ایران کی ملک گیر احتجاجی تحریک چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے، مگر ریاستی جبر کا نتیجہ محض عوام کو مزید مشتعل کرنے اور نئی پرتوں کے متحرک ہونے کی صورت نکل رہا ہے۔ سڑکوں پر موجود نوجوانوں کے ساتھ اب ہزاروں کی تعداد میں سکول کے طلبہ اور بازار کے تاجروں سمیت محنت کشوں کی اہم پرتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ تیل اور پیٹرو کیمیکل کے شعبے، جو ایرانی معیشت کا کلیدی حصہ ہے، کے اندر ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
[Source]
جب یکم اکتوبر بروزِ ہفتہ ریاست نے سڑکوں اور یونیورسٹیوں میں موجود مظاہرین کے اوپر پرتشدد حملوں کا نئے سرے سے آغاز کیا تو اُبھرتی ہوئی تحریک کو آغاز میں ہی کچلے جانے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ مگر اب ان کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
گرفتار ہونے والے طلبہ کی تعداد شاید ہزاروں میں ہے، اور درجنوں یونیورسٹیاں بند کروائی گئی ہیں، مگر ملک گیر طلبہ ہڑتال کی کال دینے والی 100 سے زائد یونیورسٹیاں ثابت قدم رہی ہیں۔
اس دوران، مظاہرین کے ساتھ ملک گیر سطح پر پھیلی ہوئی سکول طالبات کی طاقتور اور متاثر کن تحریک بھی شامل ہو چکی ہے۔ سکولوں کے دوبارہ کھلنے کے بعد روزمرہ کی بنیاد پر بے شمار ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں نوجوان لڑکیوں کے گروہوں کو اپنے سکولوں کے اندر احتجاج کرتے دیکھا گیا، جو اپنے سکارف اتار کر ہوا میں لہرا رہی ہیں اور ”زن، زندگی، آزادی“ اور ”مرگ بر آمر“ جیسے نعرے لگا رہی ہیں۔
بندر عباس شہر کے ایک سکول میں طالبات نے اپنے نقاب اتارے اور نعرے لگاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئیں، جن کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ان کا پیچھا کیا۔ ایک اور ویڈیو میں سکول کی جانب سے مدعو کیے گئے بسیج پیرا ملٹری تنظیم کے ایک مقرر کے خلاف سکول طالبات کو اپنے سکارف ہوا میں لہرا کر ”بسیج دفع ہو جاؤ!“ کا نعرہ بلند کرتے دیکھا گیا۔ بعض جگہوں پر طلبہ کی گرفتاری کی کوشش کے بعد ان کے والدین اور پولیس کے بیچ جھڑپیں ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اسی دوران تہران کے اہم ترین بازار، جن میں بزرگ بازار، لالہ زار، سپہ سالار باغ، تجریش بازار اور شیراز بازار شامل ہیں، بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کے ذریعے تحریک میں شامل ہوئے ہیں، جیسا کہ صوبہ کردستان اور دیگر کرد قصبوں میں کئی ہفتوں سے تاجر کرتے آئے ہیں۔
ریاستی جبر تحریک کو کچلنے کی بجائے اس کے اندر وسیع تر پرتوں کی شمولیت کا باعث بن رہا ہے۔ 8 اکتوبر کی شام، جبر کے ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود، ملک بھر میں اب تک کے سب سے بڑے احتجاج دیکھنے کو ملے، جو اب محنت کشوں کے غریب ترین علاقوں میں بھی شروع ہو چکے ہیں۔ یہ علاقے پہلے غیر متحرک تھے۔ تہران میں محنت کشوں کے علاقے نازی آباد کے اندر ویڈیوز میں نسبتاً بڑی ریلیوں کو دیکھا گیا، جہاں سیکورٹی کی بھاری نفری کے سامنے مزاحمت کی گئی اور حکومت مخالف نعرہ بازی کی گئی۔ پورے تہران سمیت دیگر کئی شہروں کے حوالے سے اسی طرح کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
نازی آباد کے علاقے کی ایک قابلِ ذکر ویڈیو میں احتجاج منتشر کرنے کے لیے آئی ہوئی پولیس کو اپنے ہیلمیٹ اتار کر مظاہرین کے ساتھ مارچ میں شامل ہوتے دیکھا گیا، جن میں سے ایک نے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے مارچ کرنے والے ایک شخص کی پیٹھ پر تھپکی دی۔ یہ جزوی منظر اس بات کا اظہار ہے کہ تحریک کے نہ تھمنے والے دباؤ نے ریاست کی جابرانہ قوتوں کا مورال کس حد تک متاثر کیا ہے۔ ان قوتوں کے عام سپاہیوں کی اکثریت کا تعلق انہی غریب قدامت پرستانہ پرتوں سے ہے جو پچھلے کچھ سالوں کے دوران لڑاکا حوصلوں اور حکومت مخالف احتجاجوں کے ساتھ سیاسی میدان میں داخل ہو چکے ہیں۔
بعض جگہوں پر مظاہرین کو ان قوتوں کی مخفی ہمدردی کا احساس ہوا ہے اور ان سے یکجہتی کی اپیل کی ہے۔ اگرچہ ابھی مسلح افواج کے ٹوٹنے کا عمل شروع نہیں ہوا، مگر یہ حالات مستقبل میں اس کی شروعات کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ البتہ اس کے لیے، پہلے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ایک ایسی طاقتور تحریک تعمیر کرنے کی ہے جو حکومت کو بھرپور انداز میں للکار سکے۔
فرقہ وارانہ تقسیم کی کوششیں
ریاست سخت جبر کا استعمال کرتی رہی ہے، مگر یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نے اموات کی تعداد نسبتاً کم رکھنے کی عمومی کوشش کی ہے۔ اس نے موجودہ سے بڑی تحریک کو مشتعل کرنے کے خوف، اور شاید اپنی ہی قوتوں کے اوپر عدم اعتماد کے باعث مظاہرین کے خلاف اپنی جابرانہ مشینری کو ابھی پوری قوت کے ساتھ متحرک نہیں کیا۔ البتہ بلوچ اور کرد علاقوں، جو ایران کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ہیں، کے اندر اس قسم کی کوئی احتیاط نہیں برتی گئی۔
صوبہ بلوچستان کے اندر ریاست نے پچھلے دو ہفتوں کے دوران 110 سے زائد افراد کو قتل کیا ہے، جن میں سے 97 کو 30 ستمبر کے دن مقامی پولیس چیف کے 15 سالہ لڑکی کے ریپ کے خلاف احتجاج کے دوران قتل کیا گیا۔ اس حادثے کو ’سیاہ جمعہ‘ (بلیک فرائیڈے) کا نام دیا گیا ہے۔ ریاست نے جھوٹ بول کر اس قتلِ عام کو ریاستی افواج اور سعودی حمایت یافتہ سنّی باغیوں کے بیچ جھڑپ کے طور پر پیش کیا ہے، بلوچستان میں سعودی عرب کئی سالوں سے فرقہ پرست سنی باغیوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔
اس دوران، جیسا کہ ہم نے پہلے ایک مضمون میں لکھا تھا، کرد علاقوں کے اندر خانہ جنگی سے مماثلت رکھنے والے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں۔ موجودہ تحریک کی سب سے لڑاکا اور انقلابی پرتیں اب تک انہی علاقوں میں نظر آئی ہیں، جہاں منظم انداز میں بھرپور شمولیت ہوئی ہے، جبکہ احتجاجوں کے شروع والے دنوں میں عام ہڑتال کی کال بھی یہیں دی گئی تھی۔ ہڑتال کا آغاز دکانداروں اور تاجروں نے کیا تھا مگر اطلاعات کے مطابق کرد اکثریتی شہروں کے اندر یہ محنت کش طبقے تک بھی پھیل چکی ہے۔ کئی مواقع پر سڑکوں کے اوپر لڑاکا احتجاجوں کے بعد ریاستی افواج کو کئی قصبوں اور بڑے شہروں کے بڑے علاقوں سے نکال باہر کیا گیا ہے۔
ریاست نے پچھلے ہفتے میں اپنے جبر کو اس حد تک بڑھا دیا کہ مظاہرین کے اوپر توپ خانوں اور ڈرون کے ذریعے حملے کیے گئے۔ سنندج اور سقز شہر کی ویڈیوز میں دھماکوں اور مشین گنوں کی مسلسل آواز سنی جا سکتی ہے، جہاں مجموعی اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاست نے شمالی عراق کے اوپر دھاوا بولنے کی تیاری کے بارے میں خبردار کیا ہے تاکہ وہاں موجود بائیں بازو کی کرد تنظیموں کو نشانہ بنا سکے۔
ریاستی پراپیگنڈے میں یہ جھوٹا دعویٰ بارہا دہرایا جا رہا ہے کہ موجودہ تحریک مغربی سامراج نے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے منظم کی ہے جو علیحدگی پسند قومی اقلیتوں کی حمایت کر کے ایران کو توڑنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ یہ سچ ہے کہ امریکی سامراج، اور اس کے سعودی اور اسرائیلی اتحادیوں نے حکومت تبدیل کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی ہے اور قومی اقلیتوں کے بیچ رجعتی گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں، مگر انہیں موجودہ تحریک اپنے قابو کرنے میں کامیابی نہیں ملی ہے۔
تحریک میں کرد اور بلوچ علاقوں سمیت قومی اقلیتوں کے دیگر کسی علاقے کے اندر علیحدگی پسند مطالبات اور نعرے بھی کہیں نظر نہیں آئے ہیں۔ در حقیقت یہ تحریک کو قومی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ریاست کا اپنا ہی حربہ ہے، جو امریکی سامراج کی پالیسی سے مختلف نہیں۔
بہرحال، ان کوششوں کو ابھی تک کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس کے برعکس، تحریک نے ایران کے ان نسلی گروہوں کے بیچ بھرپور انداز میں یکجہتی کے جذبات پھیلائے ہیں جن کو ریاست نے اپنا آپ برقرار رکھنے کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف دہائیوں سے منقسم رکھا تھا۔
قومی اقلیتوں پر ہونے والے جبر کے خاتمے کے لیے سب سے پہلی اور زیادہ ضرورت مشترکہ دشمن یعنی ایرانی حکمران طبقے کے خلاف ایرانی عوام کی متحدہ جدوجہد کی ہے۔ اور اس جدوجہد کے اندر منظم قوت کے طور پر محنت کش طبقے کی شمولیت فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔
متحرک ہوتے محنت کش
اس حوالے سے ایک اہم قدم 10 اکتوبر کی صبح لیا گیا جب بوشھر پیٹرو کیمیکل، دماوند پیٹرو کیمیکل اور ہنگام پیٹرو کیمیکل کے تقریباً 4 ہزار محنت کشوں نے کام چھوڑ کر تحریک کی حمایت میں غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا آغاز کیا۔ مزید برآں، صدرا پیٹرو کیمیکل کمپنی کو مالکان نے ہڑتال شروع ہونے کے خوف سے پہلے ہی بند کر دیا۔
یہ کنٹریکٹ کمپنیاں عسلویہ پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کے تحت کام کرتی ہیں، جو عالمی سطح پر اپنی نوعیت کے سب سے بڑے کمپلیکسز میں سے ایک ہے۔ ہڑتالی محنت کشوں نے کام چھوڑنے کے بعد پتھروں کی رکاوٹیں کھڑی کر کے اور تارکول کے بیرل جلا کر کمپلیکس کو جانے والی شاہراہ بلاک کر دی، اور ”مرگ بر خمینی“ اور ”یہ احتجاج نہیں ہے، یہ انقلاب ہے!“ جیسے نعرے لگائے۔ اس دن بعد میں محنت کشوں نے مقامی پرائیویٹ سیکورٹی کی عمارتوں کو بھی آگ لگا دی۔
ہڑتال کی ویڈیو بنانے والے ایک محنت کش کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا تھا ”ایران زندہ باد! لُر، ترک، کرد، عرب اور بختیاری زندہ باد!“ نسلی بنیادوں سے بالاتر ہو کر طبقاتی یکجہتی کا یہ اظہار ریاست کے ان الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ ہڑتالی محنت کش علیحدگی پسند قومی اقلیتی تحریکوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ محنت کش طبقے کے جبلّی بین الاقوامیت پسند کردار، سماج کی تمام پرتوں کو انقلابی جدوجہد میں متحد کرنے والی اس کی صلاحیت، اور اس قسم کی جدوجہد کے ذریعے قومی جبر کے خاتمے کے طریقہ کار کا اظہار ہے۔
قریب واقع دیگر کئی کمپنیوں کے محنت کش بھی بعد میں ہڑتال اور ریلی کے اندر شامل ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق مقامی سیکورٹی فورسز کی تعداد بڑھا دی گئی ہے اور احتجاجی محنت کشوں تک جانے والی سڑکوں کو بلاک کر دیا گیا ہے تاکہ ان کے ساتھ دیگر گروہوں کا شامل ہونا روکا جا سکے۔
مگر عسلویہ کی ہڑتال شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی کانگال میں واقع ایک اور بڑے پیٹرو کیمیکل کمپلیکس ساؤتھ پارز کے فیز 12 میں محنت کشوں نے ہڑتال شروع کی، اور آبادان آئل ریفائنری میں بھی ایسا ہوا جو تین ماہ پر مشتمل اس عام ہڑتال کا تاریخی مرکز رہا ہے جس نے 1979ء کے انقلاب میں شاہ محمد رضا پہلوی کی نفرت انگیز بادشاہت کا تختہ الٹا تھا۔ 10 اکتوبر کی ہڑتال میں آبادان ریفائنری کا فیز 2 مکمل طور پر بند تھا، اور محنت کشوں کے ساتھ مال برداری والی متعدد کمپنیوں کے محنت کش بھی شامل ہو گئے۔
ان ہڑتالوں، جن میں غیر مستقل روزگار والے محنت کشوں کی اکثریت ہے، سے ایک ہفتہ قبل آئل کنٹریکٹ ورکرز کے احتجاجوں کی انتظامی کونسل (سی او پی او سی ڈبلیو) نے دو مرتبہ وارننگ جاری کی تھی، یہ وہ تنظیم ہے جس نے پچھلے سالوں کے دوران کئی دفعہ ملک گیر ہڑتالوں کی قیادت کی ہے۔ اسی طرح کی وارننگ مستقل کنٹریکٹ محنت کشوں، یعنی ایران کی تیل اور پیٹرو کیمیکل والی صنعت کے انتہائی کلیدی حصوں میں کام کرنے والے محنت کشوں، کے ایک نا معلوم گروہ نے بھی جاری کی ہے۔ 11 اکتوبر کی ہڑتال شروع ہونے کے بعد، سی او پی او سی ڈبلیو نے اپنے ٹیلیگرام پیج پر مندرجہ ذیل اعلامیہ شائع کیا، جو دورِ حاضر کے ایک انقلابی شاعر کی نظم سے شروع ہوتا ہے:
”ہم ہڑتال کریں گے
کباڑ میں بیچنے کے قابل بسوں کے خلاف
جانور جیسی زندگی کے خلاف
کھٹمل سے بھرے خواب گاہوں کے خلاف
مضرِ صحت خوراک کے خلاف
کام کے بھاری بوجھ کے خلاف
زبردستی اوور ٹائم کے خلاف
غیر مناسب اوقات کے خلاف
اُجرتوں کی عدم ادائیگی کے خلاف
سوشل انشورنس کی عدم ادائیگی کے خلاف
بس سے زیادہ جھنجھوڑنے والے کام کے بوجھ کے خلاف
منافعوں کے لیے ہونے والے استحصال کے خلاف
کل ہم ہڑتال کریں گے ان سب کے خلاف
”آئل کنٹریکٹ ورکرز کے احتجاجوں کی انتظامی کونسل، تیل کے شعبے میں کام کرنے والے تمام محنت کشوں۔۔۔چاہے وہ پراجیکٹ کے ملازمین ہوں، مستقل کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ہوں، ٹھیکے پر کام کرنے والے محنت کش ہوں، تیل کی ٹرانسپورٹیشن اور آپریشن کے محنت کش ہوں، یا پورے ملک کی ڈرلنگ، ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپنیوں کے ساتھی ہوں۔۔۔سے عوامی احتجاجوں کی یکجہتی کے سلسلے میں تیل کے شعبے کی ملک گیر ہڑتال میں شامل ہونے کی اپیل کرتی ہے۔ اس یکجہتی والی ہڑتال میں انتظامی کونسل حالیہ طور پر گرفتار شدہ افراد اور تمام سیاسی اسیران کی فوری اور غیر مشروط رہائی، سڑکوں پر سے سیکورٹی فورسز کے ہٹائے جانے، تمام جبر کے خاتمے، اور مھسا امینی سمیت اس عرصے کے دوران جابرانہ ریاستی افواج کے ہاتھوں مارے جانے والے تمام افراد کے قتل میں ملوث افسران اور مجرموں کے اوپر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتی ہے۔“
پیٹرو کیمیکل شعبے میں ہڑتال شروع ہونے کے فوری بعد ہفت تپہ شوگر کین کمپنی ورکرز یونین، جو آج کل انتہائی مشہور ہو چکی ہے، اور جو اپنے لڑاکا ہڑتالوں اور صنعتوں کے قومیانے اور مزدوروں کو اختیارات دینے جیسے مطالبات پر ثابت قدم رہی ہے، نے ایک شاندار اعلامیہ جاری کیا جس میں ملک گیر سیاسی عام ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔ ہم ان کے اعلامیے کا مکمل ترجمہ یہاں پیش کر رہے ہیں:
کامریڈز! مظلوم لوگو!
دخترانِ آفتاب (کرد خواتین) و انقلاب کا احتجاج اور بغاوت چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔
لڑاکا لڑکیوں اور لڑکوں نے ”زن، زندگی، آزادی“ کا نعرہ لگا کر سڑکوں اور چوراہوں کو جھنجھوڑ دیا ہے تاکہ اپنی عظیم الشان جدوجہد کے ذریعے آزادی اور برابری حاصل کر سکیں: جبر اور استحصال سے آزادی، تعصب اور عدم مساوات سے آزادی۔
جبر، گھٹن اور تعصب سے نجات پانے کے لیے سڑکوں پر موجود ہمارے بچوں کو یکجہتی اور حمایت کی ضرورت ہے۔
ایسے حالات میں، جب سڑکیں ہمارے بچوں کے خون سے رنگ دی گئی ہیں، تیل اور پیٹرو کیمیکل کے مختلف شعبوں میں محنت کشوں کی ہڑتال کے آغاز نے اس جدوجہد کے جسم میں امید کی نئی روح پھونک دی ہے۔
انصاف کی خاطر اور مزدوروں اور مظلوموں کے بچوں کی خاطر، یہ توقع رکھنا جائز ہے کہ باپ اور مائیں، استحصال زدہ بہنیں اور بھائی، ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں، اور پیداوار اور دولت کا پہیہ روک دیں۔
آج (10 اکتوبر) بوشھر پیٹرو کیمیکل، آبادان ریفائنری اور عسلویہ میں کام کرنے والے پراجیکٹ ورکرز کی پُر جوش شرکت نے اس اتحاد اور یکجہتی کا پہلا شعلہ بھڑکا دیا ہے۔
سڑکوں پر موجود اپنے بچوں، بھائیوں اور بہنوں کی حمایت میں محنت کشوں کی یکجہتی اس تحریک کی فوری ضرورت ہے۔
ہفت تپہ شوگر کین ورکرز یونین اپنی جانب سے عوامی احتجاجوں کی حمایت میں تیل اور پیٹرو کیمیکل کے مختلف شعبوں کے محنت کشوں کی ہڑتال پر انہیں مبارکباد پیش کرتی ہے۔
ہمارے بچے، بہن اور بھائی توقع کر رہے ہیں کہ خدمات اور پیداوار کے دیگر شعبے ملک گیر ہڑتال میں شامل ہوں گے، کیونکہ جبر اور استحصال سے آزادی، تعصب اور عدم مساوات سے آزادی، محض اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے ممکن ہے۔
مخلص اور با خبر محنت کشو اور مظلومو!
سڑکوں پر ہونے والی لڑکیوں کی بغاوت کو حمایت کی ضرورت ہے۔ اس وطن کی لڑکیوں نے بہت بڑی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے، ایسی تبدیلی جو دیگر علاقوں کے اندر بھی خواتین کو آزادی دلائے گی۔
اس عظیم اور قابلِ تعریف بغاوت کو اس وطن میں ہر جگہ پر محنت کشوں کی ہڑتال کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔
تعصب اور جبر سے نجات پانے کی خاطر، غربت اور ذلت سے نجات پانے کی خاطر، روٹی اور آزادی کے حصول کی خاطر، آئیے دخترانِ آفتاب و انقلاب کو تنہا نہ چھوڑیں۔
دخترانِ آفتاب و انقلاب!
فتح کے دن، پوری دنیا آپ کی تعظیم کرے گی۔۔۔آپ نے سب کو کھڑا ہونے اور مزاحمت کرنے کا درس دیا ہے۔
آزادی کی خاطر محنت کشوں کا اتحاد اور طبقاتی یکجہتی زندہ باد!
خدمات اور پیداوار کے شعبوں میں ملک گیر ہڑتال کی جانب بڑھو!“
محنت کش طبقے کی منظم انداز میں تحریک کے اندر شمولیت، خصوصاً تیل کی صنعت میں، ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ انقلابی نوجوانوں نے متاثر کن حد تک بہادری اور قربانی کا جذبہ دکھایا ہے۔ مگر نفرت انگیز حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے۔ پیداوار کے اندر محنت کشوں کا کردار انہیں پورا ملک مفلوج کرنے اور ریاستی جبر کا راستہ روکنے کی صلاحیت سے نوازتا ہے۔
اس سے اہم بات یہ کہ ایک سیاسی عام ہڑتال ہونے کی صورت ناگزیر طور پر اقتدار کا سوال سامنے آتا ہے: سماج کو چلانے والے کون ہیں؟ محض محنت کشوں اور غریبوں کے استحصال کی بنیاد پر خود کو برقرار رکھنے والا حکمران طبقہ؟ یا وہ جن کی محنت سے تمام دولت پیدا ہوتی ہے؟
حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو 1979ء کی عام ہڑتال اچھی طرح یاد ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ سے بڑی صنعتوں کے اندر مزدور سرگرمیوں کو بھرپور طریقے سے دباتے چلے آئے ہیں، خصوصاً تیل کا شعبہ جو اب تک ایرانی معیشت کا اہم ترین شعبہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق محنت کش کارکنان کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور سیکورٹی فورسز کو اہم صنعتی علاقوں میں ہڑتال کے اوپر کریک ڈاؤن کرنے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ مگر اس قسم کا جبر، جیسا کہ ہم نے حالیہ طور پر دیکھا ہے، کا نتیجہ الٹ نکل سکتا ہے جس کے باعث جدوجہد میں محنت کش طبقے کی مزید پرتوں کی شمولیت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
نوجوانوں کا کردار
سڑکوں پر، سکولوں اور کالجوں میں موجود نوجوان پہلے ہی ملک گیر عام ہڑتال کے خیال کی جانب مائل ہو چکے ہیں۔ اب ان کے سامنے محنت کشوں کی حمایت کرتے ہوئے نومولود ہڑتالی تحریک پھیلانے میں تمام ذرائع سے ان کی مدد کرنے کا فریضہ ہے۔
کئی علاقوں میں پہلے ہی ایسا ہو رہا ہے۔ 10 اکتوبر کی رات اصفہان شہر کے بعض علاقوں میں ایک نا معلوم گروہ نے عام ہڑتال کے لیے محنت کشوں کو مدعو کرنے والے لیف لیٹ دیواروں پر چسپاں کیے اور گاڑیوں کے اوپر رکھے۔ تہران کی ایک یونیورسٹی کا اعلامیہ بڑی تعداد میں ٹیلیگرام پر شیئر کیا گیا، جس میں ہڑتال کی تاریخی کامیابی کو سراہا گیا تھا اور اسے انقلابی جدوجہد میں قابلِ تائید مثالی حیثیت کا حامل کہا گیا۔
زیادہ سے زیادہ حاصلات ممکن بنانے کے لیے اس مہم کو منظم انداز میں آگے بڑھانا ہوگا۔ انقلابی نوجوانوں کو محنت کشوں کے ساتھ جڑنے اور ہڑتال منظم کرنے میں درپیش تمام عملی و تنظیمی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کرنے کے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ انہیں محنت کشوں کے مطالبات بھی سنتے ہوئے اپنے مطالبات کے ساتھ ضم کرنے ہوں گے۔
بھرپور طریقے سے یہ عمل سر انجام دینے کے لیے ہر سکول، یونیورسٹی، محلے اور کارخانے کی سطح پر جدوجہد کی انقلابی کمیٹیاں قائم کرنی ہوں گی، جو ہڑتال کا پیغام پھیلانے اور تحریک کا اگلا لائحہ عمل ترتیب دینے کی ذمہ دار ہوں۔ یہ کچھ علاقوں میں پہلے ہی ہو رہا ہے۔ کرد اکثریتی شہر مریوان کے اندر انقلابی نوجوانوں کے ایک گروہ نے مندرجہ ذیل اعلامیہ شائع کیا، جو بڑی تعداد میں سوشل میڈیا کے اوپر گردش کر رہا ہے:
”مریوان کے محلّوں کے انقلابی نوجوانوں کی قرارداد
قرارداد نمبر ایک
مریوان کے لڑاکا لوگو!
آپ کی عوامی بغاوت شلیر رسولی (ریپ سے بچنے کی کوشش میں دوسری منزل سے چھلانگ لگا کر مرنے والی ایک عورت) کی المناک موت کے خلاف احتجاج کی شکل میں شروع ہوئی تھی جو حکومت کے ہاتھوں مھسا امینی کے قتل سے شروع ہونے والے ایرانی عوام کے ملک گیر احتجاجوں کے ساتھ جاری رہی۔
آج، مھسا بغاوت شروع ہونے کے 23 دن بعد 100 سے زائد شہر، 50 یونیورسٹیاں، اور درجنوں سکول عوامی احتجاجوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ مختلف شکلوں میں ایرانی عوام کی بغاوت کے ساتھ شمولیت اختیار کر چکے ہیں، اور شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے طلبہ ایک دفعہ پھر آزادی کا گڑھ قائم کر چکے ہیں۔
محلّوں کے نوجوان پہلے دن سے لڑ رہے ہیں۔ کردستان کے عوام نے سڑکوں پر ہونے والے احتجاجوں کے ساتھ عام ہڑتال جوڑنے کا لائحہ عمل اپنایا ہے۔ اس دوران، اسلامی دہشت گردوں نے سیاہ جمعہ پر سیستان اور بلوچستان کے اندر درجنوں افراد کو قتل کیا۔ تیل کے محنت کشوں میں سے بعض نے ہڑتال شروع کی ہے اور ملک بھر کے محنت کشوں نے حکومت کو ہڑتالوں کا دائرہ کار وسیع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ مختصر یہ کہ احتجاجوں کے جاری رہنے کے باعث منظم ہونے کا ضروری موقع بتدریج میسر آیا ہے۔
دوستو! ایران کی سیاسی صورتحال مھسا بغاوت سے پہلے والے حالات کی جانب کبھی نہیں لوٹے گی۔ اولین صفوں میں موجود مشعل بردار خواتین احتجاجوں میں باقی سماج سے آگے چل رہی ہیں۔ گھٹن بھری جابرانہ حکومت کے سالوں بعد خواتین نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا موقع پایا ہے، انہوں نے آزادی کے تازہ جھونکے محسوس کیے ہیں، اور جوش و جذبے کے ساتھ سڑکوں کے اوپر نعرے بلند کررہی ہیں اور ناچ رہی ہیں۔ آج کی خواتین بغاوت سے پہلے والی خواتین نہیں رہیں اور وہ پرانی حالت میں کبھی نہیں لوٹیں گی۔
چنانچہ، ہم، مریوان کے محلّوں کے انقلابی نوجوانوں نے اپنی جدوجہد مزید منظم انداز میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، جیسا کہ تہران اور سنندج کے اندر ہمارے کامریڈز نے کیا ہے۔ اس طریقے سے، ہم مریوان کے محلّوں کے تمام انقلابی نوجوانوں سے تحریک میں شامل ہونے اور احتجاجوں کو جاری رکھنے میں مدد کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
آئیے ہر ممکنہ طریقے اور قدم کے ذریعے احتجاجوں کو جاری رکھیں۔ اپنا تحفظ یقینی بنا کر ہم احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں اور بتدریج زیادہ سنجیدہ جدوجہد کو تیار اور وسیع تر تنظیموں کو تعمیر کر سکتے ہیں۔“
ایک اور نہایت دلچسپ اعلامیہ اصفہان یونیورسٹی کے طلبہ نے جاری کیا:
”قرارداد نمبر ایک: آگے کی جانب ایک اور قدم، عوام کا دیوہیکل اجتماع اور سڑکوں کے اوپر فتح؛ ہمارے انقلاب کے اگلے قدم کیا ہیں؟
یہ مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان دنوں طلبہ کے احتجاج گویا انقلاب کے جسم میں خون بن کر دوڑ رہا ہے، جو انقلاب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور مسلسل حالات کو تبدیل کر رہے ہیں؛ سب سے پہلے، ہمیں ملک بھر میں طلبہ کے احتجاجوں کے جاری رہنے پر زور دینے کی ضرورت ہے!
حکومت کی حالت بہت ہی کمزور ہو چکی ہے۔ آج کے دن اور رات کو تہران، کرج، اراک اور سنندج جیسے شہروں میں حکومت کئی سڑکوں پر اپنا قبضہ کھو گئی اور اسے عارضی طور پر پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
یقینا، نشیب و فراز کے باوجود، یہ فتوحات جلد ہی مختلف مراحل میں داخل ہوں گی، اور جابرانہ قوتوں کی کمزوری اور نا اہلی کے باعث سرزد ہونے والی غلطیوں کے ساتھ، ہم بلاشبہ انقلابیوں اور قاتلانہ حکومت کے بیچ سیاسی قوتوں کا توازن غیر معمولی انداز میں تبدیل کرنے کے اہل ہوں گے۔
اس حوالے سے، دوسرا نکتہ محلے کی سطح پر احتجاجی کونسلوں کی شکل میں عوام کی شہری تنظیموں کا ہے۔ اجتماعی عمل کے لیے سگنل اور ٹیلیگرام جیسے محفوظ نیٹ ورکس پر محفوظ پلیٹ فارم بنا کر، محلّوں کے احتجاجی عوام اور احتجاجی نوجوان خوراک مہیا کر کے، احتجاج کی منصوبہ بندی کر کے، احتجاجوں کی دیگر تمام ضروریات مہیا کر کے اہم انتظامات کر سکتے ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم احتجاجوں کو جاری رکھتے ہوئے سڑکوں کے اوپر اہم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔
تیسری چیز، جو بہت اہم ہے، سماج بھر میں ملک گیر عام ہڑتالوں کو وسیع کرنے کا لازمی عنصر ہے۔ فی الوقت، سڑکوں کے احتجاج بہت بڑے پیمانے پر پھیل چکے ہیں۔ ملک گیر عام ہڑتالوں کے ساتھ سڑکوں پر موجود احتجاجی گروہ خود کو زیادہ حمایت یافتہ محسوس کرتے ہیں۔ جب ہڑتالیں محنت اور نقل و حمل کے صنعتی مراکز تک پہنچ جائیں گی، حکومت کی جابرانہ مشینری حقیقتاً مفلوج ہو کے رہ جائے گی۔ کوئی بھی فوج یا دستہ ان بھاری فوجی اخراجات کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا جو براہِ راست تیل اور پیٹرو کیمیکل کی ملکی صنعتوں کے ذریعے پورے کیے جاتے ہیں۔
آخر میں، اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے:
یونیورسٹی کے اندر اور باہر احتجاجوں کو جاری رکھ کر طلبہ نے ایران کے اندر انسانیت پسند انقلاب کے بارے میں اپنی سنجیدگی اور مضبوط فیصلہ واضح کر دیا ہے۔ ہم فتح حاصل کریں گے اور اسی طرح سے ہم ظلم و جبر کا ہر ذریعہ برباد کریں گے۔“
مندرجہ بالا اعلامیوں میں نوجوانوں، محنت کشوں اور غریبوں کی زبردست تخلیقی صلاحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ خود رو طریقے سے عوام کا منظم ہونا تمام حقیقی انقلابی تحریکوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ہم نے روسی انقلاب میں یہی کچھ سوویتوں کے ابھرنے کی شکل میں دیکھا تھا، اور 1979ء کے ایرانی انقلاب میں مختصر عرصے کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والی کارخانوں اور محلّوں کی سطح پر منظم شوریٰ کمیٹیاں بھی ایسی ہی تھیں۔ نئے سماج کا جنین ہمیشہ پرانے ڈھانچوں میں ہی بنتا ہے۔
مگر اس قسم کی حاصلات کے لیے سب سے پہلے عوام کی تمام پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا، خصوصاً محنت کش طبقے کو۔ یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ جدوجہد کی کمیٹیاں حتی الامکان پھیلی ہوئی ہوں اور مقامی، علاقائی اور ملکی سطح پر اس طرح جڑی ہوئی ہوں کہ تحریک کی منظم آواز بن سکیں۔ اسی طرح سے، ابھی تک موجود قیادت کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔
ایرانی نوجوانوں، اور خصوصاً نوجوان خواتین نے، زبردست انقلابی قوت، ثابت قدمی اور قربانی کے جذبے کا مظاہرہ کیا ہے۔ کسی بیرونی امداد اور تنظیم کے بغیر، اور کم تجربے کے ساتھ انہوں نے موجودہ حکومت کو اس کے سب سے بڑے تاریخی بحران کا شکار کیا ہے۔ آمریت اور جبر کے خاتمے کے لیے جاری ان کی جدوجہد نے ایرانی عوام کی وسیع اکثریت کی خواہشات کو آواز فراہم کی ہے۔
موجودہ حکومت کے پاس انہیں مزید ذلت دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہنر مندوں سے بھرے اس ملک میں، جس کی خاک تلے وسیع پیمانے پر قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، کروڑوں افراد کو شدید بے روزگاری اور غربت برداشت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کی قسمت میں روزگار ہے بھی، ان کی اجرتیں۔۔۔اگر ان کی ادائیگی کی جاتی ہے تو۔۔۔زندگی کی بنیادی ضروریات انتہائی مشکل سے پورا کر پاتی ہیں۔ محنت کشوں کے لیے مستقبل مزید استحصال اور محرومی لے کر آئے گا۔ نوجوانوں کا مستقبل تو وجود ہی نہیں رکھتا۔
اس دوران ملک کو چلانے اور سب کو تقویٰ اور سادگی کی تبلیغ کرنے والے ملاؤں کا واحد کام نہ تھمنے والی دیوانہ وار لوٹ مار، اور محنت کشوں اور غریبوں کی محنت ہڑپنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
یہ محض موجودہ حکومت ہی کا نہیں بلکہ پوری ایرانی سرمایہ داری کے قریب المرگ ہونے کی عکاسی ہے۔ یہ سماج کو آگے کا راستہ فراہم کرنے کے حوالے سے سرمایہ دار طبقے کی مکمل نا اہلی کا اظہار ہے۔ مسلسل گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے علاوہ کوئی اور چیز دینے کی نا اہلی کے باعث وہ خود کو محض انتہائی وحشیانہ جبر، اور سماج کو صنفی، قومی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے ذریعے برقرار رکھ پا رہے ہیں۔
ایرانی عوام کے پاس موجودہ وحشیانہ حالات سے نجات پانے اور حقیقی آزادی کے حصول کا واحد راستہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد ہے۔ انہیں اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے کر ایک ایسے سوشلسٹ سماج کا قیام کرنا ہوگا جو مالکان اور مذہبی پیشواؤں، اور جبر اور تقسیم سے پاک ہو؛ جہاں پر رائج مساوات اور یکجہتی تمام انسانوں کے لیے بہتر زندگی کی بنیاد ڈالے گی۔