ترکی پچھلے کئی ہفتوں سے مختلف وجوہات کی بناء پر عالمی سرخیوں کی زینت بنا رہا ہے۔ ان میں سے ایک اہم خبر 19 مارچ کو مرکزی بینک کے گورنر ناچی آگبال کی برطرفی تھی، جس کے فوری بعد اس کے نائب گورنر کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ اردگان کے اس اقدام کے نتیجے میں ایک دن کے لیے لیرا کی قدر میں 15 فیصد کی شدید گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ حیرت میں ڈوبے مین سٹریم بورژوا معیشت دانوں نے اردگان کے اس رویے کو پاگل پن اور غیر متوقع قرار دیا۔ مگر اس پاگل پن کے پیچھے کچھ وجوہات کارفرما ہیں۔ سب سے بڑھ کر، اردگان ایک سماجی دھماکے سے خوفزدہ ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب 2002ء میں اردگان نے اقتدار سنبھالا، تب عالمی معاشی ابھار کے بلبوتے پر ترکی کی معیشت ہر گزرتے سال کے ساتھ مضبوط بڑھوتری کرنے کے قابل تھی۔ صنعت اور پیداوار میں بڑے پیمانے پر بڑھوتری دیکھنے کو ملی اور اجرتوں میں بھی عمومی طور پر اضافہ ہوا، جبکہ روزگار کی حالت بھی بہتر تھی۔ مگر 2008ء کے بحران کے بعد، یہ سلسلہ تھمنے لگ گیا۔ ہاں بحران کے بعد مختصر معاشی ابھار کا عرصہ ضرور آیا مگر اس کی وجہ بھی عالمی منڈیوں میں سستے قرضوں کی بوچھاڑ تھی۔ ایسے معاشی ابھار کے پیچھے بے تحاشہ سٹے بازی اور قرضوں کا بہت بڑا پہاڑ تھا۔
مگر اب کئی سالوں سے، 2020ء کی وباء پھیل جانے سے پہلے ہی، ترکی کی معیشت زوال پذیری کے راستے پر گامزن ہے۔ اس راستے میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، مگر بالعموم زوال کا ہی غلبہ ہے۔ 2011ء میں جی ڈی پی کی شرحِ نمو 11 فیصد تھی۔ 2017ء میں 7.5 فیصد پر آنے کے بعد یہ مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ 2018ء میں جی ڈی پی کی بڑھوتری 3 فیصد سے کم رہی تھی، جو 2008ء کے بحران کے بعد سب سے کم ترین سطح تھی۔ 2018ء کے اواخر میں، ترکی کی معیشت واضح طور پر افراطِ زر میں انتہائی اضافے کی علامات دکھا رہی تھی؛ لیرا کی قدر میں تیزی سے کمی آئی، افراطِ زر میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا، اور دیوالیہ پن کے ایسے امکانات نظر آ رہے تھے جس کے بعد تباہ کن معاشی گراوٹ آتی ہے۔
اس صورتحال کو مرکزی بینک کی جانب سے بڑے پیمانے پر مداخلت کے ذریعے ہی قابو کیا جا سکتا تھا۔ جس نے ستمبر 2018ء کے اندر اپنی شرحِ سود میں 24 فیصد کا بڑا اضافہ کیا۔ دس مہینوں تک اس شرح کو قائم رکھا گیا۔ مگر جو معیشت پہلے سے ہی کمزوری کا شکار تھی، جس کا مکمل طور پر سستے قرضوں کے اوپر انحصار تھا، اس پالیسی کی وجہ سے مکمل جمود کا شکار ہو گئی۔ 2018ء کے آخر تک ترکی کساد بازاری میں داخل ہو چکا تھا۔ مارچ 2020ء میں عالمی معاشی بحران اور وباء کے آنے تک بحالی کے راستے تقریباً بند ہو چکے تھے، جس سے پہلے 2019ء میں جی ڈی پی کی بڑھوتری 0.9 فیصد کی انتہائی معمولی سطح پر ریکارڈ کی گئی تھی۔
عوامی دباؤ سے خوفزدہ اردگان
اردگان بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ سے خوفزدہ ہے۔ وہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر جانتا ہے کہ ایک غلط قدم عوامی بغاوت کے لیے چنگاری ثابت ہو سکتی ہے، جو اس کی حکومت کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گی۔ عرب دنیا میں ابھرنے والی انقلابی لہر کو محض دس سال ہی تو گزرے ہیں جس نے ایک دوسرے کے قریب واقع ممالک کے اندر یکے بعد دیگرے آمروں کے تخت الٹ کر رکھ دیے۔ اور غازی پارک کی بغاوت کو تو آٹھ سال بھی نہیں گزرے، جس میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلتے نظر آئے، جس سے اردگان کی حکومت لرز کر رہ گئی تھی۔
تب اس کی حکومت نہ گرنے کی اصل وجہ گیزی تحریک کے قائدین کی کمزوری تھی۔ ان کے مبہم لبرل مطالبات محنت کش طبقے کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر پائے، خاص کر ان پرتوں کو جن کے معیارِ زندگی میں اردگان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تیز رفتار ترقی آئی تھی۔ ان پرتوں کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے میں بھی اب تک اردگان کی مضبوط حمایت پائی جاتی تھی۔ مگر پچھلے کچھ سالوں میں معاشی زوال کی وجہ سے اس حمایت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
کچھ کوگ بڑے زور و شور سے اردگان کے ان اقدامات کو اس کی کینہ پرور اور متلون مزاج شخصیت سے منسوب کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ واقعات میں اس کی شخصیت کا عنصر بھی موجود ہے، مگر جس چیز کو سمجھنا سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اردگان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ عوامی تحریک پھٹنے کے نتیجے میں کیا کچھ سامنے آئے گا۔ اسی لیے اس نے غیر ملکی مہم جوئی کا سلسلہ شروع کیا ہے؛ اسی لیے اس نے ریاستی مشینری اور میڈیا میں منظم طریقے سے حزبِ اختلاف کا خاتمہ شروع کیا ہے؛ اسی لیے اس نے کُردوں پر حملے کر کے اور دیگر طریقوں سے لوگوں کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔
آتش فشاں بجھانے کی کوشش
بورژوا معیشت دان اردگان پر مرکزی بینک کے معاملات میں مداخلت کرنے کی وجہ سے لعن طعن کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کو سیاسی عمل دخل سے آزاد ہو کر کام کرنا چاہئیے۔ در اصل اردگان کے پاس کوئی اور راستہ ہے بھی نہیں۔ جولائی 2018ء میں، اردگان نے اپنے داماد برات البیرق کو وزارتِ خزانہ کا عہدہ تھما دیا تھا۔ ایسا کرنے کی وجہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ مرکزی بینک کی پالیسی ہمیشہ ایک ایسے شخص کی قریبی نگرانی میں رہے جس کی جانب سے حکومتی استحکام پر ’معاشی اصولوں‘ کو ترجیح دینے کا الزام بالکل بھی موجود نہ ہو۔
ابتدائی طور پر حالات مستحکم کرنے کے بعد، 2019ء سے اردگان کی مالیاتی پالیسی یہ تھی کہ شرحِ سود کو جتنا ممکن ہو کم رکھا جائے، جبکہ ترکی میں موجود غیر ملکی کرنسی کو لیرا کی قدر بڑھانے اور خساروں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس پر بورژوا معیشت دانوں نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ بہرحال اس کا مطلب یہ تھا کہ پچھلے سال ترکی کی برآمدات نسبتاً سستی رہیں۔ جس کا نتیجہ، دیگر عناصر کی مدد کے ساتھ، 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں منفی 11 فیصد تیز کمی کے بعد تیسری سہ ماہی میں 15.9 فیصد کی تیز بحالی کی صورت میں نکلا۔ پورے سال میں ترکی کی مجموعی بڑھوتری بھی 5.9 فیصد رہی۔
مگر اس کا نتیجہ لیرا پر دباؤ پڑنے اور ایک دفعہ پھر افراطِ زر میں اضافے کی صورت میں بھی نکلا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کی وجہ سے مزید بگڑ گئی کہ بحران آنے کے بعد ترکی کا انحصار، دیگر ممالک سے بھی زیادہ، پیسے چھاپنے کے اوپر رہا ہے۔ مگر ”پیسے پیڑ پر نہیں اگتے“۔ اس پالیسی کے دور رس نتائج یہی نکلتے ہیں کہ مالیاتی نظام اور معیشت مکمل طور پر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سال نومبر کے اوائل میں، حالات برداشت سے باہر ہو گئے، جب ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر تاریخی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ ترکی کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے پاس غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پورے کے پورے ختم ہو گئے۔
اردگان کے پاس مزاحمت سے بچنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ مرکزی بینک کے گورنر مورت یوسل کو عہدے سے بر طرف کر کے اس کی جگہ ناچی آگبال کو لے آئے، جو شرحِ سود بڑھانے کے لیے تیار تھا۔ اردگان کو کافی عرصے سے بین الاقوامی منڈی کی جانب سے مرکزی بینک میں مداخلت روکنے کا کہا جا رہا ہے جس پر اب وہ عمل کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس کے داماد البیرق کا، ”صحت کی کمزوری“ کی بناء پر وزارتِ خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دینا ان تبدیلیوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ماضی میں اردگان مسلسل یہ کہتا رہا ہے کہ شرح سود بڑھا کر افراط زر کو روکا جا سکتا ہے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اردگان نے ناگزیر عمل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ بالکل 2018ء کی طرح، ”مشکل مگر ضروری“ پالیسیاں دوبارہ لاگو کی جائیں گی۔
مگر 2018ء کا دور گزر چکا ہے۔ ترکی کی سرمایہ داری کو دستیاب سانس لینے کا موقع مسلسل ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیرا کی قدر میں کمی اور افراطِ زر پر قابو پانے کی کوشش میں، آگبال نے شرحِ سود میں شدید اضافہ کیا ہے، جس نے کچھ ہی مہینوں کے اندر 10.5 فیصد سے 19 فیصد تک کا اضافہ کیا ہے۔ مگر عالمی بحران اور ترکی میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر، جس کی وجہ سے جلد ہی ایک اور لاک ڈاؤن لگانا پڑ سکتا ہے، سخت مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے مختصر عرصے کی معاشی بحالی کی امید بھی ختم ہو جاتی ہے۔
دنیا بھر میں بھرپور انداز سے پیسے چھاپنے کا عمل جاری ہے، جبکہ ترکی کو اسے روکنے کا کہا جا رہا ہے! سب سے اہم بات یہ ہے کہ افراطِ زر میں بالکل کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے برعکس، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں جہاں یہ 14 فیصد تھی، اس سال مارچ میں 16.2 فیصد پر آ گئی ہے۔ خوراک اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس سے سماج کی غریب ترین پرتوں پر بے تحاشا دباؤ پڑ رہا ہے۔
دھوکہ دہی کی گنجائش نہیں
اردگان کے لیے، 19 مارچ کو شرحِ سود میں ہونے والا 2 فیصد اضافہ (جس کے بارے میں پہلے 1 فیصد اضافے کی بات کی جا رہی تھی) وہ آخری تنکا ثابت ہوا جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی۔ اس کے ایک دن بعد آگبال کو برطرف کیا گیا اور، یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ کوئی بھی اس فیصلے کو واپس لینے کے بارے میں نہ سوچے، کچھ ہی دیر بعد اس کا نائب بھی برطرف کیا گیا۔ اب تک کے لیے شرحِ سود میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔ مگر اردگان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ دوبارہ خود حالات کو قابو کرے گا، اور اس نے کھلے عام شرحِ سود میں کمی کے ”عزم“ اعلان کیا ہے۔
منڈیوں کی جانب سے کافی متوقع ردّ عمل دیکھنے کو ملا۔ لیرا کی قدر میں بہت تیز رفتار گراوٹ آئی۔ صرف ایک دن کے اندر ڈالر کے مقابلے اس کی قدر میں 15 فیصد کمی آئی۔ ایک مرحلے پر یہ پچھلے سال نومبر والی سطح سے بھی نیچے چلا گیا، اس کے باوجود کہ تب کی نسبت شرحِ سود کو دو گنا بڑھایا گیا ہے! اس اعلان کے ایک ہفتے بعد، ترکی کی مرکزی سٹاک ایکسچینج میں 13 فیصد گراوٹ دیکھنے کو ملی، اور دس سالہ حکومتی بانڈز کا سود 5 فیصد سے بڑھ کر 19 فیصد تک پہنچ گیا۔
جہاں ایک وقت میں ترکی کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے کے لیے غیر ملکی سرمائے پر شرحِ سود بڑھا رہا تھا، اب اسے بڑے پیمانے پر سرمائے کی کمی کا سامنا ہے۔ جرمن بینک کے مطابق یہ فیصلہ لاگو ہونے کے بعد صرف پہلے ہفتے میں ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 1 ارب ڈالر کے شیئرز اور 75 کروڑ ڈالر کے قرضے ترکی سے باہر منتقل کیے۔ ان واقعات سے پہلے بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کم سطح پر ہو رہی تھی۔ ممکن ہے کہ سرمایہ باہر منتقل کرنے پر ریاست پابندی عائد کر دے، جو ترکی جیسے سرمایہ دارانہ ملک کی جانب سے انتہائی بے چینی پر مبنی اقدام ہوگا۔ اس اقدام سے عارضی طور پر حالات قابو کرنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ معیشت مزید انتشار کا شکار ہو جائے گی۔
جہاں تک مالی صورتحال کی بات ہے، ترکی کے پاس موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس کے پاس نہ تو پیسہ ہے اور نہ ہی سانس لینے کی گنجائش باقی بچی ہے۔ ترکی کی ریاست مزید پیسے چھاپنے پر مجبور ہو گی، جس سے افراطِ زر میں مزید اضافہ ہوگا۔ مستقبل میں حالات ان کے قابو سے باہر ہونے کا خطرہ ہے۔
اردگان کی حکومت مختلف اقدامات لینے کے بیچ ہچکولے کھا رہی ہے، جو محض چار مہینے بعد ناکام پالیسی اپنانے کی طرف لوٹ آئی ہے، یہ ان کی شدید بے چینی کا اظہار ہے۔ معاشی حوالے سے، اردگان خود کو تھوڑی دیر مزید گرم رکھنے کی خاطر بارود کے ڈھیر کے نیچے آگ لگا رہا ہے۔ ایک جانب، شرحِ سود میں کسی قسم کا بھی اضافہ معیشت کے اوپر اور نتیجتاً ترکی کے عام لوگوں پر بہت بڑا دباؤ ڈال دے گا، جس سے حکومتی حمایت میں کمی آئے گی۔ دوسری طرف، کوئی اقدامات نہ اٹھانے کا ناگزیر نتیجہ 2000-01ء کی طرز پر معاشی تباہی کی صورت میں نکلے گا، جو پچھلی حکومت کے گرنے اور اردگان کے اقتدار میں آنے کا باعث بنا۔ اردگان کے لیے تمام اقدامات کے نتائج برے ہی نکلیں گے۔
حالیہ واقعات سے پہلے بھی حکومت کو جن شدید مشکلات کا سامنا تھا، اس سے راہِ فرار حاصل کرنے کے لیے اس نے غیر ملکی مہم جوئیاں شروع کر دی تھیں تاکہ ملکی سطح پر حمایت میں نئی روح پھونک سکے، اور منافعے کمانے کے نئے مواقع ڈھونڈ نکالے۔ ان مہم جوئیوں میں ترکی بڑے سامراجی قوتوں کے بیچ کھیلتا رہا ہے، خاص کر امریکی ریاست اور روس، اور اس کے ساتھ چین اور یورپی یونین بھی۔ ترکی نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے یورپی یونین کے اندرونی بحران کا سہارا بھی لیا ہے۔
ترکی کی سرمایہ داری بھیانک صورتحال سے دوچار ہے اور اردگان، جو خارجہ پالیسی میں ردّ و بدل کر رہا ہے، کی توجہ مستقبل کے حوالے سے کسی لمبی حکمتِ عملی پر مرکوز نہیں ہے۔ وہ محض کسی طریقے سے فوری طور پر حمایت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، خاص کر ایسی حمایت جو پیسوں کی ٹھوس شکل میں موجود ہو۔
اس حوالے سے ارسولا وون ڈر لیئین نے، بطورِ صدر یورپی کمیشن، ترکی اور یورپی یونین کے بیچ مذاکرات کے سلسلے میں ذاتی طور پر انقرہ کا دورہ کیا۔ اجلاس کے دوران، اردگان نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ”بہتر معاشی تعاون اور مزید مالیاتی امداد“ کے بدلے سائپرس کے تنازعے کا حل تلاش کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق یورپی یونین بھی یہی چاہتا ہے، جو اپنے اور ترکی کے بیچ تجارتی آزادی بڑھانے کا خواہشمند ہے۔
اردگان معاشی بد حالی کا شکار ہے اور یورپی یونین کے سامنے مہاجرین کو روکنے کے حوالے سے اپنا کردار دکھا کر بے چینی سے مزید پیسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
سطح کے نیچے پنپتا انقلاب
اردگان اور حکومتی پارٹی ’اے کے پی‘ کے سامنے تمام راستے بند ہو رہے ہیں۔ حکومت جانتی ہے کہ اسے محتاط رہنا پڑے گا۔ اردگان کے ذخائر، معاشی اور سماجی دونوں، کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ خاص کر سماج میں محنت کش اور نچلی درمیانی پرتوں میں اردگان اپنی حمایت کھو رہا ہے، جن کو بڑھتی ہوئی قیمتوں، بے روزگاری اور لاک ڈاؤنز نے بری طرح سے متاثر کیا ہے۔
اگرچہ وباء کے دوران کہنے کی حد تک تو بر طرفیوں پر پابندی لگائی گئی ہے، مگر اس کے باوجود بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، 2020ء کے اندر لیبر قانون کے ’کوڈ 29‘ کے تحت، جو کام کی جگہوں پر نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے پر مزدوروں کو بر طرف کرنے کی اجازت دیتا ہے، 1 لاکھ 70 ہزار لوگوں کو بر طرف کیا گیا۔ یونینز کا دعویٰ ہے کہ کمپنیاں محض اس قانون کا بہانہ بنا کر، بر طرفیوں پر پابندی کے باوجود، لوگوں کو بر طرف کرتی ہیں۔ مزید برآں، ’کوڈ 29‘ کے تحت بر طرف کیے جانے والے محنت کش معاوضے سے محروم کر دیے جاتے ہیں، اور اس کے علاوہ وہ بے روزگاری کا وظیفہ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔
جیسے جیسے بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، ایک نیا معاشی بحران سطح کے نیچے سے عوامی بغاوت کے ابھار کے لیے حالات پیدا کر سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی، ترکی کی ریاست اور میڈیا کے مسلسل پروپیگنڈے کے باوجود بھی حکومت استنبول کی بوغازچی یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک مکمل طور پر کچلنے میں ناکام رہی ہے، جنہوں نے اردگان کی جانب سے تعینات کردہ ریکٹر کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ترکی کا محنت کش طبقہ میدان میں اتر آئے تو کیا کچھ ممکن ہو سکے گا۔
حکومت وقت سے پہلے ہی جبر میں اضافہ کر کے ہر اس ممکن راستے کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے سیاسی انتشار ابھر سکتا ہے۔ جیسا کہ بوغازچی یونیورسٹی میں دیکھنے کو ملا، اگرچہ جبر میں اضافہ کر کے حکومت کو عارضی طور پر سانس لینے کا موقع ملے گا، مگر آنے والے عرصے میں نتیجتاً اس کے استحکام میں کمی آئے گی۔ پھر بھی اردگان کے پاس اس کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے؟
اردگان ہر سطح پر سماج کی تنگ نظر اور رجعتی پرتوں کے جذبات بھڑکا کر اپنی حمایت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں اس نے استنبول کنونشن، جو خواتین پر تشدد کا سدباب کرنے کیلئے عالمی معاہدہ ہے، میں ترکی کی شرکت روک دی۔ یہ اسلامی شدت پسندوں میں اپنی حمایت کو ہوا دینے کی ایک کوشش تھی، اس نے کنونشن کے بارے میں کہا کہ یہ ’روایتی اقدار اور خاندانی ادارے‘ پر حملہ ہے اور ’ہم جنس پرستی عام کرنے‘ کی کوشش ہے۔
ترکی کا سرمایہ دارانہ بحران لاکھوں خواتین کو گھروں میں مقید رہنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ترکی میں صنفی بنیادوں پر قتل میں شدت آئی ہے، اور زندگی کئی اعتبار سے نا قابلِ برداشت بن رہی ہے، خاص کر غریب اور محنت کش خواتین کے لیے۔ اردگان کے اقدامات تنگ نظر پرت کے بیچ اس کی حمایت بڑھا سکتے ہیں، مگر اس عمل میں وہ آبادی کی اکثریت سے الگ ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت اس کو مزید تنہا کر دے گی۔
اب حکومت بائیں بازو کی پارٹی ایچ ڈی پی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی)، جسے کرد اقلیت کی بڑی حمایت حاصل ہے، پر مکمل پابندی عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جو اب تک اس کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات میں سب سے زیادہ پر خطر اور انتہائی بے تابی پر مبنی اقدام ہوگا۔ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اس پارٹی کو نیم قانونی حیثیت حاصل ہے (جس کا صدارتی امیدوار صلاح الدین دمیرتاش 2016ء سے جیل میں قید ہے)، مگر اس کے باوجود پارٹی نے 2018ء کے انتخابات میں 10 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ ایچ ڈی پی کے مشہور سیاست دانوں کو تسلسل کے ساتھ قید کیا جاتا رہا ہے۔ قید کیا جانے والا حالیہ ممبر پارلیمنٹ عمر فاروق ہے، جس کو اپریل کے اوائل میں گرفتار کیا گیا اور جسے ”دہشت گردی کی معاونت کرنے“ کے جرم میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ابھی کے لیے، ایچ ڈی پی پر پابندی لگانے کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہے کیونکہ آئینی عدالت نے اس قانون کے حوالے سے کچھ نقص سامنے لائے ہیں۔ یہ کوئی ’آزاد عدلیہ‘ نہیں ہے جو جمہوری و ترقی پسند ترقی کا خواب اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کی بجائے یہ تاخیری حربے ہیں تاکہ حکومت کو یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت فراہم کیا جا سکے۔
مستقبل میں ایک بڑے دھماکے کیلئے حالات تیار ہو رہے ہیں جس میں ترکی کے اندر برسوں سے جمع ہونے والا آتش گیر مواد بھڑک اٹھے گا۔ سوال یہ نہیں کہ مذکورہ بالا عناصر میں سے کیا کوئی عنصر تباہی کا باعث بن سکتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ کب اور کونسا سب سے پہلے تباہی کی راہ ہموار کرے گا۔ آنے والے عرصے میں ترکی کا طاقتور محنت کش طبقہ دوبارہ جاگتے ہوئے دکھائی دے گا۔ جس کی تعداد اور قوت میں پچھلی دہائیوں کے دوران بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں یہی فریضہ درپیش ہے کہ مستقبل کی تیاری کے لیے ترکی کے اندر مارکسی پروگرام سے لیس ایک انقلابی تنظیم تعمیر کی جائے، جو محنت کش طبقے کے لیے ترک سرمایہ داری کی بوسیدہ عمارت ہمیشہ کے لیے مسمار کرنے کا اوزار ثابت ہو سکے۔