حالیہ G7 اقوام کے اجلاس کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی عالمی سٹیج پر واپسی اور چین کے ابھار کو روکنے کی کوشش قرار دیا جا رہا تھا، اس حوالے سے اس اجلاس کی کافی چرچا کی گئی۔ لیکن تمام تر دعووں کے برعکس سربراہی اجلاس نے مغربی سامراج کے انحطاط اور عدم اتحاد پر مہر ثبت کر دی۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس اجلاس میں جو بائیڈن نے G7 اقوام کو ایک واضح مقصد کے لئے اکٹھا کیا۔ مقصد یہ تھا کہ چین کو دکھایا جائے کہ ”مغربی جمہوریتیں“ ایک بے داغ پرچم کے نیچے متحد ہیں۔ لیکن مغربی سامراج کا شیرازہ اس قدر بکھر چکا ہے کہ اجلاس میں ہر طرف صرف غلاظت ہی غلاظت دکھائی دی۔
امریکہ اور چین کی لڑائی سرمایہ داری کے مستقبل کے حوالے سے مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ پورے نظام پر یہ سوال بھوت بن کر منڈلا رہا ہے۔ امریکی سامراج کسی صورت اپنے تسلط کے ایک سنجیدہ مد مقابل کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن چین کے انتہائی سنجیدہ مد مقابل ہونے کی وجہ سے ہی اس کا کچھ بگاڑا بھی نہیں جا سکتا۔
چین اب ایک دیو ہیکل طاقت بن چکا ہے اور اس کی معیشت امریکہ اور امریکی سامراج کے اتحادیوں میں اتنی مدغم ہو چکی ہے کہ اسے تنہا کیا ہی نہیں جا سکتا۔
پچھلے ہفتے G7 سربراہی اجلاس سے پہلے امریکی سینیٹ کے اکثریتی قائد چک شومر نے امریکہ کو درپیش مسئلے کا خلاصہ کیا کہ ”دوسری عالمی جنگ کے بعد آج دنیا میں جتنی مسابقت ہے اتنی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اگر ہم کچھ نہیں کریں گے تو بطور غالب سپر پاور ہمارے دن گنے جا چکے ہیں۔“
امریکہ کو کوئی امید نہیں کہ چین کو ڈرا دھمکا کر اطاعت پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اس لئے وہ جمہوریت کی عظیم قوتوں کو اکٹھا کر رہا ہے تاکہ یہ تائثر قائم کیا جائے کہ مغرب آج بھی مضبوط ہے اور اس کی بنیاد آزادی، انسانی حقوق اور ظاہر ہے چین کے ساتھ تجارتی جنگیں ہیں۔
یہ امید لگائی جا رہی تھی کہ ویتنام جیسے ممالک اس اقدام سے حوصلہ پکڑتے ہوئے امریکی حلقہ اثر میں زیادہ ٹھوس انداز میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح چین کو روکا جا سکے گا۔ اس لئے اس ہفتے G7 میں چار اضافی ممالک آسٹریلیا، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور انڈیا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
عالمی انتشار
امریکی لائحہ عمل کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ اس سربراہی اجلاس میں امریکہ کو دوبارہ سے پوری دنیا کے حقیقی قائد کے طور پر لانچ کیا جائے۔۔نام نہاد ”قوانین کی بنیاد پر عالمی نظم“ کا محافظ۔۔کیونکہ اس سے پہلے وقتی طور پر ٹرمپ کی قیادت میں پوری دنیا میں ”نظم“ قائم رکھنے والا ملک ہی تخریب کاری کی وجہ بن رہا تھا۔
”قوانین کی بنیاد پر عالمی نظم“ کا فائدہ امریکہ کو ہو گا کیونکہ ظاہر ہے تمام قوانین موجودہ سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لئے ہیں۔ ان قوانین نے ہمیشہ موجودہ غالب سامراج کو فائدہ پہنچایا ہے، آج بھی پہنچا رہے ہیں اور اس طرح چین کا راستہ روکا جا سکے گا۔
عمومی طور پر، اگر آپ ”قوانین کی بنیاد پر عالمی نظم“ کو دوبارہ ایک اجلاس میں لانچ کرنے جا رہے ہیں، تو کم از کم اس بات کا خیال تو لازماً رکھا جانا چاہئیے نا کہ آپ کا میزبان ایک ایسا ملک تو نہ ہو جو عالمی قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑانے میں مصروف ہو، جو کہ برطانیہ اس وقت کر رہا ہے۔
جب G7 میٹنگ چل رہی تھی تو اس وقت بورس جانسن دھمکی دے رہا تھا کہ وہ حال ہی میں یورپی یونین کے ساتھ دستخط شدہ شمالی آئرلینڈ پروٹوکول یکطرفہ طور پر توڑ دے گا۔
خود بریگزٹ مغرب کے عدم اتحاد اور نااہلی کا دیو ہیکل اشتہار بن چکا ہے۔ جانسن جس شمالی آئرلینڈ پروٹوکول کو نظر انداز کرنے کی دھمکی دے رہا ہے وہ ”متحد“ مملکت کے وجود کے لئے جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔
ان مکاریوں سے پیدا کردہ غصے کے اثرات G7 میٹنگ میں بھی پڑے اور ہر مسئلہ اس فساد کے نیچے دب گیا۔ فرانسیسی صدر میکرون نے کھلم کھلا جانسن پر تنقید کی اور جرمنی کی سربارہ مملکت اینجیلا مرکل نے تو اس سے سلام کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ یقینا چین اس متحد مغرب کے سامنے کانپ رہا ہو گا!
ویکسین سفارت کاری
یہ مسئلہ تو گھمبیر تھا ہی لیکن اس کے ساتھ حال ہی میں برطانوی حکومت نے غیر ملکی امدادی بجٹ میں بھی دیو ہیکل کٹوتی کر دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی کلیدی کورونا وباء امداد انڈیا کو نہیں پہنچ رہی۔۔ایک ایسا ملک جو نہ صرف ان امداد کا شدید طلب گار ہے بلکہ چین کے خلاف لڑائی کی حکمت عملی میں اس کا کلید کردار بھی ہے۔
اگر ویکسین کے حوالے سے بات کی جائے تو پورے مغرب کا عمومی رویہ یہی ہے۔ پوری دنیا میں ٹیکنالوجی شیئر کر کے ویکسین کی پیداوار کو بڑھانے کی بجائے سپلائی کی ذخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے اور اپنی دویو ہیکل دوا ساز اجارہ داریوں کے پیٹنٹس کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔
G7 ممالک کی جانب سے غریب ممالک کو 1 ارب ویکسینیں دینے کے فیصلے کی بہت زیادہ تشہیر کی جا رہی تھی۔ لیکن یہ درکار کل ویکسینوں سے 10 فیصد کم ہے۔ دوسری طرف اس وقت چین دنیا کا سب سے بڑا ویکسین پیداکار بن چکا ہے اور جلد ہی وہ غریب ممالک کے لئے G7 کی اعلان کردہ ویکسین سے زیادہ امدادی ویکسین کا اعلان کر دے گا۔
ویکسین کی مثال مکمل طور پر مغرب کی معاشی بیوقوفیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کے پیٹنٹس کی حفاظت ایک گزرے دور کی معاشی پالیسی ہے یعنی نام نہاد نیو لبرل ”واشنگٹن اتفاق“ جس کے مطابق ہر فیصلہ منڈی کرے گی۔
یہ پالیسی امریکہ کی بے مثال قوت کا اظہار تھی۔ واشنگٹن کو پتہ تھا کہ منڈی پر ہر فیصلہ چھوڑدینا ان کے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ منڈیوں میں ان کی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ آج وقت بدل چکا ہے، اور چین پیداوار پر بے پناہ سبسڈی خرچنے کو تیار ہے تاکہ سفارتی اہداف حاصل کئے جا سکیں جیسے وہ G7 سے زیادہ ویکسین عطیہ کر کے کر رہا ہے۔
لیکن G7 کا 1 ارب ویکیسینیں عطیہ کرنے کے اعلان میں اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا ہے۔
متحارب مفادات کا حامل اتحاد
G7 میں روس اور چین کے حوالے سے سرکاری موقف میں اتفاق موجود نہیں ہے۔ فرانس اور جرمنی، روس کے حوالے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ فرانس کو موقع نظر آ رہا ہے کہ روس کے ساتھ یاری لگا کر زیادہ آزاد سفارت کاری کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف جرمن کمپنیاں روس میں بے تحاشہ پیسہ بنا رہی ہیں اس لئے جرمن حکومت ماسکو کے خلاف امریکی جارحیت کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق:
”فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے زور دیا کہ یورپ کے لئے ’چین کے حوالے سے ہماری حکمت عملی میں آزادی‘ ہونی چاہیئے۔ جرمن سربراہ مملکت اینجلا مرکل اور کچھ حد تک بورس جانسن کے بھی یہی جذبات ہوں گے۔ ایک اتحادی ملک کے تنگ آئے ہوئے ایک سرکاری اہلکار کا برطانوی وزیر اعظم کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’وہ چین کے ساتھ علیحدہ معاہدے کیلئے کوشاں ہے‘۔“
اسی قسم کا عدم اتحاد بائیڈن کے دوبارہ زندہ کردہ ایک اور سامراجی پراجیکٹ میں بھی موجود ہے۔ ’کواڈ (Quad)‘ نامی عسکری اتحاد میں امریکہ، انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں اور اس کا دیو ہیکل عسکری ورزشوں کے ذریعے چین کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کرنے کے علاوہ اور کوئی استعمال نہیں۔
مگر حالیہ اجلاس کے باوجود دی اکانومسٹ کے مطابق: ”کواڈ ممبران کے آپس میں دفاعی تعاون کی حدود ہیں۔ نہ صرف ہندوستان رسمی اتحادوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتا اور جنوبی چینی سمندر میں ’جہاز رانی کی آزادی‘جیسے معاہدوں میں ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہا ہے بلکہ آسٹریلیا اور جاپان بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں“۔
ٹیکس معاہدہ
بہت زیادہ چرچا میں رہنے والا عالمی کارپوریٹ ٹیکس معاہدہ بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔
اس پلان سے صاف ظاہر ہے کہ ایمازون جیسی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں درحقیقت کم ٹیکس ادا کریں گی۔ لیکن اس معاہدے سے لندن سے منسلک آئل آف مین، جرسی اور کیمن جزائز، اور یورپ میں لائچت تین ستائن جیسے آف شور ٹیکس ہیونز مبراء ہوں گے۔
لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ G7 اجلاس میں اس معاملے پر عدم اتفاق اس وقت منظر عام پر آیا جب برطانوی چانسلر رشی سوناک نے لندن شہر کو اس سے مبراء کرانے کی کوشش کی۔
یہ لندن کے لئے ایک مسابقت حاصل کرنے کی کوشش تھی کیونکہ بریگزٹ کے بعد کئی فنانس آپریشن یورپی یونین میں ایمسٹر ڈیم اور دیگر جگہوں پر منتقل ہو چکے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں G7 ممالک پوری دنیا کی قیمت پر سب کے سامنے کھلم کھلا مراعات کے لئے لڑائیاں کر رہے تھے۔
اسی لئے یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے جیرمی شیپیرو نے رپورٹ کیا کہ ”واشنگٹن میں اس حوالے سے بہت زیادہ شکوک و شبہات ہیں کہ ایک عدم اتحاد کا شکار مفاد پرست یورپ چین کے خلاف امریکی کوششوں کے لئے کچھ زیادہ حمایت کر پائے گا“۔
تجارتی جنگ
ان حالات میں G7 کی میٹنگ کرانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل ہی نہیں کر سکتا۔ سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہے اور امریکی سامراج اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ چین کو قابو کرنے کے لئے ایک حقیقی متحد فرنٹ بنایا ہی نہیں جا سکتا۔
جب سال 1973ء میں G7 تشکیل دیا گیا تھا تو اس وقت مجموعی طور پر یہ ممالک عالمی GDP (کل مجموعی پیداوار) کا 80 فیصد کنٹرول کرتے تھے۔ آج ان کا حصہ 40 فیصد ہے۔
مغربی سامراج کے انحطاط کے ساتھ تحفظاتی پالیسیاں لاگو کی جا رہی ہیں جن سے عالمی معیشت مزید بحران کا شکار ہو گی اور چین کے ابھار کو روکنے کا مقصد بھی پورا نہیں ہو گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی مرکزی پالیسی کو ہی دیکھ لیں۔۔چین کے ساتھ تجارتی جنگ۔۔جسے بائیڈن آگے بڑھا رہا ہے۔
جنوری 2017ء میں ٹرمپ کی حلف برداری کے برعکس نومبر 2020ء میں امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 70 فیصد بڑھ چکا تھا۔ چین نے کسی بھی بڑی معیشت سے بہتر کورونا وباء کے مسائل پر قابو پا لیا ہے اور نتیجتاً اس وقت تجارتی جنگ کے باوجود اس کی برآمدات بڑھ رہی ہیں۔
دی اکانومسٹ کے مطابق:
”8 جون کو چین میں یورپی یونین چیمبر آف کامرس نے کاروباری اعتماد کے حوالے سے ایک سروے کیا جس میں تقریباً 600 کمپنیوں نے حصہ لیا۔ انہوں نے چین کے حوالے سے بڑھتے اعتماد کا اظہار کیا جہاں معاشی نمو توقعات کے برعکس تیزی سے بحال ہوئی ہے۔۔91 فیصد کمپنیوں کا کہنا تھا کہ کسی اور جگہ جانے کی بجائے وہ چین میں اپنے سرمایہ کاری جاری رکھیں گے۔ ایک چوتھائی مینوفیکچررز اپنی سپلائی چینز اور زیادہ چین میں لا رہے ہیں جو باہر لے جانے والوں سے پانچ گنا زیادہ ہے“ (دی اکانومسٹ، 12/06/21)۔
دوسرے الفاظ میں حساس ٹیکنالوجی پر امریکی برآمداتی پابندیوں کا الٹا اثر پڑ رہا ہے۔ چین سے اپنی تمام پیداوار نکالنے پر مجبور کرنے کے برعکس، تاکہ امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی جاری رہے، یورپی سرمایہ دار اپنی پیداوار امریکہ سے نکال رہے ہیں تاکہ چینی منڈی تک رسائی جاری رہے۔
زائد پیداوار اور قرضہ
ان وجوہات کی بنیاد پر G7 اجلاس میں امریکی سامراج کی ری لانچنگ کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ چین امریکہ اور G7 کی جگہ لے سکتا ہے۔ چین کے پاس طاقت ور اتحادیوں کا فقدان ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ چینی طاقت کا دارومدار چینی سرمایہ داری کی مسلسل نمو پر ہے۔
لیکن کسی اور سرمایہ داری کی طرح چینی سرمایہ داری پر بھی منڈی کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جس کا مطلب بحرانات ہیں۔ چینی معیشت دھڑا دھڑ زائد پیداوار کر کے قرضوں کے ڈھیر اکٹھے کرتی جا رہی ہے۔
اس زائد پیداوار کے بحران سے بچنے کے لئے چین کو مسلسل برآمدات اور اپنے سامراجی حلقہ اثر کو بڑھانا ہے۔ ”بیلٹ اینڈ روڈ“ پراجیکٹ کے پیچھے یہی بنیادی وجوہات ہیں۔
پچھلے بارہ ماہ میں سرمایہ داری کا عالمی بحران بہت زیادہ گھمبیر ہو چکا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں تمام ترقی یافتہ ممالک کاعمومی ریاستی قرضہ GDP کا 30 فیصد تھا۔ سال 2000ء تک یہ 70 فیصد ہو چکا تھا۔
سال 2008ء میں پھٹنے والے عالمی معاشی بحران میں یہ دوسری عالمی جنگ کے وقت قرضوں کے مساوی 90 فیصد ہو گیا۔ پچھلے ایک سال میں اب یہ 120 فیصد تک جا پہنچا ہے۔
قرضوں میں یہ دھماکہ خیز اضافہ سرمایہ داری کے طویل معیاد بحران کی غمازی کرتا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ نظام کے پاس وقت ختم ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے چینی اشیاء کے لئے منڈی سکڑ رہی ہے کیونکہ یہ قرضہ سود سمیت واپس بھی کرنا ہے اور اس لئے اخراجات میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
اس لئے جہاں ایک طرف امریکی سامراج چین کو روکنے کے لئے بہت کمزور ہو چکا ہے تو دوسری طرف عالمی سرمایہ داری اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ چین کے ابھار کو لامتناہی سپورٹ نہیں کر سکتی۔
بند گلی میں قید سرمایہ داری
اس وقت سرمایہ داری کے سامنے دو طاقتوں کا ڈیڈ لاک ہے۔۔ایک سیارے کی سب سے بڑی سامراجی قوت ہے اور دوسری ایک نئی ابھرتی قوت ہے۔۔ جو ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلا دور تجارتی اور پراکسی جنگوں کا ہے جو پہلے سے بحران زدہ نظام کو اور زیادہ برباد کرے گا۔ یہ سماجی انتشار اور ناگزیر طور پر بڑھتی طبقاتی جدوجہد کا دور ہو گا۔
G7 ایک اور ایسا سربراہی اجلاس تھا جس میں میٹھے الفاظ اور ہاتھ ملانے کے پیچھے شدید تضادات اور بانچھ پن چھپا ہوا تھا۔ ایک نئے لبرل نظم کے بعد اور ایک عالمی وباء کی تباہ کاریوں میں یہی کچھ ہو سکتا تھا، یہ بند گلی میں پھنسی سرمایہ داری کی حقیقی تصویر ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ سرمایہ داری اب تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بن جائے۔ اور یہ فریضہ محنت کش طبقہ ہی سرانجام دے سکتا ہے۔