پچھلے مہینے ہولناک معاشی بحران میں گھری سری لنکن عوام نے دارالحکومت کولمبو میں صدارتی محل پر دھاوا بول دیا جس کے بعد عوامی نفرت کا شکار گوٹا راجاپکشا دُم دبا کر بھاگ گیا اور کچھ ہی دنوں بعد اس نے استعفے کا اعلان کر دیا۔ ان واقعات کے ساتھ ہی حکمران طبقے کے نمائندوں میں خوف و ہراس سے لبریز شدید بحث مباحثہ شروع ہو گیا کیونکہ دنیا میں کسی اور جگہ ایسے واقعات کے رونما ہونے کے امکانات نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
[Source]
راجاپکشا کی فراری کے ایک ہفتے بعد فنانشل ٹائمز میگزین نے لکھا کہ ”معاشی دباؤ سے سیاسی انتشار جنم لیتا ہے۔۔اور آج پوری دنیا معاشی دباو کی لپیٹ میں ہے“۔
بلومبرگ نے خبردار کیا کہ ”اُبھرتی معیشتوں میں یکے بعد دیگرے تاریخی دیوالیے ہونے والے ہیں“۔ 90 کروڑ آبادی اور 19 سے زیادہ ممالک میں قرضے اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ دیوالیہ پن حقیقت کا روپ دھارنے جا رہی ہے جن میں ایل سالواڈور، گھانا، تیونس، مصر، پاکستان، ارجنٹینا اور یوکرین شامل ہیں۔
دیو ہیکل قرضے، بے قابو افراطِ زر، بڑھتی شرح سود اور سپلائی چینز میں بے پناہ افراتفری نے مل کر سری لنکا کی ڈرامائی معاشی تباہی اور سماجی دھماکے کو جنم دیا۔ اب یہ تمام عوامل عالمی معیشت کا عمومی خاصہ بن چکے ہیں اور خاص طور پر ان ممالک کی حالت بہت خراب ہے جنہیں بورژوا پریس میں ’اُبھرتی معیشتیں“ یعنی غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک کہا جاتا ہے۔
عالمی سیاست ایک دیو ہیکل بارودی ڈھیر میں تبدیل ہو رہی ہے۔ آنے والے دور میں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا انقلابات اور ردِ انقلابات کی لپیٹ میں ہو گی۔
ہر طرف ہیجان
2.2 کروڑ کی آبادی والے ملک سری لنکا میں انقلابی ہیجان نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی ہوئی ہے۔ ہر جگہ محنت کشوں اور نوجوانوں میں اس قدر حوصلہ بڑھ چکا ہے کہ حکمران طبقات کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اس وقت جنوبی ایشیاء میں تقریباً ہر ملک انہی ناقابلِ حل تضادات کا شکار ہے۔
اس خطے میں سری لنکا پہلا ملک تھا جس نے اپریل میں آئی ایم ایف سے مدد مانگی لیکن کچھ ہی عرصے بعد پاکستانی حکمران بھی اسی در پر بھیک مانگنے پہنچ گئے۔ اور اب بنگلہ دیش بھی ہاتھوں میں کٹورا لئے کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش کو اُبھرتی معیشتوں کے لئے ”مشعلِ راہ“ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے جس کی بنیاد اس کی دیو ہیکل استحصال میں جکڑی ٹیکسٹائل صنعت ہے۔
لیکن تباہ کن سیلابوں اور یوکرین میں جنگ نے ملک کی لاغر معیشت کو ننگا کر دیا ہے جس کا سارا انحصار ایندھن کی درآمدات پر ہے۔ اس ایندھن کو اب حکومت بچانے کی کوششوں میں لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے۔ لیکن محنت کش طبقے پر بحران کا پورا بوجھ ڈالنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود غیر ملکی ذخائر میں 6 ارب ڈالر کمی ہو چکی ہے۔
خطے کی سب سے بڑی معیشت انڈیا کے غیر ملکی ذخائر پچھلے 20 مہینوں کی کم ترین سطح پر آ چکے ہیں جبکہ انڈین روپیہ پچھلے سال کے موازنے میں ڈالر کے مقابلے میں اب تک اپنی قدر 6 فیصد کھو چکا ہے۔
لیکن اس وقت عالمی سرمائے کے حکمت کار سب سے زیادہ پاکستان کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔ اس وقت غیر ملکی ذخائر محض 7.8 ارب ڈالر یعنی صرف چھ ہفتوں کی درآمدات کے لئے رہ گئے ہیں۔ روپیہ اپنی تاریخ کی کم ترین سطح پر جھول رہا ہے اور آئی ایم ایف کی سفاک شرائط کے نتیجے میں پیٹرول کی قیمتوں کے اضافے سے پورے ملک میں شدید غم و غصہ اور نفرت پھیلی ہوئی ہے جو پہلے ہی اپریل میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اُبل رہی تھی۔
14-16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ، جو کہ کظے میں سب سے زیادہ ہے، نے گرمی کی لہر کو جہنم کی لہر بنا دیا ہے۔ اس ہولناک صورتحال کا اظہار دی گارڈین اخبار کو تربت میں ایک فرد نے انٹرویو دیتے ہوئے ان الفاظ میں کیا کہ ”ہم جہنم میں رہ رہے ہیں“۔
پوری دنیا میں بسنے والے کروڑوں اربوں لوگوں کے دل کی آواز یہی الفاظ ہیں کہ زندگی ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔ بورژوا مبصرین کو محسوس ہو رہا ہے کہ انقلاب اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
لیکن 24 کروڑ عوام کے ملک پاکستان میں انقلاب پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا۔ ایک ماہر سیاسیات نے فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان کے اندرونی انہدام کے عالمی اثرات سری لنکا سے کہیں زیادہ دوررس ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ کئی بیرونِ ملک (طاقتیں) پاکستان میں ایک معاشی انہدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی سے بچنا چاہیں گے“۔
یہ بڑا محتاط بیان ہے! امریکی ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کی منتظم سمانتھا پاور نے کھل کر کہا ہے کہ ”تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سری لنکا کی حکومت وہ آخری حکومت نہیں ہوگی جس کا دھڑن تختہ ہوا“۔
اگرچہ سرمائے کے حکمت کار جنوبی ایشیاء میں انقلابات اور الٹتی حکومتوں کے پھیلاؤ پر کانپ رہے ہیں لیکن یہ دنیا کا ایک ہی خطہ نہیں ہے جہاں حالات تیزی سے دھماکہ خیز بن رہے ہیں۔ لاطینی امریکہ میں ایل سالواڈور دیوالیہ پن کی جانب گامزن ہے۔
ارجنٹینا نے ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے مدد مانگی ہے۔ اس ملک میں ایک مہینے میں تیسرا وزیرِ خزانہ آ چکا ہے جبکہ پیش گوئی ہے کہ اس سال کے آخر تک افراطِ زر 90 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ زندگی کتنی تباہ حال ہو چکی ہے اس کا اندازہ رائٹرز کا بوینوس ائریز کے ایک ”کارتونیروس“ (غریب افراد جو شہر کے کچروں اور گندگی کے ڈھیروں سے کارڈ بورڈ، پلاسٹک اور گلاس ری سائیکلنگ سنٹرز کے لئے اکٹھا کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں) کا انٹرویو ہے۔
ہواکن راڈری گیز نے گلہ کیا کہ ”ہر روز کم سے کم مال اکٹھا ہو رہا ہے“۔ کیونکہ لوگ پہلے کی طرح خریداری نہیں کر رہے اور نہ ہی ضائع کر رہے ہیں۔ ”لوگوں کے پاس ہمارے جیسا کام کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں، کارتونیروس بڑھتے جا رہے ہیں اور کوڑا کم ہوتا جا رہا ہے“۔
لیکن شاید حالیہ دنوں میں سب سے اہم واقعات پاناما میں رونما ہوئے ہیں۔ اگرچہ روایتی میڈیا اصرار کر رہا ہے کہ یہاں احتجاج نایاب ہیں لیکن بی بی سی کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ملک ”سماجی انہدام کے دہانے پر کھڑا ہے“۔ دنیا میں سب سے زیادہ عدم مساوات کے شکار ممالک میں سے ایک پاناما میں جنوری سے پیٹرول کی قیمت تقریباً 50 فیصد بڑھ چکی ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح 10 فیصد اور افراطِ زر بے قابو ہے۔
جولائی تک عوام کی برداشت جواب دے چکی تھی۔ ایکواڈور احتجاجوں کی تقلید میں (احتجاجیوں نے جون میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے مطالبے پر سڑکیں بلاک کر دی تھیں)، انہوں نے اہم پین امریکی شاہراہ ٹرک کھڑے کر کے اور ٹائروں کو آگ لگا کر بند کر دی۔ ناکہ بندی کے ساتھ احتجاجوں میں سے ایک احتجاج میں موجود ایک پلے کارڈ پر عوام کی اکثریت کے حالات درج تھے۔۔”پیٹرول یا کھانا؟“۔۔آج سری لنکا میں ہر مرد اور عورت یہی سوال کر رہا ہے۔
حکمران طبقے کا غرور
2020ء میں کورونا وباء اور بعد میں یوکرین جنگ سے پہلے 2019ء میں کئی ممالک میں عوامی غم و غصہ انقلاب بن کر پھٹا۔ ان میں سے ایک ملک لبنان تھا۔
2019ء میں بدنامِ زمانہ کرپٹ ہریری حکومت ادائیگیاں کرنے میں ناکام ہو گئی جس کے بعد ہولناک جبری سماجی کٹوتیاں عوام پر مسلط کر دی گئیں تاکہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل ہو سکیں۔ اس سے پہلے ہی انقلابی دھماکے کے لیے حالات پک رہے تھے۔
آج شدید بھوک اور افلاس میں بیکریوں کے باہر کلومیٹروں طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں اور بھوک کے ماروں کی جانب سے تشدد کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ یوکرین جنگ سے پہلے ملک اپنی 60 فیصد گندم یوکرین سے درآمد کرتا تھا۔ مارچ 2020ء میں ملک دیوالیہ ہو چکا تھا اور پانچ میں سے چار لبنانی خطِ غربت سے نیچے دب گئے۔ اس وقت عوام تباہ و برباد اور شل ہو چکی ہے۔
صورتحال اور بھی زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ اگست 2020ء میں بیروت بندرگاہ پر ایک دیو ہیکل دھماکہ ہوا جس سے گندم ذخیرہ کرنے کی اسطاعت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس تباہی نے بیروت شہر میں وسیع پیمانے پر بربادی پھیلائی اور لبنان کی 85 فیصد گندم ذخیرہ کرنے والے گودام برباد ہو گئے۔ کرپٹ حکام کی سفاک نااہلی کے نتیجے میں رونما ہونے والے اس سانحے کے بعد گردش کرنے والے نعرے لبنانی سماج کے دل کی آواز ہیں۔۔”آج ہم سوگ میں ہیں، کل ہم صفائی کریں گے، پرسوں ہم پھانسی گھاٹ بنائیں گے“۔
اگرچہ اس وقت 10 ارب آبادی کی خوراک پوری کرنے کے لئے پوری دنیا میں اشیائے خوردونوش کی پیداوار ہوتی ہے لیکن افراطِ زر اور سپلا ئی چینز کی افراتفری نے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں فلک شگاف کر دی ہیں اور بنیادی اشیاء کروڑوں عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ اس وقت مصر اپنی تاریخ کے خوفناک ترین اشیائے خوردونوش کے بحران کا شکار ہے۔ مصر دنیا کا سب زیادہ اناج درآمد کرنے والا ملک ہے اور اس کا سارا انحصار روس اور یوکرین پر ہے۔ اس بنیادی اناج کی 80 فیصد درآمدگی ان دو ممالک سے ہوتی ہے۔
مصری صدر عبدل الفتح السیسی کے تبصرے پوری دنیا کے حکمران طبقات کی بیوقوفی اور سفاک بے حسی کا اظہار ہیں۔ عوام روٹی نہیں خرید سکتی؟ اچھا، عظیم مفکر السیسی کے مطابق رسول محمد کی طرح بھوک کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے؟ امر ادیب (کل دولت 42 ملین ڈالر) مصر کا سب سے مشہور ٹی وی شو میزبان ہے اور اس نے مشورہ دیا ہے کہ عوام کو خالص اشیاء کی خریداری ختم کر دینی چاہیے۔
اس دوران پاکستان میں ایک وفاقی وزیر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ ایک دن میں دو پیالی سے زیادہ چائے نہ استعمال کریں تو عوام اشیائے خوردونوش کی درآمدات کم کر کے پیسے بچا سکتی ہے! یوگینڈا میں صدر موساوینی نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ اگر روٹی نہیں ہے تو کاساوا (آلو شلجم جیسی سبزی) کھا لو۔
اس میں برطانیہ کے بدنامِ زمانہ مسخرے وزیرِ اعظم بورس جانسن کا تبصرہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس سے سال کے آغاز میں پوچھا گیا کہ روٹی کی کیا قیمت ہے تو اس جاہل کا جواب تھا کہ اسے کچھ پتا نہیں لیکن وہ یہ ضرور بتا سکتا ہے کہ ”اس وقت ایک شمپین کی بوتل کتنے کی ہے“۔
یہ حیران کن غرور شاید اس گلے سڑے بوسیدہ حکمران طبقے کی غلاظت کا سب سے چونکا دینے والا اظہار ہے۔ تاریخ میں اس کے مساوی مثال اٹھارویں صدی میں فرانسیسی انسیان رجیم (سال 1789ء کے انقلاب سے پہلے فرانس کا سیاسی اور سماجی نظام) کی نرم و نازک اشرافیہ اور میری انتونی کے تاریخی الفاظ ہیں جس نے عوام کو روٹی میسر نہ ہونے کی شکایت پر کہا تھا کہ ”وہ کیک کھا لیں“۔ اس وقت حکمران طبقہ مکمل طور پر سماج سے کٹا ہوا ہے۔ انسیان رجیم کی طرح اس کے بھی تاریخی جنازے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
جس طرح سے حکمران طبقہ سماج سے بے نیاز ہے اسی طرح عوام اپنے اوپر مسلط سیاسی نظام سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ تیونس میں پچھلے مہینے ایک نئے آئین کے لئے ریفرنڈم منعقد ہوا جس کا مقصد صدر قیس سعید کی شخصی حکمرانی کو مزید مستحکم کرنا تھا۔۔ریفرنڈم میں شرکت 27.5 فیصد رہی۔ یہ بورژوا سیاست سے مکمل بیگانگی کا اظہار اور اس حقیقت کی غمازی ہے کہ زیادہ تر تیونسی ”نظام کی بہتری“ کی خواہش سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ رائٹرز کے ایک مضمون کے مطابق ”جب کئی تیونسی افراد سے سیاسی انتشار سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بڑھتے معاشی بحران کو ملک کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا“۔
اگرچہ لبرل مبصرین سعید پر ”عرب بہار کے تابوت میں کیل ٹھوکنے“ کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن تیونسی محنت کش ایک مرتبہ پھر متحرک ہو رہے ہیں۔ اس سال جون میں جنرل یونین آف تیونس لیبر (UGTT) پر ممبران نے قومی اداروں میں ایک روزہ ہڑتال کے لیے شدید دباؤ ڈالا۔ ریفرنڈم کے برعکس UGTT کی 96.2 فیصد ممبرشپ نے اس عوامی ہڑتال میں حصہ لیا۔
انقلاب کے آثار
مندرجہ بالا مثالیں۔۔اس طرح کی مثالوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔۔یہ بتاتی ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں سیاسی صورتحال معیاری طور پر تبدیل ہو رہی ہے۔ 1908ء میں لینن نے عالمی سیاست میں ”بارودی مواد“ کے ارتکاز کی بات کی تھی۔ آج یہی حالات ہیں۔
اُس وقت بھی ایران سے ترکی، انڈیا سے چین تک عوامی غیض وغضب بڑھ رہا تھا۔ دس سالوں بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ روسی عوام نے سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔
آج ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی تباہی و بربادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا انقلابی دور میں داخل ہو رہی ہے۔ ایک صدی پہلے لینن نے انقلابات کی شرائط میں سے ایک بیان کی تھی کہ ”نچلے طبقات پرانے انداز میں زندہ نہیں رہ سکتے“ اور ”بالائی طبقات پرانے انداز میں حکومت نہیں کر سکتے“۔
آج یہ کتنا درست ہے۔ ایک طرف عوام کربِ عظیم سے گزر رہی ہے اور دوسری طرف یکے بعد دیگرے ممالک میں حکمران طبقات بحرانوں، تقسیم در تقسیم اور سکینڈلوں کا شکار ہیں۔ پوری دنیا میں ”بارودی مواد“ کی کمی نہیں ہے۔ ہر روز اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف ایک موضوعی عنصر کی کمی ہے یعنی ایک ایسی انقلابی تنظیم کی جو عوام کی توانائیوں کو منظم کرتے ہوئے سرمایہ داری اور اس کے جوہر استحصال اور قلت کے تاریخی خاتمے کے لئے مشعلِ راہ بنے اور بالآخر ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب بنائے۔