ہو کہ وہ بے گھر ہو سکتا ہے تو عوام کے پاس جدوجہد کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔
اس دھماکہ خیز منظر نامے میں حکومتی پالیسیوں سے لاتعلق نہیں رہا جا سکتا۔ ایک قابل اور ماہر حکومت کسی طرح بحران کے اثرات کو کم کرتی یا کم از کم براہ راست تصادم کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتی۔ لیکن ایسی حکومت موجود نہیں اور موجودہ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ طبقاتی جدوجہد بھڑک جائے اور ایک بھرپور ملک گیر عام ہڑتال پھٹ پڑے۔
ایک چیز نوشتہ دیوار ہے۔ اب لز ٹرس جو بھی کرے گی غلط کرے گی۔
نوٹ: 3 اکتوبر کو برطانوی حکومت نے عوام، منڈیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی شدید تنقید اور دباؤ میں امراء پر 45 فیصد ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ اس فیصلے کے باوجود مندرجہ ذیل مضمون میں پیش کیا گیا تناظر اور سیاسی، سماجی اور معاشی منظر نامہ تبدیل نہیں ہو گا اور حالات کا دھارا ایسے ہی جاری رہے گا۔