غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ابھی تک 65 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں، اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں، جبکہ غزہ کے علاقے سے مارے جانے والے میزائلوں کے نتیجے میں 6 اسرائیلی لقمہ اجل بنے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا نے ایک دفعہ پھر اسرائیل کی بمباری کو حماس کی جانب سے مارے جانے والے میزائلوں کے خلاف جائز کارروائی کے طور پر پیش کیا ہے۔ البتہ، ہمیشہ کی طرح، انہوں نے اسرائیل اور فلسطین میں اس بحران کی شدت کی اصل وجوہات کے حوالے سے مکمل یک طرفہ مؤقف اپنایا ہوا ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگر ہم جیرڈ کشنر، جو سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اس کا مشیرِ اعلیٰ رہا ہے، کی باتوں پر یقین کرتے تو ہمیں لگتا کہ اسرائیل اور فلسطین میں ہونے والے حالیہ واقعات سرے سے ہو ہی نہیں رہے۔ ہمیشہ کی طرح بے بنیاد پُر اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کشنر نے پچھلے مہینے وال اسٹریٹ جریدے میں لکھا، ”ہم عرب اسرائیل تنازعے کو اختتامی مراحل میں داخل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔“
جبکہ ابھی ہم ایک دفعہ پھر اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطینی آبادی پر تشدد کی شدت دیکھ رہے ہیں۔ یہ امریکی سامراجیت کی بھرپور امداد کے ساتھ سامراجی ”امن“ مسلط کرنے کی کوششوں کا زہریلا نتیجہ ہے، جس کی بنیاد فلسطینی آبادی کی اکثریت کے حقوق دبانے پر کھڑی ہے۔ ٹرمپ اس پالیسی پر سختی سے عمل پیرا رہا تھا، جس کے دورِ صدارت میں امریکی ریاست نے یروشلم کو اسرائیل کی غیر منقسم دار الحکومت تسلیم کیا؛ نیتن یاہو نے آئینی طور پر اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دیا؛ اسرائیل نے گولان ہائیٹس کے علاقے پر قبضہ جما لیا، اور آخر میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے بیچ نام نہاد ”معاہدہ ابراہیم“ بھی طے پایا۔
در حقیقت اس معاہدے کا مقصد فلسطینی نوجوانوں اور غزہ، مغربی کنارہ (ویسٹ بینک)، اسرائیل اور لاکھوں کی تعداد میں موجود فلسطینی مہاجرین کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دینا تھا کہ؛ ”تم تنہا ہو۔ تمہارے حقوق کبھی بھی تسلیم نہیں کیے جائیں گے، اور تمہارے پاس صرف ایک رستہ بچا ہے؛ سر تسلیمِ خم کرنے کا رستہ۔“
نیتن یاہو نے امریکی سامراجیت کی طرف سے غیر مشروط حمایت کا بخوبی فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی ریاست کی جانب سے زمینوں پر قبضے کے نہ رکنے والے سلسلے کو مزید تیز کر دیا۔ اس نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے گنجان آباد فلسطینی علاقوں میں دائیں بازو کے نسل پرست اور قوم پرست یہودی آباد کاروں کی تحریک کے مطالبات منظور کرانے کی حمایت کی۔
دوہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں اور مشرقی یروشلم میں موجود آبادی سمیت اسرائیل میں موجود فلسطینیوں کے خلاف بھی منظم تعصب اپنایا گیا۔ یہاں اسرائیلی ریاست در اصل ایک قبضہ مافیا کا قردار ادار کر رہی ہے، جس نے سڑکوں، پانی، مواصلات کے ذرائع، بجلی اور تمام قسم کی اشیاء کو، جن میں حالیہ عرصے کے اندر کرونا ویکسین بھی شامل ہو چکی ہے، اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے۔
فلسطینی آبادی کے بنیادی حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کے کچلے جانے کے خلاف ہونے والی کسی بھی مزاحمت کو دبانے کے لیے بنائے گئے جارحانہ قوانین و ضوابط کا سہارا لے کر گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فلسطینی آبادی کو دبایا جا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران، بے دخلی، مسماری، زمینی قبضوں اور روزمرہ کی بنیاد پر آباد کاروں اور انتہائی دائیں بازو کے صیہونیوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کے خلاف جدوجہد کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملی ہے۔
پچھلے سال غزہ کے اندر ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے بے مثال مزاحمت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اسرائیلی گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جبر کے ذریعے اس تحریک کو نہیں روکا جا سکتا، بلکہ جبر الٹا اس تحریک کو مزید پر عزم اور طاقتور کرتا ہے۔
جبر میں اضافہ
نیتن یاہو نے ایک دفعہ پھر موقعہ کا فائدہ اٹھا کر تنازعہ میں شدت پیدا کر دی، تاکہ اس اندرونی مخالفت کو قابو میں کر سکے جو اس کے اقتدار کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اس کی یہ چال کامیاب ہو گی یا پہلے سے بھی زیادہ سیاسی و ادارہ جاتی بحران کا باعث بنے گی، جو کسی نہ کسی موقع پر آ کر اسرائیلی ریاست کے بیچ و بیچ پھٹ پڑے گا، اور آخر الذکر صورت ہی زیادہ متوقع ہے۔
جو بائیڈن اور امریکی ریاست کی گہری خاموشی امریکی سامراجیت کے مؤقف کا کھلے عام اظہار ہے۔ نئی امریکی حکومت اگر ٹرمپ کی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے اسرائیل اور رجعتی عرب بادشاہتوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہے، جو پہلے ہی ایران کے ساتھ امریکی ریاست کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی حالیہ کوشش سے چوکنے ہو گئے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح، حالیہ جنگ میں بھی سب سے پہلے سچ کا گلا گھونٹا گیا۔ جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے حالیہ جارحیت کا الزام حماس کے اوپر لگایا گیا، جس کی مدد سے ابھی کے لیے نیتن یاہو کو سیاسی حمایت مل سکتی ہے، مگر اس سے حقیقت کو زیادہ عرصے تک چھپایا نہیں جا سکے گا۔
کئی ہفتوں سے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کے کچلے جانے کا ایک شدید سلسلہ جاری ہے۔ مشرقی یروشلم سے فلسطینی رہائشیوں کو نکال کر ان کی جگہ یہودی آباد کاروں کو لانے کی کوشش میں، اسرائیلی فوج اور پولیس نے شیخ جراح کے علاقے میں متعدد فلسطینی گھرانوں کو بے دخل کرنے میں یہودی آباد کاروں کی مدد کی۔
اس علاقے میں فلسطینی رہائشیوں کے داخلے پر پابندی لگائی گئی، جبکہ مسلح آباد کاروں کو آنے جانے کی کھلی چھوٹ تھی۔ فلسطینیوں کا احتجاج، جو آغاز میں پُر امن تھا، کو اسرائیلی ریاست نے شدید جبر کے ذریعے دبا دیا۔ نہتے مظاہرین اور موقع پر موجود دیگر کو بچوں سمیت گرفتار کیا گیا۔ مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ ایک طرف فلسطینیوں پر شدید جبر جاری رہا، جبکہ دوسری جانب آباد کاروں نے بھی پولیس کا خوف کیے بغیر ان پر آنسو گیس چلائے۔
اسرائیلی پولیس نے فلسطینیوں پر مشرقی یروشلم میں واقع بابِ دمشق، جہاں فلسطینی شہری خصوصاً رمضان کے مہینے میں اکٹھے ہوتے ہیں، کے سامنے جمع ہونے پر بھی پابندی لگا دی، جو مزید اشتعال انگیزی کا سبب بنا۔ اس فیصلے کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔ فلسطینیوں نے اس کا مطلب وہی لیا جو در حقیقت تھا؛ یعنی شہر میں ان سے ایک اہم مقام چھیننے کی ایک اور کوشش۔ اس کے بعد پُر امن انداز میں شروع ہونے والے احتجاجوں پر اسرائیلی ریاست نے پھر سے ناجائز جبر جاری رکھا۔
زخموں پر نمک پاشی
پچھلے ہفتے اسرائیلی فاشسٹوں اور نسل پرستوں کی تنظیم لیہاوا نے قدیم شہر اور مشرقی یروشلم میں مارچ کیا جو یقینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ ہجوم نے اسرائیلی جھنڈے لہرا کر ”مرگ بر عرب!“ جیسے نعرے لگائے۔ ان میں سے بعض کھلے عام عربوں کی مار پیٹ کرنے کی باتیں کر رہے تھے، یا پھر اگر عرب نہ ملیں تو اسرائیلی بائیں بازو کے کارکنان کی، اور وہ ادر گردموجود لوگوں سے مسلسل پوچھ رہے تھے کہ کیا تم بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہو؟ ایک رپورٹ کے مطابق، احتجاج سے پہلے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگ سوشل میڈیا پر ”عربوں کو آج ہی جلا ڈالنے“ اور ہتھیار کے استعمال کی باتیں کر رہے تھے۔
فاشسٹ پارٹی ’اوتزما یہودت‘ (یہودی قوت) کے قائد ایتمار بن جبیر نے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دفتر کو فلسطینی علاقے شیخ جراح کے اندر منتقل کر دیا۔
یہ پارٹی فاشسٹ ’کاخ‘ پارٹی کا تسلسل ہے، جو عربوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے باعث 1994ء میں کالعدم قرار دی گئی تھی۔ بن جبیر نے کئی دفعہ واضح انداز میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے شہری حقوق اور ان کے ووٹ ڈالنے یا اسرائیلی پارلیمان کا حصّہ بننے کے حق کی مخالفت کرتا ہے۔ یروشلم کا نائب ناظم عریح کنگ ایک فلسطینی کارکن کو یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا کہ؛ ’یہ افسوسناک ہے کہ گولی تیرے سر میں لگنے کی بجائے تیرے پیر میں لگی۔‘
حالیہ پولیس اور فوج کے اقدامات درحقیقت اسرائیلی ریاست فلسطین دشمن پالیسیوں کا ہی تسلسل تھے۔ اسرائیلی انتظامیہ نے حرم شریف اور مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر حالات کو مزید بگاڑ دیا، جو اسلامی مقدس مقامات میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسجد کے اندر آنسو گیس پھینک کر نماز کے لیے آئے ہوئے نہتے فلسطینیوں پر حملہ کیا گیا۔ جواباً وہ بھاری ہتھیار اور حفاظتی سامان سے لیس سپاہیوں کا مقابلہ محض پتھروں کے ذریعے کر تے رہے۔
مسجدِ اقصیٰ کا علاقہ یروشلم میں ہمیشہ سے اسرائیلی اور فلسطینی تنازعہ کا مرکز رہا ہے، اور اسرائیلی انتظامیہ اس سے بخوبی واقف تھی کہ وہ کیا کر رہے ہیں جب انہوں نے بغیر کسی جائز وجہ کے اپنے دستوں کو رمضان کے مہینے میں یہاں گھسنے کا حکم دیا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حماس اس کے خلاف قدم اٹھائے گی، بالخصوص مذہبی وجوہات کی بنا پر۔
حماس نے اسرائیلی فورسز کو پیر کے دن (10 مئی) شام چھے بجے تک حرم شریف خالی کرانے کا الٹی میٹم جاری کیا۔ جب مقررہ وقت گزر گیا تو انہوں نے جنوبی اسرائیل اور یروشلم کی جانب میزائل فائر کیے۔ جس کا جواب اسرائیلی فوج نے غزہ کے اوپر ہوائی بمباری کے ذریعے دیا۔
مسجدِ اقصیٰ کے واقعے اور حماس کی جوابی کارروائی سے پہلے ہی، عوام پر یہ بات واضح ہو رہی تھی، حتیٰ کہ اسرائیلی عوام پر بھی، کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا اور ان کے احتجاجوں کو پولیس کے شدید جبر کے ذریعے دبانا شعوری طور پر اشتعال انگیزی کا عمل تھا۔
غزہ۔۔ایک جہنم
اموات کی شرح دیکھ کر دونوں اطراف کی عسکری قوت کے عدم توازن کا اچھی طرح سے پتہ چلتا ہے۔ یہ مضمون لکھتے ہوئے، حماس کے میزائلوں سے چھے اسرائیلی شہری مارے جا چکے ہیں۔ اس دوران، غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 65 فلسطینی بشمول 16 بچے مارے گئے۔ مرنے والے اسرائیلیوں میں سے دو افراد ’لد‘ کے شہر سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی فلسطینی تھے، جن کے لیے بلدیہ بنکر نہیں بناتی۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف دہشت گردوں اور حماس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ، اگر ان کے ارادوں کو صحیح مان لیا جائے پھر بھی، ایسا کرنا بالکل نا ممکن ہوگا۔ غزہ 360 مربع کلومیٹر پر مبنی ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں 20 لاکھ لوگ آباد ہیں۔ یہاں کے شہری پناہ لینے کے لیے کہیں نہیں بھاگ سکتے۔ اسرائیلی شہریوں کے پاس پناہ لینے کے لیے بنکر موجود ہیں، اور اسرائیل میں تعمیر کی گئی جدید رہائشی عمارتوں پر میزائل بھی اثر نہیں کرتے، جبکہ دوسری جانب غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے پاس اس قسم کے کوئی حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، جس کی ایک وجہ اسرائیل کی جانب سے یہاں پر مسلط کی جانے والی معاشی ناکہ بندی ہے، جس میں تعمیراتی سامان پر پابندی بھی شامل ہے۔ اسرائیل پر فائر ہونے والے زیادہ تر میزائلوں کو ہوائی دفاعی ٹیکنالوجی (آئرن ڈوم) کے ذریعے تباہ کر دیا جاتا ہے، جبکہ غزہ کے لوگوں کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں۔
یہاں کی آبادی ’معمول‘ کے دنوں میں بھی انتہائی شدید اذیتوں کا شکار رہتی ہے؛ معاشی پابندیوں اور گنجان آباد علاقہ ہونے کی وجہ سے غزہ کی معاشی ترقی ممکن نہیں ہو پاتی۔ نتیجتاً بے روزگاری کی شرح 50 فیصد ہے۔ معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے یہاں علاج کی سہولیات اور خوراک جیسی انتہائی ضروری اشیاء کی قلت ہے۔
پتھر بمقابلہ رائفل
امریکی ریاست اور یورپی یونین کے سیاستدانوں نے حالیہ واقعات کا جواب ”دونوں اطراف کے تشدد“ کی مذمت کر کے دیا۔ یہ سراسر منافقت ہے۔ یہ تنازعہ مکمل طور پر غیر مساوی ہے۔ ایک جانب اسرائیل ہے، جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے طاقتور عسکری قوت اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک ہے۔ دوسری جانب مظلوم عوام ہیں، جو قبضے کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، جن کے پاس ریاست اور فوج نامی کوئی چیز نہیں، اور جن کے گھروں کو یا چھینا جا رہا ہے یا ان کے اوپر بمباری کی جا رہی ہے۔
اگرچہ حماس کے میزائل حملوں سے اسرائیلی شہریوں کو تکلیف پہنچی ہے، مگر یہ میزائل زیادہ تر انتہائی سادہ ٹیکنالوجی سے تیار شدہ ہیں، جو اپنے طور پر بنائے گئے ہیں اور جن سے پہنچنے والا نقصان انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ حماس کی جانب سے اس کا استعمال زیادہ تر پراپیگنڈے کی خاطر ہوتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، فائر کیے جانے والے میزائلوں کے 90 فیصد کو دفاعی ٹیکنالوجی نے تباہ کر دیا تھا۔
حماس کی جانب سے میزائل حملوں کا مقصد اسرائیل کو کوئی نقصان پہنچانا نہیں ہے، اور نہ ہی یہ اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑنے کی غرض سے فائر کیے گئے۔ نیتن یاہو کی طرح، حماس بھی اپنی کھوئی ساکھ بحال کرانے کی کوشش کر رہی ہے، جو خود کو فلسطین کی قومی جدوجہد کے سپہ سالار کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ در حقیقت، حماس کے ساتھ ساتھ عباس اور فتح جیسی بد عنوان قیادت کی مقبولیت کو بھی فلسطینی نوجوانوں کی خود رو تحریکوں نے مسلسل کم کیا ہے؛ فلسطین اور اسرائیل دونوں کے اندر عام نوجوانوں کے ذریعے ہی عوامی مزاحمت اور جدوجہد ممکن ہے۔
قبضے کے خلاف عوامی احتجاج اور ہڑتالیں منظم کرو!
حالیہ واقعات کے پیشِ نظر بہت سے افراد، بشمول کئی فلسطینی، ”عالمی برادری“ سے درخواست کر رہے ہیں۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی این جی اوز، امریکی ریاست اور یورپی یونین اسرائیل کو روکنے کے لیے مداخلت کریں گے۔ مگر یہ امید ایک سراب کے علاوہ کچھ نہیں۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں مغربی سامراجیت کا سب سے با اعتماد شراکت دار ہے۔ امریکی ریاست اور یورپی یونین نے پہلے ہی یہ ظاہر کر دیا ہے کہ وہ کسی طرح سے بھی فلسطینی آزادی کی حمایت کر کے اسرائیل کے ساتھ اہم اتحاد کو قربان نہیں کریں گے۔ اقوامِ متحدہ مختلف سامراجی قوتوں کے بیچ سمجھوتہ کرنے والے ادارے کے علاوہ کچھ نہیں، جو دونوں اطراف کو بے اثر تنبیہات جاری کرنے اور نرم الفاظ میں گزارشات کرنے کے سوا کچھ کرنے کا اہل نہیں ہے۔ فلسطینیوں کو اس سے چند کھوکھلی بیان بازیوں اور مگرمچھ کے آنسوؤں کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں رکھنی چاہئیے۔
اس کے علاوہ، نہ تو فلسطینی نیشنل اتھارٹی (پی این اے) اور نہ ہی حماس کے میزائل فلسطینی آزادی کی جدوجہد کو ایک قدم بھی آگے لے جانے کے اہل ہیں۔ اس کے برعکس، حماس کے حملے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے مددگار ثابت ہوئے، جس نے اس بہانے اسرائیلی آبادی کو صیہونی ریاست کے گرد اکٹھا کر کے اپنی بحران زدہ حکومت کو عارضی طور پر مضبوط کیا ہے۔
مزید برآں، یہ حملے شیخ جراح میں فلسطینی زمینوں اور گھروں پر قبضے اور اس سلسلے میں پولیس تشدد سے توجہ ہٹانے کا باعث بنے ہیں۔ اسرائیل اس کا فائدہ اٹھا کر دنیا کے سامنے خود کو بطورِ مظلوم پیش کر رہا ہے۔
یہ جدوجہد کے با اثر طریقہ کار سے بھی توجہ ہٹانے کا باعث بنے ہیں، یعنی عوامی مزاحمت کے وہ طریقے جو مشرقی یروشلم میں فلسطینی نوجوانوں نے استعمال کیے ہیں۔ قبضے کے خلاف لڑنے اور بالآخر اس کا خاتمہ کرنے کا واحد راستہ فلسطینی عوام کو متحرک کرنے کا راستہ ہے۔ یہ فلسطینیوں کے عوامی احتجاج ہی تھے جنہوں نے اسرائیلی پولیس کو بابِ دمشق سے واپس لوٹنے اور فلسطینیوں کو دوبارہ وہاں پر جمع ہونے کی اجازت دینے پر مجبور کیا۔ یہ فلسطینیوں کے عوامی احتجاج ہی تھے جنہوں نے شیخ جراح میں اسرائیلی انتظامیہ کو فلسطینیوں کی بے دخلی ملتوی کرنے پر مجبور کیا۔
فلسطینی علاقوں اور اسرائیل، دونوں کے اندر عوامی احتجاجوں اور ہڑتالوں کو منظم کرنا پڑے گا۔ پی این اے نے ہمیشہ سے اس قسم کی عوامی تحریکوں کو روکنے کی کوشش کی ہے، جس کی یہی وجہ ہے کہ یہ نام نہاد فلسطینی ’قیادت‘ کی اہمیت کو کم کرتے ہیں۔ اسی لیے عوام کو لازمی طور پر نچلی سطح سے منظم ہونا پڑے گا۔
اسرائیلی نوجوانوں اور محنت کش طبقے کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطینیوں پر قبضہ اور جبر ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ قبضے اسرائیلی حکمران طبقے کی جانب سے خطے کے محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑوانے کا ایک ہتھیار ہے۔ اسرائیلی سرمایہ دار صیہونیت اور فلسطینیوں سے درپیش خطرات کو یہودی محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے بیچ موجود تفریق کو دھندلا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے مفادات ایک ہیں، جو سراسر جھوٹ ہے۔
فریڈرک اینگلز نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ”جو لوگ دوسرے لوگوں پر جبر کرتے ہیں، خود کو آزاد نہیں کر سکتے۔ وہ طاقت جو دوسروں پر جبر کرنے کیلئے استعمال ہو وہ ہمیشہ اپنے بھی خلاف ہی جاتی ہے۔“
ہم نے جولائی 2020ء میں دیکھا ہے کہ کس طرح اسرائیلی یہودی اور فلسطینی نوجوان اور محنت کش مل کر سڑکوں کے اوپر نیتن یاہو کی کرپشن اور معاشی بحران کے نتیجے میں موجود بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف نکل آئے تھے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے اس کے جواب میں وہی پولیس اور یاسام کے خصوصی دستے تعینات کیے تھے جن کو ابھی شیخ جراح اور مسجدِ اقصیٰ میں فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایک جانب، فلسطینی نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کو سمجھ رہی ہے کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ عوامی جدوجہد اور عوامی مزاحمت ہی ہے۔ وہ بڑھتے ہوئے عزم اور سر کشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کرپشن میں لتھڑے اور ان بے کار و بے اثر طریقوں کا پردہ بھی چاک کر رہے ہیں جو حماس اور فتح جیسی نام نہاد فلسطینی قیادتوں نے اپنائے ہوئے ہیں۔
فلسطینی نوجوانوں اور محنت کشوں کی عوامی جدوجہد میں انقلابی تبدیلی کا یہ عمل اب غزہ اور مغربی کنارے کے باہر بھی وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ یہ عمل گرین لائن (1948ء میں مقرر کی گئی اسرائیلی سرحدیں) کے اندر عوامی احتجاجوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے، جہاں مشرقی یروشلم کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی اور غزہ کے اوپر بمباری کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ابھی الجلیل، عکّا، العفولۃ، لد اور دیگر علاقوں سے جھڑپوں اور احتجاجوں کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
جب تک فلسطینی اکثریت کے اوپر جبر جاری رہے گا، اسرائیلی سرمایہ دار اسرائیلی نوجوانوں اور محنت کشوں کو اسرائیلی ریاست کے جرائم کی حمایت کرنے پر مجبور کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے۔ وہ اس جبر کے ذریعے محنت کش طبقے کو قومی و مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرتے رہیں گے، اور یوں اپنے اقتدار اور مراعات کو محفوظ رکھیں گے۔ اسرائیلی حکمران طبقہ کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتا کہ استحصال زدہ عوام طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کریں۔
یہودی اور فلسطینی محنت کش عوام اور نوجوانوں کے پاس آگے بڑھنے کا واحد راستہ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ اسرائیلی ریاست کا تختہ الٹ کر قبضے کے جاری سلسلے کا خاتمہ کرنا، اور مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام کرنا ہے۔
ایسا صرف پرولتاریہ کی بین الاقوامیت اور طبقاتی جڑت کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ مگر طبقاتی جڑت قائم کرنے کے لیے، اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کو فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرنا پڑے گا، اور قبضے کے خلاف جاری ان کی حالیہ جدوجہد کی حمایت کرنی پڑے گی۔
سامراجی نام نہاد ”امن“ کے منصوبوں کے ذریعے کوئی حل ممکن نہیں۔ عالمی سامراجیت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
غزہ میں ہونے والی بمباری اور فلسطینی لوگوں کے جائز حقوق پر حملے کے خلاف عالمی سطح پر تحریک کو منظم کرنا ہوگا!
قبضے کے خلاف لڑائی عوامی احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے منظم لڑو!
پرولتاریہ کی عالمی جڑت اور مشرقِ وسطیٰ کے محنت کش طبقے کو متحد کرنے کی جانب بڑھو!