کیا ہی نظارہ تھا۔۔۔جب ووٹ ڈالنے کا وقت ختم ہونے پر خبریں آنے لگیں کہ میکرون صدارتی انتخابات جیت چکا ہے۔ وہ اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر پیرس کی گلیوں میں چل رہا تھا، ان کا ساتھ نوجوانوں کا ایک گروہ بھی دے رہا تھا، یہ تاثر دینے کے لیے کہ آنے والی نسلیں بھی اس کی حمایت کریں گی۔ اور اپنی تقریر میں اس نے اعلان کیا کہ وہ مزید ”امیدوار“ نہیں رہا بلکہ ”تمام فرانسیسیوں کا صدر“ بن چکا ہے۔ یہ سب باتیں ان فرانسیسی محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑی اکثریت کو کتنی کھوکھلی معلوم ہوئی ہوں گی جنہوں نے اسے ووٹ نہیں دیا اور اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نتائج آتے ہی کمپنیوں کے بورڈ رومز میں سکون کی سانسوں کو محسوس کیا جا سکتا تھا، محض فرانس میں نہیں بلکہ پورے یورپ اور دیگر ممالک میں بھی۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے تجزیہ کیا، ”جب اتوار کے دن صدارتی انتخابات کے آخری مرحلے میں ایمانوئل میکرون نے اپنے انتہائی دائیں بازو کی حریف میرین لی پین کے اوپر بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی تو فرانس کے یورپی اور نیٹو اتحادیوں نے سکون کی سانس لی۔ اگلے پانچ سالوں تک یورپی یونین میں فرانس کے انتہائی اہم کردار اور روس کے خلاف یوکرین کی حمایت میں نیٹو کا ساتھ دینے کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔۔۔“
مختلف ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم نے کثرت سے مبارکباد کے پیغامات بھیجے۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس میشل نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”شاباش ایمانوئل۔ اس ہنگامہ خیز دور میں ہمیں مضبوط یورپ اور ایسے فرانس کی ضرورت ہے جو یورپی یونین کو مزید خود مختار اور مزید سٹریٹیجک بنانا اپنا فرض سمجھتا ہو۔“ بورس جانسن نے بھی نتائج کو سراہا۔ جرمن وزیر خزانہ کرسچن لنڈنر نے اسے یورپ کی فتح قرار دی۔ اطالوی وزیراعظم ماریو دراغی کا کہنا تھا کہ میکرون کا دوبارہ منتخب ہونا ”تمام یورپ کے لیے خوشخبری ہے۔“
جیسا کہ رائٹرز نے تجزیہ کیا، ”یورپی یونین کے قائدین نے فرانسیسی صدر میکرون کو مبارکباد پیش کرنے میں دیر نہیں لگائی جب اتوار کے دن اس نے انتہائی دائیں بازو کے حریف کو ہرا دیا، جو اس بات کا اظہار ہے کہ وہ سب یورپ کے سب سے اہم ممالک میں سے ایک کے اندر سیاسی دھچکا نہ لگنے پر خوش تھے۔“ یورپی مرکزی بینک کی صدر کرسٹین لیگارڈ نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”اس غیر یقینی دور میں مضبوط قیادت انتہائی اہم ہے۔“
میکرون فرانسیسی عوام کا نمائندہ نہیں
جب یورپ بھر میں سرمایہ دار طبقے کے اہم سیاسی نمائندگان کی جانب سے اس قسم کی خوشی اور حمایت کا بکثرت اظہار دیکھنے کو ملے تو یہ اس بات کا صاف اظہار ہے کہ میکرون بالکل بھی تمام فرانسیسی عوام کا نمائندہ نہیں ہے۔ وہ بینکوں اور فرانسیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کارندہ ہے، وہ ”امیروں کا صدر“ ہے جیسا کہ فرانس میں کئی لوگ اسے سمجھتے ہیں۔
تو پھر وہ دوسری مرتبہ جیتنے میں کیسے کامیاب ہوا؟ کروڑوں فرانسیسی محنت کشوں اور نوجوانوں کے نزدیک اس کا دورِ اقتدار اچھا نہیں تھا۔ 2017ء میں اس نے ”روزگار سب کے لیے“ کا وعدہ کیا تھا۔ ظاہر ہے سب سے اس کی مراد سب امیر افراد تھے! اس کے اہداف میں سرمایہ کاری بڑھانا اور معاشی بڑھوتری کی مثال قائم کرنا شامل تھا۔ عملی طور پر اس کا مطلب سرکاری اخراجات میں دیوہیکل کٹوتی کرنا تھا، اس سلسلے میں ہزاروں سرکاری محنت کشوں کو بھی برطرف کیا جانا تھا۔ اس کے اہداف میں کام کی جگہوں کے اندر قواعد و ضوابط میں نام نہاد لچک پیدا کرنا بھی شامل تھا، جس کا مطلب محنت کشوں کے حقوق پر حملہ کرنا تھا۔
اس کی اپنائی ہوئی پالیسیوں نے محنت کش عوام کو شدید متاثر کیا، جن میں پنشن کے اوپر مسلسل اور نہ تھمنے والے حملے بھی شامل تھے، تاکہ فرانسیسی محنت کشوں کو ریٹائر ہونے سے قبل زیادہ عرصے کے لیے کام پر مجبور کیا جا سکے۔ مالیاتی سرمائے کے اس نمائندے کے خلاف پائی جانے والی نفرت اس وسیع پیمانے پر پھیل گئی تھی کہ اس کی حکومت کے ایک سال کے اندر اندر اس کا اظہار پیلی واسکٹ کی بڑی تحریک میں دیکھنے کو ملا۔
اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ سنٹر کی جیت ہوئی ہے اور فرانسیسی لوگ اعتدال اور امن چاہتے ہیں۔ مگر یہ سراسر جھوٹ ہے۔ پرانا سنٹر منظرنامے سے غائب ہو چکا ہے، جیسا کہ ماضی میں طاقتور قوتیں رہنے والی سوشلسٹ پارٹی اور ریپبلکنز کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے، جو دونوں فرانسیسی سیاست کے اہم ستون ہوا کرتے تھے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد آنے والے صدور کی اکثریت کا تعلق انہی سے تھا۔ حالیہ انتخابات میں یہ دونوں پارٹیاں اتنے برے طریقے سے ناکام ہوئی ہیں کہ انہوں نے 5 فیصد ووٹ بھی نہیں لیے، جو لینے کی صورت میں انتخابات کے اخراجات ریاست مہیا کرتی ہیں۔
اشرافیہ کے خلاف بڑھتا غم و غصّہ
انتخابات کے دو مرکزی امیدواروں کی مقابلہ بازی درحقیقت زمینی حقائق کو دھندلا کرتی ہے۔ فرانس کے طاقتوں کے حقیقی توازن کا اظہار پہلے مرحلے میں ہوا تھا، اور فرانس کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ان نتائج پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
پہلے مرحلے میں میکرون محض 28 فیصد ووٹ حاصل کر کے جیتا۔ لیکن 28 فیصد عوام نے ووٹ ڈالا ہی نہیں تھا، اور اگر احتجاجاً ڈالے جانے والے بیلٹ پیپرز کو شمار کیا جائے جس میں کسی امیدوار کو نہیں چنا گیا تو یہ تعداد 34 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ (یعنی ووٹ ڈالنے کی اہل 34 فیصد آبادی نے کسی بھی امیدوار کو چنا ہی نہیں۔) صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 50 سال کا کم ترین ٹرن آؤٹ دیکھنے کو ملا۔ ماضی میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوا کرتی تھی، جو 80 فیصد سے زیادہ ہوتی تھی اور حتیٰ کہ 1974ء میں 87.3 فیصد اور 2007ء میں 84 فیصد تھی۔ اب تمام سیاسی پارٹیاں آبادی کے ایک بڑے حصے کے نزدیک اپنی مقبولیت کھو رہی ہیں۔
چنانچہ میکرون کی حقیقی حمایت (جو اس نے پہلے مرحلے میں حاصل کی) فرانس میں ووٹ کرنے کی اہل آبادی کا محض 20 فیصد ہے، جو اس بات کی تصدیق ہے کہ فرانسیسی آبادی کی بھاری اکثریت اسے اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے۔ پہلے مرحلے میں ووٹ نہ ڈالنے والوں کی تعداد 35 سال سے کم عمر کے افراد میں اور بھی زیادہ تھی، جو 40 فیصد سے زیادہ تھی، جو پچھلے صدارتی انتخابات سے بھی زیادہ تعداد ہے جس میں اس عمر کے تقریباً ایک تہائی نے ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ آنے والی نسلوں کی حمایت کے دعوے کے برعکس، نوجوان میکرون سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں جو کچھ دیکھنے کو ملا، اب میڈیا میں بالکل اس کے برعکس تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ قومی اتحاد کا اظہار نہیں بلکہ سماج کا دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم ہونے کا واضح عمل ہے، جہاں اشرافیہ کے حوالے سے عمومی عدم اعتماد پایا جا رہا ہے۔ یہ سماجی استحکام کی بجائے بڑھتے ہوئے عدم استحکام کا اظہار ہے، جو آنے والے عرصے میں ابھر کر سامنے آئے گا۔
دوسرے مرحلے سے قبل پاسکل لامی، جو ستمبر 2005ء سے اگست 2013ء تک عالمی ادارہ تجارت کا ڈائریکٹر جنرل رہا ہے اور اس سے پہلے یورپی یونین کا ٹریڈ کمشنر رہا تھا، نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر شدید پریشانی کا اظہار کیا کہ ووٹ ڈالنے کی اہل 57 فیصد آبادی نے ان پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے جو اس کے مطابق انتہائی دائیں یا انتہائی بائیں بازو سے وابستہ تھیں۔ وہ فرانسیسی سماج میں موجود حقیقی تقسیم کو دیکھ پا رہا ہے، اور اس نے اس حوالے سے بھی شدید پریشانی ظاہر کی کہ اس نے عالمی معیشت کی اتنی پریشان کن حالت پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
یہ فرانسیسی اور یورپی بورژوازی کے سنجیدہ نمائندے کے خیالات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسرا مرحلہ کافی مختلف ہو سکتا تھا، یعنی یہ بائیں بازو اور میکرون کے بیچ کا مقابلہ ہو سکتا تھا۔ محض مٹھی بھر ووٹوں سے لی پین کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس نے مجموعی ووٹوں کا 23.2 فیصد حاصل کیا (جو کل ووٹنگ آبادی کا محض 16 فیصد ہے)، جسے 22 فیصد ووٹ حاصل کرنے والا میلنشون ہرا سکتا تھا اگر بائیں بازو نے ایک امیدوار کھڑا کیا ہوتا۔ کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی دو نسبتاً چھوٹی پارٹیوں (نیو اینٹی کیپیٹلسٹ پارٹی اور ورکرز سٹرگل) نے مجموعی طور پر 3.7 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اگر انہوں نے اپنے حامیوں سے میلنشون کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کی ہوتی تو کافی مختلف نتائج دیکھنے کو ملتے۔
دائیں بازو میں لی پین کامیاب ہوئی، جس نے پچھلے انتخابات کی نسبت کافی بہتری دکھائی۔ اگر اس کا موازنہ 2002ء سے کیا جائے تو تب اس کے باپ ژان میری لی پین نے دوسرے مرحلے میں ژاک شیراک کے 82 فیصد کے مقابلے میں 18 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، اور 2017ء کے انتخابات میں میرین لی پین نے میکرون کے 66 فیصد کے مقابلے میں 34 فیصد ووٹ حاصل کیے، حالیہ 42 فیصد ووٹ ماضی کی نسبت کافی بہتری ہے۔ مگر یہ نتائج زمینی حقائق کی وضاحت نہیں کرتے۔
دو بورژوا امیدوار
بائیں بازو کی ناکامی کے باعث فرانسیسی عوام کے سامنے دو بورژوا امیدوار آئے، ایک نام نہاد لبرل اور امیروں کا نفرت انگیز نمائندہ، اور دوسرا مہاجرین کے خلاف اشتعال انگیزی کے لیے مشہور نسل پرست اور قوم پرست۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ میکرون نے اپنی حکومت میں خود بھی مہاجر مخالف پالیسیاں اپنائی ہیں۔ 2017ء کے انتخابات کی مہم میں اس نے سرحدوں پر موجود محافظوں کی تعداد بڑھانے، مہاجرین کے لیے فرانسیسی قومیت لینا مزید دشوار کرنے، اور ملک میں پناہ لینے کے درخواست گزاروں میں سے مسترد ہونے والوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کے وعدے کیے تھے۔ ”معقول، شائستہ، مہذب“ فرانس کے نمائندے کی حقیقت یہی ہے!
ان امیدواروں کے ہوتے ہوئے اکثریت نے یا ووٹ ڈالا ہی نہیں، یا دل پر پتھر رکھ کر ووٹ ڈالا۔ دوسرے مرحلے سے قبل کئی انٹرویوز لیے گئے، خصوصاً نوجوانوں سے، جن کا کہنا تھا کہ یا وہ ووٹ ڈالیں گے نہیں یا پھر دو امیدواروں میں سے کم برے کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لی پین کو پڑنے والے ووٹوں (1 کروڑ 33 لاکھ) سے زیادہ تعداد (1 کروڑ 36 لاکھ) نے ووٹ ڈالا ہی نہیں۔ مزید برآں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، 30 لاکھ (8.5 فیصد) سے زائد لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے چلے تو گئے مگر احتجاجاً کسی بھی امیدوار کو منتخب نہیں کیا۔
ہمیں لی پین کے ووٹروں کا بھی قریب سے تجزیہ کرنا ہوگا۔ ان میں سے ایک پرت ایسی تھی جس نے لی پین کو ووٹ دینے کی بجائے میکرون کے ردعمل میں ووٹ ڈالا، بالکل اسی طرح جیسے لی پین کے ردعمل میں میکرون کو ووٹ دیا گیا۔ لی پین اس سے واقف تھی اور اسی لیے انتخابات کی مہم میں محنت کش طبقے کے مسائل پر بات کرنے لگی جیسے میکرون کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر 65 تک بڑھانے کے منصوبے اور مہنگائی کے خلاف بات کرنا۔ کئی فرانسیسی ووٹروں نے اسی وجہ سے اسے ووٹ دیا۔
درحقیقت، ایک رائے شماری کے مطابق انکشاف کیا گیا کہ دوسرے مرحلے میں میکرون کے ووٹروں میں زیادہ تعداد انتظامیہ اور پروفیشنل پرتوں کی تھی، اور وہ جو ماہانہ 3 ہزار یورو سے زیادہ کماتے ہیں، جبکہ لی پین کے ووٹروں کی اکثریت بلو اور وائٹ کالر محنت کشوں پر مشتمل تھی، اور وہ جو ماہانہ 1 ہزار 250 یورو سے کم کماتے ہیں۔
محنت کش طبقے سے وابستہ ووٹروں کو میلنشون اپنی جانب تو مائل کر سکتا تھا، مگر وہ کسی بھی صورت میکرون کے حق میں نہیں تھے۔ فرانس کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام سے کئی انٹرویوز لیے گئے، جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2017ء میں میکرون کو ووٹ ڈالا تھا مگر دوبارہ ایسا ہر گز نہیں کریں گے! اگر میلنشون زیادہ لڑاکا منشور کے ساتھ میدان میں آتا، اور اگر بایاں بازو متحدہ محاذ بنانے میں کامیاب ہوتا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے مرحلے میں میکرون کو میلنشون شکست سے دوچار کرتا۔ مگر ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا، اور اب ہمیں موجودہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
میکرون نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے، مگر اسے جون میں پارلیمانی انتخابات کا سامنا ہے، جس کے نتائج اس کے لیے کافی مختلف نکل سکتے ہیں۔ وہاں بورژوا لبرل اور دائیں بازو کے بورژوا قدامت پرست کے بیچ ناگوار مقابلہ نہیں ہوگا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ حکومت قائم ہوگی جس پر میکرون کو انحصار کرنا پڑے گا۔
عموماً نیا منتخب شدہ صدر پارلیمنٹ میں اکثریت جیتنے کا اہل ہوتا ہے کیونکہ اس میں ووٹ نہ ڈالنے والوں میں سے زیادہ تعداد صدارتی انتخابات میں اس کو ووٹ نہ ڈالنے والوں کی ہوتی ہے۔ مگر دائیں یا بائیں بازو کے امیدوار کو ووٹ کرنے والے 57 فیصد کے غم و غصّے کو دیکھتے ہوئے، یہ یقین سے کہنا ممکن نہیں کہ میکرون کو آسانی سے پارلیمانی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اسے منقسم پارلیمنٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو اس کی واضح کمزوری میں مزید اضافہ کرے گی۔
حکمران طبقے کے تجزیہ کار انتہائی پریشان ہیں۔ وہ میکرون کو لبرل سیاست کے نئے عہد کے رہنما کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ مگر درحقیقت اس نے دائیں اور بائیں بازو کی ان روایتی پارٹیوں کو برباد کر دیا ہے جن کے باعث نظام کا استحکام قائم تھا، اور اب ان کے مطابق اس نے اپنی حیثیت بھی برباد کر دی ہے، جس کے باعث اس کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سے بڑھا کر 65 سال کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مزدور دشمن پالیسیاں لاگو کرنا مزید مشکل ہوگا۔ پہلے مرحلے کے بعد، جب ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے اسے شدید غم و غصّے کا سامنا تھا، اس نے لی پین کو شکست دینے کی امید پر موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ محض 64 سال تک اسے بڑھائے گا۔ مگر اب وہ وہی اقدامات کر پائے گا جس کا مطالبہ اس سے سرمایہ دار طبقہ کرے گا۔
فرانسیسی تاریخ کا انتہائی ہنگامہ خیز دور
مطلب یہ کہ میکرون کے دوسرے دورِ اقتدار میں امن اور سماجی استحکام آنے کی بجائے پہلے دورِ اقتدار سے بھی بڑی عدم اطمینان کی لہر دیکھنے کو ملے گی۔ فوری ہنی مون (خوشحالی) کا عرصہ یا سرے سے ہوگا ہی نہیں، یا اگر ہوگا بھی تو نہایت مختصر۔ پنشن کے مسئلے کے علاوہ مہنگائی کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ مارچ کے مہینے میں افراطِ زر 4.5 فیصد تک پہنچ گیا، جو 1985ء کے بعد سے بلند ترین سطح ہے، اور آسمان سے باتیں کرتی گیس، بجلی اور تیل کی قیمتیں فرانس بھر کے لاکھوں محنت کش گھرانوں کو شدید متاثر کر رہی ہیں۔ افراطِ زر کے اثرات پر قابو پانے کی کوشش میں میکرون نے توانائی کی قیمتوں کی آخری حد معین کر دی، مگر تمام سنجیدہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بہت مہنگا پڑ رہا ہے اور آنے والے عرصے میں حکومت کو اس کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔
2018ء میں، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت ”پیلی واسکٹ“ کی بغاوت کے لیے چنگاری ثابت ہوئی۔ یہ ان تحریکوں کی محض ایک ہلکی جھلک تھی جو آنے والے عرصے میں دیکھنے کو ملیں گی۔ مستقبل کی متوقع تحریکوں کی ایک جھلک انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد فوری طور پر ابھرنے والے نوجوانوں کے احتجاج تھے، جب پیرس کی گلیوں میں وہ 20 ہزار کی تعداد میں نکلے اور طلبہ نے ”نہ میکرون، نہ ہی لی پین“ کا نعرہ لگاتے ہوئے یونیورسٹی آف پیرس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
میکرون کے دوسرے دورِ حکومت میں وہ سکون بالکل بھی نہیں ملنے والا جس کی بورژوازی امید کر رہی تھی۔ درحقیقت، فرانس اپنی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز دور میں داخل ہو رہا ہے۔ فرانسیسی محنت کش اور نوجوان عظیم انقلابی روایات کے وارث ہیں؛ ان کی ماضی 1789ء کے انقلاب، 1871ء کے پیرس کمیون، 1930ء کی دہائی میں کارخانوں پر قبضے اور مئی 1968ء میں تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تمام روایات آنے والے عرصے میں انتقام کے شعلے بن کر ابھریں گے۔
مگر انتخابات کے محاذ پر کیا ہوگا؟ ایک چھے سالہ بچہ بھی یہ بات جانتا ہے کہ میکرون کا دوبارہ حکومت میں آنے کا مطلب ہے کہ اس کی حمایت میں مزید کمی ہوگی۔ وہ فرانسیسی سماج کو مزید منقسم کرنے کی راہ ہموار کرے گا، جہاں دائیں اور بائیں بازو کے رجحانات میں اضافہ ہوگا۔ ایسے حالات میں لی پین اگلی مرتبہ جیت بھی سکتی ہے، جو فرانسیسی اور یورپی اشرافیہ کے لیے سنجیدہ مسئلہ بنے گا اور شائستہ خواتین و حضرات کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ لی پین حکومت میں آ کر یورپی یونین کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، جو یورپی شراکت داروں کی بجائے فرانس کے قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔
یورپی سرمایہ دار تمام یورپی ممالک میں فلاحی ریاست کے خاتمے کی پالیسی جاری رکھنا چاہتے ہیں، جس کے تحت باقی ماندہ ریاستی ملکیت کی نجکاری کی جائے گی، نجی مفادات کو فروغ دینے کے لیے شعبہ صحت کو برباد کیا جائے گا، اور ماضی میں محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والے ثمرات کو عمومی طور پر چھین لیا جائے گا، مگر اس عمل میں وہ طبقاتی جدوجہد اور سماجی عدم استحکام کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ ابھی کے لیے میکرون ان کا کارندہ ہے۔
لی پین بھی فرانسیسی محنت کش طبقے کی دوست نہیں ہے، اور اگر وہ حکومت میں کبھی آئی تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی۔ وہ فرانسیسی محنت کشوں سے کیے گئے وعدے بہت جلد ترک کرے گی اور محنت کشوں کے حقوق اور سرکاری اخراجات وغیرہ کے حوالے سے میکرون جیسی ہی پالیسیاں اپنائے گی، مگر ان کے اوپر وہ نسل پرست بیان بازی اور کچھ مہاجر مخالف اقدامات کا مصالحہ بھی ضرور چھڑکے گی۔
محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کے بیچ غم و غصّے کا احساس ہوتے ہی حالیہ انتخابات کی مہم میں اس نے پنشن اور افراطِ زر جیسے مسائل پر بات کرنی شروع کی۔ اس کے نعروں میں سے ایک تھا ”فرانسیسیوں کو ان کا پیسہ واپس کرو“ اور اس نے افراطِ زر سے لوگوں کی حفاظت کرنے اور ٹیکسوں میں کٹوتی کرنے کا وعدہ کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ وعدے اس نے نسل پرستانہ مہاجر مخالف بیان بازی کرتے ہوئے کیے۔ اس نے غیر ملکیوں کے داخلے کو مزید سخت کرنے، ”معاشی حب الوطنی“، ”معقول اور مناسب“ تحفظاتی پالیسیوں، رہائش اور روزگار میں فرانسیسیوں کو ترجیح دینے کی بات کی، اور اس نے مہاجرین کی سہولیات میں کٹوتی کرنے کے ساتھ ساتھ پردے پر پابندی کی بات بھی کی۔ اس نے فرانسیسیوں کو یہ پیغام دیا کہ فرانس کے مسائل مہاجرین کے بڑی تعداد میں موجود ہونے کی وجہ سے ہیں، اور اسی لیے فرانسیسی محنت کشوں کے مفادات کا دفاع کرنے کے لیے ان مہاجرین پر قابو پانا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا ہدف فرانسیسی محنت کشوں کو تقسیم کرنا ہے تاکہ بطورِ قوت ان کو کمزور کیا جائے۔
اشرافیہ اس کی قوم پرستی کو یورپی سرمائے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ فرانسیسی صنعت کی حفاظت کرنے، یورپی یونین کے قوانین کی بجائے فرانسیسی قانون کو ترجیح دینے، اور نیٹو کے مرکزی کمانڈ سے اخراج کرنے کے حوالے سے اس کے مطالبات نے یورپ بھر کے سنجیدہ بورژوا تجزیہ کاروں اور حکومتوں کو پریشان کر دیا ہے۔ جرمنی کے ساتھ فرانس بھی یورپی یونین کا اہم کھلاڑی ہے، اور اگر فرانس میں ایسے حالات پیدا ہوں جیسے برطانیہ میں بورس جانسن نے کیے، یا جیسے امریکہ میں ٹرمپ نے کیے، تو یورپی یونین کی قیادت میں پھوٹ پڑنے کے امکانات پیدا ہوں گے۔ لی پین کی جیت سے وہ انہی باتوں کی توقع کر رہے تھے، مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، اسے محض ملتوی کیا گیا ہے۔
فرانسیسی بائیں بازو کے فرائض
بہرحال، سماج کے پولرائزیشن کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے انتخابات میں فقط لی پین کی جیت ہو سکتی ہے۔ ہم نے حالیہ انتخابات میں بھی بائیں بازو کی جیت کے مواقع ضائع ہوتے دیکھے۔ بایاں بازو آنے والے عرصے میں مزید طاقتور ہوگا۔ مگر اس کی طاقت کا دار و مدار اس پر نہیں ہے کہ انتخابات کے حوالے سے اوپری سطح پر چالاکی کے ساتھ سازشیں کریں، اگرچہ تمام بائیں بازو کا حقیقی متحدہ محاذ آگے کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔
ابھی کمیونسٹ پارٹی اور این پی اے کے بیچ پارلیمانی انتخابات میں میلنشون کا ساتھ دینے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ یہ درست طریقہ ہوگا، اور یہ میکرون کی صفوں میں پریشانی کا باعث بن رہا ہے کیونکہ انہیں بائیں بازو سے واضح خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ سوال بھی ابھرنا لازم ہے کہ ان نسبتاً چھوٹی پارٹیوں نے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں میلنشون کی حمایت کیوں نہیں کی؟ بلاشبہ اتحاد کی کوششوں میں موقع پرستی کا عنصر موجود ہے، کیونکہ پارلیمانی انتخابات اکیلے لڑنے کی صورت میں چھوٹی پارٹیوں کی کامیابی زیادہ مشکل ہوگی۔
آنے والے عرصے میں فرانس کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں بائیں بازو کی طاقت میں اضافہ کریں گی۔ انتخابات کے محاذ پر راستہ نہ پا کر فرانسیسی محنت کش طبقہ اپنی قوتوں کے اوپر انحصار کرنے پر مجبور ہوگا۔ ہمیں ہڑتالیں اور احتجاج دیکھنے کو ملیں گے، حتیٰ کہ ایک مرحلے پر کارخانوں کے اوپر قبضے بھی کیے جائیں گے۔ نوجوانوں کی بھی دیوہیکل تحریکیں دیکھنے کو ملیں گی اور طلبہ یونیورسٹیوں پر قبضے کریں گے۔ یونیورسٹی آف پیرس کا حالیہ واقعہ آنے والے کئی گنا بڑے واقعات کی ہلکی سی جھلک ہے۔
اگر میلنشون حقیقی سوشلسٹ منشور اپنا لیتا، جس میں محنت کشوں کے اختیارات کے تحت قومیانا اور بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں پر قبضہ کرنا شامل ہوتا، تو وہ فرانسیسی محنت کشوں اور نوجوانوں کو وضاحت کر پاتا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے، سب کے لیے مناسب اجرت مقرر کرنے، سب کے لیے رہائش کا انتظام کرنے، اور سب کو صحت کی مکمل مفت سہولیات دینے کے لیے درکار وسائل ہمارے پاس موجود ہیں۔
اس قسم کا منشور لی پین کی نسل پرستی اور تعصب کو چیر کے رکھ دیتا اور سماج کو اوپر سے نیچے تک مکمل تبدیل کرنے کے لیے فرانس کے اندر تمام محنت کشوں کو متحد کرتا۔ یہ ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے لاکھوں افراد کو بھی اپنی جانب مائل کرتا۔ اس سے یورپ بھر کے تمام محنت کش بھی متاثر ہوتے جنہیں اپنے فرانسیسی بہن بھائیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
بد قسمتی سے، میلنشون نے ایسا منشور پیش نہیں کیا۔ وہ سرمایہ داری کی حدود کے اندر ہی حل تلاش کرتا رہتا ہے۔ اگر وہ ایسے ہی چلتا رہا تو دائیں بازو کو مزید طاقتور بنانے کا باعث بنے گا۔
ان حالات میں ہمارا فرض ہنسنے یا رونے کا نہیں بلکہ سمجھنے کا ہے۔ فرانس کے اندر محنت کشوں اور نوجوانوں کی طاقتور تحریک تعمیر کرتے ہوئے سماج کو یکسر بدل دینا ممکن ہے۔ مگر اس کا انحصار محنت کش طبقے کی قیادت پر ہے، جو ابھی تک محض انتظار ہی کر رہی ہے۔ محنت کشوں کو درپیش مسائل کا حل فقط مارکس وادیوں کے پاس ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت کم تعداد میں ہیں۔ البتہ آنے والے عرصے میں ہمارے نظریات کی مقبولیت بڑھنے کی راہ مزید ہموار ہوگی، خصوصاً نوجوانوں کے بیچ، اور محنت کش طبقے کی پرتوں کے بیچ بھی۔ چنانچہ، ہمارا فوری فریضہ حقیقی مارکسزم کی قوتوں کی تعمیر کرنا اور فرانس کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے بیچ طاقتور انقلابی رجحان کے ابھار کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں!